مجموعہ نظم شبلی اردو مع سوانح عمری

شمشاد

لائبریرین
بمنہ و کرمہ

مجموعہ نظم شبلی اردو
مع
سوانح عمری
جسمیں

حضرت مولانا مرحوم کی تمام اردو نظمیں لکھی گئی ہیں۔ ہر ایک نظم کمال شاعری کا گنجینہ اور تاریخی واقعات کا آئینہ ہے۔ ان کے علاوہ مرحوم کی زندگی کے حالات مولانا عبد الحلیم صاحب شرر لکھنوی کے قلم سے اس میں اضافہ کئے گئے ہیں۔

مرتبہ

سید ظہور الحسن صاحب موسوی تاجر کتب و قومی پریس دہلی چھتہ لال میاں
اعلٰی پریس دہلی سے چھپوا کر شائع کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 1

تماشائے عبرت

یعنے وہ

قومی مسدس

جسکو علامہ شبلی نے قومی تھیڑ علیگڈھ میں اپنے پردرد و پُر سوز لہجہ میں پڑھا تھا۔

آج کی رات یہ کیوں جمع ہیں احباب بہم
بھیڑ کیا ہے نظر آتا ہے یہ کیسا عالم

نوجوانان ہنر پرور و ارباب ہمم
جوق کے جوق چلے آتے ہیں کیسے پیہم

کچھ سمجھ میں نہیں آتا جو سب سمجھے ہیں
شاید اس بزم کو یہ بزم طرب سمجھے ہیں

ہے گمان ان کو کہ آیا ہے تھئیڑ کوئی
یا کہ اس سے بھی تماشا ہے یہ بڑھ کر کوئی

اس سبھا میں بھی نظر آئے گا اندر کوئی
مسخرہ بن کے بھی آئے گا مقرر کوئی

نقل وہ ہو گی کہ دیکھی نہ سنی ہو گی کبھی
سیر وہ آج کریں گے کہ نہ کی ہو گی کبھی

کوئی کہتا ہے تھیٹر تو نہیں ہے لیکن
ساز و نغمہ بھی نہ ہو ساتھ نہیں ہے ممکن

راتیں گاٹی ہیں اسی شوق میں تارے گن گن
دیکھیں کیا سیر دکھائیں یہ بزرگان مُسِن

کچھ نہ کچھ تازہ کرامات تو ہو گی آخر
بوڑھے غمزوں میں کوئی بات تو ہو گی آخر

دوستو کیا تمہیں سچ مچ تھیٹر کا یقین
کیا یہ سمجہے تھے کہ پردہ کوئی ہو گا رنگین

نظر آئے گی جو سوئی ہوئی اک زہرہ جبین
آئے گا پھول کے لینے کو ارم کا گلچین​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 2

قوم کی بزم کو یوں کھیل تماشا سمجھے
ہائے گر آپ یہ سمجھے بھی تو بیجا سمجھے

ہائے افسوس کہ ہو قوم تو یوں خستہ و زار
مرض الموت میں جس طرح سے کوئی بیمار

نہ معالج ہو کوئی پاس نہ سر پر غمخوار
نظر آتے ہوں دم نزع کے سارے آثار

واں تو یہ حال کہ مرنے بھی کچھ دیر نہیں
آپ ادھر سیر تماشے سے ابھی سیر نہیں

نوحہ غم ہے، یہاں نغمہ عشرت کیسا
ہے یہ عبر کا سماں جوش مسرت کیسا

ہے جنوں خیز یہ ہنگامہ عبرت کیسا
قوم کا حال ہے غفلت کی بدولت کیسا

ہے عجب سیر اگر دیدہ بینا دیکھے
دیکھنا ہو جسے عبرت کا تماشا دیکھے

ہائے کیا سین ہے یہ بھی کہ گر وہ شرفا
صاحب افسر و اورنگ تھے جنکے آبا

قوم کے عقدہ مشکل کے ہیں جو عقدہ کشا
ایکٹر بن کے وہ اسٹیج پر ہیں جلوہ نما

قوم کے خوابِ پریشاں کی یہ تعبیریں ہیں
ایکٹر یہ نہیں عبرت کی یہ تصویریں ہیں

بانی مدرسہ وہ سید والا گوہر
وہ مینیجنگ کمیتی کے معزز ممبر

شبلی غمزدہ وہ شاعر اعجاز اثر
اور یہ نو بادہ اقبال کے سب برگ و ثمر

نہ تکلیف کے کچھ انداز نہ کچھ جاہ کی شان
بزم میں آئے ہیں اس حال سے اللہ کی شان

اپنے رتبوں کا نہ کچھ دھیان نہ کچھ وضع کا پاس
دوستوں سے نہ جھجک اور نہ دشمن سے ہراس

گرچہ سب کہتے ہیں حاصل نہیں کچہہ بھی جزیاس
ہائے کیا دھن ہے کہ پھر بھی تو نہیں ٹوٹتی آس

غرض مطلب کی ہے تصویر سراپا ان کا
ہاتھ خود کاسہ دریوزہ ہے گویا اُن کا

ان کا ہر لفظ ہے اک مرثیہ جاں فرسا
قوم کی شان دکھا دیتی ہے ایک ایک ادا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ - 3

