مجموعہ نظم شبلی اردو مع سوانح عمری

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 20

گیا وہ وقت جب تھا بس اسی کا نام ہمدردی
کہ وہ آنسو بہا لیں قوم کی درماندہ حالت پر

گیا وہ وقت ہمکو ناصحوں کی جب ضرورت تہی
فلک نے کر دیا اک اک کو آپ اپنا نصیحت گر

گئے وہ دن کہ ہم محتاج تھے عبرت دلانے کے
ہمارا حال خود عبرت فزا ہے آج سر تا سر

ضرورت اب ہے گر ہمکو تو بس ہے ان بزرگوں کی
کہ جنمیں خیر سے کچھ کر دکھانے کے بھی ہوں جوہر

فقط باتیں نہوں کچھ کام بھی بن آئے ہاتھوں سے
کہیں جو کچہہ وہ منہ سے کر دکھائیں اس سے کچھ بڑہکر

نہیں گر یہ تو بس اک گرمی صحبت کے ساماں ہیں
یہ قومی مرثیے یہ وعظ یہ اسپیچ، یہ لکچر

طلب اور سعی سے کچھ کام بن آئے تو بن آئے
فصاحت اور بلاغت کا بس اب چلتا نہیں منتر

تمہیں جو کام ہیں درپیش گو مشکل سے مشکل ہیں
مگر کرنے پہ آ جاؤ تو آساں سے ہیں آسان تر

ابھی تک تم میں ہے اسلاف کا کچھ کچھ اثر باقی
شرر کو بجھ چکے پر گرم ہے اب تک وہ خاکستر

ابھی کچھ کچھ مہک باقی ہے ان مرجھائے پھولوں میں
ابھی کچھ کاٹ ہے، اس تیغ میں گو مٹ چکے جوہر

وہی فیاضیاں تم میں ہیں جو تمہیں معن و حاتم میں
مگر بیہودہ رسموں کیلئے وہ وقف ہیں یک سر

کچھ اس کم ہوا تھا صرف تجہیز اسامہ میں
لٹا دیتے ہو تقریبوں میں جتنا تم زر و زیور

فقط آپس کے جھگڑوں میں تم اس سے کام لیتے ہو
وہ جودت اور ذہانت جسمیں اب بھی ہو تم نام آور

سنبھلنا اب بھی گر چاہو تو ہے وقت اور ضرورت بھی
وگرنہ پھر نہیں رہنے کی جو کچھ ہے یہ حالت بھی
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

غزلیات
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشاں چھوڑا نہ ہر کہیں کا
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا رنیں کا

بھلی تھی تقدیر یا بُری تھی یہ راز کس طرح سے عیاں ہو
بتوں کو سجدے کئے ہیں اتنے کہ مٹ گیا سب لکھا جبیں کا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 21

وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہ اگلی ہی سی شرارتیں ہیں
سیانے ہونگے تو ہاں بھی ہو گی ابھی تو سن ہے نہیں نہیں کا

یہ نظم آئین، یہ طرز بندش، سخنوری ہے، فسوں گری ہے
کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلی مزہ ہے طرز علی حزیں کا
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

تیر قاتل کا یہ احسان رہ گیا
جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا

کی ذرا دست جنوں نے کوتہی
چاک آ کر تابداماں رہ گیا

دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ
جادہ راہ بیاباں رہ گیا

قتل ہو کر بھی سبکدوشی کہاں
تیغ کا گردں پہ احساں رہ گیا

ہم تو پہنچے بزم جاناں تک مگر
شکوہ بیداد درماں رہ گیا

کیا قیامت ہے کہ کوئے یار سے
ہم تو نکلے اور ارماں رہ گیا

دوسروں پر کیا کھلے راز دہن
جبکہ خود صانع سے پیکاں رہ گیا

جامہ ہستی بھی اب تن پر نہیں
دیکھ وحشی تیرا عریاں رہ گیا

ضعف مرنے بھی نہیں دیتا مجھے
میں اجل سے بھی تو پنہاں رہ گیا

اے جنوں تجھ سے سمجھ لوں گا اگر
ایک بھی تار گریباں رہ گیا

حسن چمکا یار کا، اب آفتاب
اک چراغ زیر داماں رہ گیا

لوگ پہنچے منزل مقصود تک
میں جرس کی طرح نالاں رہ گیا

بزم میں ہر سادہ رو تیرے حضور
صورت آئینہ حیراں رہ گیا

یاد رکھنا دوستو اس بزم میں
آ کے شبلی بھی غزل خواں رہ گیا
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا
رخصت صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 22

شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا
وہ بھی کیا رات تھی کیا عالم تنہائی تھا

میں تھا یا دیدہ خوں نابہ فشاں بھی شب ہجر
ان کو واں مشغلہ انجمن آرائی تھا

پارہ ہائے دل خونیں کی طلب تھی پہیم
شب جو آنکھوں کو مرے ذوق خود آرائی تھا

رحم تو ایک طرف پایہ شناسی دیکھو
قیس کو کہتے ہیں مجنون تھا صحرائی تھا

آنکھیں قاتل سہی پر زندہ جو کرنا ہوتا
لب میں اے جان تو اعجاز مسیحائی تھا

خون رو رو دے بس دو ہی قدم میں چھالے
یاں وہی حوصلہ بادیہ پیمائی تھا

دشمن جاں تھے ادھر ہجر میں درد غم و رنج
اور ادھر ایک اکیلا ترا شیدائی تھا

انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رخ پہیم
جس طرح بزم میں وہ کافر ترسائی تھا

کون اس راہ سے گذرا ہے کہ ہر نقش قدم
چشم عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا

خوب وقت آئے نکیرین جزا دیگا خدا
لحدِ تیرہ میں کیا عالم تنہائی تھا

ہم نے بھی حضرت شبلی کی زیارت کی تھی
یوں تو ظاہر میں مقدس تھا پہ شیدائی تھا
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں
واعظ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں

پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال
ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں

اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش
میں ذرا عمر گذشتہ کی تلافی کر لوں

