مجموعہ نظم شبلی اردو مع سوانح عمری

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 40

تجزیہ و تغریہ

ہمیں جس چیز نے کھو دیا وہ تفریق و تجزی تھی
یہی وہ شے ہے جو بربادی مسلم کے درپے ہے

مگر اب تو در و دیوار تک اس کا اثر پہنچا
وضو خانہ الگ اک چیز ہے مسجد الگ شے ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

جنگ زرگری
معائنہ ندوۃ العلماء

کیا لطف ہے کہ حامی ندوہ ہیں اب وہ لوگ
جنکو کہ اس کے نام سے بھی اجتناب تھا

وہ لوگ جن کی رائے میں یہ ندوہ غریب
ایک بیہودہ خیال تھا یا ایک خواب تھا

وہ لوگ جن کی رائے میں تعلیم کا وہ طرز
اعلانِ جنگِ سید عالی جناب تھا

وہ لوگ جن کی رائے میں ندوہ حقیر
تعلیم مغربی کے لئے سدِ باب تھا

وہ لوگ جن رائے میں ندوہ کا وہ طلسم
سر تا قدم فریب دہِ شیخ و شاب تھا

ندوہ کا نام سنکے جو کھاتے تھے پیچ و تاب
جنکے لئے وہ موجب رنج و عذاب تھا

حیرت یہ ہے کہ مجمع دہلی میں یہ گروہ
ندوہ کے حل و عقد کا نائب مناب تھا

ندوہ پہ حرف گیر جو ہوتا تھا کوکئی شخص
وہ اس گروہ پاک کا وقف عتاب تھا

ندوہ میں کوئی نقص بتاتا تھا گر کوئی
اُن کی طرف سے ایک کا سو سو جواب تھا

سیارگان چرخ علی گڈھ تھے پیش پیش
جن میں کوئی قمر تھا کوئی آفتاب تھا

حیرت میں تھے تمام تماشائیان بزم
یعنی یہ کیا طلسم تھا، کیا انقلاب تھا

ندوہ کہاں کہاں وہ علی گڈھ کی انجمن
اُس بزم قدس میں یہ کہاں باریاب تھا

کس دن کی دوستی ہے یہ کب کا ہے ارتباط
یوں کب وہ مورد کرم بے حساب تھا

شایان آفرین ہے وہی ندوہ غریب
جو مدتوں سے موردِ خشم و عتاب تھا

سرشار ہے حمایت ندوہ میں وہ گروہ
جسکو کہ اُسکے ذکر سے بھی اجتناب تھا

یہ قصہ لطیف ابھی ناتمام ہے
جو کچھ بیان ہوا ہے وہ آغاز باب تھا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 41

آتا ہے اب معائنہ ندوہ کا وہ مشن
جو اختراع مجمع نصف شعار ہے

جن میں کچھ شریک نزاع قدیم ہیں
کچھ ابتدا سے بانی آغاز کار ہے

جن میں سے کوئی محکمہ راز کا شریک
مضمون آفتاب کا مضمون نگار ہے

خود کوزہ گر ہے خودِ گل کورہ بھی وہی
جو صلح ہے وہی روش کا رزار ہے

کیا شان ایزدی ہے وہی ندوہ علوم
جو مدعیِ رہبری روزگار ہے

جو مایہ امید ہے نسل جدید کا
جو کاروانِ رفتہ کی اب یادگار ہے

جس پر یہ حسنِ ظن ہے کہ یہ مجمع کرام
جس کا کہ مصر و شام میں ابتک وقار ہے

آیا تھا جس کے شوق میں وہ فاضل عرب
جس کا مرقع ادبی المنار ہے

چلتے ہیں جس کے نقش قدم پر حریف بھی
گو اعتراف حق سے ابھی اُنکو عار ہے

جس نے خطابت عربی کو دیا رواج
جو فنِ جرح و نقد کا آمرزگار ہے

جس نے بدل دیا روش و شیوہ قدیم
جو رہبر طریقہ اصلاح کار ہے

آتے ہیں اُس کی جانچ کو ناآشنائے فن
یہ انقلاب گردش لیل و نہار ہے

تعلیم مشرقی سے نہیں جنکو کچھ غرض
وہ اب نہ اُن کا نازکش اقتدار ہے

ارباب ریش وجبہ اقدس کا وہ گروہ
اب چند منشیوں کا اطاعت گزار ہے

یہ داستان درد یہ افسانہ الم
ندوہ کا نوحہ نفس اختصار ہے
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

بربادی خانماں

وہ برادر کہ میرا یوسف کنعانی تھا
وہ مجموعہ ہر خوبی انسانی تھا

وہ جو گہر بھر کے لئے رحمت یزدانی تھا
قوت دست و دل شبلی نعمانی تھا

بل اسی کا یہ مرے خامہ پُر زور میں تھا
جوش اسی کا تھا جو میرے سر پر شور میں تھا

ہم سے بیکارونکو اک قوت عامل تھا وہی
مایہ عزت اجداد کا حامل تھا وہی

مسند والدِ مرحوم کے قابل تھا وہی
یوں تو سب اور بھی اعضا ہیں مگر دل تھا وہی

اب وہ مجموعہ اخلاق کہاں سے لاؤں
ہائے افسوس میں اسحٰق کہاں سے لاؤں​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 42

جب کیا والد مرحوم نے دنیا سے سفر
گھر کا گھر تھا ہدف ناوک صد گونہ خطر

بن گیا آپ اکیلا وہ ہر آفت میں سپر
تیر جو آئے گیا آپ وہ اُن کی زد پر

خود گرفتار رہا، تاکہ میں آزاد رہوں
اُسنے غم اسلئے کھائے تھے کہ میں شاد رہوں

اس کا صدقہ تھا کہ ہر طرح سے تھا میں بے غم
گھر کے جھگڑوں سے نہ کچھ فکر نہ کچھ رنج و الم

