محبت کی نہیں تم نے - فاخرہ بتول

عمر سیف

محفلین
” مرد بنتا ہے“

”میم“ سے موت ہے سراسر یہ
جیت لیتا ہے۔۔۔۔ ہار دیتا ہے
”ر“ سے ہے یہ رِیا کا پُتلا بھی
جو بھروسے کو مار دیتا ہے
”د“ سے درد سے ہی عاری ہے
دوسروں کو یہ مار دیتا ہے
کوبرا سانپ منہ سے جنتا ہے
تب کہیں جاکے ”مرد“ بنتا ہے
 

عمر سیف

محفلین
اگر ہم تم سے کہہ دیتے

اگر ہم تم سے کہہ دیتے
کہ ہم نے اپنے ہاتھوں پر
تمھارا نام لکھا ہے
تو تم شاید۔۔۔۔ ہمیں دل پر ہی لکھ لیتے
تبھی تو ہم نے مٹھی بند کر لی اُس گھڑی جاناں!
کہ جس پل تم نظر آئے
بھروسہ تھی ہمیں تم پر
مقدر پر نہیں جاناں۔۔۔۔ مقدر پر نہیں جاناں!
 

عمر سیف

محفلین
اِسے تم خواب مت سمجھو

اگر ہم نے گلابوں سے مہک چُن کر
کوئی لمحہ سجایا ہے
تو اِس پہ حق ہمارا ہے
اِسے تم خواب مت سمجھو
کہ یہ تعبیر ہے جاناں!
 

عمر سیف

محفلین
نہیں کے بعد ۔۔۔۔

نہیں کے بعد بھی کہنے کو سُننے کو،
بہت سے لفظ ہوتے ہیں
مگر ان کو تلاشے گا ہوئی جو باہنر ہوگا
جو لفظوں میں چھپی دھڑکن سے جاناں باخبر ہوگا
نہیں کے بعد بھی اثبات کا امکان ہوتا ہے
مگر کچھ لوگ رستے میںہی ہمت ہار دیتے ہیں
وہ لفظوں میں چھپے معنی، چھپے ارمان کیسے جان سکتے ہیں
کہ اکثر ہم ” نہیں“ میں ”ہاں“ بھی رکھتے ہیں
مگر اِک ضد سی ہم کو ٹوک دیتی ہے
اَنا دیوار بن کر روک دیتی ہے
اور ہم یہ سوچ کر بھی ہار جاتے ہیں
کہ شاید سامنے والا،
ہمارے دل میں جھانکے گا
”نہیں“ میں ”ہاں“ کو بھانپے گا
ہمارا ہاتھ تھامے گا
گلے ہم کو لگائے گا، ہمیں اپنا بنائے گا
ہماری مات کو وہ جیت کر دے گا،
یہ سرگم گیت کر دے گا
مگر ایسا نہیں ہوتا
”نہیں“ کو لے کے کچھ لمحے،
کہو ہوجاتے ہیں جاناں!
وہ جن کو ساتھ چلنا ہو
وہی کھو جاتے ہیں جاناں!
”نہیں“ کے بعد بھی کچھ لفظ ہوتے ہیں
 

عمر سیف

محفلین
محبت مت سمجھ لینا

کسی کے ساتھ چلنے اور دُکھ سُکھ کی شرکت کو
محبت مت سمجھ لینا
محبت کا لبادہ پانیوں کے رنگ جیسا ہے
محبت ساتھ پردوں میں نہاں ہو کر عیاں ہے،
یہ حقیقت ہے
اور اس کی خوشبوؤں کو ہم دھنک میں ڈھونڈ سکتے ہیں
مگر یہ بھی حقیقت ہے
کہ اس کو جس نے پایا ہے
وہ اپنا آپ کھو بیٹھا
یہ مل کر بھی نہیں ملتی
کسی کے ساتھ چلنے اور دُکھ سُکھ کی شرکت کو
محبت مت سمجھ لینا
کہ کس کو چُھو لیا جائے
خُدا وہ ہو نہیں سکتا
محبت ایسا منتر ہے
فنا جو ہو نہیں سکتا
 