کچھ تو ہو چارہ غم بات تو یکسو ہو جائے
تم خفا ہو تو اجل ہی کو میں راضی کر لوں

اور پھر کس کو پسند آئے گا ویرانہ دل
غم سے مانا بھی کہ اس گھر کو میں خالی کر لوں

جور گردوں سے جو مرنیکی بھی فرصت ملجائے
امتحان دم جاں پرور عیسی کر لوں

دل ہی ملتا نہیں سفلوں سے وگرنہ شبلی
خوب گذرے فلک دوں سے جو یاری کر لوں
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
غم اُٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہمکو

درد فرقت سے ترے ضعف ہے ایسا ہو کو
خوب میں ترے دشوار ہے آنا ہم کو​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 23

جوش وحشت میں ہو کیا ہمکو بھلا فکر لباس
بس کفایت ہے جنوں دامن صحرا ہم کو

رہبری کی دہن یار کی جانب خط نے
خضر نے چشمہ حیواں یہ دکھایا ہم کو

دل گرا اس کے زنخداں میں فریب خط سے
چاہ خس پوش تھا اے وائے نہ سوجھا ہمکو

واہ کاہیدگی جسم بھی کیا کام آئی
بزم میں تھے پہ رقیبوں نے نہ دیکھا ہمکو

قالب جسم میں جان آ گئی گویا شبلی
معجزہ فکر نے اپنی یہ دکھایا ہم کو
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

کچھ اکیلی نہیں میری قسمت
غم کو بھی ساتھ لگا لائی ہے

منتظر دیر سے تھے تم میرے
اب جو تشریف صبا لائی ہے

نگہت زلف غبار رہِ دوست
آخر اس کوچہ سے کیا لائی ہے

موت بھی روٹھ گئی تھی مجھسے
یہ شب ہجر منا لائی ہے

مجکو لے جا کے مری آنکھ وہاں
اک تماشا سا دکھا لائی ہے

آہ کو سوئے اثر بھیجا تھا
واں سے کیا جانیے کیا لائی ہے

شبلی زار سے کہدے کوئی
مژدہ وصل صبا لائی ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے
گل تر کو ہوس خار نہ ہونے پائے

اس میں درپردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ
شکوہ چرخ بھی زنہار نہونے پائے

فتنہ حشر جو آنا تو دبے پاؤں ذرا
بخت خفتہ مرا بیدار نہونے پائے

ہائے دل کھول کے کچھ کہہ نہ سکے سوز دروں
آبلے ہم سخن خار نہونے پائے

چپکے وہ آتے ہیں گلگشت کو اے باد صبا
سبزہ باغ بھی بیدار نہونے پائے

پھر کہیں جوش میں آ جائیں نہ یہ دیدہ تر
سامنے ابر گہر بار نہونے پائے

باغ کی سیر کو جاتے تو ہو پر یاد رہے
سبزہ بیگانہ ہے دو چار نہونے پائے

جمع کر لیجئے غمزوں کو مگر خوبی برم
بس وہیں تک ہے کہ بازار نہونے پائے

آپ جاتے ہیں اس بزم میں لیکن شبلی
حال دل دیکھئے اظہار نہونے پائے​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 24

متفرقات
نوجوانوں سے خطاب

کئے تھے ہم نے بھی کچھ کام جو کچھ ہم سے بن آئے
یہ قصہ جب کا ہے باقی تھا جب عہد شباب اپنا

اور اب تو سچ یہ ہے جو کچھ امیدیں ہیں وہ ہیں تمسے
جوان ہو تم لب بام آ چکا ہے آفتاب اپنا
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

حضرت اکبر الہ آبادی کے رقعہ دعوت کا جواب

آج دعوت میں نہ انے کا مجھے بھی ہے ملال
لیکن اسباب کچھ ایسے ہیں کہ مجبور ہوں میں

آپ کے لطف و کرم کا مجھے انکار نہیں
حلقہ درگوش ہوں ممنون ہوں مشکور ہونمیں

لیکن اب میں وہ نہیں ہوں کہ پڑا پھرتا تھا
اب تو اللہ کے افضال سے تیمور ہوں میں

دل کے بہلانے کی باتیں ہیں یہ شبلی ورنہ
جیتے جی مردہ ہوں مرحوم ہوں مغفور ہوں میں
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

سیرۃ نبوی کی تکمیل

مصارف کی طرف سے مطمئن ہوں میں بہر صورت
کہ ابر فیض سلطان جہاں بیگم زرافسان ہے

رہی تالیف و تنقید روایتہائے تاریخی
تو اسکے واسطے حاضر مرا دل ہے مری جان ہے

غرض دو ہاتھ ہیں اس کام کے انجام میں شامل
کہ جسمیں اک فقیر بینوا ہے ایک سلطان ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 25

ایک ناتمام نظم

اک شہر میں کہ پایہ تخت قدیم ہے
پچہلے پہر سے آج عجب شور و شین ہے

دیوار و در سے تہنیت فتح ہے بلند
غل ہے کہ آج عیش ہے راحت ہے چین ہے

پرچم ہیں بیرقیں ہیں علم ہیں نشان ہیں
گویا کہ وقت برہمی مشرقین ہے

مسند نشین ہے تخت حکومت پہ جلوہ گر
دربار ہے کہ جلوہ گہ زیب و زین ہے

ہیں بے حجاب پر وہ گیان حریم قدس
جن کی زبان پہ شور ہے نوحہ ہے بین ہے

تاکید ان سے ہے کہ ادب سے کھڑی ہیں
یعنی یہ احترام شہی فرض عین ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

شہر آشوب اسلام

ریاستہائے بلقان نے ملکر ایک ساتہہ ترکی پر حملہ کیا تھا۔ اور اس سے ترکی جو جو نقصان عظیم اٹھانا پڑا اس پر تمام دنیائے اسلام نے خون کے آنسو بہائے تھے۔ ان ہی اشک فشانیوں کے چند قطرات یہ ہیں۔

حکومت پر زوال آیا تو نام و نشاں کبتک
چراغ کشتہ محفل سے اُٹھے گا دُہواں کبتک

قبائے سلطنت کے گر فلک نے کر دئے پرزے
فضائے آسمانی میں اُڑیں گی دھجیاں کبتک

مراکش جا چکا، فارس گیا، اب دیکھنا یہ ہے
کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض سخت جاں کبتک

