نیرنگ خیال

لائبریرین

انسان زندگی میں بہت سے لوگوں سے ملتا ہے۔ کچھ لوگ جانِ محفل بننے کا گُر جانتے ہیں، اور کچھ اپنی عزلت نشینی کو مقدم گردانتے ہیں۔ کچھ لوگ چار چار شادیاں رچا کر بھی پانچویں چھٹی کے فتوے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، اور کچھ دنیاوی وصل سے ناآشنا، زندگی کو ہجر کی علامت بنائے اپنی مستی میں مست رہتے ہیں۔ مجرد کا شمار بھی ثانی الذکر میں ہوتا تھا، تاہم وہ جان محفل بننے کا گر جانتے تھے، اور اپنی عزلت نشینی پر فخر بھی کرتے تھے۔ بزبان خود وہ کسی بھی دنیاوی وصل کی آشنائی کے انکاری تھے، اور زندگی کو ہجر مسلسل کی تصویر بنائے گزار رہے تھے۔ اظہار بیاں پر بھی دسترس تھی، اور اپنی تنہائی سے بھی نالاں نہ تھے۔ تاہم انہیں اپنی ذات سے متعلق ہر قسم کی سوچ اور رائے پریشان رکھتی تھی۔ تس اس پر یہ کہ اپنے آپ کو قانع کا لقب بھی دے رکھا تھا، اور شب و روز دنیا کی کاوش میں ہلکان بھی ہوتے تھے۔ اپنے بارے میں خود فرماتے تھے کہ میں ایک مشہور تنہا شخص ہوں، بہت سے لوگ مجھے جانتے ہیں، اور میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں۔ میری زندگی ” قافلہ ساتھ اور سفر تنہا “ کی عملی مثال ہے۔ اس سے پہلے کہ میں مجرد سے آپ کا تعارف کرواؤں، ماضی کا ایک واقعہ سنیے۔
ایک بڑے سے ہال کمرے میں کرسیاں ترتیب سے لگی ہوئی تھیں، اور ان کرسیوں پر کمپنی کے تمام ملازمین تشریف فرما تھے۔ ان کرسیوں کی قطار کے مساوی، دیوار کے ساتھ ایک چھوٹا سا چبوترا بنا ہوا تھا۔ میں اسی چبوترے پر بیٹھ کرہال کی کاروائی دیکھتا تھا۔ اس بڑے سے کمرے کے رواق میں انتظامیہ کے لوگ ہوتے تھے جو کہ فرداً فرداً پورے مہینے کی کارروائی بیان کرتے تھے۔ اس کمپنی میں ایک مزے کی چیز یہ تھی کہ نئے آنے والے اسی شہ نشیں پر آتے ، اور اپنا اپنا تعارف کرواتے۔ ایسی ہی ایک ماہانہ کارروائی کے دوران ایک لڑکے نے میری توجہ کھینچ لی۔ وہ ایک مناسب جسم کا نوجوان تھا۔ آنکھوں پر عینک لگائے،جب اس نوجوان نے اپنی اردو زدہ انگلش میں تعارف کروانا شروع کیا، تو میں سوچ رہا تھا، کہ یہ جو غلطی سے کہیں کہیں ایک دو الفاظ اردو کے بیچ میں آجاتے تھے، اگر یہ لڑکا یہ بھی نہ بولے تو کتنا بھلا لگے۔ کیوں یہ آقاؤں کی زبان میں غلام زبان کے پیوند لگا رہا ہے۔ اسی دوران اس نوجوان نے ایک ایسی بات کی، جو میرے ذہن پر نقش ہوگئی۔ ذہن میں اس لڑکے غیر متزلزل ارادوں اور قوت ارادی کے متعلق ایک عقیدت سی پیدا ہوگئی۔ وہ نوجوان فرما رہا تھا، کہ میرا وزن 135 کلو تھا، لیکن میں نے اپنی غیر معمولی قوت ارادی، ثابت قدمی سے اپنے پتلے ہونے کے خواب کو جس طرح عملی جامہ پہنایا ہے، اسی قوت فیصلہ اور عمل کی پختگی سے میں اس کمپنی کے مستقبل پر بھی چار چاند لگا دوں گا۔