امن و راحت کے جو سامان تھے ہر طرح بہم
میں تھا اور مشغلہ نامہ و قرطاس و قلم

اسکے صدقے سے تھی میری سخن آرائی بھی
اس کا ممنون تھا مرا گوشہ تنہائی بھی

تازہ تھا دل پہ مرے مہدی مرحوم کا داغ
کہ مرا قوت بازو تھا مرز چشم و چراغ

اُسکو جنت میں جو خالق نے دیا گنج فراغ
میں یہ کہتا تھا کہ اب بھی ہے تروتازہ یہ باغ

یعنی وہ آئینہ خوبی و اخلاق تو ہے
اُٹھ گیا مہدی مرحوم تو اسحاق تو ہے

آج افسوس کہ وہ نیر تاباں بھی گیا
میری حمیت خاطر کا وہ ساماں بھی گیا

اب وہ شیرازہ اوراق پریشاں بھی گیا
عتبہ والد مرحوم کا درباں بھی گیا

گلہ خوبی تقدیر رہا جاتا ہے
نوجواں جاتے ہیں اور پیر رہا جاتا ہے

تجھکو اے خاک لحد آج اجل نے سونپی
وہ امانت جو میرے والد مرحوم کی تھی

بسکہ فطرت میں ودیعت تھی نفاست طلبی
ناز پروردہ نعمت تھا بہ ایں سادہ وشی

دیکھنا اُڑ کے غبار آئے نہ دامن پہ کہیں
گرد پڑ جائے نہ اُس عارض روشن پہ کہیں

اسکے اخلاق کھٹک جاتے ہیں دل میں ہر بار
وہ شکر ریز تبسم وہ متانت وہ وقار

وہ وفا کیشی حباب وہ مردانہ شعار
وہ دل آویزی خو وہ نگہ الفت یار

صحبت رنج بھی اک لطف سے کٹ جاتی تھی
اُسکی ابرو پہ شکن آ کے پلٹ جاتی تھی

حق نے کی تھی کرم و لفط سے اُسکی تخمیر
خوبی خلق و تواضع میں نہ تھا اُس کا نظیر

بات جو کہتا تھا ہوتی تھی وہ پتھر کی لکیر
اُسکی ایک ذات تھی مجموعہ اوصاف کثیر

بسکہ خوش طبع بھی تھا صاحب تدبیر بھی تھا
سچ تو یہ ہے کہ وہ نوخیز بھی تھا پیر بھی تھا

اُسکو شہرت طلبی سے کبھی کچھ کام نہ تھا
وہ گرفتار کمند ہوس خام نہ تھا

اُسکی ہر بات میں ایک لطف تھا ابرام نہ تھا
وہ کبھی مدعی رہبری عام نہ تھا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 43

اُسکو مطلوب کبھی گرمی بازار نہ تھی
اُسکی جو بات تھی کردار تھی گفتار نہ تھی

اُسکو معلوم جو تھا وسعت تعلیم کا راز
اُسنے دیکھے تھے جو منزل کے نشیب اور فراز

اُس نے یہ کام نئی طرح کیا تھا آغاز
مگر افسوس کہ تھا راہ میں خش و تگ و تاز

کوششوں کے جو نتیجے تھے اُسے مل نہ سکے
ہائے وہ پھول کہ پھولے تھے مگر کھل نہ سکے

آہ بھائی ترے مرنے کے تھے یہ بھی کوئی دن
وہ ترا جوش شباب اور وہ بچے کمسن

مسند حلقہ احباب ہے سونی تجھ بن
تو ہی تھا اب خلف صدر نشینانِ مُسِن

دن جب آئے کہ تجھے رہبر جمہور کہوں
چرخ کا مجھ سے تقاضہ ہے کہ مغفور کہوں

یہ بھی اے جان برادر کوئی جانیکا ہے طور
اپنے بچوں کی نہ کچھ فکر نہ تدبیر نہ غور

ابھی آنے بھی نہ پایا تھا ترے اوج کا دور
کیا ہوا تجکو کہ تو ہو گیا کچھ اور سے اور

چھوڑ کر بچوں کو بے صبر و سکوں جاتا ہے
کوئی جاتا ہے جو دنیا سے تو یوں دنیا سے جاتا ہے

آہ اے مرگ کسی شے کی نہیں تجہکو تمیز
تیری نظروں میں برابر ہیں گہر اور پشیز

میں نے مانا ترے نزدیک نہ تھا وہ کوئی چیز
رحم کرنا تھا کہ چھوڑے ہیں کئی اُسنے عزیز

لاڈلے ہیں کہ کسی اور کے بس کے بھی نہیں
اسکے بچے ابھی سات آٹھ برس کے بھی نہیں

اے خدا شبلی دلخستہ بایں موئے سفید
لیکے آیا ہے تری درگہ عالی میں امید

مرنے والے کو نجات ابدی کی ہو نوید
خوش و خورم رہے چھوٹا مرا بھائی یہ جنید

کیا لکھوں قصہ غم تاب رقم بھی تو نہیں
اب مرے خامہ پر زور میں دم بھی تو نہیں

خطاب باحرار

یہ جو لیڈر شکنی آپ نے کی خوب کیا
قوم اب طوق غلامی سے ہے بالکل آزاد

لوگ اب حلقہ تقلید میں ہونگے نہ اسیر
ٹوٹ جائے گا طلسم اثر استبداد

ہاں مگر ایک گذارش بھی ہے یہ قابل غور
یہ تو فرمائے اس باب میں ہے کیا ارشاد

بتکدے آپ نے ڈھائے بہت اچھا لیکن
شرط یہ ہے کہ حرم کی بھی رکھیئے بنیاد

آبلہ قابل نشتر تھا، یہ مانا لیکن
دیکھے یہ، کہ کہیں زخم میں آنے نہ فساد​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 44

