تعارف مجھے کہتے ہیں

کاشفی

محفلین
ماریہ تکی
میرا تعلق لاہور سے ہے
اس کے ساتھ مدرسے میں اسلامیات کا درس دیتی ہوں اور ساتھ میں ختم نبوت پر گہری نظر کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس عقیدے کی شناخت متوجہ کروانا بھی میرے اہم فرائض میں شامل ہے
خوش آمدید
 
ایک میں 28 سال اور دوسرے میں 17 سال
دو ماہ میں 11 سال کا فرق ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
سبحان اللہ
محترم پہلے خود کو صادق و امین کے درجے پر لائیں تاکہ آپ کے بات میں اثر ہو ۔۔۔ ۔۔۔
جھوٹ کی بنیاد پر کھڑی عمارت اک جھونکا برداشت نہیں کر پاتی ۔۔۔ ۔۔
مجھے چاہے یہودی قادیانی یا جو بھی دل چاہے اس مسلک و مذہب کا قرار دے لیجئے گا ۔
مجھے کوئی فرق نہیں کہ میرا اللہ میری حقیقت جانتا ہے ۔
لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک کی آڑ لیکر جو بھی فساد پھیلائے گا ۔ مجھے اپنا ناقد پائے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
نایاب بھائی! خواتین جو عمر بتاتی ہیں ہمیں قبول کر لینا چاہیے، کوئی خاتون بھی 30 کی عمر سے آگے نہیں جاتی۔
لیکن آپ تو محترمہ کو محترم بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ کہیں آپ ان سے خود کو بھیا سے بہنا بنانے کا بدلہ تو نہیں لے رہے؟
 

ماریہ تکی

محفلین
معلوماتی۔ اب ذرا بتائیے کہ آپ کی دنیاوی اور دینی تعلیم کیسی ہے۔ تقابلِ ادیان پر کتنی گہری نظر رکھتی ہیں؟ اسلام کے بارے کتنا مطالعہ کیا ہے؟ عصرِ حاضر میں لاہور کے کن مفتی صاحب کو آپ سب سے بہتر سمجھتی ہیں؟
ایک طالب علم کے طور پر ہم تقابل ادیان پر بحث کر سکتے ہیں ۔ ماریہ تکی کی اپنی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ۔دینی تعلیم اتنی ہے کے قران کو ترجمے سے پڑھنا جانتی ہوں ۔ اور اگرکوئی حدیث کا حوالہ دے دے تو تصدیق آسانی سے ہو جاتی ہے رائے دینے کی مجاز ہوں ۔ فل حال میرا کسی مفتی سے ابھی تک کوئی واسطہ نہیں پڑھا البتہ ان کی رائے کا احترام کرتی ہوں ۔ جناب ڈاکٹر زاکر نائیک ۔اسرار احمد اور جاوید غامدی ۔ اور شیخ محمد کو بھی سنتی ہوں البتہ حرف آخر صرف نبی کریم ﷺ کی زات بالا صفات ہیں ۔تقابل ادیان پر مکمل بات کرنا مشکل ہے ۔البتہ اس میں سے اپ کوئی مضبون جس کو زیر بحث لانا ممکن ہو دلائل کی روشنی میں تو مضبون اپ تجویز کر سکتے ہیں۔ پوری کوشش ہوگی کے جواب دلیل سے ووں
 