یہ سیلاب بلا بلقان سے جو بڑھتا آتا ہے
اُسے روکے گا مظلومونکی آہوں کا دہواں کبتک

یہ سب ہیں رقص بسمل کا تماشا دیکھنے والے
یہ سیران کو دکھائے گا شہید نیم جاں کبتک

یہ وہ ہیں نالہ مظلوم کی لئے جنکو بھاتی ہے
یہ رات اُنکو سُنائے گا یتیم ناتواں کبتک
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

کوئی پوچھے کہ اے تہذیب انسانی کے استادو
یہ ظلم آرائیاں تاکے یہ حشر انگیزیاں کبتک

یہ جوشِ انگیزیِ طوفانِ بیداد و بلاتا کے
یہ لطف اندوزی ہنگامہ آہ و فغاں کبتک​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 26

یہ مانا تمکو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے
ہماری گردنوں پر ہو گا اس کا امتحان کبتک

نگارستان خون کی سیر گر تم نے نہیں دیکھی
تو ہم دکھلائیں تمکو زخمہائے خوں چکاں کبتک

یہ مانا گرمی محفل کے ساماں چاہئیں تم کو
دکھائیں ہم تمہیں ہنگامہ آہ و فغاں کبتک

یہ مانا قصہ غم سے تمہارا جی بہلتا ہے
سنائیں تمکو اپنے درد دل کی داستاں کبتک

یہ مانا تمکو شکوہ ہے فلک سے خشک سالی کا
ہم اپنے خون سے سینچیں تمہاری کھیتیاں کبتک

عروس بخت کی خاطر تمہیں درکار ہے افشاں
ہمارے زرہ ہائے خاک ہونگے درافشاں کبتک

کہاں تک لو گے ہمسے انتقام فتح ایوبی
دکھاؤ گے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کبتک

سمجہکر یہ کہ دھندلے سے نشان رفتگاں ہم ہیں
مٹاؤ گے ہمارا اس طرح نام و نشاں کبتک

زوال دولت عثمان زوال شرع ملت ہے
عزیزو فکر فرزند و عیال و خانماں کبتک

خدارا تم یہ سمجھے بھی کہ یہ طیاریاں کیا ہیں
نہ سمجھے اب تو پھر سمجہو گے تم یہ چتیاں کبتک

پرستاران خاکِ کعبہ دنیا سے اگر اٹھے
تو پھر یہ احترام سجدہ گاہِ قدسیاں کبتک

جو گونج اُٹھے گا عالم شور ناقوس کلیسا سے
تو پھر یہ نغمہ توحید و گلبانگ اذاں کبتک

بکھرتے جاتے ہیں شیرازہ اوراق اسلامی
چلیں گی تند باد کفر کی یہ اندھیاں کبتک

کہیں اُڑ کر نہ دامانِ حرم کو بہی یہ چھو آئے
غبار کفر کی یہ بے محابا شوخیاں کبتک

حرم کی ہمت بھی صیدافگنونکی جب نگاہیں ہیں
تو پھر سمجہو کہ مرغان حرم کی آشیاں کبتک

جو ہجرت کر کے بھی جائیں تو شبلی اب کہاں جائیں
کہ اب امن و امان و شام و نجد و قیرواں کبتک
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مساوات

بدر میں معرکہ آرا جو ہوا لشکر کفر
عتہ ابن ربیعہ تھا امیر العسکر

سب سے پہلے وہی میدان میں بڑھا تیغ بکف
ساتھ اک بھائی تھا اور بھائی کے پہلو میں پسر

اس طرح اُس نے مبارز طلبی کی پہلے
مرد میداں کوئی تم میں ہو تو نکلے باہر

بڑھ کے یہ لشکر اسلام سے نکلے پہیم
تین جانباز کہ ایک ایک تھا اس کا ہمسر​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 27

سامنے آئے جو یہ لوگ تو عتبہ نہ کہا
کس قبیلہ سے ہو کیا ہے نسب جد و پدر

بولے ہم وہ ہیں کہ ہے نام ہمارا انصار
ہم میں شیدائی اسلام ہے ہر فرد و بشر

جاں نثاران رسول عربی ہیں ہم لوگ
اک اشارہ ہو تو ہم کاٹکے رکھ دیتے ہیں سر

بولا عتبہ کہ بجا کہتے ہو جو کہتے ہو
مگر افسوس کہ مغرور سے اولاد مضر

تم سے لڑنا تو ہمارے لئے ہے مایہ عار
کہ نہیں تیغ قریشی کے سزاوار یہ سر

کہہ کہ یہ سرور عالم سے کیا اس نے خطاب
اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) یہ نہیں شیوہ ارباب ہنر

جنگ ناجنس سے معذور ہیں ہم آل قریش
بھیج ان کو جو ہوں رتبے میں ہمارے ہم سر

آپ کے حکم سے انصار پھر آئے صف میں
حمزہ و حیدر کرار نے لی تیغ و سپر

ان سے عتبہ نے جو پوچھا نسب و نام و نشان
بولے یہ لوگ کہ ہاشم کے ہیں ہم لخت جگر

بولا عتبہ کہ نہیں جنگ سے اب ہم کو گریز
آؤ اب تیغ قریشی کے دکھائیں جوھر

یا یہ حالت تھی کہ تلوار بھی تھی طالب کفو
یا مساوات کا اسلام کے پھیلا یہ اثر

بارگاہِ نبوی کے جو موذن تھے بلال
کر چکے تھے جو غلامی میں کئی سال بسر

جب یہ چاہا کہ کریں عقد مدینے میں کہیں
جا کے انصار و مہاجر سے کہا یہ کھل کر

میں غلام حبشی اور حبشی زادہ بھی ہوں
یہ بھی سن لو کہ مرے پاس نہیں دولت و زر

ان فضائل پہ مجھے خواہش تزویج بھی ہے
ہے کوئی جس کو نہ ہو میری قرابت سے حذر

گردنیں جھک کے یہ کہتی تھیں دل سے منظور
جس طرف اس حبشی زادہ کی اٹھتی تھی نظر

عہد فاروق میں جس دن کہ ہوئی انکی وفات
یہ کہا حضرت فاروق نے بادیدہ تر

اُٹھ گیا آج زمانہ سے ہمارا آقا
اُٹھ گیا آج نقیب حشم پیغمبر
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