آپ کہتے ہیں کہ وہ مجمع ناجائز تھا
خیر جو کچھ تھا مگر جمع تو تھے کچھ آزاد

اب کوئی مرکزِ قومی ہے نہ توحید خیال
نہ کوئی جادہ مقصد ہے نہ کچھ توشہ و زاد

خوف یہ ہے کہ بکھر جائے نہ شیرازہ قوم
خوف یہ ہے کہ یہ ویرانہ نہو پھر آباد

ذرے جسطرح سے ہو جاتے ہیں اڑ اڑ کر فنا
یوں ہی ہو جائیگی پھر قوم بھی آخر برباد

نکتہ چینی سے فقط کام نہیں چل سکتا
یہ بھی لازم ہے کہ کچہہ کام بھی ہو پیش نہاد

بھاپ پُرزور ہے لیکن کوئی انجن بھی تو ہو
کام کیا آئیگا نشتر جو نہ ہو گا فصاد
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

آنحضرت صلعم کی غربا نوازی

افلاس سے تھا سیدہ پاک کا یہ حال
گھر میں کوئی کنیز نہ کوئی غلام تھا

گھس گھس گئی تھیں ہاتھ کی دونوں ہتیلیاں
چکی کے پیسنے کا جو دن رات کام تھا

سینہ پہ مشک بھر کے جو لاتی تھیں بار بار
گو نور سے بھرا تھا مگر نیل فام تھا

اٹ جاتا تھا لباس مبارک غبار سے
جھاڑو کا مشغلہ بھی جو ہر صبح و شام تھا

آخر گئیں جناب رسولِ خدا کے پاس
یہ بھی کچہہ اتفاق کہ واں اذن عام تھا

محرم نہ تھے جو لوگ تو کچھ کر سکیں نہ عرض
واپس گئیں کہ پاس حیا کا مقام تھا

پھر جب گئیں دوبارہ تو پوچھا حضور نے
کل کس لئے تم آئی تھیں کیا خاص کام تھا

غیرت یہ تھی کہ اب بھی نہ کچھ منہ سے کہہ سکیں
حیدر نے انکے منہ سے کہا جو پیام تھا

ارشاد یہ ہوا کہ غریبان بے وطن
جن کا کہ صفہ نبوی میں قیام تھا

میں ان کے بندوبست سے فارغ نہیں ہنوز
ہر چند اس میں خاص مجھے اہتمام تھا

جو جو مصیبتیں کہ اب اُن پر گذرتی ہیں
میں اس کا ذمہ دار ہوں میرا یہ کام تھا

کچھ تم سے بھی زیادہ مقدم ہے انکا حق
جنکو کہ بھوک پیاس سے سونا حرام تھا

خاموش ہو کے سیدہ پاک رہ گئیں
جراٗت نہ کر سکیں کہ ادب کا مقام تھا

یوں کی ہر اہلبیتِ مطہر نے زندگی
یہ ماجرائے دختر خیر الانام تھا
-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 45

مولانا شبلی رحمۃ اللہ کی زندگی کے مختصر اور جامع حالات و علمی ترقی
(مولانا عبد الحلیم صاحب شرر لکھنوی کے قلم سے)​

مولانا شبلی کی وفات سے مسلمانوں میں جو کمی ہو گئی ہے اس کا پورا ہونا بہت دشوار ہے۔ ہندوستان میں بہت سے علماٗ و فضلاٗ پیدا ہونگے بہت انگریزی کے قابل و متجر پیدا ہونگے بہت سے شعراٗ بہت سے مصنف پیدا ہوں گے مگر شبلی پیدا ہوں ممکن نہیں۔ وہ اس عالم سرمدی میں گئے اور اُس جنت میں پہنچے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ کسی کی یاد میں نوحہ و بکا کرنا اسے ستانا ہے لہٰذا ہم اپنی آہ و زاری سے اُنکی وہاں کی مسرت ابدی و فارغ البالی میں فرق نہ ڈالتے اور انہیں نہ ستاتے مگر کیا کریں کہ شبلی ۔۔۔۔۔۔ نشیں نہ دنیا میں کوئی نظیر چھوڑ گئے ہیں اور نہ آپ کے سے محقق گراں پایہ کے پیدا ہونے کی امید ہے اور یہ ایسا غمِ جانکاہ ہے کہ ہمیں نہ آج ہی یہ چین سے بیٹھنے دیگا نہ کبھی آئندہ۔

مولٰنا کے علمی کارناموں کا آغاز ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہمارے ہی سامنے اُنھوں نے ترقی کی شہرت حاصل کی اور ہماری ہی آنکھوں کے سامنے دنیا سے سدھار گئے۔ ہم سے اُن سے طالب علمی کے زمانہ سے ملاقات تھی۔ اُن کا سنہ ولادت تو ہمیں یاد نہیں مگر اتنا جانتے ہیہں کہ ہم اور وہ قریب العمر ہیں۔ مولٰنا کے ہجوم امراض قبض و بواسیر کی تکالیف اور معدہ کی کمزوری نے بہت ہی ضعیف اور ناتوان بنا دیا تھا جس کی وجہ سے اُن کی عمر اصل سے زیادہ معلوم ہوتی تھی۔ اُن کے بیان کے مطابق اُن کی عمر 55 – 56 سال سے زیادہ نہ تھی۔ ابتدائے عمر میں درسیات و کتب معقول انہوں نے اپنے وطن میں مولوی محمد فاروق صاحب چڑیا کوٹی سے پڑھیں۔