دیکھ اے قوم جو ابتک نہ تھا تو نے دیکھا
اپنے بگڑے ہوئے انداز کا پورا خاکا

گرچہ تدبیر بھی ہم سے نہیں کچہہ کی جاتی
ہائے حالت بھی تو تیری نہیں دیکھی جاتی

یوں بھلانے کو تو ہم دل سے بھلاتے ہیں مگر
یاد آ جاتے ہیں پھر بھی ترے اگلے جوہر

وہ بھی اکدن تھا کہ جس سمت سے ہوتا تھا گذر
ساتھ چلتے تھے جلو میں ترے اقبال و ظفر

تو کبھی روم میں قیصر کو مٹا کر آئی
کبھی یورپ میں نئے فتنے اٹھا کر آئی

تھے نقیبوں میں ترے دولت و اقبال و حشم
ترے حملوں سے دہل جاتا تھا سارا عالم

ایشیا کو جو کیا تو نے مرقع برھم
جا کے یورپ کے افق پر بھی اڑایا پرچم

کر دیا دفتر ِ تاتار کو ابتر تو نے
نیزہ گاڑا تھا جگر گاہ تتر پر تو نے

کون تھا جس نے فارس و یوناں تاراج
کس کی آمد میں فدا کر دیا جیپال نے راج

کس کو کسریٰ نے دیا تخت و زر وافر و تاج
کس کے دربار میں تاتار سے آتا تھا خراج

تجھپہ اے قوم اثر کرتا ہے افسوں جن کا
یہ وہی تھے کہ رگوں میں ہے ترے خوں جن کا

ہم نے مانا بھی کہ دل سے بھلا دیں قصے
یہ سمجہہ لیں کہ ہم ایسے ہی تھے اب ہیں جیسے

یہ بھی منظور ہے ہم کو کہ ہمارے بچے
دیکھنے پائیں نہ تاریخ عرب کے صفحے

کبھی نہ بھولے بھی سلف کو نہ کریں یاد اگر
یادگاروں کو زمانے سے مٹا دیں کیونکر

مردہ شیراز و صفاہان کے وہ زیبا منظر
بیت حمرا کے وہ ایوان وہ دیوار وہ در

مصر و غرناطہ و بغداد کا ایک ایک پتھر
اور وہ دہلی مرحوم کے بوسیدہ کھنڈر

ان کے ذروں میں چمکتے ہیں وہ جوہر ابتک
داستانیں انہیں سب یاد ہیں ازبر ابتک​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 4

ان سے سن کے کوئی افسانہ یارانِ وطن
یہ دکھا دیتی ہیں آنکھوں کو وہی خواب کہن

تیرے ہی نام کا اے یہ گاتے ہیں بھجن
تیرے ہی نغمہ پُردرد کے ہیں یہ ارگن

پوچھتا ہے جو کوئی ان سے نشانی تیری
یہ سنا دیتے ہیں سب رام کہانی تیری
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

اظہار و قبول حق

وارثِ عدل پیمبر عمر ابن الخطاب
ہیچ تھی جن کے لئے منزلت تاج و سریر

مجمع عام میں لوگوں سے انہوں نے یہ کہا
مَہر باندھو نہ زیادہ کہ ہے یہ بھی تبذیر

جس قدر تم کو ہو مقدور وہیں تک باندہو
حکم یہ عام ہے سب کو امرا ہوں کہ فقیر

ایک بڑھیا نے وہیں ٹوک کے فورا یہ کہا
تجہکو کیا حق ہے جو کرتا ہے ایسی تقریر

صاف قرآن میں قنطار کا لفظ آیا ہے
تجہکو کیا حق ہے کہ اس لفظ کی کر دے تغییر

لاکھ تک بھی ہو تو کہہ سکتے ہیں اس کو قنطار
تھا یہ اک وزن کہ اس وزن کی یہ ہے تعبیر

سرنگوں ہو کے کہا حضرت فاروق نے آہ
میں نہ تھا اس سے جو واقف تو یہ میری تقصیر
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

جزر و مد
الہلال کا لب و لہجہ


دیکھ کر حریتِ فکر کا یہ دورِ جدید
سوچتا ہوں کہ یہ آئین خرد ہے کہ نہیں

رہنماؤں کی یہ تحقیر یہ انداز کلام
اس میں کچھ شائبہ رشک و حسد ہے کہ نہیں

اعتراضات کا انبار جو آتا ہے نظر
اس میں کچھ قابل تسلیم و سند ہے کہ نہیں

نکتہ چینی کا یہ انداز یہ آئین سخن
بزم تہذیب میں مستوجب رد ہے کہ نہیں

جس نئی راہ میں ہیں بادیہ پیما یہ لوگ
گو اس جادہ مشکل کا بلد ہے کہ نہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 5

شاعروں نے جو نئی بچھائی ہے بساط
اسمیں ان پر بھی کہیں سے کوئی زد ہے کہ نہیں

پہلے گر شانِ غلامی تھی تو اب خیرہ سری
اس دوراہے میں کوئی پیچ کی حد ہے کہ نہیں

فیصلہ کرنے سے پہلے میں ذرا دیکھ تو لوں
"جزر" جیسا تھا اسی زور کا "مد" ہے کہ نہیں
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

مسلم لیگ

لیگ کے عظمت و جبروت سے انکار نہیں
ملک میں غلغلہ ہے شور ہے کہرام بھی ہے

ہے گورنمنٹ کی بھی اس پہ عنایت کی نگاہ
نظر لطف رئیسانِ خوش انجام بھی ہے

کون ہے جو نہیں اس حلقہ قومی کا اسیر
اسمیں زہاد بھی ہیں رندمے آشام بھی ہے

فیض ہے اس کا باندازہ طالب یعنی
بادہ صاف بھی ہے دُرِ دتہ جام بھی ہے

کعبہ قوم جو کہتے ہیں بجا کہتے ہیں
مرجع خاص ہے یہ قبلہ گہ عام بھی ہے

پختہ کاروں کے لئے آلہ تسخیر ہے یہ
نوجوانوں کو صلائے طمع خام بھی ہے

رہنما یانِ نوآموز کا ہے مکتب و درس
زینہ فخر و نمائش گرمی عام بھی ہے

جن مہمات میں درکار ہے اشیاٗ نفوس
ان میں طرزِ عمل بوسہ و پیغام بھی ہے

صدمہ مشہد و تبریز سے آنکھیں ہیں پر آب
دل میں غمخواری ترکانِ نکو نام بھی ہے

مختصر اس کے فضائل کوئی پوچھے تو یہ ہیں
محن قوم بھی ہے خادم حکام بھی ہے

ربط ہے اسکو گورنمنٹ سے بھی ملک سے بھی
جسطرح "صرف" میں ایک قاعدہ ادغام بھی ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-
اسکے آفس میں بھی ہر طرح کا سامان ہے درست
ورق سادہ بھی ہے کلکِ خوش اندام بھی ہے