اور مجھے اس ساری گفتگو میں جو چیز یاد رہی وہ وزن کا کم ہوجانا تھا۔ کیسے آخر کیسے؟ کیسے اس کو پتا چلا کہ یہی میری دکھتی رگ ہے۔ بخدا میں بھی کسرتی جسم کا مالک بننا چاہتا ہوں، چلیں آپ اس کو متناسب جسم کر لیں، اور مجھے تو محض چار سے پانچ کلو وزن کم کرنا ہے، جوکہ کئی برس سے نہیں ہو رہا۔ اور میں اسی کو کامیابی سمجھ رہا ہوں کہ چلو بڑھ بھی تو نہیں رہا۔ چند دن گزرے اور میں بھول گیا کہ وہ نوجوان کسی شعبہ میں جا چکا ہے۔ کہاں بیٹھتا ہے۔ اور کن نوجوانوں کو ثابت قدمی اور قوت ارادی کے بل بوتے پر کر گزرنے کے درس دے رہا ہے۔

میں جس کمرے میں بیٹھتا تھا، وہاں میرا رخ دیوار کی طرف تھا، اور باقی سب لوگ میری پشت کی طرف بیٹھتے تھے، میں فطرتاً کم آمیز نہیں ہوں، لیکن کام کے دوران سب سے میل جول اور ملاقات نہ ہونے کے برابر رہتی تھی، ہاں کبھی کبھار سب سے گپ شپ کا سلسلہ بھی چلتا تھا۔ ایسے ہی ایک دن، میں اپنی سیٹ پر کھڑا ہوا اور پلٹ کر دیکھا، تو مجھے آخری میز کے پیچھے سے ایک معنّک شکل نظر آئی۔ اس شکل کے نظر آتے ہی مجھے عینک اور آنکھیں نظر آنا بند ہوگئی، بلکہ مجھے قوت ارادی کا پہاڑ اور عمل کا دیوتا نظر آنے لگا۔ مجھے یاد آگیا کہ یہ تو وہی عظیم شخص ہے جس کو قدرت نے پہاڑ سے بڑی قوت ارادی اور صحرا سے بڑا صبر دیا ہے۔ جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔ عقیدت سے مجبور ہو کر میں میکانکی انداز میں اس کی میز کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ پرانی کہانیوں کی طرح مجھے پیچھے سے بزرگوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں، اُدھر مت جا، نادان اُدھر مت جا۔ تیری عقیدت کے بت کرچی کرچی ہو کر بکھر جائیں گے۔ لیکن میں شہزادے کی طرح بغیر توجہ کیے آگے بڑھتا چلا گیا۔ اور جب میز پر پہنچا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس چھوٹی سے عینک کے پیچھے کم و بیش اتنے ہی وزن کا ایک نوجوان چھپا ہوا ہے، جتنا اس نے اپنی تعارفی کہانی میں بتایا تھا۔ میں حیران پریشان اس کو دیکھتا رہا۔ جب حیرت کے سمندر میں اچھی طرح غوطے کھا چکا، تو میں نے اس کو سلام کیا، اور کہا۔ کیسے !آخر کیسے؟ وہ سادہ مزاج میرے سوال کو شاید یہ سمجھا کہ میں یہاں اس کمرے میں کیسے؟ تو تفصیل سمجھانے لگا کہ وہ پہلے دن سے اسی کرسی پر بیٹھ رہا ہے اور یہ جو ارد گرد انسان نما مخلوق ہے، یہ اس کی ٹیم کا حصہ ہے۔ میں نے اس نامانوس مقبوضہ سے جلد نکل جانے میں عافیت سمجھی۔ یہ مجرد سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات تھی۔
رفتہ رفتہ میں اور مجرد گھلنے ملنے لگے۔ کبھی وہ مجھے دبلے پتلے دکھائی دیتے تو کبھی سوموکشتیوں کے عالمی اعزاز یافتہ۔ میں اپنے ان خیالات و کیفیات کا اظہار ان کے سامنے کرتا رہتا، جسے کبھی وہ مسکراہٹ سے اور کبھی مسکراہٹ کے ساتھ گالی سے ٹال دیتے۔مجرد بے حد اعلی و عمدہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ حاضر جوابی میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے، اور جس کی آواز اور انداز ایک بار دیکھ لیتے، اس کی نقالی کا حق ادا کر دیتے تھے۔ تمسخر، نقالی، تحقیراور تضحیک میں یدطولی رکھتے تھے۔ اردو کے بھاری الفاظ کا بےدریغ استعمال کرتے تھے۔ زیادہ ترزبان فرنگ بولتے، مگر اردو بھی شستہ تھی۔ اکثر صنف نازک سے ملاقاتیں کرتے پائے جاتے، اور اس فن پر مجھے بڑی حیرت تھی۔ میں اکثر سوچتا کہ یہاں بیٹھے بیٹھے کیسے یہ دو چار کمرے دور بیٹھی دوشیزاؤں اور سیہ شیزاؤں سے مراسم بڑھا لیتے ہیں۔ لیکن یہ فن ان کا اپنا ہے، انہوں نے اس کے اسرار و رموز کبھی میرے سامنے بیان نہیں کیے۔