چند روز بحیثیت طالب علم جونپور کے مدرسہ حنفیہ میں رہے۔ غالباً مولوی ہدایت اللہ خان صاحب مرحوم سے تحصیل کی، آخر میں ادب عربی کے شائق بن کے لاہور پہونچے اور مولانا فیض الحسن صاحب سے پرائیویٹ طور پر ادب کی کتابیں پڑھیں۔ شائد اس وجہ سے پنجاب کے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کی ڈگریاں مولوی عالم اور مولوی فاضل حاصل کیں مگر یہ بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے۔ یہ ہمیں نہیں معلوم کہ مولٰنا نے حدیث
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 46

کی کتابیں پڑھیں یا نہ پرھیں تو کہاں اور کس سے پڑھیں۔

تحصیل علم کے بعد مولٰنا نے اردہ کیا کہ قانونی پیشہ اختیار کر کے مختاری و وکالت کی سندیں حاصل کریں۔ جس غرض کے لئے چند روز تک ضلع بستی میں قیام کیا مگر حالت اور رحجان طبیعت سے آشکارا ہو رہا تھا کہ جس میدان میں فروغ پانیکے لئے وہ پیدا کئے گئے تھے وہ میدان یہ نہیں ہے۔ چنانچہ اُن دنوں اگرچہ مقدمہ فہمی اور عدالتی کاروائیوں سے کام رہتا تھا مگر اُن کا مشغلہ علمی مباحث اور عالمانہ تصانیف ہی تھا۔

مولانا نے جن درسگاہوں میں تعلیم پائی تھی اور جس اساتذہ سے اُن کے صحبت نے ابتدا ہی میں اُنہیں سخت حنفی بنا دیا تھا اسی شوق میں انہوں نے اپنے نام کے ساتھ نعمانی کا لقب لکھنا شروع کیا۔ جس کی وجہ سے بعض ناواقف لوگوں نے انہیں غلطی میں پڑ کر نسباً نعمانی یعنی امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کوفی کی نسل میں خیال کر لیا مگر اس کی کوئی اصلیت و حقیقت نہیں ہے۔ وہ مشدد حنفی تھے اور حنفیت میں اپنے آپ کو اوروں سے ممتاز ثابت کرنا چاہتے تھے۔ اسی جوش کا تقاضا یہ بھی تھا کہ امام صاحب سوانح عمری اُنہوں نے سیرۃ النعمان لکھی تو امام المحدثین محمد بن اسمعیل بخاری پر جا بجا حملے کئے اور علی العموم گروہ محدثین کے اصول سے اختلاف کیا کرتے یہاں تک کہ امام ابو الحسن اشعری بھی محض اتباع حدیث کے باعث اُن کے مورد سہام بن گئے۔ اُن دنوں مولوی ابو الحسنات محمد عبد الحیی فرنگی محلی کی درسگاہ کی شہرت تھی جنکے فیض علمی سے سارا ہندوستان بلکہ ممالک دور دراز کے لوگ بھی بہرہ یاب ہو رہے تھے۔ مولٰنا عبد الحیی صاحب کی یہ شان تھی کہ بخلاف تمام موجودہ علماٗ کے ائمہ حنفیہ سلف میں سے جسکے قول کو اہل حدیث مذہب سے قریب تر پاتے اختیار کر لیتے۔ اور بہت سے مسائل میں اہل حدیث کے ہم خیال تھے چنانچہ نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں انہوں نے امام محمد کا مذہب اختیار کر لیا تھا اور سورہ فاتحہ پڑہنا مستحب بتاتے تھے، یہ امر مولٰنا شبلی کو سخت ناگوار ہوا۔ چنانچہ اُن کی تردید میں ایک عربی رسالہ لکھکر شائع کر دیا جس کا نام (اسکات المعتدی) تھا اور جیسے ہی اس کی اشاعت ہوئی اس کی تردید میں مولوی عبد الحیی صاحب مرحوم کے فاضل شاگردوں سے مولوی نور محمد صاحب ملتانی اور ملاً شعیب نے اپنے اپنے رسالے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 47

شائع کئے جن میں علاوہ نفس مسئلہ کے ادبی غلطیاں بھی نکالیں تھیں۔

مولانا انہی بحثوں میں پڑے ہوئے تھے کہ علی گڈھ کالج کو عربی کے ایک اچھے ادیب اور فاضل مدرس کی ضرورت ہوئی انہوں نے مولوی فیض الحسن صاحب کی تصدیق و سفارش سے درخواست بھیجی۔ سید صاحب نے مولانا کی درخواست کو قبول کر لیا۔ چنانچہ مولانا بستی اور وہاں کے قانونی مشاغل کو چھوڑ کر لکھنؤ ہوتے ہوئے علی گڈھ گئے۔ میں اس وقت داروغہ حیدر بخش کی مسجد میں ان سے ملا تھا اور ان کے چہرہ سے محسوس کرتا تھا کہ یہاں کے طلبہ میں ہر ایک کو وہ وحشت و بدگمانی کی نظر سے دیکھتے تھے مگر باوجود اس وحشت کے طلبہ ہی میں تھے اس لئے کہ اس وقت تک پبلک سے اُن کو سروکار نہ تھا۔

علی گڈھ میں سید صاحب نے اُنہیں اپنی کوٹھی کے احاطہ کے اندر ایک چھوٹے سے مکان میں جگہ دی جو سب سے الگ بالکل باہمہ اور بے ہمہ تھا اور ایک خاموش مقام تھا۔ ان میں جستجو و تحقیق کا سچا مذاق دیکھکر سید صاحب نے اُن سے ربط و ضبط بڑھایا۔ اکثر کھانا ایک ساتھ کھاتے اور روزانہ بلا ناگہ مولانا اور سید صاحب میں گھنٹوں صحبت رہتی۔