ہیں قرینے سے سجائی ہوئی میزیں ہر سو
جابجا دفتر پارینہ احکام بھی ہے

چند بی اے ہیں سند یافتہ علم و عمل
کچھ اسسٹنٹ ہیں کچھ حلقہ خدام بھی ہے

ہوجو تعطیل میں تفریح سیاحت مقصود
سفرِ درجہ اول کے لئے دام بھی ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 6

یہ تو سب کچھ ہے مگر ایک گزارش ہے حضور
گرچہ یہ سوٗ ادب بھی ہے اور ابرام بھی ہے

مجھ سے آہستہ مرے کان میں ارشاد ہو یہ
"سال بھر حضرت والا کو کوئی کام بھی ہے"
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

خطاب
-*-*-*-*-*-*-*-*-
بہ رائٹ آنریبل سید امیر علی صاحب
-*-*-*-*-*-*-*-*-
اغماض چلتے وقت مروت سے دور تھا
اس وقت پاس آپ کا ہونا ضرور تھا

ہر چند لیگ کا لفن واپسیں ہے اب
اس دو روزہ پہ جس کو غرور تھا

وہ دن گئے کہ بتکدہ کو کہتے تھے حرم
وہ دن گئے کہ خاک کو دعوےٰ نور تھا

وہ دن گئے کہ شان غلامی کے ساتہہ بھی
ہر بوالہوس خمار سیاست میں چور تھا

وہ دن گئے کہ "شارع اول" کا حرف حرف
ہم پایہ کلام سخن گوئے طور تھا

وہ دن گئے کہ فتنہ آخر زماں کے بعد
گویا کہ اب امام زماں کا ظہور تھا

اب معترف ہیں دیدہ دران قدیم بھی
اس نقش سیمیا میں نظر کا قصور تھا

اس دست مرتعش نہ تھی قوتِ عمل
اک کاسہ تھی یہ سریر غرور تھا

یہ لمعہ سراب نہ تھا چشمہ بقا
یہ تیرگی تھی جس کو سمجہتے تھے نور تھا

آئین بندگی میں لملق کی شان تھی
اخلاص و صدق شائبہ مکر و زور تھا

ان کی دکان کی وہ ہوا اب اکھڑ چلی
جن کے گھروں میں جنس وفا کا وفور تھا

اب یہ کھلا کہ واقف سر تھا اس قدر
جو جس قدر مقام تقرب سے دورتھا

ہر دم برادران وطن کی بُرائیاں
ظاہر ہوا کہ فتنہ ارباب زور تھا

سب مٹ گیا سیاست سے سالہ کا طلسم
اک ٹھیس سی لگی تھی کہ شیشہ ہی چور تھا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 7

لے دے کے رہ گیا تھا سہارا بس آپکا
یہ جسم مردہ منتظر نفخ صور تھا

امید بھی کہ اب کی بدل جائینگے اصول
مٹ جائیگا نظام میں جو کچہہ فتور تھا

ہو گی کچھ ابھ نظامِ حکومت پہ گفتگو
جس دن کا منتظر کہ ہر اک بدشعور تھا

دیں گے برادرانِ وطن کو پیامِ صلح
آویزش عبث ہے ہر اک دل نفور تھا

یہ کیا ہوا کہ آپ نے بھی بیرخی سی کی
کیا آپ کو بھی راز نہاں پر عبور تھا

یا یہ سبب ہوا کہ پراگندہ تھا مزاج
ازبسکہ "آستانہ" میں شورِ نشور تھا

ممکن ہے اور بھی ہوں کچھ اسباب ناگزیر
یہ سب سہی پہ آپ کو آنا ضرور تھا
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

مسلم لیگ

لوگ کہتے ہیں کہ امادہ اصلاح ہے لیگ
یہ اگر سچ ہے تو ہم کو بھی کوئی جنگ نہیں

صیغہ راز سے کچھ کچھ یہ بھنک آتی ہے
کہ ہم آہنگی احباب سے اب ننگ نہیں

فرق اتنا تو بظاہر نظر آتا ہے ضرور
اب خوشامد کا ہر اک بات میں وہ رنگ نہیں

عرض مطلب میں زبان کچھ تو ہے کھلتی جاتی
گرچہ ابتک بھی حریفوں سے ہم آہنگ نہیں

وہ بھی اب نقد حکومت کو پرکھتے ہیں ضرور
جن کو ابتک بھی تمیز گہر و سنگ نہیں

قوم میں پھونکتے رہتے ہیں جو افسون وفا
ان کی افسانہ طرازی کا بھی وہ ڈھنگ نہیں

وہ بھی کہتے ہیں کہ اس جنس وفا کی قیمت
جس قدر ملتی ہے ذرہ کی بھی ہم آہنگ نہیں

آگے تھے حلقہ تقلید میں جو لوگ اسیر
سست رفتار تو اب بھی ہیں مگر سنگ نہیں
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
آپ لبرل جو نہیں ہیں تو بلا سے نہ سہی
یاں کسی کو طلب افسر و اورنگ نہیں

کام کرنے کے بہت سے ہیں جو کرنا چاہتے
اب بھی یہ دائرہ سعی و عمل تنگ نہیں

سال میں یہ جو تماشا سا ہوا کرتا ہے
کام کرنے کے یہ انداز نہیں ڈہنگ نہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 8