خلافت فاروقی کا ایک واقعہ

عام الرمادہ کہتے ہیں جس کو عرب میں لوگ
عہد خلافت عمری کا وہ سال تھا

اس سال قحط عام تھا کہ ملک میں
لوگوں کو بھوک پیاس سے جینا محال تھا

پانی کی ایک بوند نہ ٹپکی تھی ابر سے
ہر خاص و عام سخت پراگندہ حال تھا

اعراب کی بسر حشرات زمیں پہ تھی
سب اُٹھ گیا جو فرق حلال و حرام تھا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 28

تشویش سب سے بڑھکر جناب عمر کو بھی
ہر دم اسی کی فکر اسی کا خیال تھا

تدبیر لاکھ کی تھی مگر رک سکا نہ قحط
گو انتظام ملک میں ان کو کمال تھا

معمول تھا جناب عمر کا کہ متصل
کرتے تھے گشت رات کا سونا بحال تھا

ایک دن کا واقعہ ہے کہ پہنچے جو دشت میں
کوسوں تلک زمین پہ خیموں کا جال تھا

بچے کئی تھے ایک ضعیفہ کی گود میں
جن میں کوئی بڑا تھا کوئی خورد سال تھا

دیکھا جو اس کو یہ کہ پکاتی ہے کوئی چیز
جاتا رہا جو طبع حزیں پر ملال تھا

سمجھے کہ اب وہ ملک کی حالت نہیں رہی
کم ہو چلا ہے قحط کو جو اشتعال تھا

پوچھا خود اس سے جا کے تو رونے لگی وہ
کیا آپ کو غذا کا بھی یاں احتمال تھا

بچے یہ تین دن سے تڑپتے ہیں خاک پر
میں کیا کہوں زبان سے جو ان کا حال تھا

مجبور ہو کے ان کے بہلنے کے واسطے
پانی چڑھا دیا ہے یہ اس کا ابال تھا

ان سے یہ کہدیا ہے کہ اب مطمئن رہو
کھانا یہ پک رہا ہے اسی کا خیال تھا

بے اختیار رونے لگے حضرت عمر
بولے کہ یہ مرے ہی کئے کا وبال تھا

جو کچھ ہے یہ سب ہے مری شامتِ عمل
ازبس گناہگار مرا بال بال تھا

بازار جا کے لائے سب اسباب آب و نان
جو زخم قحط کا سبب اندمال تھا

چولھے کے پاس بیٹھ کے خود پھونکتے تھے آگ
چہرہ تمام آگ کی گرمی سے لال تھا

بچوں نے پیٹ بھر کے کھایا تو کھل اُٹھے
ایک ایک اب تو فرط خوشی سے نہال تھا

تھی وہ زن ضعیف سراپا زبان شکر
یاں حضرت عمر کو وہی انفعال تھا

عہدہو عمر کو یہ جو ملاتجھ سے چھین کر
جو کچھ گزر رہا ہے یہ اس کا وبال تھا
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

عدل فاروقی کا ایک واقعہ

ایک دن حضرت فاروق نے ممبر پہ کہا
میں تمہیں حکم جو کچہہ دوں تو کرو گے منظور

ایک نے اُٹھ کے کہا یہ کہ مانیں گے کبھی
کہ ترے عدل میں ہمکو نظر آتا ہے فتور

چادریں مال غنیمت میں جو اب کے آئیں
صحن مسجد میں وہ تقسیم ہوئیں سب کے حضور

ان میں ہر ایک کے حصہ میں فقط ایک آئی
تھا تمہارا بھی وہی حق کہ یہی ہے دستور​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 29

اب جو یہ جسم پہ تیرے نظر آتا ہے لباس
یہ اسی لوٹ کی چادر سے بنا ہو گا ضرور

مختصر تھی وہ ردا اور ترا قد ہے دراز
ایک چادر میں ترا جسم نہ ہو گا مستور

اپنے حصے سے زیادہ جو لیا تو نے تو اب
تو خلافت کے نہ قابل ہے نہ ہم ہیں مامور

گرچہ وہ حد مناسب سے بڑھا جاتا تھا
سب کے سب مہر بہ لب تھے چہ اناث و چہ ذکور

روک دے کوئی کسی کہ یہ نہ رکھتا تھا مجال
نشہ عدل و مساوات میں سب تھے مخمور

اپنے فرزند سے فاروق معظم نے کہا
تم کو ہے حالت اصلی کی حقیقت پہ عبور

تم ہی دے سکتے ہو اسکا مری جانب سے جواب
کہ نہ پکڑے مجھے محشر میں مرا رب غفور

بولے یہ ابن عمر سب سے مخاطب ہو کر
اس میں کچھ والد ماجد کا نہیں جرم قصور

ایک چادر میں جو پورا نہ ہوا ان کا لباس
کر سکی اس کو گوارا نہ میری طبع غیور

اپنے حصہ کی یبھی میں نے انھیں چادر دیدی
واقعہ کی یہ حقیقت ہے کہ جو تھی مستور

نکتہ چیں نے یہ کہا اٹھ کے اے فاروق
حکم دے ہمکو کہ اب ہم اسے مانیں گے ضرور
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

