ماوراءالنہری فارسی شاعر شوکت بخاری کے سوانحِ حیات اور تعارف

حسان خان

لائبریرین
"'شوکت' خواجہ محمد بن اسحاق بخارائی کا تخلص ہے۔ اکثر منابع میں آیا ہے کہ اُن کے پدر بخارا میں صرّاف تھے اور خود شوکت کا بھی چند مدت تک جوانی میں یہی پیشہ تھا۔ شوکت اُزبکوں کے دستوں (ہاتھوں) اذیت و آزار کے باعث بخارا کو ترک کے ہِرات چلے گئے تھے۔
ہرات میں وہ میرزا سعدالدین محمد بن خواجہ غیاث الدین مشہدی متخلّص بہ راقم مشہدی کی سرپرستی میں چلے گئے۔ سعدالدین، شاہ سلیمان صفوی کے دور میں ہرات کے وزیر تھے اور بعد میں وہ مشہد چلے گئے تھے اور کُل خراسان کے وزیر ہو گئے تھے۔ شوکت مشہد میں بھی اُن کے زیرِ سرپستی تھے۔ سعدالدین چونکہ خود شاعر تھے، اِس لیے وہ شاعروں پر بِسیار توجہ رکھتے تھے۔
شوکت نے اپنے قصیدوں میں اِن وزیر کی سعدالدین اور آصف کے عناوین کے تحت مدح کی ہے، اور چونکہ اُن قصیدوں میں اُنہوں نے بخارا سے اپنے سفر، اور ممدوح کی بارگاہ میں پناہ لینے کی داستان کا ذکر کیا ہے، لہٰذا ظاہر ہے کہ یہ قصائد شوکت کے ورود کے اوائل سے مربوط ہیں۔
استاد صفا نے لکھا ہے کہ شوکت چند سال بعد سعدالدین کے دربار کو ترک کر کے اصفہان چلے گئے تھے، لیکن شوکت کے دیوان میں کابُل اور ہند کے سفر کا بھی ذکر آیا ہے جس کے بارے میں مآخذ میں کوئی چیز موجود نہیں ہے۔
اصفہان میں اُنہوں نے شہر کے بیرون میں شیخ ازہر اصفہانی کے مزار میں سکونت اختیار کر لی تھی اور وہاں وہ اپنے بیشتر اوقات گوشہ نشینی میں گذارتے تھے۔
شوکت سال ۱۱۰۷ھ/۱۶۹۵ء میں انتقال کر گئے اور اُنہیں شیخ علی بن سہل بن ازہر اصفہانی سے مسنوب اُسی مقبرے میں، جو اُن کا مسکن تھا، دفن کیا گیا۔"

مأخوذ از: فرهنگِ تشبیهات در دیوانِ شوکتِ بخاری، خدیجه رعیت
 

حسان خان

لائبریرین
شوکتِ بخاری (؟ - ۱۶۹۵ء)
ایران کے کلاسیکی شاعر اور سبکِ ہندی اُسلوب کے پیشگاموں میں سے ہیں۔

وہ بخارا میں متولّد ہوئے اور اُن کا انتقال اصفہان میں ہوا۔ اُن کی ولادت کی تاریخ معلوم نہیں ہے۔ اُن کا اصل نام محمد اسحاق تھا۔ وہ امیرِ بخارا کے پِسر تھے۔ بخارا میں اُنہوں نے ایک بِسیار خوب تعلیم حاصل کی۔ اپنے والد کی وفات کے بعد دست سے امارت کے لے لیے جانے کے بعد اُنہوں نے بخارا کو ترک کر دیا۔ وہ اصفہان میں محمد سعدالدین خان کے پاس چلے گئے۔ چند مدت بعد وہ ہند کُوچ کر گئے اور محمد علی گوہر شاہ کے دربار سے وابستہ ہو گئے۔ اِس سبب سے اُنہیں شوکتِ ہندی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا جاتا ہے۔
اپنے زمانے میں وہ مشہور شاعروں صائب، فیضی، عُرفی اور مُحتَشَم کے ہمراہ، فارسی شاعری میں سبکِ ہندی کے نام سے جانے جانے والے اُسلوب کے پیشگاموں میں سے تھے۔ سترہویں صدی کی کلاسیکی عثمانی شاعری میں، اِس اُسلوب کو اِتّخاذ کرنے والے شعراء نفعی، نشاطی، نائلی، نابی و دیگر شوکت کے زیرِ اثر رہے تھے۔ اُن کے اکثر قصائد کی تشریح ہو چکی ہے۔