کچھ تو نظم و نسق ملک میں بھی دیجئے دخل
شیوہ حق طلبی ہے یہ کوئی جنگ نہیں

کچھ نہ کچھ نظم حکومت میں ہے اصلاح ضرور
ہم نہ مانیں گے کہ اس آئینہ میں زنگ نہیں

کم سے کم حاکم اضلاع تو ہوں اہل وطن
کیا ہزاروں میں کوئی صاحب فرہنگ نہیں
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

صلح کانفرنس کی شکست اور جنگ کا آغاز
سوٹ ایل سلف گورنمنٹ
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

دیکھا جو لیگ نے کہ ہوا خاتمہ تمام
ازبسکہ دست حق طلبی اب دراز ہے

کہنے لگے ہیں سب کہ سیاست کا یہ نظام
مقبول خاص و عام نہیں خانہ ساز ہے

تقسیم مشرقی نے عیاں کر دیا ہے سب
جو شاہ راہ حق میں نشیب و فراز ہے

مجبور ہو کے لیگ نے اُلٹا ہے یہ ورق
جو سربسر مرقع نیرنگ ساز ہے

چہرہ پہ ہے جو سلف گورنمنٹ کا نقاب
ہر دیدہ ور اسیر طلسم مجاز ہے

سمجھے نہ یہ کہ "سوٹ بل" کہ جو شرط ہے
تمہید سجدہ ہائے جبین نیاز ہے

سمجھے نہ لوگ یہ کہ یہی لفظ پرفریب
اس ملک میں طلسم غلامی کا راز ہے

سب یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب لیگ و کانگریس
دونوں کا ایک عرصہ گہ ترک و تاز ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-
جب تک کہ لوگ حلقہ بگوش خواص ہیں
جب تک زبان قوم خوشامد طراز ہے

جب تک ہیں لوگ عالم بالا سے مستفیض
جب تک بہم یہ دور "قدح ہائے راز" ہے

"احرار" سے کہو کہ نہیں کچھ امید "صلح"
مٹتا نہیں جو تفرقہ و امتیاز ہے

آزادی خیال پہ تم کو ہے گر غرور
تو لیگ کو بھی شانِ غلامی پہ ناز ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 9

مسلم لیگ

لیگ کو جب نظر آیا کہ چلی ہاتھ سے قوم
اک نیا روپ بھرا اس نے بانداز دگر

منظر عام پہ لوگوں سے کیا اسنے خطاب
کہ نہیں سلف گورنمنٹ سے اب ہمکو مفر

اِک ذرا سی مگر اس لفظ میں تخصیص بھی ہے
جس سے ہیں متفق اللفظ سب ارباب نظر

یعنی وہ سلف گورنمنٹ کہ ہو "سوٹ ابل"
یا کہ موزوں و مناسب ہو بالفاظ دِگر

یہ مسلم کہ ہر اک ملک کی حالت ہے جدا
جسکا آئین حکومت پہ بھی پڑتا ہے اثر

جو حکومت کہ کناڈا کے لئے موزوں ہے
ہے وہی مملکتِ ہند میں سرمایہ شر

ملک میں ہم بھی ہیں ہندو بھی ہیں عیسائی بھی
جو کہ ہیں نخل حکومت کے لئے برگ و ثمر

واقعی قید "مناسب" ہے بجا اور موزوں
آپ اس قید کو کس کام میں لائیں گے مگر

پہلے بھی آپ تو اس حصن میں لیتے تھے پناہ
پہلے بھی آپ اسی دشت میں تھے راہ پر

جب کبھی کوئی بھی تحریک سیاسی ہو گی
آپ اس قید مناسب کو بنائیں گے سپر

اب بھی ہیں جادہ مقصد کے وہی نقش قدم
اب بھی اوراقِ سیاست کا وہی ہے منظر

یہ وہی لفظ ہے مجموعہ صد گو نہ فریب
یہ وہی لفظ ہے سرمایہ صد گونہ ضرر

آپ ہر بار جو بڑھ بڑھ کے پلٹ آتے ہیں
ہے اسی شیوہ تعلیم غلامی کا اثر

آپ کے فلسفہ نو کے یہ الفاظ جدید
گو بظاہر ہیں فریبندہ ارباب بصر

ہے حقیقت میں اسی متن غلامی کی بہ شرح
ہے حقیقت میں اسی نخل سیاست کا ثمر

چند جملے جو زبانوں پہ چلے آتے ہیں
آپ دہراتے ہیں ہر بار باندازِ دگر

ایک ان میں سے ہے یہ بھی کہ "ابھی وقت نہیں"
ہے اسی لفظ کی تشریح باندازِ دگر

آج یہ لفظ "مناسب" جو نیا وضع ہوا
آپ اس لفظ کر ہر بار بنائیں گے سپر

آپ کے دائرہ بحث کا مرکز تھا یہی
آپ کی گردش پیہم کا یہی تھا محور

آپ اس دام سے برسوں بھی نہ چھوٹینگے کبھی
آپ اس کوچہ پرخم سے نہونگے سریر​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 10

آپ اس بھول بھلیاں سے نہ نکلینگے کبھی
دل سے جائے گا نہ تعلیم غلامی کا اثر

جب کہیں بھی کوئی پہلؤے غلامی ہو گا
ہر طرف پھر کے اسی نقطہ پہ ٹھہریگی نظر

اس قدر سرد مزاج اور پھر اس پر تبرید
خوف یہ ہے کہ پہنچ جائے نہ فالج کا اثر

آپ کچھ گرم دوائیں جو گوارا فرمائیں
ہم دعا کو یہ سمجھتے ہیں کہ ہو گا بہتر
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