مسجد نبوی کی تعمیر

ہجرت کے بعد آپ نے پہلا کیا جو کام
تعمیر سجدہ گاہ خدائے انام تھا

ایک قطعہ زمین تھا کہ اس کام کے لئے
واقع میں ہر لحاظ سے موزوں مقام تھا

وہ قطعہ زمین تھا یتیموں کی ملک خاص
ہر چند قبرگاہ و گذرگاہ عام تھا

چاہا حضور نے کہ بہ قیمت خرید لیں
ان کے مربیوں سے کہا جو پیام تھا

ایتام نے حضور میں آ کر یہ عرض کی
یہ چیز ہی ہے کیا کہ جو یہ اہتمام تھا

یہ ہدیہ حقیر پذیرا کریں حضور
اللہ اس زمین کا یہ احترام تھا

لیکن حضور نے نہ گوارا کیا اسے
منت کشی سے آپ کو پرہیز تام تھا

احسان اور وہ بھی یتیمان زار کا
بالکل خلاف طبع رسول انام تھا

بارہ ہزار سکہ رائج عطا کئے
یہ تھا وہ خلق جس سے مخالف بھی رام تھا

سامان جو ضرور ہیں تعمیر کے لئے
اب ان کی فکر مشغلہ صبح و شام تھا

مزدور کی تلاش بھی تھی سنگ و گل کی بھی
ازبسکہ جلد بننے کا خاص اہتمام تھا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 30

انصار پاک اور مہاجر تھے جس قدر
مزدور بن گئے کہ خدا کا یہ کام تھا

اک روز نفس پاک بھی ان سب کا تھا شریک
جو آب و گل کے شغل میں بھی شاد کام تھا

کندہوں پہ اپنے لاد کے لاتا تھا سنگ و خشت
سینہ غبار خاک سے سب گرد فام تھا

سمجھے کچھ آپ کون تھا ان کا شریک حال
یہ خود وجود پاک رسول انام تھا

جو وجہ آفرینش افلاک و عرش ہے
جس کا کہ جبرئیل بھی ادنٰے غلام تھا

صلوا علی النبی و اصحابہ الکرام
اس نظم مختصر کا یہ مسک الختام تھا
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

ایک خاتون کی آزادانہ گستاخی اور رسول اللہ کا حلم و عفو

ہند تھی پردہ نشین حرم بوسفیاں
لقب ہند جگر خوار سے جوہے مشہور

بارگاہِ نبوی میں وہ ہوئی جب حاضر
اس ارادہ سے کہ ہو داخل ارباب حضور

عرض کی خدمت اقدس میں کہ اے ختم رسل
دین اسلام ہے مجہکو بدل و جان منظور

آپ ہم پردہ نشینوں سے جو بیعت لیں گے
کون سے کام ہیں جن کا برتنا ہے ضرور

آپ نے لطف و عنایت سے یہ ارشاد کیا
پہلی یہ بات کہ شائبہ شرک سے دور

دوسری یہ کہ نبوت کا ہے لازم اقرار
بولی ان باتوں سے انکار نہیں مجہکو حضور

پھر یہ ارشاد ہوا منع ہے اولاد کا قتل
اس شقاوت سے ہر اک شخص کو بچنا ہے ضرور

عرض کی اس نے کہ اے شمع شبستان رسل
یہ وہ موقع ہے کہ عاجز ہے یہاں فہم و شعور

میں نے اولاد کو پالا تھا بڑی محنت سے
میں انھیں آنکھ میں رکھتی تھی کہ تھے آنکھ کا نور

بدر میں قتل انہیں حضرت والا نے کیا
ہمسے کیا عہد اب اس بات کا لیتے ہیں حضور

اگرچہ یہ سوٗ ادب تھا غلطی پر مبنی
گرچہ یہ بات تھی خود شیوہ انصاف سے دور

اسکی اولاد نے خود جنگ میں کی تھی سبقت
لڑ کے مارا جائے کوئی تو یہ کس کا ہے قصور

لیکن آزادہ افکار تھی ازبسکہ پسند
آپ نے فرط کرم سے اسے رکھا معذور
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

ہمارا طرز حکومت

کبھی ہم نے بھی کی تھی حکمرانی ان ممالک پر
مگر وہ حکمرانی جس کا سکہ جان و دل پر تھا

قرابت راجگان ہند سے اکبر نے جب چاہی
کہ یہ رشتہ عروس کشور آرائی کا زیور تھا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 31

تو خود فرماں دہ جیپور نے نسبت کی خواہش کی
اگرچہ آپ بھی وہ صاحب دیہیم و افسر تھا

ولی عہدِ حکومت اور خود شاہنشہِ اکبر
گئے انبیر تک جو تخت گاہِ ملک و کشور تھا

ادھر راجہ کو نور دیدہ گھر میں حجلہ آرا تھی
ادھر شہزادہ پر چتر عروسی سایہ گستر تھا

دلہن کو گھر سے منزل گاہ تک اس شان سے لائے
کہ کوسوں تک زمیں پر فرش دیئائے مشجر تھا

دلہن کی پالکی خود اپنے کندہونپر جو لائے تھے
وہ شاہنشاہ اکبر اور جہانگیر ابن اکبر تھا

یہی ہیں وہ شمیم انگیزیاں عطر محبت کی
کہ جنسے بوستان ہند برسوں تک معطر تھا

تمہیں لے دیکے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا
کہ عالمگیر ہندوکش تھا ظالم تھا ستمگر تھا
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

تنزل اسلام کا اصلی سبب

لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات ہے اب امر صریح
کہ زمانہ میں کہیں عزت اسلام نہیں

آپ چاہیں گے جہاں قوم کو پائینگے ذلیل
اس میں تخصیص عراق و عرب و شام نہیں

یہ بھی ظاہر ہے کہ ہیں مختلف الحال یہ لوگ
کوئی چیز ان میں جو ہو مشترک عام نہیں

ایشیائی ہے اگر یہ تو وہ ہے افریقی
اور کوئی رابطہ نامہ و پیغام نہیں

لالہ رخ یہ ہے تو زنگی و سیہ فام ہے وہ
یہ نمبر ہے وہ موزون و خوش اندام نہیں

اس نے گہوارہ راھت میں بسر کی ہے عمر
وہ کبھی خوگر آسایش و آرام نہیں

وہ ازل سے ہے کمند افگن و شمشیر نواز
اس جو جز عیش کسی چیز سے کچھ کام نہیں

خوان ایوان سے بھی سیری نہیں ہوتی اسکو
اس کو گر نان جویں بھی ہو تو ابرام نہیں

اس نے یورپ کے مدارس میں جو سیکھے ہیں علوم
وہ ابھی ابجدتعلیم سے بھی رام نہیں

اسقدر فرق و تفاوت پہ بھی ہے عام یہ بات
قوم کا دفتر عزت میں کہیں نام نہیں

پس اگر غور سے دیکھو تو بجز مذہب و دین
ہم مسلمانوں میں کوئی صفت عام نہیں

ان اصولوں کی بنا پر یہ نتیجہ ہے صریح
سبب پستی اسلام جُز اسلام نہیں

ان مسائل میں ہے کچھ ژرف نگاہی درکار
یہ حقائق ہیں تماشائے لب بام نہیں

غور کرنے کے لئے فکر و تعمق ہے ضرور
منزل خاص ہے یہ راہ گزر عام نہیں

بحثِ مافیہ میں پہلی غلطی یہ ہے کہ آپ
جس کو اسلام سمجہتے ہیں وہ اسلام نہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 32