سید صاحب ہمیشہ اعتقادی و کلامی مسائل اور مور خانہ تحقیق کے غور و خوض میں رہتے اور تحقیق و تدقیق کے لئے اُنہیں اکثر حدیث و فقہ و تاریخ و سیر کی کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت پڑتی۔ اس کام کو اُنہوں نے مولانا شبلی سے لینا شروع کر دیا۔ مولانا شبلی نے اس خدمت کو ایسی خوبی اور قابلیت سے انجام دیا کہ جسقدر سید صاحب کی دقیقہ رسی اور وسعت نظر کے مولانا شبلی قائل ہوتے جاتے تھے اِس سے زیادہ سید صاحب اُن کی جستجو اور جلب روایات کے معتقد ہو گئے تھے۔ اس زمانہ میں مجھے بارہا مولانا شبلی کے پاس جا کے ٹھہرنے اور اُن کے ذریعہ سے خود سید صاحب کا مہمان بن جانے اور دونوں کے ساتھ ہفتوں کھانا کھانے اور شریک صحبت رہنے کا موقع ملا۔ مولانا سے اور مجھ سے حد درجہ کے بے تکلفی تھی اور میں اس بات کو ہر صحبت میں محسوس کرتا تھا کہ وہ اور سید صاحب دونوں کسقدر ایک دوسرے کے علمی کمالات کے معترف ہوتے جاتے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 48

ہیں۔ سید صاحب کے اعتراف کی تو یہ حالت تھی کہ کوئی کام بغیر اُنکے مشورہ کے نہ کرتے اور مولانا شبلی کے اعتراف کا یہ ثبوت ہے کہ میرے علم میں اُن کی سب سے پہلی نظم جو اُن دنوں شائع ہوئی تھی (صبح امید) ہے جس میں اُنہوں نے مسلمانوں کی غفلت اور سید صاحب کی برکت سے اُن کے بیدار ہونے کو نہایت ہی پرلطف اور موثر الفاظ میں ظاہر کیا ہے۔ اور اسی زمانہ میں علی گڈھ کے ایک طالب علمانہ تھیٹر میں انہوں نے اپنی ایک قومی نظم سنائی تھی۔ اِن چیزوں نے اُنہیں فارسی اور اردو کا ایک مقبول عام شاعر ثابت کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور اس میں شک نہیں کہ وہ ایک دقیقہ رس شاعر تھے اور اپنی نظموں کو ایسی نغمہ خیز دھن میں سنایا کرتے تھے کہ پبلک نے بہت پسند کیا اور طلبہ نے اُسے اختیار کر کے قومی نغمہ خوانی کی۔ ایک مقبول عام دھن بنا کے سارے ہندوستان میں پھیلا دیا مگر پھر بھی میں کہونگا کہ وہ شاعر نہ تھے اور نہ شاعری کے لئے پیدا ہوئے تھے بلکہ علم کے عالم میں اُن کی شان ایک شاعر کے درجہ سے بہت ہی ارفع و اعلٰی تھی۔

اب سید صاحب کے توجہ دلانے سے وہ تاریخی تنقید و تحقیق میں مصروف تھے جسکا سب سے پہلا نمونہ مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم پر اُن کا لکچر تھا جسے انہوں نے محمدن ایجوکیشنل کانفرنس کے دوسرے یا تیسرے اجلاس میں پیش کیا تھا۔ لکچر مسلمانوں کی نظر میں بالکل نئی اور بہت ہی دلچسپ چیز تھا چنانچہ جب اسپر دلگداز میں ریویو ہوا ہے تو کوئی نہ تھا جس اس کے دیکھنے کا مشتاق نہ ہو گیا ہو۔ اسی نوعیت کی اُن کی دوسری کتاب المامون تھی جو علی العموم بہت پسند کی گئی اور اسی کتاب نے پہلے پہل پبلک کو بتایا کہ مولانا شبلی کس قسم کے مصنف ہیں اور یہ کہ آیندہ کیسے ثابت ہونوالے ہیں۔

اب سید صاحب کی صحبت اور پبلک کی حوصلہ افزائی نے مولانا کو اسی کونچہ میں آگے بڑھانا شروع کیا۔ سیرۃ النعمان لکھی، الفاروق لکھی اور تاریخی جستجو کا شوق اس قدر بڑھ گیا تھا کہ کتابوں کی تلاش میں قسطنطنیہ پہنے اور واپس آ کے اپنا سفر نامہ شائع کیا جس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شوق میں وہاں گئے تھے وہ پورا نہ ہوا اور اسی وجہ سے اُن کی یہ تصنیف بھی ایک ناکام نصنیف ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 49

اس موقعہ پر اُن کے خیالات کے متعلق اس نازک انقلاب کا بیان کر دینا بھی لطف سے خالی نہ ہو گا کہ سر سید دراصل غیر مقلد اور اہل حدیث کے گروہ میں تھے لیکن مسائل کلامی اور انگریزی اثر نے غیر مقلد سے ایک بڑی حد تک انہیں معتزلی بنا دیا تھا۔ سید صاحب کی صحبت کا اثر مولانا شبلی پر نہ ہونا غیر ممکن تھا۔ مگر اہل حدیث کی طرف سے ان کے دل میں بھڑک تھی۔ وہ بھی ممکن نہ تھا۔ کہ انہیں نعمانیت اور حقیقت کے دائرے سے باہر نکلنے دیتی۔ لہٰذا بغیر اس کے کہ غیر مقلدی کا کچھ بھی رنگ چڑھنے پائے وہ بلا واسطہ نعمانی سے معتزلی بننے لگے۔ اور آخر میں اس بات کی کوشش شروع کی کہ خود حنفیت کو اصلی اعتزال ثابت کریں۔ اور بخلاف متاخرین حنفیہ کے جو حنفیت کو اشعری طرف کھینچنا چاہتے ہیں، انہوں نے اپنی حنفیت کو اشعریت کا سخت دشمن اور فقہ کے پردہ میں چھپی ہوئی معتزلیت ثابت کرنا چاہا جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ انگریزی طلبہ ان کی باتوں سے خوش ہو ہو کر دینداری و خوش اعتقادی کے دھوکے میں معتزلی ہونے لگے۔ اور موجودہ علمائے حنفیہ سے انکو سخت عناد ہو گیا۔

