بچہ اور فانوس
(محاکات از ”بلبل اور جگنو“)

گہوارے میں اک رات تنہا
بچہ تھا کوئی اداس لیٹا

مشکل تھا ”اواں اواں“ بھی کرنا
رونے دھونے میں دن گزارا

دیتی تھی نہیں دکھائی امی
ہر اک جو سمجھتی ہے اشارہ

دیکھی بچے کی آہ و زاری
چھت سے فانوس نے پکارا

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
لٹکا ہوں اگرچہ کب سے الٹا

کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں صبح تک روشنی کروں گا

مجھ میں ہیں چمکتے قمقمے سے
روشن تن من ہے میں نے پایا

ہے چیز وہی جہاں میں اچھی
تسکین ہو جس سے روح و دل کی

بلبل اور جگنو
(علامہ اقبال مرحوم)

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا

کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اڑنے چگنے میں دن گزارا

پہنچوں کس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا

سن کر بلبل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا

کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا

اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

 
آخری تدوین:
Top