ماریہ تکی

محفلین
شاید کافروں کو کچھ چھوٹ ملی ہے
مگر مسلمز کو نہیں ملی ہے
زلزلوں والی بات اوہام سے زیادہ کچھ نہیں البتہ اپ کی اس بات کا جواب کہ
شاید کافروں کو کچھ چھوٹ ملی ہے
مگر مسلمز کو نہیں ملی ہے۔اس پر ایک رائے یہ بھی ہو سکتی ہے ۔ چونکہ اللہ کے قانون میں انسان کا مواخذ اس وقت ہو تا جب انسان اپنے گناہ سے اگاہ ہونے کے بعد اکڑا رہے۔ دوسری طرف اپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہجت تمام ہو نے کے بعد اللہ عذاب نازل ہوتا ہے۔تقابل کے لیے سورہ ،ہود ،یونس،الانبیا،،،،، اسانی کے لیے آیت پیش خدمت ہے
ترجمہ-اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ بُرا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلتِ عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے) اس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھوٹ دے دیتے ہیں۔ (11)
ایک تو وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کافروں کو بھٹکنے کے لیے چھوٹ مل جاتی ہے ۔کیوں اس نے اس دنیا کے بعد دوزخ میں ہی ہمیشہ کے لیے رہنا ہے ۔۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کافروں کو تو چھوٹ مل گئی مگر مسلمانوں کو کیوں نہیں ملی ؟ یہ ایک اچھا سوال ہے ۔مگر تھوڑا سا غور فقر سے بات نتیجے تک پہنچ سکتی ہے
کیوں کہ مسلم کو اللہ کے قانون کا علم ہو تا ہے اس کے باوجود اللہ کی زمین میں سرکشی اختیار کرے تو اس کی غیرت گوارہ نہیں کرتی ۔ ایک حد تک وہ مسلم کو اشاروں یا مختلف طریقو ں سے ان کو اگاہ کرتا ہے مگر اس کے باوجود بھی وہ سرکشی سے سرکشی اختیا رکیے چلا جاتا۔اور اللہ کی زمین پر گڑبڑ کا باعث بنتا ہے تو پھر اللہ سزا دیتا ہے ایئے ٖقرآن سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس بارے کیا فرماتا ہے
ذرا بنی اسرائیل سے پوچھئے کہ ہم نے انہیں کس قدر نعمتیں عطا کی ہیں---- او رجو شخص بھی نعمتوں کے آجانے کے بعد انہیں تبدیل کردے گا وہ یاد رکھے کہ خدا کاعذاب بہت شدید ہوتا ہے۔
اگر آپ مکہ مکرمہ میں رہنے والے اس دور میں مشرقوں کا مشاہدہ کرو تو کسی کو بھی عذاب نہیں دیا گیا حالاں کہ مانگنے پر بھی ان کو عذاب نہیں دیا گیا کیوں کہ وہ جہالت تھی اللہ جہالت میں کسی کو نہیں پکڑ میں لیتا ۔۔ چاہے کافر ہو یا مسلمان ا۔۔۔اللہ کی پکڑ یا عذاب اسی وقت نازل ہو گا ۔ جب انسان حد سے تجاوز کرتا ہے اگر اج مسلم ممالک سے زیادہ اگر اپ غیر مسلم ممالک کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اپ کو مسلمانوں میں برا ئی کا گراف بڑھتا دیکھائی دے گا ۔ایسے میں اللہ مسلمانوں کی کیوں زیادہ گرفت نہیں کر سکتا باوجود اس کے کہ مسلمان اللہ کے قانون سے واقف ہے

 

