عمر سیف

محفلین
پھول سا اُسکاچہرہ ،
غصے سے لال تھا!
معصوم سے ذہن میں،
بس اک سوال تھا!
کوئی اور میری ماں کے قریب!
آئے کیوں !
سینے سے میری ماں کو !
کوئی لگائے کیوں
بٹانے کو کسی سے بھی میں نہیں تیار!
پورا کا پورا چاہیے ''ماں''،
مجھ کو تیرا پیار

نرگس جمال سحر
 

فرحت کیانی

لائبریرین
مری ماں ! مجھ کو سینے سے لگا لو، تھک گئی ہوں میں
بھنور کے بیچ سے مجھ کو نکالو ، تھک گئی ہوں میں
تھکن سے چُور ہے میرا بدن اور دل بھی گھائل ہے
مجھے اک رات اپنے پاس سُلا لو، تھک گئی ہوں میں
مجھے پریوں کی باتوں ، پیار کی گھاتوں میں الجھاؤ
کبھی تو اپنے زانو پر لٹا لو ، تھک گئی ہوں میں
بہت سے خواب ریزہ ریزہ ہو کےمجھ کو چُبھتے ہیں
مجھے ان کی اذیت سے بچا لو ، تھک گئی ہوں میں
کہوں کس سے کہ دل پہ کیسے کیسے رنج سہتی ہوں
مجھے تم اپنی بانہوں میں چھپا لو ، تھک گئی ہوں میں
مجھے معلوم ہی کب تھا کہ جیون ہے گھنا جنگل
اندھیرے سے مجھے آکر نکالو ، تھک گئی ہوں میں
مُجھے کیوں بھول بیٹھی ہو ، میری آواز تو سُن لو
مجھے آ کر کلیجے سے لگا لو ، تھک گئی ہوں میں
تبسم ملیح آبادی
 

میاں چاند

محفلین
Mujhko ab bhi yaad hain wo saari ammi ki baatein
Daantna mujhko baat baat par, pyaar ki wo barsaatein

Khailna merey saath saath aur phir study ka kahna
Meri khushiyon ki khaatir abbu se lartey rahna

Meri gustaakhi pe unka zor se wo jhallaana
Abbu ke aaney par unko kuchh bhi na batlana

Thaam ke ungli meri mujhko bahar lekar jaana
Seedha rasta kya hota hai ye mujhko samjhana

Pyaar se mujhko paas bithaa kar sar goud mein rekana
Phir kahna k beta dekho kaam sabhi ke aana

Dekho beta geebat gussa achchi baat nahin hai
Ye sab kaam galat hain betey aur ye kaam sahi hai

In kaamon ko karke tum achchey insaan banogey
Is rastey par mat chalna warna beimaan banogey

Paisey ka izzat ke aagey koi mol nahi hai
Bhool na jaana ye baatein jo mainey aaj kahi hai

Mujhko ab bhi yaad hai wo saari ammi ki baatein
 

میاں چاند

محفلین
maa-pyaar-kahte-hain-urdu-poetry-of.html
 

مہ جبین

محفلین
ماں جیسی ہستی دنیا میں ہے کہاں
نہیں ملے گا بدل چاہے ڈھونڈ لے سارا جہاں
ماں کی عظمتوں کو سلام
 