اب ان کے ساتھ ہی ان میں ایک دوسرا تغیر شروع ہوا۔ ان میں باوجود انتہا درجہ کے اخلاق کے خودداری کا خیال بہت بڑھا ہوا تھا۔ سید صاحب کی صحبت علی گڈھ کالج کی مرجعیت اور ان کی ذاتی قابلیت نے انہیں ابتداً اس حیثیت سے پبلک میں انٹرڈیوس (متعارف) کرایا۔ کہ سید صاحب کے گروہ کے ایک نامور بزرگ اور انکی فوج کے ایک نامی پہلوان ہیں۔ خصوصاً جب وہ سید کے ہمراہ رکاب حیدر آباد گئے۔ تو مسلمانوں میں اس خیال کو اور پختگی ہو گئی۔ مگر خود مولانا شبلی کی خودداری اس حیثیت کو اپنی ان تصنیفوں اور نظموں کو تو وہ مٹا نہ سکتے جن میں خود ہی اپنی اس حیثیت کو آشکارا کر چکے تھے لیکن اس اس بات کوناقابل برداشت دیکھ کر علی گڈھ کالج سے علٰحدگی اختیار کر کے ندوۃ العلماٗ میں شرکت کی اور سمجھے کہ اس ذریعہ سے میں علماٗ کا سرتاج اور شیخ الکل بن کے اس درجہ پر پہنچ جاؤنگا جو سید صاحب کے درجے سے بھی مافوق ہے۔ میں نے بارہا ان کو اس خیال سے روکا اور اسی زمانہ میں کہدیا تھا کہ علماٗ بس میں آنیوالے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 50

نہیں ہیں۔ ان مرحومین امت میں سے ہر ایک پریسیڈنٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور جس زمانہ میں فقط پریسیڈنٹ ہی پریسیڈنٹ ہوں، اس پر آیہ کریمہ لو کان فیھما اٰلھۃ الا لفسدتا پوری پوری صادق آتی ہے۔ ان کے بہت سے دوستوں نے بھی روکا اور کہا کہ آپ کی ترقی کا میدان علی گڈھ کالج ہی ہے۔ مگر اُنہوں نے نہ مانا اور نتیجہ یہ ہوا کہ گو انہوں نے ندوۃ کو بیحد فائدہ پہنچایا اور ندوۃ کو ندوۃ بنا دیا، مگر آخر میں ندے والے مرحومین امت ہی کے ہاتھ سے مار کھا گئے۔ جن کا ان کے دوستوں کو بیحد ملال ہوا۔ اور وہ خود بھی اپنی اس محنت کے اکارت جانے پر کفِ افسوس ملتے ہوئے مرے۔

دوسری طرف علی گڈھ پارٹی سے علٰحدہ ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ نئے تعلیم یافتہ گروہ میں سے بہت سے قابل لوگ ان کے خلاف ہو گئے۔ جو ظاہر میں تو ان سے موافق تھے مگر موقع پاتے ہی ان پر اعتراض کر جاتے۔ ادھر مولانا کے دل میں کچھ ایسی ضد پیدا ہو گئی کہ سید صاحب کو جو درجہ ان کے قدر شناسوں کے دل میں تھا اس سے انہیں گرانا چاہتے۔ اور بعض صحبتوں میں ایسی باتیں کہہ جاتے جو لوگوں کو اور زیادہ ناگوار گزرتیں۔ ندوۃ کا انتظام ہاتھ میں لینے کے زمانہ میں ان کی یہ حالت تھی کہ کالج میں اور مسلمانوں کے ساتھ سید صاحب کا جو طرز عمل دیکھ چکے تھے، اس کو اپنا دستور العمل قرار دے لیا تھا۔ اور ساتھ ہی سید صاحب سے اپنی علٰحدگی اور براٗت ثابت کرنے کی کوشش کرتے مگر دراصل یہ وہ باتیں تھیں جو ان سے کبھی بنائے نہ بنیں۔

اسی دوران میں انہوں نے اور کئی کتابیں لکھیں۔ ان کی سب سے زیادہ مقبول کتاب "الفاروق" علی گڈھ میں شائع ہو چکی تھی۔ اسکے بعد علم الکلام، الکلام، سوانح مولانا روم، الغزالی، اورنگ زیب پر ایک نظر لکہی۔ شاعرانہ مذاق میں تاریخی جستجو کے امتزاج نے ان سے موازنہ انیس و دبیر اور شعرالعجم کو تصنیف کرایا۔ مگر سب سے اہم تصنیف سیرۃ النبی صلعم ہے جس کو ناتمام چھوڑ کے دنیا سے گئے ہیں۔ ان کی وصیت کے موافق مولانا حمید الدین صاحب اور مولوی سلیمان صاحب ندوی نے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور علیا حضرت بیگم صاحبہ بھوپال نے آخر تک مربی گری کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ کوشش ہو رہی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 51