عمر سیف

محفلین
اچانک ۔۔۔۔

اچانک چلتے چلتے چونک اُٹھتے ہیں
کوئی آہٹ، ہوا کا چُلبلا جھونکا
دریچے پر دھرے اُس دیپ کی وہ تھرتھراہٹ سی
کبھی تو دل کی دھڑکن کی انوکھی تال بھی جاناں!
ہمیں دھڑکائے دیتی ہے
اچانک چلتے چلتے چونک اُٹھتے ہیں
کہ ہم نے سُن لیا جو کچھ
کسی کے سرد لہجے سے
اب اس سے بڑھ کے کچھ بھی سُن نہ پائیں گے
سماعت تھک کے شاید چُورسی اب ہوگئی جاناں!
ہو کوئی اجنبی کہ جانا پہچانا کوئی لہجہ
خوشی اور غم کی آمیزش
کہ کوئی وصل کا پیغام، ہم کو کچھ نہیں سُننا
سماعت تھک کے شاید
چُور سی اب ہوگئی جاناں!
 

عمر سیف

محفلین
”ہیر“

ٹوٹی ہوئی زنجیر کے ٹکڑوں کو سنبھالو
اِس خواب کی تعبیر کے ٹکڑوں کو سنبھالو
وارث کی کہیں جاگتی اب ہیر نہ ہوگی
اِس لکھی ہوئی ہیر کے ٹکڑوں کو سنبھالو
 

عمر سیف

محفلین
وصل کا خواب دکھائے گا ٹھہر جائے گا
موسمِ ہجر اب آئے گا، ٹھہر جائے گا

باتوں باتوں میں کوئی نام اچانک آ کر
دل میں ہلچل سی مچائے گا، ٹھہر جائے گا

شہرِ انجان میں جانا ہے اگر، یاد رہے
کو بھی اُس سمت کو جائے گا، ٹھہر جائے گا

یہی ہونا ہے بہر طور، سبھی جانتے ہیں
آسماں دھرتی پہ آئے گا، ٹھہر جائے گا

عشق اک درد کی دولت کے سوا کچھ بھی نہیں
دل میں جب اس درد کو پائے گا، ٹھہر جائے گا

ہم نے جب چاند کو دیکھا تھا تو سوچا تھا بتول
کچّے آنگن کو سجائےگا، ٹھہر جائے گا
 

عمر سیف

محفلین
جو خواب حویلی کا ہوا، پھر نہیں آیا
وہ قید ہوا یا کہ رہا، پھر نہیں آیا

اِس سوچ نگر میں اُتر آتا ہے اکثر
تھا چاند، ستارہ کہ دِیا، پھر نہیں آیا

ہم دونوں نے مل کر جو جیا، صدیوں سا لمحہ
جانے کیا لگا اس کو بُرا، پھر نہیں آیا

وہ شخص پُکارو تو چلا آتا ہے اکثر
کس شہر کی جانب وہ گیا، پھر نہیں آیا

اِک لمحہ جو گُم ہوگیا دونوں سے اچانک
دونوں نے بہت یاد کیا، پھر نہیں آیا
 

عمر سیف

محفلین
خوشبو کے ہاتھ پھول کا پیغام رہ گیا
یہ دل کا سلسلہ بھی سرِعام رہ گیا

کہتے ہیں جس نے چاند کو دیکھا تھا پہلی بار
وہ شخص اپنے دل کو تو بس تھام رہ گیا

آنکھوں کو موند لینا تھا ہم کو بھی اُس گھڑی
جب اُس کا گھر سنا ہے کہ دوگام رہ گیا

اے شب! نوید دینی تھی تجھ کو سحر کی اور
کیوں تیرے ہاتھ سے بھی یہی کام رہ گیا

جب وصل کو مٹا دیا تو نے ہوا تو پھر
کیوں ریت پر فراق کا یہ نام رہ گیا

یوں زندگی کا کام اُدھورا رہا بتول
کچھ صبح رہ گیا تو کچھ شام رہ گیا
 

عمر سیف

محفلین
مقروض

سماعت پر کسی کا سرد لہجہ قرض ہے شاید
جبھی تو اب سزا کے طور پر خود کو،
ہوا کے دوش پر رہنے دیا اس نے
ہوا کی چُلبلی لہروں سے،
پتھر چُن لیے اُس نے
اب اپنے زخم گنتی ہیں
سماعت پر دھرا جب قرض اترے گا
یہ اس پل تھم سی جائے گی
 