مجردکی ذات مجموعہ اضداد تھی اور اسی سبب ان کو کچھ احباب سوئچ بھی کہتے تھے۔ وہ کبھی مسلماں ہوتے، تو کبھی کافر۔ کبھی جانِ محفل کے منصب پر تو کبھی ایسی بیزاری کے تنہائی بھی شرمائے۔ کبھی حلقہ صنف نازک میں شیرینیاں بانٹتے تو کبھی صنف کرخت سے کرختگی سے پیش آتے۔ ان کے اس گھڑی تولہ گھڑی ماشہ مزاج کے سبب یار دوست ان کو سوئچ کہنے لگے۔ عمومی طور پر خوش مزاج شخص تھے، اورخصوصی موقعوں پر مزاجوں کی بقیہ اقسام سے تعارف کرواتے پائے جاتے تھے۔ آپ ان سے دنیا کی کوئی بات پوچھ لیں، ان کا جواب یہی ہوتا تھا، کہ میں نے یہ معاملہ بھی اللہ کے سپرد کر دیا ہے۔ ایک دن میں نے کہا، یارکافی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو فرمانے لگے، یار! میں نے یہ معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا ہے، زندگی میں بہت سی کمی کوتاہی ہوتی رہتی ہے۔ انسان کسی بھی چیز سے کس قدر اجتناب کر سکتا ہے۔ بشر تو ہے ہی خطا کا پتلا۔ میں نے دعا کی ہے کہ اللہ پاک میری لغزشوں سے صرف نظر فرمائے اور مجھے سیدھی راہ پر رکھے۔ میں اس جواب سے متحیّر ہوگیا۔ جب حیرت قدرے کم ہوئی تو کہا، جناب یہ پوچھا تھا کہ کافی پینی ہے یا نہیں؟ اور آپ جانے کس ذہنی رو میں بہک گئے۔ ایسا اکثر ہوتا۔ آپ ان سے پوچھیں کہ جدید زندگی میں کامیابی کا کیا معیار ہے؟ اور وہ آپ کو جواب دیں گے۔ کہ میں تو چاہتا ہوں کہ ہر کوئی اللہ کی رضا پر قانع رہے۔ اللہ ہی سب کو نوازتا ہے، اور انسان کی زندگی منشائےالہی کا نمونہ ہونی چاہیے۔ میں نے عرض کیا حضور، یہ درس اپنی جگہ، لیکن جدید اقدار جس بنیاد پر شخص کو کامیابی کے تمغے سے نوازتی ہے، میرا استفسار اس بنیاد کی بابت تھا۔
کبھی کبھار مجھے لگتا کہ ” میرا بہترین دوست “ کی طرز پر مجرد نے ” میں ایک قانع شخص “ کا مضموں یاد کیا ہوا ہے۔ آپ ایسے کپڑے کیوں پہنتے ہیں؟ آپ کو کھانے میں کیا اچھالگتا ہے؟ آپ کی زندگی میں کیا مشکلات ہیں؟ آپ کی زندگی میں کیا سہولیات ہیں؟ آپ کے دوست احباب کیسے ہیں؟ آپ کے گھر والے کیسے ہیں؟ ملازمت پر نئے افراد کو کیا کرنا چاہیے؟ نوجوان نسل کس راہ پر جا رہی ہے؟ موجودہ معاشرے میں تباہی و بربادی کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ معاشرے میں انتشار کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ قیادت کسی شخص کی زندگی پر کس حد تک اثر انداز ہو سکتی ہے؟ ان اور ایسے تمام سوالات کا جواب کم و بیش مجرد کے ہاں ” میں ایک قانع شخص “ ہوں جیسے مضموں پر ہی مشتمل ہوتا۔ مثلا، جدید دور کی تباہی پر بات کرتے ہوئے وہ فرما دیتے کہ دیکھو معاصر ذرائع کیسے انسانی ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور وجہ صرف یہ کہ انسان قناعت سے خالی ہے۔ اب مجھے دیکھو، میں ایک قانع شخص ہوں یعنی میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے قانع شخص بنا دے، جس کی زندگی کا محور ہر چیز کو الہی کی منشاء سے دیکھنا ہے۔ میرے بھی بس یہی دعا ہے کہ اللہ سبحان و تعالی مجھے قناعت پر راغب رکھے ۔۔۔۔ الخ۔ مجھے یہ بات بہت دلچسپ معلوم ہوتی تھی۔ یوں بھی عہد حاضر میں زیادہ تر کام دعاؤں میں ہی کیے جاتے ہیں۔
لوگوں کی خوشی کا بہت خیال تھا، ہر وقت ہر کسی کو خوش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ جان پہچان اور انجان، سب کی خواہش کا احترام ملحوظ خاطر رہتا ۔ یہ بات مجھے بہت کھلتی تھی۔ میں یہ کہتا تھا کہ کسی ایک دو شخص کے لیے تو آپ اتنا ہلکان ہو سکتے ہیں، لیکن ہر شخص کے لیے نہیں۔ ایسا نہیں کہ کسی نے سرِراہ آپ سے بیس روپے مانگ لیے، اور آپ اسے سے دس منٹ تک معافیاں مانگتے رہیں، بخدا آج میں اپنا بٹوہ گھر بھول آیا ہوں، میں وعدہ کرتا ہوں کہ کل بھی اگر آپ اسی اشارے پر بھیک مانگ رہے ہوئے تو میں آپ کو لازماً بیس کیا چالیس روپے دوں گا۔ بیس آج کے اور بیس کل کے۔ اتنی معافی تلافی کرتے کہ سامنے والا اکتا جاتا۔دوسری جانب یہ عالم تھا کہ جذباتیت ناک پر دھری رہتی تھی۔اس وقت معافی تلافی کہیں انتظامی تعطیل پر روانہ ہوجاتی تھی۔ ہر معاملے کو اپنی ذات کا مسئلہ سمجھتے تھے، اور یہ بھول جاتے تھے کہ ابھی چند لمحے پہلے ہی تو یہ ذات راضی الرضا کی دعائیں مانگ رہی تھی، اور دنیا کی سب سے قانع روح ہونے کی دعویدار تھی۔ تا دم است غم است۔
ایک دن عالم وجد میں فرمانے لگے میاں! میری زندگی میں بہت سے لوگوں نے مجھ سے فیض حاصل کیا ہے۔ لوگ مجھ سے متاثر ہیں۔ میرے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ تم بھی چاہو تو زندگی سنوار لو۔ ایسے مشورے دوں گا کہ زندگی سکون ہوجائے گی۔ مشکل افسانہ ہوجائے گی اور آرائش بہانہ ہوجائے گی۔ ایسے دل آسا فوائد سن کر ایک بار تو میرا دل کیا کہ بیعت ہوجاؤں۔ نقش قدم سر پر سجا لوں۔ لیکن پھر سوچا کہ چند منٹ انتظار کر لوں۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ کچھ وقت گزرا کہ حضور کو اپنے یورپ و امریکا میں گزرا ہوا دور یاد آگیا۔ وہ مہ جبینوں سے بچ کر نکلنا، وہ میکدوں سے ہٹ کر نکلنا۔ راقم کی بخت برگشتگی دیکھیے، کہ ان مہ جبینوں کی چال ڈھال پوچھ بیٹھا۔ مجرد نے کہا، یوں تو غور نہیں فرمایا مگر جو نقشہ کھینچا، ایسا ایمان کش تھا کہ کیا کہیں۔ میں بنظر غائر بھی یہ نقشہ کھینچنے سے قاصر رہتا۔تل کہاں ہیں، اورچربی کہاں کہاں نہیں ہے، ایسے ایسے زاویوں سے روشنی ڈالی کہ الاماں والحفیظ۔