آپ کھانے کو نیا دیتے ہیں پہلے مسموم
پھر یہ کہتے ہیں غذا موجب اسقام نہیں

اعتقادات میں ہے سب سے مقدم توحید
آپ اس وصف کو ڈہونڈیں و کہیں نام نہیں

کون ہے شائبہ کفر سے خالی اس وقت
کون ہے جس پہ فریب ہوس خام نہیں

آستانوں کی زیارت کے لئے شدِ رحال
اس میں کیا شان پرستاری اصنام نہیں

کیجئے مسئلہ شرک نبوت پہ جو غور
کفر میں بھی یہ جہانگیری اوہام نہیں

اب عمل پر جو نظر کیجئے آئے گا نظر
کہ کسی ملک میں پابندی احکام نہیں

اغنیا کی ہے یہ حالت کہ نہیں ہے وہ رئیس
جس کے چہرہ پہ فروغ مئے گلفام نہیں

نص قرآن سے مسلمان ہیں بھائی بھائی
اس اخوت میں خصوصیتِ اعمام نہیں

یاں یہ حالت ہے کہ بھائی کا ہے بھائی دشمن
کونسا گھر ہے جہاں یہ روش عام نہیں

نہ کہیں صدق و دیانت ہے نہ پابندی عہد
دل ہیں نہ صاف زبانوں میں جو دشنام نہیں

آیت فاعتبروا پڑہتے ہیں ہر روز مگر
علما کو خبر گردشِ ایام نہیں

الغرض عام ہے وہ چیز جو بے دینی ہے
صاف یہ بات ہے دہوکا نہیں ابہام نہیں

ان حقائق کی بنا پر سببِ پستیِ قوم
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

مذہب یا سیاست

تم کسی قوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھو
دو ہی باتیں ہیں کہ جن پر ہے ترقی کا مدار

یہ کوئی جذبہ دینی تھا کہ جس نے دم میں
کر دیا ذرہ افسردہ کو ہمرنگ شرار

ہے یہ وہ قوتِ پر زور کہ جس کی تکرار
سنگ خارا کو بنا دیتی ہے اک مشتِ غبار

اس کی زد کھا کے لرز جاتی ہے بنیاد زمین
اس سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں اوراق دیار

یہ اسی کا تھا کرشمہ کہ عرب کے بچے
کھیلنے جاتے تھے ایوان کسریٰ میں شکار

وہ الٹ دیتے تھے دنیا کا مرقع دم میں
جنکے ہاتھوں میں رہا کرتی تھی اونٹونکی مہار

اس کی برکت تھی کہ صحرائے حجازی کی سموم
بن گئی دہر میں جا کے چمن آرائے بہار

یہ اسی کا تھا کرشمہ کہ عرب کے رہزن
فاش کرنے لگے جبریل امیں کے اسرار​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 33

یا کوئی جاذبہ ملک و وطن تھا جس نے
کر دئے دم میں قوائے عملی سب بیدار

ہے اسی مے سے یہ سرمستی احرار وطن
ہے اسی نشہ سے یہ گرمی ہنگامہ کار

آپ دونوں سے کئے دیتے ہیں ہمکو محروم
نہ سیاست ہے، نہ ناموس شریعت کا وقار

مدتوں بحث سیاست کی اجازت ہی نہ تھی
کہ وفاداری مسلم کا تھا یہ خاص وقار

اب اجازت ہے مگر دائرہ بحث یہ ہے
کہ گورنمنٹ سے اس بات کے ہوں عرض گزار

ہم کو پامال کئے دیتے ہیں ابنائے وطن
ڈر ہے پس جائے نہ یہ فرقہ اخلاص شعار

یہ بھی اک گونہ شکایت ہے غلاموں کو ضرور
کہ مناصب میں ہے کم حلقہ بگوشوں کا شمار

اب رہا جذبہ دینی تو وہ اس طرح مٹا
کہ ہمیں آپ ہی آتا ہے اب اس نام سے عار

وضع میں طرز میں اخلاق میں سیرت میں کہیں
نظر آتے نہیں کچھ حرمت دین کے آثار

آپ نے ہمکو سکھائے ہیں جو یورپ کے علوم
اس ضرورت سے نہیں قوم کو ہرگز انکار

بحث یہ ہے کہ وہ اس طرز سے بھی ممکن تھا
کہ نہ گھٹتا کبھی ناموس شریعت کا وقار

ہمنے پہلے بھی تو اغیار کے سیکھے تھے علوم
ہمنے پہلے بھی تو اس نشہ کا دیکھا ہے خمار

نام لیتے تھے ارسطو کا ادب سے ہر چند
تھے فلاطوں الٰہی کے بھی گو شکر گزار

جانتے تھے مگر اس بات کو بھی اہل نظر
کہ حریفوں کو نہیں انجمن خاص میں بار

یعنی یہ بادہ عرفان کے نہیں ذوق شناس
بزم اسرار کے یہ لوگ نہیں بادہ گسار

آج ہر بات میں ہے شان تفرج پیدا
آج ہر رنگ میں یورپ کے نمایاں ہیں شعار

ہیں شریعت کے مسائل بھی وہیں تک مقبول
کہ جہاں تک انہیں معقول بتائیں اغیار
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