عمر سیف

محفلین
شاید یہ محبت ہے

مجھے اس شخص سے،
کل تک محبت تھی، حماقت آج لگتی ہے
مجھے اچھا لگا شاید
اور اس سے بڑھ کے کب کچھ تھا؟
مگر میں یہ سمجھ بیٹھی
کہ شاید یہ محبت ہے
اور اب جب مجھ کو سچ مُچ دل کی گہرائی سے
کوئی بھا گیا جاناں!
تو میں اس سوچ میں خاموش بیٹھی ہوں
کہ کچھ کہنا نہیں مجھ کو
میں کیوں دل میں چھپے جذبے عیاں کر دوں
قوی امکان ہے کل یہ بھی پچھتاوا نہ بن جائے
میں اس لمحے سے ڈرتی ہوں
 

عمر سیف

محفلین
میں ماں ہوں

میں ماں ہوں علم ہے مجھ کو
مرا بچہ،
مجھے کب، کیوں بُلاتا ہے
رُلاتی ہے اسے کیا بات؟
کس پل مسکراتا ہے
وہ کب آرام کرتا ہے
وہ کیسے کھلکھلاتا ہے
میں ماں ہوں، علم ہے مجھ کو
مگر جب یہ بڑا ہوگا
مجھے یہ کچھ بتائے گا
یہ کچھ مجھ سے چھپائے گا
یہ سمجھےگا ماں کو کیا خبر اس کی
وہ گھر بیٹھی بھلا کیا جان پائے گی؟
وہ گھر تاخیر سے آکر بہانے جب بنائے گا
میں سب کچھ جان کر انجان بن جاؤں گی اس لمحے
کہ یہ ہر ماں کی فطرت ہے
مرا بچہ یہ کیسے جان سکتا ہے
کہ اُس کی اِن رگوں میں،
ماں لہو کے ساتھ چلتی ہے
اُسے کانٹا بھی چبھ جائے
تو ماں کا دل تڑپتا ہے
وہ جس جا بھی چلا جائے
دُعاؤں کے گھنے حصار میں محفوظ ہوتا ہے
وہ ماں کے دل میں ہوتا ہے
قدم جس پل اٹھاتا ہے
وہ جس رستے پہ جاتا ہے
تو ٹھنڈی چاؤں سا آنچل بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے
میں ماں ہوں، علم ہے مجھ کو ۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
سُنو لڑکی!

سُنو لڑکی!
تمھیں تتلی کے رنگوں میں، ستاروں میں، گلابوں میں
کوئی چہرہ دکھائی گے
تو آنکھیں بند کر لینا
ابھی آنکھیں تو باقی ہیں
اگر کل یہ بھی کھو بیٹھی تو سوچو کیا کرو گی تم؟
ہواؤں‌ پر لکھے پیغام پر تم کان مت دھرنا
کوئی انجان دستک دل کے دروازے پہ باجے تو
سحر سے شام ہونے دو، اسے ناکام ہونے دو
وگرنہ ہاتھ میں ‌کچھ راکھ ہوگی،
پاؤں میں چھالے
سُنو لڑکی! کوئی چہرہ دکھائی دے تو آنکھیں بند کر لینا
 