قیصرانی

لائبریرین
زلزلوں والی بات اوہام سے زیادہ کچھ نہیں البتہ اپ کی اس بات کا جواب کہ
شاید کافروں کو کچھ چھوٹ ملی ہے
مگر مسلمز کو نہیں ملی ہے۔اس پر ایک رائے یہ بھی ہو سکتی ہے ۔ چونکہ اللہ کے قانون میں انسان کا مواخذ اس وقت ہو تا جب انسان اپنے گناہ سے اگاہ ہونے کے بعد اکڑا رہے۔ دوسری طرف اپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہجت تمام ہو نے کے بعد اللہ عذاب نازل ہوتا ہے۔تقابل کے لیے سورہ ،ہود ،یونس،الانبیا،،،،، اسانی کے لیے آیت پیش خدمت ہے
ترجمہ-اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ بُرا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلتِ عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے) اس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھوٹ دے دیتے ہیں۔ (11)
ایک تو وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کافروں کو بھٹکنے کے لیے چھوٹ مل جاتی ہے ۔کیوں اس نے اس دنیا کے بعد دوزخ میں ہی ہمیشہ کے لیے رہنا ہے ۔۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کافروں کو تو چھوٹ مل گئی مگر مسلمانوں کو کیوں نہیں ملی ؟ یہ ایک اچھا سوال ہے ۔مگر تھوڑا سا غور فقر سے بات نتیجے تک پہنچ سکتی ہے
کیوں کہ مسلم کو اللہ کے قانون کا علم ہو تا ہے اس کے باوجود اللہ کی زمین میں سرکشی اختیار کرے تو اس کی غیرت گوارہ نہیں کرتی ۔ ایک حد تک وہ مسلم کو اشاروں یا مختلف طریقو ں سے ان کو اگاہ کرتا ہے مگر اس کے باوجود بھی وہ سرکشی سے سرکشی اختیا رکیے چلا جاتا۔اور اللہ کی زمین پر گڑبڑ کا باعث بنتا ہے تو پھر اللہ سزا دیتا ہے ایئے ٖقرآن سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس بارے کیا فرماتا ہے
ذرا بنی اسرائیل سے پوچھئے کہ ہم نے انہیں کس قدر نعمتیں عطا کی ہیں---- او رجو شخص بھی نعمتوں کے آجانے کے بعد انہیں تبدیل کردے گا وہ یاد رکھے کہ خدا کاعذاب بہت شدید ہوتا ہے۔
اگر آپ مکہ مکرمہ میں رہنے والے اس دور میں مشرقوں کا مشاہدہ کرو تو کسی کو بھی عذاب نہیں دیا گیا حالاں کہ مانگنے پر بھی ان کو عذاب نہیں دیا گیا کیوں کہ وہ جہالت تھی اللہ جہالت میں کسی کو نہیں پکڑ میں لیتا ۔۔ چاہے کافر ہو یا مسلمان ا۔۔۔ اللہ کی پکڑ یا عذاب اسی وقت نازل ہو گا ۔ جب انسان حد سے تجاوز کرتا ہے اگر اج مسلم ممالک سے زیادہ اگر اپ غیر مسلم ممالک کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اپ کو مسلمانوں میں برا ئی کا گراف بڑھتا دیکھائی دے گا ۔ایسے میں اللہ مسلمانوں کی کیوں زیادہ گرفت نہیں کر سکتا باوجود اس کے کہ مسلمان اللہ کے قانون سے واقف ہے
اس بات پر بھی روشنی ڈالئے کہ کیا لاہور، کراچی، اسلام آباد اور کشمیر والوں کے گناہوں کی وارننگ کے لئے اللہ پاک بلوچستان میں زلزلہ بھیجے گا؟
 