ہجرت نبوی

جبکہ آمادہ خوں ہو گئے کفار قریش
لاجرم سرور عالم نے کیا عزم سفر

کوئی نوکر تھا نہ خادم نہ برادر نہ عزیز
گھر سے نکلے بھی تو اس شان سے نکلے سرور

اک فقط حضرت ابوبکر تھے ہمراہ رکاب
اُنکی اخلاق شعاری تھی جو منظور نظر

رات بھر چلتے تھے دن کو کہیں چھپ رہتے تھے
کہ کہیں دیکھ نہ پائے کوئی امادہ شر​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 36

تیرے لطف و کرم عام نے دیدی یہ ندا
کوئی مجرم ہے نہ قیدی ہے نہ زندانی ہے

تو نے اک آن میں گرتا ہوا گھر تھام لیا
بازؤوں میں یہ تیرے زور جہانبانی ہے

بات رکھ لی تری تقریر نے احکام کی بھی
گرچہ لازم انہیں اظہار پشیمانی ہے

ترے دربار میں پہنچیں گے جو اوراق سپاس
اُن میں یہ پیشکشِ شبلی نعمانی ہے

گرچہ مدحِ امراٗ میں نے نہیں کی ہے کبھی
شکر احسان مگر اک فطرتِ انسانی ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

اسلام کا نظام حکومت

جب ولی عہد ہوا تخت حکومت کا یزید
عامل یثرب و بطحا کو یہ پہنچے احکام

کہ ولی عہد کا بھی اب سے پرھے نام ضرور
خطبہ پڑھتا ہے حریم نبوی میں جو امام

وقت آیا تو چڑھا پایہ ممبر پہ خطیب
اور کہا یہ کہ یزید اب ہے امیر اسلام

یہ نئی بات نیں ہے کہ ابوبکر و عمر
جانشین کر گئے جب موت کا پہنچا پیغام

جھوٹ ہے یہ کہ ہے یہ سنتِ ابوبکر و عمر
سربسر کذب ہے یہ اے خلف نسل لئام

اپنے بیٹے کو بنایا تھا خلیفہ کس نے
ایسی بدعت کا نہیں مذہب اسلام میں نام

یہ طریقہ متوارث ہے تو کفار میں ہے
ورنہ اسلام ہے اک مجلس شوراے کا نظام

شان اسلام ہے شخصیتِ ذاتی سے بعید
شرع میں سلطنتِ خاص ہے ممنوع و حرام

اس سے بھی قطع نظر نسل عرب ہیں ہملوگ
وہ کوئی اور ہیں جو ہوتے ہیں شاہونکے غلام
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

ایثار کی اعلٰی ترین نظیر

کافروں نے یہ کیا جنگ احد میں مشہور
کہ پیمبر بھی ہوئے کشتہ شمشیر دو دم

ہو کے مشہور مدینے میں پہنچی یہ خبر
ہر گلی کوچہ تھا ماتم کدہ حسرت و غم

ہو کے بیتاب گھروں سے نکل ائے باہر
کودک و پیر و جوان و خدم و خیل و حشم

وہ بھی نکلیں کہ جو تھیں پردہ نشینان و عفاف
جن میں تھیں سیدہ پاک بھی بادیدہ نم

ایک خاتون کہ انصار نکو نام سے تھیں
سخت مضطر تھیں نہ تھی ہوش و حواس اُنکے بہم​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 37

موقع جنگ پہ پہنچیں تو یہ لوگوں نے کہا
کیا کہیں تجھ سے کہ کہتے ہوئے شرماتے ہیں ہم

تیرے بھائی نے لڑائی میں شہادت پائی
تیرے والد بھی ہوئے کشتہ شمشیر ستم

سب سے بڑھکر یہ کہ شوہر بھی ہوا تیرا شہید
گھر کا گھر صاف ہوا ٹوٹ پڑا کوہِ الم

اُس عفیفہ نے یہ سب سن کے کہا تو یہ کہا
یہ تو بتلاؤ کہ کیسے ہیں شہشناہ امم

سب نے دی اُسکو بشارت کہ سلامت ہیں حضور
گرچہ زخمی ہیں سر و سینہ و پہلے و شکم

بڑھ کے اُسنے رُخ اقدس کو جو دیکھا تو کہا
تو سلامت ہے تو پھر ہیچ ہیں سب رنج و الم

میں بھی اور باپ بھی شوہر بھی برادر بھی فدا
اے شہ دیں ترے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

منکر بے بودن ہ ہمرنگ مستان ریستین

معترض ہیں مجھ پہ میرے مہربانان قدیم
جرم یہ ہے میں نے کیو چھوڑا وہ آئین کہن

میں نے کیوں لکھے مضامین سیاست پے بہ پے
کیوں نہ کی تقلید طرز رہنما یان زمن؟

کانگرس سے مجہکو اظہار براٗت کیوں نہیں
کیوں حقوق ملک میں ہوں ہندوونکا ہم سخن

خیر میں تو شامت اعمال سے جو ہوں وہ ہوں
آپ تو فرمائیے کیوں اپنے بدلا چلن

آپ نے شملہ میں جا کے کی تھی جو کچھ گفتگو
ماحصل اس کا فقط یہ تھا پس ازتمہید فن

سعی بازو سے ملیں جب ہندؤونکو کچھ حقوق
اس میں کچھ حصہ ملے ہم کو بھی بہر پنجتن

لیکن اب تو آپ کی بھی کھلتی جاتی ہے زبان
آپ بھی اب تو اڑاتے ہیں وہی طرز سخن

اب تو مسلم لیگ کو بھی خواب آتے ہیں نظر
اب تو ہے کچہہ اور طرز نغمہ مرغ چمن

ملک پر اپنی حکومت چاہتے ہیں آپ بھی
تھا یہی تو منتہائے فکرِ یاران وطن

آپ نے بھی ابتو نصب العین رکھا ہے وہی
کانگرس کا ابتدا سے ہے جو موضوع سخن

آپ بھی تو جادہ (سید) سے اب ہیں منحرف
ابتو اوراق وفا پر آپ کے بھی ہے شکن

جب یہ حالت ہے تو پھر ہمپر ہے کیوں خشم و عتاب
منکرمی بودن ہ ہمرنگ مستاں زیستن
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
احرار قوم اور طفل سیاست