عمر سیف

محفلین
وصل کے روگ بُرے ہوتے ہیں
ہجر کے سوگ برے ہوتے ہیں

ہار میں دل کا ہاتھ ہے کچھ کچھ
اور کچھ لوگ برے ہوتے ہیں

صحراؤں میں کھو جاؤ گے!
عشق کے جوگ بُرے ہوتے ہیں

بستی بس کر مِٹ جائے گی
دل کے روگ بُرے ہوتے ہیں

سُکھ کے بدلے دُکھ دیتے ہیں
کچھ سنجوگ بُرے ہوتے ہیں
 

عمر سیف

محفلین
سوچا ہوتا خواب دکھانے سے پہلے
اور کسی کو اپنا بنانے سے پہلے

کچھ پل اس کو نیند میں غور سے دیکھو تو
دھیرے دھیرے اس کو جگانے سے پہلے

سوچ لو، اس میں کوئی قیمتی شے ہی نہ ہو
دل کے شہر کو آگ دکھانے سے پہلے

دیکھا، تو سب تن من راکھ کا ڈھیر ہوا
اپنے دونوں ہاتھ بچانے سے پہلے

سوچا، رب سے اس کو مانگ کے دیکھوں تو
سر سجدے سے آج اٹھانے سے پہلے

اب پچھتانے سے بھی حاصل کیا ہوگا
سوچا ہوتا آنکھ ملانے سے پہلے

آؤ آخری بار کریں ہم یاد اسے
سچ مُچ اس کو آج بھلانے سے پہلے
 

عمر سیف

محفلین
شب کے کچھ خواب اجالوں میں بھلے لگتے ہیں
دل کے کچھ روگ خیالوں میں بھلے لگتے ہیں

تم نے پھولوں سے بھی اب چھین لیا ان کا مقام
خاک پر یہ نہیں، بالوں میں بھلے لگتے ہیں

جلد بازی میں کہیں توڑ نہ دینا ناتے
یہ دنوں میں نہیں، سالوں میں بھلے لگتے ہیں

مری بھنورہ سی ان آنکھوں میں بھنور مت ڈھونڈو
یہ بُرے آنکھوں میں، گالوں میں بھلے لگتے ہیں

تم کو یہ ضد کہ کوئی تم کو نہ صیاد کہے
جبکہ پنچھی تمھیں جالوں میں بھلے لگتے ہیں

آپ کی باتوں کو سُن کر تو ہنسی آئی جناب!
ایسے قصے تو مثالوں میں بھلے لگتے ہیں
 

عمر سیف

محفلین
محبت ذات کے اندر کوئی گُم ذات ہوتی ہے
محبت کے تعاقب میں ہمیشہ گھات ہوتی ہے

محبت میں خوشی سے موت کو ہم اوڑھ لیتے ہیں
ذرا سوچو کہ اس میں کوئی ایسی بات ہوتی ہے

محبت شہد میں لپٹا ہوا اک زہر ہے لیکن
محبت جیت ہوتی ہے، محبت مات ہوتی ہے

محبت خود زمانہ ہو کے بھی ہے موسموں جیسی
کبھی یہ صبح ہوتی ہے کبھی یہ رات ہوتی ہے

محبت ایسی خوشبو ہے، کبھی اک جا نہیں رہتی
کسی سے دور ہوتی ہے کسی کے سات ہوتی ہے

محبت ہے سرابوں سے، کہ جیسے ریت مُٹھی ہیں
کسی سے ہات کرتی ہے کسی کے ہات ہوتی ہے

محبت جس کو حاصل ہو، مقدر کا سکندر وہ
محبت رب کی جانب سے حسیں سوغات ہوتی ہے
 

عمر سیف

محفلین
یہ کوئی بات ہے؟

یہ کوئی بات ہے
ہر بات پہ تم،
منہ بنا کر ہمیں کہتے ہو صبا کچھ بھی نہیں
بس شعاعیں ہی بھلی ہیں، یہ گھٹا کچھ بھی نہیں
تیرگی میں ہی سبھی کچھ ہے، ضیاء کچھ بھی نہیں
تم کو خورشید سے مطلب ہے دِیا کچھ بھی نہیں
یہ کوئی بات ہے ہر بات پہ تم ۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
ابھی تو خواب باقی ہے

ابھی سے نیند سے ہم کو جگاتے ہو؟
نہیں جاناں!
ابھی پلکیں اُٹھانا تک ہمیں دشوار لگتا ہے
ابھی تو خواب باقی ہے
 
Top