ایک دن راقم الحروف نے یوں ہی بیٹھے بیٹھے فرمائش کی کہ اپنی زندگی سے کوئی دلچسپ واقعہ سنائیے، اچھا یا برا، جیسا بھی۔ خاموش ہوگئے۔ چند دن گزرے تو میں نے اپنی فرمائش میں ترمیم کر لی ، اور کہاحضور! واقعہ سنائیے۔ تو جواب میں فرمانے لگے کہ جب میں چھوٹا تو چھوٹا تھا اور اب میں بڑا ہوگیا ہوں۔ اللہ اکبر۔ میں نے عرض کی حضور، اس کو واقعہ نہیں حادثہ کہنا چاہیے، کہ اس عمر رواں میں آپ سے ملنے والوں کے پاس کتنے ہی مقامات آئے ہوں گے کہ وہ بارگاہ ایزدی میں آپ کی حاضری کا سامان کر دیتے، لیکن آپ ہنوز بارِ زیست ڈھونے پر مجبور ہیں۔ خفا ہوگئے اور میں ڈر گیا۔ کیوں کہ جب خفا ہوجاتے تو نماز پڑھانے لے جاتے تھے اور تب تک مسجد بٹھائے رکھتے جب تک نماز کا وقت نہ ہوجاتا۔ دوسرے سے اس کا مذہب مسلک پوچھنا بھی نہ گوارا کرتے۔