لیگ
مع
سوٹ ایبل

لیگ کو سلف گورنمنٹ ہے اب پیش نظر
للہ الحمد کہ حل ہو گئی ساری مشکل

اب یہ بیجا ہے شکایت کہ وہ آزاد نہیں
اب یہ کہنا غلطی ہے کہ وہ ہے پاور گل

ملک کے جملہ مسائل کی یہی ہے بنیاد
اور جو کچھ ہے اسی چیز میں ہے سب شامل

لیگ نے حق طلبی میں جو یہ جرات کی ہے
واقعہ یہ ہے کہ مدح و ثنا کے قابل

کچھ تو ہے لیگ میں جس نے یہ کشش پیدا کی
آپ سے آپ جو کھینچتا ہے ادھر دامن دل

لیگ والوں نے جو اسٹیج پہ کی تقریریں
کر دیئے اس نے خیالات غلط سب باطل

اس دلیری سے ہر اک حرف ادا ہوتا تھا
بعض کہتے تھے کہ ہے سؤ ادب میں داخل

الغرض لیگ کے اور مجلس ملکی کے حدود
یوں ملے آ گے بہم بھر سے جیسے ساحل

ہاں تو اب عرض ہے یہ خدمت عالی میں جناب
کیجئے سلف گورنمنٹ کا مقصد حاصل

امتحانات سول کے لئے لندن کی یہ قید
ہے یہ رفتار ترقی کے لئے سخت مخل

یہ جو پیمایش اراضی کا ہے سی سالہ رواج
ملک کے حق میں ہے یہ زہر سے بڑھکر قاتل

جو مناسب کہ ولایت کیلئے ہیں مخصوص
آج ابنائے وطن بھی تو ہیں ان کے قابل

صیغہ فوج میں تخفیفِ مصارف ہے ضرور
سینہ ملک پہ افسوس کہ بھاری ہے یہ سل​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 11

لیگ نے سُن کے یہ سب مجھ سے بآہستہ کہا
آپ سمجھے کہ اس لفظ کا کیا تھا مجمل

ہم نے گو سلف گورنمنٹ کی خواہش کی تھی
شرط یہ بھی تو لگا دی تھی کہ ہو "سوٹ ایبل"

آپ جو کہتے ہیں وہ ہے حد ادراک سے دور
ہمکو اس خواب پریشاں میں نہ کیجئے شامل

وہ یہ باتیں ہیں جو مخصوص ہیں یورپ کیلئے
آپ طے پہلے غلامی کی تو کر لیں منزل
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

مسلم یونیورسٹی

گر خامشی سے فائدہ اخفائے راز ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجہنی محال ہے

-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

الحاق کی جو شرط نہ مانی جناب نے
کیا جانے کیا حضور کے دل میں خیال ہے

"مسلم" کے لفظ میں تو کوئی بات ہی نہ تھی
کیا اس میں بھی حضور کو کچھ احتمال ہے

اسباب سؤ ظن کے نئے کچھ عیاں ہوئے
یا پہلے ہی سے شیشہ خاطر میں بال ہے

ہم تو توازل سے حلقہ بگوشِ نیاز ہیں
یہ سر ہمیشہ زیر قدم پائمال ہے

ہمنے تو وہ ثنا و صفت کی حضور کی
جو خاص شیوہ صفتِ ذوالجلال ہے

آیا کبھی نہ حرف تمنا زبان پر
یاں تک تو ہمکو پاس ادب کا خیال ہے


اردو کے باب میں جو ذرا کھل گئی زبان
اب تک جبین پر عرقِ انفعال ہے

دامن غبار حق طلبی سے رہا ہے پاک
یہ فیضِ خاص رہبر دیرینہ سال ہے

آیا جو حریت کا کبھی دل میں وہم بھی
سمجھا دیا کہ جوشِ جنوں کا ابال ہے

اب تک اسی طریق پہ ہیں بندگان خاص
گو صحبتِ عوام کچہہ قیل و قال ہے

گردن جھکی ہوئی ہے زبان گو ہے شکوہ سنج
باطن ہے انقیاد جو ظاہر ملال ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 12

الحاق سے کچھ اور نہ تھا مدعائے خاص
بس اک عموم درس وفا کا خیال ہے

یعنی کہ پھیل کر یہ زمانہ کو گھیرے
ابتک جو مختصر یہ علیگڈھ کا جال ہے

یہ پالسی ہے شاہرہ عام قوم کی
اس سے کوئی الگ ہے تو وہ خال خال ہے

پھر بھی حضور کی نہ گئیں سرگرانیاں
پھر بھی گناہگار میرا بال بال ہے

اتنی سی آرزو بھی پذیرا نہ ہو سکی
اب کیا کہیں کہ اور بھی کچھ عرض حال ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
سنتے رہے غور سے یہ داستان غم
جب ختم ہو گئی تو یہ لب پر مقال ہے

حد سے اگر بڑھے گا تو ہو جائے گا مہ
وہ درس گاہ روئے وفا کا جو خال ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

یونیورسٹی

مایوس گو ترقی قومی سے میں نہیں
لیکن ابھی تلک تو یہ سوداے خام ہے

رائیں تمام کج ہیں خیالات سب غلط
گُم کردہ نجات ہر اک خاص و عام ہے

یہ تیس لاکھ قوم نے جو کر دیئے عطا
بے شبہہ عزم و ہمتِ عالی کا کام ہے

لیکن یہ گفتگو جو نئی چھڑ گئی ہے اب
یہ باعثِ تباہی ناموس و نام ہے

الحاق کی جو شرط نامنظور ہو سکی
اک غلغلہ ہے شور ہے غوغائے عام ہے

لبریز ہے تصور باطل سے ہر دماغ
ہر سینہ عرصہ گاہ ہوسہائے خام ہے

اب اسطرح چلتی ہے اک ایک کی زبان
گویا کہ ذوالفقار علی بے نیام ہے

دو کوڑیاں بھی جس نے نہ دیں آجتک کبھی
اسکی بھی نیند جوش جنوں میں حرام ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
اک غلغلہ بپا ہے کہ الحاق جب نہیں
پھر کس بنا پہ جامعہ قوم نام ہے