ماں جی کی یاد میں
27
مئ2011 کو جب بہاولپور شہر کی مسجدوں میں مووزنوں نے تہجد کی نماز کے لئے الله اکبر کی صدا بلند کی تو آئ.سی.یو میں ماں جی کے سرہانے پر لگی ای.سی.جی.. اور بلڈ پریشر مانیٹرز کی سکرینوں میں اچانک اک ہلچل سی ہوئ اور پھر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئیں..
ماں جی نے آنکھ بھی اسی شہر (یزمان) میں کھولی تھی اور اپنی آخری سانس بھی انھی فضاوں میں لی..
ماں جی کی ذندگی پر کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جس کا عنوان ،یزمان سے بہاولپور، ہے
گو کہ یہ انتہای مختصر سا فاصلہ ہے لیکن ماں جی کے لئے یہ سفر بہت کٹھن دشوار مصائب اپنوں کی نفرتوں طعنہ زنیوں اور الزامات کے پہاڑوں سے بھرپور انتہای دشوارگزار تھا
ماں جی کے لئےالله پاک سے اک التجا
میں جدھر گیا میں جہاں رہا
میرے ساتھ تھا
وہی ایک سایہ مہرباں
وہ جو ایک پارہ ابر تھا سر آسماں
پس ہر گماں
وہ جو ایک حرف یقین تھا
میرے ہر سفر کا امین تھا
وہ جو ایک باغ ارم نما ، سبھی موسموں میں ہرا رہا
وہ اجڑ گیا
وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، میرے راستوں میں جلا رہا
وہ بکھر گیا
میرے غم کو جڑ سے اُکھاڑھتا
وہ جو ایک لمسِ عزیز تھا
کسی کپکپاتے سے ہاتھ کا ، وہ نہیں رہا
وہ جو آنکھ رہتی تھی جاگتی ، میرے نام پر
وہ سو گئی
وہ جو اک دعاِ سکون تھی میرے رخت میں ، وہی کھو گئی
اے خدُائےِ واحد و لم یزل
تیرے ایک حرف کے صید ہیں
یہ زماں مکاں
تیرے فیصلوں کے حضور میں
نہ مجال ہے کسی عذر کی نہ کسی کو تابِ سوال ہے
یہ جو زندگی کی متاء ہے
تیری دین ہے تیرا مال ہے

کہ جب اُسکی ساعت آخری سرِ راہ تھی
میں وہاں ہی تھا
میرے راستوں سے نکل گئی وہ جو ایک جاہِ پناہ تھی
میں وہاں ہی تھا
سرِ شام غم مجھے ڈھونڈتی میری ماں کی بجھتی نگاہ تھی
میں وہاں ہی تھا
میرے چار سو ہے دُھواں دُھواں
میرے خواب سے میری آنکھ تک
یہ جو سیلِ اشک ہے درمیاں
اُسی سیلِ اشک کے پار ہے
کہیں میری ماں
تیرے رحم کی نہیں حد کوئی
تیرے عفو کی نہیں انتہا
کے تو ماں سے بڑھ کے شفیق ہے
وہ رفیق ہے
کے جو ساتھ ہو تو یہ زندگی کی مسافتیں
یہ ازیتیں یہ رکاوٹیں
فقط اک نگاہ کی مار ہیں
یہ جو خار ہیں
تیرے دست معجزہ ساز ہیں
گل خوش جمال بہار ہیں
میری التجا ہے تو بس یہی
میری زندگی کا جو وقت ہے
کٹے اُس کی اُجلی دعاؤں میں
تیری بخشِشوں کے دِیار میں
میری ماں کی روحِ جمیل کو
سدا رکھنا اپنے جوار میں
سد ا پُر ِفضا وہ لحد رہے تیری لطفِ خاص کی چھاؤں میں—
 

لبابہ

محفلین
ماں تو بس ماں ہوتی ہے آج کے اس پر فتن دور میں جب ماؤں کو اولاد کے ہاتھوں روتا دیکھتی ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
حافظے کو مسئلہ درپیش تھا تجدید کا
ذہن کی دیوار پر میں نے مکرر ماں لکھا

دھوپ موسم مرا چہرا وہ آنچل کی ہوا
زندگی بھر میری آنکھوں نے یہ منظر ماں لکھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ماں زندگی کا مرکز ، صبر و قرار ہے
ماں اک چمن ہے جس میں مسلسل بہار ہے
ماں لطف ہے، سکون ہے، شفقت ہے، پیار ہے
ماں اک عظیم نعمتِ پروردگار ہے
 

یوسف سلطان

محفلین
موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں​

موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں​
تب کہی جا کر رضا تھوڑا سکون پاتی ہے ماں​

فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گُھل جاتی ہے ماں​
نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں​

روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے​
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں​

ہڈیوں کا رس پلا کر اپنے دل کے چین کو​
کتنی ہی راتوں میں خالی پیٹ سو جاتی ہے ماں​

جانے کتنی برف سی راتوں میں ایسا بھی ہوا​
بچہ تو چھاتی پے ہے گیلے میں سو جاتی ہے ماں​

جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول​
آنسوں کے ساز پر بچے کو بہلاتی ہے ماں​

فکر کے شمشان میں آخر چتاؤں کی طرح​
جیسے سوکھی لکڑیاں ، اس طرح جل جاتی ہے ماں​

اپنے آنچل سے گلابی آنسوں کو پونچھ کر​
دیر تک غربت پے اپنی اشک برساتی ہے ماں​

سامنے بچوں کے خوش رہتی ہے ہر ایک حال میں​
رات کیوں چھپ چھپ کے لیکن اشک برساتی ہے ماں​

کب ضرورت ہو میری بچے کو ، اتنا سوچ کر​
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں​

مانگتی ہی کچھ نہیں اپنے لیے اللہ سے​
اپنے بچوں کے لیے دامن کو پھیلاتی ہے ماں​

دے کے اک بیمار بچے کو دعائیں اور دوا​
پینتی پے رکھ کے سر قدموں پے سو جاتی ہے ماں​

گر جوان بیٹی ہو گھر میں کوئی رشتہ نا ہو​
اک نئے احساس کی سولی پے چڑھ جاتی ہے ماں​

ہر عبادت ہر محبت میں نیہا ہے اک غرض​
بے غرض بے لوث ہر خدمات کو کر جاتی ہے ماں​

زندگی بھر چنتی ہے خار ، راہ ذیست سے​
جاتے جاتے نعمت فردوس دے جاتی ہے ماں​

بازوں میں کھینچ کے آجائے گی جیسے کائنات​
ایسے بچے کے لیے بانہوں کو پھیلاتی ہے ماں​

زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں​
جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں​

پیار کہتے ہے کسے اور مامتا کیا چیز ہے​
کوئی ان بچو سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں​

صفحہ ہستی پے لکھتی ہے اصول زندگی​
اس لیے اک مکتب اسلام کہلاتی ہے ماں​

اس نے دنیا کو دیے معصوم رہبر اس لیے​
عظمتوں میں ثانی قرآن کہلاتی ہے ماں​

گھر سے جب پردیس جاتا ہے کوئی نور نظر​
ہاتھ میں قرآن لے کر در پے آجاتی ہے ماں​

دے کے بچے کو ضمانت میں اللہ پاک کی​
پیچھے پیچھے سر جھکائے در تک جاتی ہے ماں​

کانپتی آواز سے کہتی ہے بیٹا الوداع​
سامنے جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں​

جب پریشانی میں گھر جاتے ہیں ہم پردیس میں​
آنسوں کو پونچھنے خوابوں میں آجاتی ہے ماں​

دیر ہو جاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب ہمیں​
ریت پر مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں​

مرتے دم بچہ نا آ پائے اگر پردیس سے​
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں​

باب مر جانے پے پھر بیٹے کی خدمت کے لیے​
بھیس بیٹی کا بدل کر گھر میں آجاتی ہے ماں​

ہم بلاؤں میں کہیں گھرتے ہیں تو بے اختیار​
خیر ہو بچے کی ، کہ کر در پے آجاتی ہے ماں​

چاہے ہم خوشیوں میں ماں کو بھول جائیں دوستو !​
جب مصیبت سر پے آتی ہے تو یاد آتی ہے ماں​

دور ہو جاتی ہے ساری عمر کی اس دم تھکن​
بیاہ کر بیٹے کو جب گھر میں بہو لاتی ہے ماں​

چین لیتی ہے وہی اکثر سکون زندگی​
پیار سے دلہن بناکر جس کو گھر لاتی ہے ماں​

پھر لیتے ہیں نار جس وقت بیٹے اور بہو​
اجنبی اپنے ہی گھر میں ہے بن جاتی ہے ماں​

ہم نے یہ بھی تو نہیں سوچا الگ ہونے کے بعد​
جب دیا ہی کچھ نہیں ہم نے تو کیا کھاتی ہے ماں​

ضبط تو دیکھوں کہ اتنی بے رخی کے باوجود​
بد دعا دیتی ہے ہرگز اور نا پچھتاتی ہے ماں​
 
Top