مجرد کی سب سے دلچسپ چیز ان کی کھانے سے محبت ہے۔ آپ ان کے پاس بیٹھیے، کھانے کی بات کیجیے، کھانا سوچیے، کھانا پیجیے۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا سب کھانے کے گرد گھومتا ہے۔ اگر کوئی بخت برگشتہ یہ کہہ دیتا کہ فلاں جگہ سے فلاں کھانا بہت عمدہ اور اعلی ملتا ہے تو بیقرار ہوجاتے۔ بار بار اس سے پوچھتے، کہ کھانے کی شکل کیسی تھی، کیا وہ مزیدار تھا۔ اچھا فلاں جگہ والے سے اچھاتھا؟ یا فلاں جگہ والے سے برا تھا؟ رال ٹپکنے لگتی، بھوک لگ جاتی۔ بھلے کھانا کھا کر آئے ہوں، دوبارہ کھانا کھانے بیٹھ جاتے۔ اگر کھانا کھانے کے دوران آپ کھانے کا ذکر ایسے چھیڑ دیں، تو دوبارہ بسم اللہ پڑھ کر نئے سرے سے شروع ہوجاتے۔ ایک بار کراچی تشریف لے گئے۔ میں نے پوچھا خیریت تھی؟ کہنے لگے کہ یار یہ لوگ پر کا کوا بناتے تھے۔ ابھی اپنے وہ فلاں صاحب ہیں، ان کو دیکھیے۔ کراچی کے فلاں ہوٹل کے کھانے کی اتنی تعریفیں کی کہ میں رہ نہ سکا۔ یہاں سے کراچی پہنچا اور جا کر جو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔ کچھ نہ پوچھو۔ لیکن ایک بات اچھی ہوئی۔ وہ ہوٹل تو نہیں، لیکن بھئی دس بارہ اور جگہیں دریافت کی ہیں، اور انگلیاں چاٹتا رہ گیا ہوں۔ مزا آگیا۔ اس چکر کے پیسے تو پورے ہوگئے۔ پتا ہےسال بھر کی نہاری وہاں سے لے آیا ہوں۔ اب روز کھاتا رہوں گا۔ میں نے کہا، وہ خراب نہیں ہوجائے گی، تو مجھے کھانا پیک کرنے کے ڈبوں اور طریقوں کے متعلق ایک طویل درس دیا۔ میں نے درمیان میں کئی ایک بار عرض کی کہ مجھے کھانے کے پشتاروں پر نہ تو جواب مضمون لکھنا ہے اور نہ کوئی دلچسپی ہے، لیکن آپ نے مجھے معلومات کے اس سمندر میں ڈبو کر یہ دم لیا۔
سیر کے لیے کبھی یورپ، کبھی برطانیہ تو کبھی امریکا کا رخ کرتے۔ ان کے اور غریبوں کے درمیان جو واحد مشترک چیز تھی، وہ ان کا یوم مزدور پر پیدا ہونا تھا۔ اپنے یوم پیدائش پر کیک کاٹتے، تصاویر بنواتے۔ معاصر سوشل پلیٹ فارمز پر پوسٹ کرتے اور ان تصاویر کے اوپر مزدور سے محبت بھرے اشعار لکھتے۔مزدور دوستی پر مضامین پڑھتے، اقوال سناتے۔ اپنے آپ کو مزدور کہتے، اور کہتے کہ اس دن کی نسبت سے مجھے کیک کاٹنا اور کھانا ازحد پسند ہے۔ لوگ ان کی اس مزدور محبت پر وارے وارے جاتے۔ بیشک عہد حاضر میں ایسے مزدور نمائندوں کا وجود عنقا ہے۔