اسلام کے جو نام سے بھی متسم نہیں
اس کو تو دور ہی سے ہمارا سلام ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 13

مسلم نہیں تو جامعہ قوم بھی نہیں
پھر کیوں یہ شور غلغلہ و اہتمام ہے

چندے لئے گئے تھے اسی شرط پر تمام
یہ نقض عہد ہے کہ جو شرعاً حرام ہے

یہ درس گاہ خاص نہ تھا مدعائے عام
یہ وہ متاع ہی نہیں جس کا یہ دام ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
ان ابلہان قوم کو سمجھائے یہ کوئی
عالم کے کاروبار کا اک انتظام ہے

جس کی بنا تمام ہے تقسیم کار پر
یعنی ہر ایک شخص کا اک خاص کام ہے

عالم میں ہیں ہر اک کے فرائض جدا جدا
یہ مسئلہ مسلمہ خاص و عام ہے

ہے مقتدی کا فرض فقط امتثال امر
ارشاد و حکم منصب خاص امام ہے

تھا قوم کا جو فرض وہ تھا بس عطائے زر
آگے مقدسین علی گڈھ کا کام ہے

یہ بارگاہ خاص نہیں مجلس عوام
سمعاً و طاعتہً یہ ادب کا مقام ہے

مخصوص ہیں مناصب خاصان بارگاہ
تم کون ہو جا تم کو یہ سودائے خام ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

مسئلہ الحاق
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

مجھ کو حیرت تھی کہ تعلیم غلامی کے لئے
وہ نیا کون سا پہلو ہے کہ جو باقی ہے

پہلے جو نرم گہ خاص تھی اس فن کیلئے
آج جو کچھ ہے اُسی درس کی مشاقی ہے

اسکے ہوتے ہوئے پھر لیگ کی حاجت کیا تھی
جب وہی بادہ گلگوں ہے وہی ساقی ہے

فیض ہے عالمِ بالا کا ابھی تک جاری
استفادہ میں وہی شیوہ اشراقی ہے

غلطی سے جو نئی چیز سمجہتے ہیں اسے
یہ فقط دہم غلط کار کی خلاقی ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
شیخ صاحب نے کہا مجھ سے بانداز لطیف
اس میں اک راز ہے ایک نکتہ اشراقی ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
یوں تو ہیں جامعہ درس غلامی دونوں​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 14

فرق یہ ہے کہ وہ محدودیہ الحاقی ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

یونیورسٹی ڈیپوٹیشن
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

تھی سفارت کی جو تجویز بظاہر موزوں
اہل مجلس بھی بظاہر نظر آتے تھے خموش

دفعتہً دائرہ صدر سے اٹھا اک شخص
جس کی آزادی تقریر تھی غارتگر ہوش

اس نے اس زور سے تجویز پہ کی رد و قد
چونک اوٹھے وہ بھی جو بیٹھے ہوئے تھے پنبہ بگوش

اہل مجلس نے جو بدلا ہوا دیکھا انداز
ڈر ہوا یہ کہ کہیں اور نہ بڑھ جائے خروش

صدر محفل نے بُلا کر اُسے آہستہ کہا
کہ تو ہم شامل وفد سستی و ایں مایہ مجوش

بادہ جام سفارت مے مرد افگن تھا
ایک ہی جرعہ میں شیر جری تھا خاموش

اب نہ وہ طرز سخن تھا نہ وہ آزادی رائے
نہ وہ ہنگامہ طرازی تھی نہ وہ جوش و خروش

جس کی تقریر سے گونج اٹھتا تھا اجلاس کا ہال
اب وہ اک پیکر تصویر تھا بالکل خاموش

سخت حیرت تھی کہ اِک ذرہ خاکستر تھا
وہ شرارہ جو ابھی برق سے تھا دوش بدوش

دیکھتے ہیں تو حرارت کا کہیں نام نہیں
ہو گیا شعلہ سو زندہ بھڑک کر خس پوش

اہل ثروت سے یہ کہدو کہ مبارک ہو تمہیں
للہ الحمد ابھی ملک میں ہیں رائے فروش
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

یونیورسٹی اور الحاق
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

شرط الحاق پہ اصرار اور ایسا اصرار
شیوہ عقل نہیں بلکہ یہ ہے کج نگہی

درسگاہیں ہیں کہاں کیجئے جن کا الحاق
اور اگر ہیں بھی تو بیکار ہیں اطبل بہی​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 15

لوگ جس چیز کو کہتے ہیں "علی گڈھ کالج"
چشم بنیاد ہو تو ہے جامعہ قوم یہی

یہ وہی قبلہ حاجات ہے سونچیں تو ذرا
یہ وہی کعبہ مقصود ہے دیکھیں تو سہی

آج جو لوگ ہیں جمعیتِ قومی کے امام
جن کا ارشاد ہے ہمیایہ طغرائے شہی

سب کے سب متفق اللفظ یہی کہتے ہیں
اِنَ ھٰذا لَھُوَالحقُ وَاٰمَنتُ بِہ
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
قوم کا دیکھئے بچپن کہ سب سن کے کہا
جو کھلونا مجھے دکھلایا تھا لوں گی تو وہی
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

یونیورسٹی فونڈیشن کمیٹی کا اجلاس لکھنؤ
28 دسمبر 1912؁ عیسوی
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