یہ اعتراض آپ کا بیشک صحیح ہے
احرار قوم میں ہیں بہت خامیاں ابھی​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 38

چلتے ہیں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
گم گشتہ طریق ہے یہ کارواں ابھی

زود اعتقادیاں ہیں تلون ہے وہم ہے
ہو جاتے ہیں ہر ایک سے یہ بدگماں ابھی

دل میں نہ عزم ہے نہ ارادوں میں ہے ثبات
جھیلے نہیں ہیں معرکہ امتحاں ابھی

بے اعتدالیاں ہیں ادائے کلام میں
باہر ہے اختیار سے اُن کے زباں ابھی

ہر دم ہیں گو مسائل ملکی زبان پر؟
ان میں سے ایک بھی تو نہیں نکتہ داں ابھی

یہ سب بجا درست مگر سچ جو پوچھئے
جو کچھ کہ ہے یہ ہے اثر رفتگاں ابھی

یہ ہے اسی سیاست پارینہ کا اثر
گو شمع بجھ چکی ہے مگر ہے دھواں ابھی

موزوں نہیں ہے جنبش اعضا تو کیا عجب
شب کے خمار ہیں یہ انگڑائیاں ابھی

چلنے میں لڑگھڑاتے ہیں اک اک قدم پہ پاؤں
چھوٹے ہیں قید سخت سے یہ سخت جاں ابھی

بیکار کر دیئے تھے جو خود بازوئے عمل
گو کھینچتے ہیں پر نہیں کھینچتی کماں ابھی

آئے کہاں سے قوتِ رفتار پاؤں میں
کچھ بیڑیاں ہیں پاؤں کی بند گراں ابھی

غوں غاں ہے کچھ مباحث ملکی نہیں ہیں یہ
اک طفل ہے سیاست ہندوستاں ابھی
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

عدل جہانگیری

قصر شاہی میں کہ ممکن نہیں غیرونکا گذر
ایک دن نور جہاں بام پہ تھی جلوہ فگن

کوئی شامت زدہ رہ گیر اُدھر آ نکلا
گرچہ تھی قصر میں ہرچار طرف سے قدغن

غیرتِ حسن سے بیگم نے طمنچہ مارا
خاک پر ڈھیر تھا اک کشتہ بے گور و کفن

ساتھ ہی شاہ جہانگیر کو پہنچی جو خبر
غیظ میں آ گئے ابروئے عدالت پہ شکن

حکم بھیجا کہ کنیزان شبستان شہی
جا کے پوچھ آئیں کہ سچ یا کہ غلط ہے یہ سخن

نخوتِ حُسن سے بیگم نے بصد ناز کہا
میری جانب سے کرو عرض یہ آئین حسن

ہاں مجھے واقعہ قتل سے انکار نہیں
مجھے سے ناموس حیا نے یہ کہا تھا کہ بزن

اس کی گستاخ نگاہی نے کیا اسکو ہلاک
کشور حُسن میں جاری ہے یہی شرع کہن

مفتیِ دیں سے جہانگیر نے فتویٰ پوچھا
کہ شریعت میں کسی کو نہیں کچھ جائے سخن​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 39

مفتی دیں نے یہ بیخوف و خطر صاف کہا
شرع کہتی ہے کہ قاتل کی اڑا دو گردن

لوگ دربار میں اس حکم سے تھرا اٹھے
پر جہانگیر کی ابرو پہ نہ بل تھا نہ شکن

ترکنوں کو یہ دیا حکم کہ اندر جا کر
پہلے بیگم کو کریں بستہ زنجیر و رسَن

پھر اسی طرح اُسے کھینچ کے باہر لائیں
اور جلاد کو دیں حکم کہ ہاں تیغ بزن

یہ وہی نور جہاں ہے کہ حقیقت میں یہی
تھی جہانگیر کے پردہ میں شہنشاہ زمن

اسکی پیشانیِ نازک پہ جو پڑتی تھی گرہ
جا کے بن جاتی تھی اوراق حکومت پہ شکن

اب نہ وہ نور جہاں ہے نہ وہ انداز و غرور
نہ وہ غمزے ہیں نہ وہ عربدہ صبر شکن

ایک مجرم ہے کہ جس کو کائی حامی نہ شفیع
ایک بیکس ہے کہ جس کا نہ کوئی گھر نہ وطن

خدمتِ شاہ میں بیگم نے یہ بھیجا پیغام
خوں بہا بھی تو شریعت میں ہے اک امر حسن

مفتی شرع سے پھر شاہ نے فتویٰ پوچھا
بولے جائز ہے رضا مند ہوں گر بچہ وزن

وارثوں کو جو دیئے لاکھ درہم بیگم نے
سب نے دربار میں کی عرض کہ اے شاہ زمن

ہم کو مقتول کا لینا نہیں منظور قصاص
قتل کا حکم جو رک جائے تو ہے مستحسن

ہو چکا جبکہ شہنشاہ کو پورا یقین
کہ نہیں اس میں کوئی شائبہ حیلہ و فن

اُٹھ کے دربار سے آہستہ چلا سوئے حرم
تھی جہاں نور جہاں معتکف بیت حزن

دفعتہً پاؤں پہ بیگم کے گرا اور یہ کہا
تو اگر کشتہ شدی آہ چہ میگروم من
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار نہیں

اک روز جرمنوں نے کہا ازرہ غرور
آساں نہیں ہے فتح تو دشوار بھی نہیں

برطانیہ کی فوج ہے دس لاکھ سے بھی کم
اُسپر یہ لطف ہے کہ وہ تیار بھی نہیں

باقی رہا فرانس تو وہ رندلم یزل
آئین شناسِ شیوہ پیکار بھی نہیں

میں نے کہا غلط ہے ترا دعوائے غرور
دیوانہ تو نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں

ہم لوگ اہل ہند ہیں جرمن سے دس گنے
تجھکو تمیز اندک و بسیار بھی نہیں

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں​
 
Top