ہے کہ یہ کام بہت جلد پورا ہو۔ اور ہمیں امید ہے کہ یہ مولانا کی اعلٰی ترین اور مفید ترین تصنیف ثابت ہو گی۔

مولانا کا اہم کام الندوہ تھا۔ جس سے مسلمانوں کے لئے بہت سا محققانہ تاریخی سامان فراہم کر دیا اور اس کے سلسلہ میں مولانا نے بڑے اہم مسائل میں تحقیق و تدقیق سے کام لیا ہے۔ اسی رسالہ الندوہ میں سے اعلٰی مضامین جمع کر کے مقالات شبلی تیار کی گئی ہے۔

قیام قسطنطنیہ کے زمانہ میں انہیں عثمان پاشا مرحوم کی سفارش سے سلطان المعظم نے تمغہ مجدیہ عطا کیا۔ اور گورنمنٹ سے ان کو شمس العلماٗ کا خطاب عطا ہوا۔

مولانا شبلی ان لوگوں میں تھے جو دنیا میں اپنی جگہ خالی چھوڑ گئے۔ اور ان کا کمال ان ہی کے ساتھ گیا۔ تاریخ اسلام میں جلب روایت اور تحقیق و تنقید کی جو شان انہوں نے دکھائی، ساری دنیا کے موجودہ علمائے اسلام میں سے کوئی نہ دکھا سکا۔

یاد شبلی رحمۃ اللہ
(از خاں صاحب مولوی سید احمد صاحب مرحوم مولف فرہنگ آصفیہ)

"ہائے" تم کہاں تھے؟ اور کہاں چلے گئے؟ اسلامی تاریخ کے مشجر علم ادب کے دریائے بیکراں کو کس پر چھوڑا۔ ھقیقی شمس العلماٗ بنکر لٹریچری خدمات کے بڑے بڑے جگمگاتے ہوئے ستارے تصانیف کی صورت میں آپ نے چمکائے۔ مسلمان دیندار بادشاہوں اور خلفائے راشدین پر جو حاسدوں کے اعتراض تھے انہیں کس خوبصورتی سے اوٹھایا۔ اور ایسے ڈھنگ سے مٹایا۔ کباید و شلید۔ عالمگیر بادشاہ کے دامن پاک سے ظلم تعصب کا داغ آپنے دہویا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کتب خانہ اسکندریہ کے جلانے کا بدنما دہبہ ، اسے آپ نے بال بال بچایا۔ فارسی زبان کے دھنی تھے۔ اور عربی کے کامل ادیب۔ ندوۃ العلماٗ کو بار آور بنایا۔ خزاں رسیدہ شجر کو پت جھڑ سے آپ نے محفوظ رکھا۔ ازسر نو پروان چڑہایا، گو بے اتفاقی نے اس پر پتھر برسائے۔ خود غرضانہ روڑوں کی بوچھاڑ کی جس کے سبب آپ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 54

لیکن افسوس کہ ندوۃ العلماٗ کے جھگڑوں نے اس کام کے کرنے کی مہلت نہ دی۔ ندوہ بھی تمہارے دم سے تھا۔ تمھارے ہاتھ اٹھانے سے وہ ندوہ بھی اب نہ رہا۔ اگر ہے تو نام کا ندوہ ہے۔

"شبلی" آپ نے پابرکاب ہمعصروں کا بھی ساتھ نہ دیا۔ حالی مدظلہ العالی کو کس حال میں چھوڑ چلے۔ ہم جیسے مصنفہ گوشت اپنے مداحوں کو ساتہہ نہ لیں گے جو خدا سے لو لگائے دنیا سے ہاتھ اٹھائے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

"ہائے شبلی" تم اکیلے گئے۔ اعمال نیک کے سوا کوئی بھی تمھارے ساتھ نہ گیا۔ میں خود چلنے کو بیٹھا ہوں۔ سترا بہترا ہو گیا ہوں۔ اعصابی امراض ، دماغ کی کمزوری، دل کی ناتوانی، حافظہ کی بے مروتی، قلب کی رقت نے بھاڑے کا ٹٹو بنا رکھا ہے۔ کفن کاٹھی کی نوبت پہنچا دی ہے۔ کوئی میں تمھارے پاس پہنچنے والا ہوں۔

اے آیندہ نسلوں کو قدیمی اخلاق، قدیمی جوہر، تعلیمی اور اخلاقی ترقی سے برقرار رکھنے والو، دیکھو ہونہاروں کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ جہاں سے جواہرات کے ٹکڑے ملیں تو اٹھا لو۔ ان کی غور و پرداخت کرو۔ چھاتی سے لگا کر رکھو۔ گو زمانہ انہیں نیست و نابود اور ملیا میٹ کرنے کے درپے رہے مگر تم ان کے بچانے میں سرمو تساہل نہ کرو۔ اس ترکیب سے ہمیشہ شبلی اور حالی اور سرسید اور نذیر احمد وغیرہ کے ہم خیال رہیں گے اور تمہاری قوم کا نام بنا رہیگا۔

مصنف کو ہمیشہ دس باتوں کی ضرورت رہا کرتی ہے۔ اول اطمینان خاطر، دوم حصول امن، سوم اسٹیشنری یعنی موجودگی سامان، چہارم معیشت سے فارغ البال، پنجم پیش خدمت یعنی خدام جو بجائے عضو کام دیتے ہیں، ششم گوشہ تنہائی، ہفتم تفریح قلب، ہشتم بیفکری، نہم اس کے کام اور دماغ سوزی کی داد، دہم ذخیرہ کتب۔ پس مولانا شبلی کو دولت آصفیہ کی بدولت یہ ساری باتیں حاصل تھیں۔ وہ جو کچھ کرتے تھوڑا تھا۔ لیکن زمانہ کے حسد نے اسپر بھی چین نہ لینے دیا۔ مگر واہ رے شبلی ایسی حالت میں بھی ذاتی جوہر دکھائے بغیر دنیا سے قدم نہ اٹھایا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 55