یہ فیض ہے جماعت احرار کا ضرور
اب قوم کو جو شخص پرستی سے عار ہے

آزادی خیال کا جو کچھ کہ ہے اثر
یہ سب انہیں کے فیض کا منت گزار ہے

لیکن یہ دیکھنا ہے کہ یہ عزم یہ ترنگ
ہے دیرپا کہ جوشِ جنونِ بہار ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
اب کی جو لکھنؤ میں دکھایا گیا سماں
سچ پوچھئے تو مضحکہ روزگار ہے

دیکھا یہ پہلے دن کہ ہر اک گوشہ بساط
میدان رزم و عرصہ گہ گیرو دار ہے

غل ہے کہ وہ مقدمہ الجیش آ گیا
اب انتظار فوج یمین و یسار ہے

احرار کی صفوں کی صفیں ہیں جمی ہوئی
مجلس تمام عرصہ گہ کارزار ہے

اسٹیج پر ہر ایک بپھرتا ہے اس طرح
گویا حریف رسم و اسفند یار ہے

ہاتھ اٹھ رہے ہیں یا علم فتح ہے بلند
چلتی ہوئی زبان ہے یا ذوالفقار ہے

ہر نوجوان ہے نشہ آزادگی میں مست
جو ہے وہ حریت کا سر پر خمار ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 16

احرار کہہ رہے ہیں نہ مانیں گے ہم کبھی
ویٹو کا ویسرائے کو کیا اختیار ہے

الحاق اگر نہیں ہے تو یہ سعی ہے عبث
مسلم کا لفظ خاص ہمارا شعار ہے

جو والیان ملک کہ تھے زیب انجمن
سب دم بخود سے تھے کہ یہ کیا خلفشار ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

یا صبح دم جو دیکھئے آ کر تو بزم میں
نے وہ خروش وہ جوش نہ وہ گیرو دار ہے

ٹوٹی ہوئی صفیں ہیں علم سرنگوں ہیں سب
بازوئے تیغ گیر جو تھا رعشہ دار ہے

سازش کا ایک جال بچھایا ہے ہر طرف
ہر شخص اس کی فکر میں مصروف کار ہے

سر مستیاں ہیں دور قدح ہائے راز کی
ہر شخص حکمت عملی کا شکار ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
جو بات کل تلک سبب ننگ و عار تھی
وہ آج مایہ شرف و افتخار ہے

جس بار پر کہ نعرہ نفرین بلند تھا
اب وہ قبولِ خاطر ہر ذی وقار ہے

کل کہہ چکے ہیں کیا؟ یہ نہیں اب کسی کو یاد
اب نکتہ ہائے زیر لبی پر مدار ہے

خود آپ اپنے ہاتھ سے کھائی ہے گو شکست
کہتے ہیں پھر یہ فتح مبین یادگار ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
حیران تھے عوام کہ کیا ماجرا ہے یہ
یہ کیسا دو رنگی چمنِ روزگار ہے

احرار کا طریق عمل ہے اگر یہی
پھر کامیابیوں کا عبث انتظار ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

نالہ شبلی
بروفات برادر خرد مولوی محمد اسحق مرحوم وکیل ہائیکورٹ الہ آباد

وہ بھی تھا ایک دن کہ یہ وحشت سرائے دل
اک محشرِ نشاط و وفور سرور تھا

رنگینی خیال سے لبریز تھا دماغ
جو شعر تھا چراغ شبستان حور تھا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 17

سینہ میں تھا چمن کدہ صد امید نو
آنکھوں میں کیف بادہ ناز و غرور تھا

ایک ایک تھا ورق نوبہار حسن
ذروں کے رُخ پہ صبح سعادت کا نور تھا
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-
نظر آتا نہیں اب صبر کا پہلو مجھ کو
کام دیتے نہیں کچھ قوت بازو مجھ کو

شہر ویرانہ نظر آتا ہے ہر سو مجھ کو
ہائے افسوس کہاں چھوڑ گیا تو مجھ کو

جب وہ گجنینہ امید و تمنا نہ رہا
ایک بیکار زمانہ میں رہا یا نہ رہا

انتقالِ پدر پیر بھی دیکھا میں نے
ماتم مادر دلگیر بھی دیکھا میں نے

صدمہ رحلتِ ہمشیر بھی دیکھا میں نے
دو برادر کو جواں میر بھی دیکھا میں نے

یہ نمائش کدہ داغ عزیزاں تو نہیں
میرا سینہ ہے الٰہی یہ چراغاں تو نہیں
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

خلیفہ عمر بن عبد العزیز کا انصاف

پسر عبد عزیز اموی
عدل میں ثانی ابن الخطاب

جب ملا تخت خلافت اُنکو
ہو گیا گلشن گیتی شاداب

ایک شب گھر سے چلے بہر نماز
پڑ گیا جب رخ عالم پہ نقاب

کوئی آوارہ وطن تند مزاج
صحن مسجد میں تھا آلودہ خواب

پاؤں کا ان کے ٹہوکا جو لگا
جاگ اٹھا اور کیا انسے خطاب

خبر ہے کیا کوئی مجنون ہے تو
یا کچھ ہے تیری آنکھوں پہ حجاب

ہنس کے فرمایا کہ مجنوں نہیں
کچہہ نہیں مجھ میں جنوں کے اسباب

ہاں مگر ہو گئی مجھ سے تقصیر
آپ سے عفو کا طالب ہوں جناب​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 18

چوبدار نے کیا اس کو اسیر
چاہتے یہ تھے کہ دیں اس کو جواب

آپ نے روک دیا ان کو سہیں
پھر کیا ان سے یہ آہستہ خطاب

اس نے اک بات فقط پوچھی تھی
جو مناسب تھا دیا میں نے جواب

بات قطعی تو نہیں اس نے کی
پوچھتا کچھ نہیں شایانِ عتاب

اتنی سی بات پہ یہ جوش و غضب
اتنی سی بات پہ یہ خشم و عتاب

بیکسوں کو میں ستاؤں کیونکر
مجھکو دینا ہے قیامت میں جواب
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