آج یکم مئی یوم مزدور پر میں تمام مزدوروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ رب باری تعالی کا شکر ادا کریں، کہ اس نے ایک ایسا شخص اس دن پیدا کیا جس کی وجہ سے ان کو کسی قسم کا نفع و نقصان نہیں ہو رہا۔ بے شک ایسے بے ضرر لوگ معاشرے کا حُسن ہیں۔

اگلی کسی تحریر میں ہم مجرد کے سفرناموں کا تذکرہ کریں گے۔

از قلم نیرنگ خیال
یکم مئی 2024
 

سیما علی

لائبریرین
مجرد کی سب سے دلچسپ چیز ان کی کھانے سے محبت ہے۔ آپ ان کے پاس بیٹھیے، کھانے کی بات کیجیے، کھانا سوچیے، کھانا پیجیے۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا سب کھانے کے گرد گھومتا ہے۔ اگر کوئی بخت برگشتہ یہ کہہ دیتا کہ فلاں جگہ سے فلاں کھانا بہت عمدہ اور اعلی ملتا ہے تو بیقرار ہوجاتے۔ بار بار اس سے پوچھتے، کہ کھانے کی شکل کیسی تھی، کیا وہ مزیدار تھا۔ اچھا فلاں جگہ والے سے اچھاتھا؟ یا فلاں جگہ والے سے برا تھا؟ رال ٹپکنے لگتی، بھوک لگ جاتی۔ بھلے کھانا کھا کر آئے ہوں، دوبارہ کھانا کھانے بیٹھ جاتے۔ اگر کھانا کھانے کے دوران آپ کھانے کا ذکر ایسے چھیڑ دیں، تو دوبارہ بسم اللہ پڑھ کر نئے سرے سے شروع ہوجاتے۔ ایک بار کراچی تشریف لے گئے۔ میں نے پوچھا خیریت تھی؟ کہنے لگے کہ یار یہ لوگ پر کا کوا بناتے تھے۔ ابھی اپنے وہ فلاں صاحب ہیں، ان کو دیکھیے۔ کراچی کے فلاں ہوٹل کے کھانے کی اتنی تعریفیں کی کہ میں رہ نہ سکا۔ یہاں سے کراچی پہنچا اور جا کر جو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔ کچھ نہ پوچھو۔ لیکن ایک بات اچھی ہوئی۔ وہ ہوٹل تو نہیں، لیکن بھئی دس بارہ اور جگہیں دریافت کی ہیں، اور انگلیاں چاٹتا رہ گیا ہوں۔ مزا آگیا۔ اس چکر کے پیسے تو پورے ہوگئے۔ پتا ہےسال بھر کی نہاری وہاں سے لے آیا ہوں۔

اس قدر خوبصورت اور دلنشین انداز کہ ایک بار نہیں بار بار پڑھا پھر بھی دل بھرا نہیں ۔ایک ایک لفظ جیسا محسوس کیا وہی لکھا۔مسکراہٹ بار بار ایک ایک سطر بار بار پڑھنے پر آئی۔۔کیا جادوائی تحریر ہے اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے۔۔
جیتے رہیے !بہت ساری دعائیں ۔۔۔ ڈھیروں داد پر بھی !حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔۔۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس قدر خوبصورت اور دلنشین انداز کہ ایک بار نہیں بار بار پڑھا پھر بھی دل بھرا نہیں ۔ایک ایک لفظ جیسا محسوس کیا وہی لکھا۔مسکراہٹ بار بار ایک ایک سطر بار بار پڑھنے پر آئی۔۔کیا جادوائی تحریر ہے اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے۔۔
جیتے رہیے !بہت ساری دعائیں ۔۔۔ ڈھیروں داد پر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔۔۔
شکریہ آپا۔۔۔۔ حوصلہ افزائی پر شکرگزار ہوں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہت زبردست تحریر نین بھیا۔
چائے پینے کے ساتھ پڑھنا شروع کی آپ کی تحریر۔ ایسی پر لطف تحریر کہ چائے پینا ہی بھول گئے۔ ٹھنڈی پڑ گئی ہے بیچاری۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھی شگفتہ تحریر ہے!
بنیادی کردار کااچھا تعارف کروایا ہے اور یہ ایک طویل سلسلے کا اچھا آغاز لگ رہاہے ۔ اسے جاری رکھیے ، ذوالقرنین۔
 
Top