ماریہ تکی

محفلین
اس بات پر بھی روشنی ڈالئے کہ کیا لاہور، کراچی، اسلام آباد اور کشمیر والوں کے گناہوں کی وارننگ کے لئے اللہ پاک بلوچستان میں زلزلہ بھیجے گا؟
یہ ایک اچھا سوال ہے ۔جب ہم قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ عذاب یا زلزلے اس وقت بھجتا ہے جب قومیں پستی کی جانب بھڑتی ہیں ۔اور جب تاریخ کا مطا لعہ کیا جاتا ہے ،تو ہم دیکھتے ہیں ،کہ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب قومیں اخلاق و کردار اور علم سے دور ہو جاتی ہیں اصل میں ہم قرآن سے استدلال ہی غلط لیتے ہیں ۔کہ فلاں علاقے میں کوئی آفت یا زلزلہ وغیرہ آیا تو ہم خود سے یہ فرض کر لیتے ہیں وہاں ضرور کوئی برائی ہو رہی ہو گئی ۔اور الزام سارا کا سارا اللہ پر تھومپ دیتے ہیں صاف سی بات ہے ۔اللہ ٖقران میں فرماتا ہے
ترجمہ- اور بیشک ہم نے تم سے پہلی سنگتیں (قومیں) ہلاک فرمادیں جب وہ حد سے بڑھے اور ان کے رسول ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے (ف۲۹) اور وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ ایمان لاتے، ہم یونہی بدلہ دیتے ہیں مجرموں کو،
اب یہ بات بلکل واضع ہے کہ اللہ کا عذاب اسی وقت آیا جب رسولوں نے ہجت تمام کر دی ۔۔۔ اب ظاہری بات ہے کہ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور کشمیر والے پغمبر تو ہو نہیں سکتے کہ ہاتھ اٹھا یا اور جٹ سے بلوچستان میں زلزلہ آ گیا
یہ بلکل بے بنیاد بات ہے کہ زلزلے اس وجہ سے آتے ہیں کہ اللہ کی حکم کی نافرمانی ہورہی ہے ، اللہ کی حکم کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے اللہ نے حساب یعنی قیامت کا دن قائم کر رکھا ہے ۔وہ اپنے وقت پر پوراہو گا ۔یہ تو ایک فطرتی عمل ہے گیسیں جمع ہوتی ہیں اور زلزلے اتے ہیں ،آتش فشاں پہاڑ بھی تو پھٹ جاتے ہیں کیا وہاں بھی اللہ کی نافرمانی ہو رہی ہے ۔اصل میں اللہ کی مشیت کوجب اللہ کی رضا سمجھ لیا جائے تو اوہام کا دروازہ کھلتا ہے ۔ہمیں کوئی ایسا حکم نہیں ملا کہ ہم زبردستی یا پھر ایسے اوہام پیش کر کے نصحت کرتے پھریں ۔ کہ سدر جاو ورنہ اللہ زلزلے بھجے گا ۔۔ اللہ اس بارے میں فرماتا ہے
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو جتنے لوگ زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو کہ وہ مومن ہو جائیں؟
شکریہ
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ ایک اچھا سوال ہے ۔جب ہم قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ عذاب یا زلزلے اس وقت بھجتا ہے جب قومیں پستی کی جانب بھڑتی ہیں ۔اور جب تاریخ کا مطا لعہ کیا جاتا ہے ،تو ہم دیکھتے ہیں ،کہ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب قومیں اخلاق و کردار اور علم سے دور ہو جاتی ہیں اصل میں ہم قرآن سے استدلال ہی غلط لیتے ہیں ۔کہ فلاں علاقے میں کوئی آفت یا زلزلہ وغیرہ آیا تو ہم خود سے یہ فرض کر لیتے ہیں وہاں ضرور کوئی برائی ہو رہی ہو گئی ۔اور الزام سارا کا سارا اللہ پر تھومپ دیتے ہیں صاف سی بات ہے ۔اللہ ٖقران میں فرماتا ہے
ترجمہ- اور بیشک ہم نے تم سے پہلی سنگتیں (قومیں) ہلاک فرمادیں جب وہ حد سے بڑھے اور ان کے رسول ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے (ف۲۹) اور وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ ایمان لاتے، ہم یونہی بدلہ دیتے ہیں مجرموں کو،
اب یہ بات بلکل واضع ہے کہ اللہ کا عذاب اسی وقت آیا جب رسولوں نے ہجت تمام کر دی ۔۔۔ اب ظاہری بات ہے کہ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور کشمیر والے پغمبر تو ہو نہیں سکتے کہ ہاتھ اٹھا یا اور جٹ سے بلوچستان میں زلزلہ آ گیا
یہ بلکل بے بنیاد بات ہے کہ زلزلے اس وجہ سے آتے ہیں کہ اللہ کی حکم کی نافرمانی ہورہی ہے ، اللہ کی حکم کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے اللہ نے حساب یعنی قیامت کا دن قائم کر رکھا ہے ۔وہ اپنے وقت پر پوراہو گا ۔یہ تو ایک فطرتی عمل ہے گیسیں جمع ہوتی ہیں اور زلزلے اتے ہیں ،آتش فشاں پہاڑ بھی تو پھٹ جاتے ہیں کیا وہاں بھی اللہ کی نافرمانی ہو رہی ہے ۔اصل میں اللہ کی مشیت کوجب اللہ کی رضا سمجھ لیا جائے تو اوہام کا دروازہ کھلتا ہے ۔ہمیں کوئی ایسا حکم نہیں ملا کہ ہم زبردستی یا پھر ایسے اوہام پیش کر کے نصحت کرتے پھریں ۔ کہ سدر جاو ورنہ اللہ زلزلے بھجے گا ۔۔ اللہ اس بارے میں فرماتا ہے
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو جتنے لوگ زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو کہ وہ مومن ہو جائیں؟
شکریہ
جزاک اللہ :)
 
Top