دعَوت عمل
یہ نظم 1893ء کے اجلاس میں محمدن ایجوکیشنل کانفرنس میں پڑھی گئی تھی۔

بجا ہے آج اگر اس بزم میں یہ زیب و ساماں ہیں
یہ انکی بزم ہے جو یادگار نسل عدنان ہیں

خلیل اللہ سے مہمان نوازی جنکو پہنچی ہے
ہزاروں کوس سے آ آ کے وہ اس گھر میں مہمان ہیں

فقط اک جذبہ قومی انہیں واں کھینچ لایا ہے
جہاں زور حکومت ہے، نہ حاجب ہیں نہ دربان ہیں

ہماری خدمتوں کا وہ اٹھانے آئے ہیں احسان
کہ اسلامی جماعت پر ہزاروں جنکے احسان ہیں

ہنر میں علم میں اخلاق میں مجد اور شرافت میں
یہی وہ صورتیں ہیں جن پہ ہم تم آج نازاں ہیں

خدا نے انکو بخشی ہے حکومت اور سطوت بھی
کہ جسم سلطنت کے یہ جو ارح اوور ارکان ہیں

مگر ان کو کسی عزت پہ نازش ہے تو اس پر ہے
کہ یہ اسلام کے ہیں نام لیوا اور مسلمان ہیں

نہ عہدوں کا تفاوت ہے نہ کچھ حفظ مراتب ہے
یہاں جس سادگی سے یہ شریک بزم اخوان ہیں

معمر بھی ہیں ان میں نوجوان بھی اور کمسن بھی
مگر شان اخوت میں مدارج سب کے یکساں ہیں

یہ وہ ہیں جنمیں ہے اسلام کا ابتک اثر باقی
یہ وہ ہیں جو ہر نسل عدنانی کے پنہاں ہیں

انہیں کے بازوؤں میں زور تھا کشورستانی کا
انہیں کی یادگاریں جابجا ابتک نمایاں ہیں

یہ وہ ہیں جان و مال سے جو فدائے قوم و ملت ہیں
یہ وہ ہیں نام پر اسلام کے جو دل سے قربان ہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 19

نہ ہو گا ایک بھی دل درد قومی سے جو خالی ہو
بظاہر گرچہ سب مسرور ہیں خرم ہیں شادان ہیں

انہیں احساس ہے آئین و ملت کی تباہی کا
یہ واقف ہیں کہ بیڑے قوم کے اب غرق طوفان ہیں

انہیں معلوم ہے جس تاک میں ہے گردش گرداں
انہیں محسوس ہے جس گھات میں ایام دوران ہیں

خبر ہے انکو جس آواز میں چھوٹا بڑا ہے اب
یہ واقف ہیں کہ پہلے قوم کیا تھی اور کیا ہے اب

علاج اپنا ہم ابتک تو سمجہتے تھے کہ آسان ہے
مگر وہ درد نکلا جس کو ہم سمجہے تھے دربان ہے

دور ہر بار جب اپنا اثر الٹا ہی دکھلائے
تو بس سمجہو کہ اب بیمار کوئی دم کا مہمان ہے

جو سچ پوچھو تو ہے اسلامیوں کی بس یہی حالت
مرض دونا بڑھا دیتی ہے خود وہ شئے جو دربان ہے

سلف کا تذکرہ جو ہمت و غیر کا ہے افسوں
ہمارے حق میں وہ سرمایہ خواب پریشاں ہے

یہ افسانے بڑہاتے ہیں ہماری نیند کی شدت
یہ افسوں حق میں اپنے اور مدہوشی کا ساماں ہے

ہمیں احساس تک ہوتا نہیں اپنی تباہی کا
کہ سب پیش نظر اسلاف کی وہ شوکت و شان ہے

ہماری کلفتیں سب دور ہو جاتی ہیں یہ سن کر
کہہ دنیا آجتک اسلام کی ممنون احسان ہے

مزے لیتے ہیں پہروں تک کسی سے جب یہ سنتے ہیں
کہ یورپ دولت عباس کا ابتک ثنا خواں ہے

نہیں سہنے کو یاں گھر تک مگر چرچے یہ رہتے ہیں
یہ ابتک قصر حمرا قبلہ گاہِ رہ نورداں ہے

ہیں خود ان پرھ مگر اس زعم میں اتراتے پھرتے ہیں
کہ دنیا میں ہمیں سے زندہ ابتک نام یوناں ہے

نظر آتے ہیں ہم کو عیب اپنے خوبیاں بنکر
ہم اپنے جہل کو بھی یہ سمجھتے ہیں کہ عرفان ہے

بسر ہوتی ہے گر اوقات فیاضی پہ غیروں کی
تو سمجہے ہیں کہ بس زہد اور توکل کی یہی شان ہے

حمیت اور خود داری نہیں ہے مگر طبیعت میں
تو اچھا ہے کہ مسکینی تو اول شرط ایمان ہے

طبیعت میں اگر ہیں فتنہ پردازی کے کچھ جوہر
تو دعویٰ ہے کہ تدبیر اور سیاست فرض انسان ہے

وہ قوم اور وہ جماعت جن میں یہ اخلاق محکم ہیں
بلائیں اسپہ جو آئیں وہ کم ہیں اور بہت کم ہیں

یہ جو کچھ سن چکے ہو قوم کی تم حالت ابتر
نہ سمجہو یہ کہ ہے اس داستاں کا خاتمہ اسپر

ہماری سب سے بڑھ کر بدنصیبی جو ہے وہ یہ ہے
کہ بے پروا ہیں وہ بھی قوم کے جو آج ہیں لیڈر​
 
Top