رہنما سامنے ہے نقش قدم شبلی کا

آج ہر سمت ہے عالم میں الم شبلی کا
رنج شبلی کا قلق شبلی کا غم شبلی کا

اب زمانے میں نہیں کوئی مؤرخ ایسا
مغتنم تھا بخدا قوم میں دم شبلی کا

پاشکستہ تھا مگر لم کے ہر میدان میں
آگے پڑنے سے نہ رکتا تھا قدم شبلی کا

تادم مرگ تصانیف میں مصروف رہا
نہ چھٹا ہاتھ سے شبلی کے قلم شبلی کا

خبر مرگ سے دل ہو گیا ٹکڑے ٹکڑے
بے طرح آ کے پھٹا قوم میں بم شبلی کا

داغ فرقت نہ مٹائے سے مٹے گا ہرگز
کشور دل میں چلے گا یہ ورم شبلی کا

قوم کو علم کی دولت سے کیا مالا مال
اٹھ گیا تھا جو ذرا دست کرم شبلی کا

جھک کے چلتا تھا تواضع کے سبب سے کل تک
دم کے ساتھ آج گیا آہ وہ خم شبلی کا

اسکے اک کاغذ تاریخ میں ہیں لاکھوں جام
سامنا کر نہیں سکتا کبھی جسم شبلی کا

ذکر تاریخ میں اس کا یہ ہے تاریخ نویس
جم میں بڑھ چڑھ کے ہے اجلال و خشم شبلی کا

رتبہ کس طرح سے اعظم نہو اعظم گڈہ میں
جب ہوا خوبی قسمت سے جنم شبلی کا

اس کی تصنیف کا بیٹھا ہے جہاں میں سکہ
مدح گستر ہے عرب اور عجم شبلی کا

آجتک گذرے ہیں دنیا میں مؤرخ جتنے
مرتبہ ان میں کسی سے نہیں کم شبلی کا

نظر آتا نہیں تاریخ کا مرد میدان
کون پورا کرے اب کار اہم شبلی کا

قوم میں کوئی نہیں اس کا اٹھانیوالا
رہ گیا بس یوں ہی قرطاس و قلم شبلی کا

قوم میں اہل کوئی ہو تو بتا دو ہمکو
کس کو تفویض کریں طبل و علم شبلی کا

کارناموں کی نہ کیا اسکے کریں گے تقلید
مرثیہ پڑھ کے چلے جائیں گے ہم شبلی کا

کہتی ہے ہمت مرداں کہ چلو اور بڑھو
رہنما سامنے ہے نقش قدم شبلی کا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ – 56

مولانا شبلی کے عقائد

حضرت مولانا شبلی صاحب۔ السلام علیکم مجھے آپ سے چند سوال پوچھنے ہیں، اجازت ہو تو عرض کروں (1) میں نے سنا ہے کہ آپ نے اپنی تصنیف الکلام میں مادہ عالم غیر مخلوق لکھا ہے۔ کیا آپ کا یہ اعتقاد صحیح ہے۔ اور آپ نے تصنیف مذکور میں یہ مسئلہ اپنے مذہب کا لکھا ہے کیا؟ (2) کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ نبوت کو اکتسابی سمجھتے ہیں یعنی کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ ہر ایک آدمی اکتساب اور محنت سے نبی ہو سکتا ہہے یا اسکی اصلیت کچھ اور ہے؟ (3) اسکے علاوہ اور بھی کوئی خیال آپنے ایسا ظاہر کیا ہے جسکی شہادت قرآن مجید اور صحیح احادیث سے نہ مل سکے۔ آپ جو کچھ جواب دینگے اسے میں پبلک میں شائع کروں گا۔

عاجز سید عبد السلام، مالک مطبع فاروقی دہلی۔ 4 جمادی الاخری 1332؁ھ

الجواب

جناب میر صاحب۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ۔ جس کا یہ عقیدہ ہو کہ مادہ قدیم ہے۔ اور خدا کا مخلوق نہیں ہے۔ وہ ملحد اور زندیق ہے۔ میں مادہ کو نہ قدیم بالذات تسلیم کرتا ہوں نہ قدیم بازمان، البتہ میں یہ مانتا ہوں کہ خدا کے تمام اوصاف قدیم ہیں۔ الکلام میں اگر اس قسم کے اقوال مذکور ہیں تو وہ غیر مذہب والوں کے عقائد ہیں۔ اور اس غرض سے نقل کئے ہیں کہ ان کا رد کیا جائے۔ (نبوت) کے متعلق میرا ہرگز یہ اعتقاد نہیں ہے کہ وہ اکتسابی ہے اور ہر شخص نبی ہو سکتا ہے۔ میں نبوت کو عطیہ الٰہی سمجہتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاٗ یقین کرتا ہوں۔ اور جو شخص اس بات کا قائل ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کوئی نبی ہو سکتا ہے اسکو مسلمان نہیں جانتا۔

باقی میرے عقاید وہی ہیں جو قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہیں۔ میں عقیدۃً اور فقہاً دونوں لحاظ سے اہل سنت و جماعت ہوں۔ (شبلی نعمانی)
 

شمشاد

لائبریرین
مجموعہ نظم شبلی اردو مع سوانح عمری کی ایم ایس ورلڈ فائل
 

Attachments

  • Majmua Nazam Shibli Urdu 2.zip
    87.6 KB · مناظر: 6
Top