مأخذ: تُرکوں‌ کی اور دنیا کی مشہور شخصیات کا دائرۃ المعارف
 

حسان خان

لائبریرین
دیکھا جا سکتا ہے کہ مندرجۂ بالا دونوں مآخذ میں شوکت بخاری کے سوانحِ زندگی کے بارے میں اختلافات ہیں۔ ایک میں اُنہیں صرّاف کا پِسر بتایا گیا ہے، جبکہ دیگر میں کہا گیا ہے کہ اُن کے والد امیرِ بخارا تھا۔ میری تحقیق کے مطابق اُن کے والد کا صرّاف ہونا درست ہے، کیونکہ شوکت بخاری کا حاکمانِ بخارا کے خاندان میں سے ہونا بعید ہے، اور مجھے کہیں اور یہ چیز نظر نہیں آئی کہ اُن کے والد بخارا کے امیر تھے۔
مُحتشَم کاشانی سبکِ ہندی کے شاعر نہیں تھے، بلکہ اُن کی شاعری کا جو اُسلوب تھا اُسے 'مکتبِ وقوع' کہا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
علی قلی خان والہ داغستانی اپنے تذکرے 'ریاض الشعراء' میں 'مولانا شوکت بخاری' کے ذیل میں لکھتے ہیں:

"در سنهٔ ۱۰۸۸ به هرات آمده به خدمت صفی قلی‌خان شاملو که بیگلربیگی آنجا بوده رسیده، مهربانی بسیار یافت. از آنجا به مشهد مقدّس آمد. میرزا سعدالدین محمد وزیر خراسان نیز کمال محبت و اعانت نسبت به حال او مرعی داشت. از آنجا به اصفهان آمده با فضلا و شعرا هم‌صحبت و هم‌طرح بوده، آخر طُرفه شورشی و حالتی بر وی غالب آمده به ژنده‌پوشی و سکوت و عزلت می‌گذرانیده‌است.
از شیخ محمد علی حزین مسموع شد که می‌گفت: روزی از ایّام شتا که برف می‌بارید، شوکت را دیدم که نمد پاره‌ای پوشیده و سرش برهنه و موی سر دراز شده از در مدرسه می‌گذشت. برف به قدر یک شبر بر سرش جمع آمده بود، در آن حال یک کفش از پای او برآمده در برف ماند و او مطلقاً توجه به او ننموده در کمال آرام می‌رفت. هرچند خواستم با او حرفی بزنم التفاتی ننمود. خلاصه اینکه احوالش به این منوال می‌گذشته. دیوانش متداول است، در روش خود بی‌نظیر و در طرز خود بی‌عدیل است. نزاکت افکارش به حدّی رسیده که بعضی از آنها در نهج اعتدال نمانده‌است. وفاتش در اصفهان واقع شده..."


"وہ سن ۱۰۸۸ھ میں ہِرات آ کر وہاں کے بیگلربیگی صفی قلی خان شاملو کی خدمت میں پہنچے، جہاں اُن کے ساتھ بِسیار مہربانی کے ساتھ پیش آیا گیا۔ وہاں سے وہ مشہدِ مقدس آ گئے۔ وزیرِ خراسان میرزا سعدالدین محمد نے بھی اُن کی نسبت کمالِ محبت و اعانت کو ملحوظ رکھا۔ وہاں سے وہ اصفہان آ کر فضلاء و شعراء کے ساتھ ہم صحبت و ہم نشیں رہے۔ بالآخر ایک عجب شورش و حالت اُن پر غالب آ گئی اور وہ بوسیدہ لباس پہننے اور سکوت و گوشہ نشینی میں زندگی گذارنے لگے۔
شیخ محمّد علی حزین سے سننے میں آیا ہے کہ وہ کہتے تھے: سردیوں کے ایک روز میں، کہ جب برف برس رہی تھی، میں نے شوکت کو مدرَسے کے در سے گذرتے دیکھا۔ اُنہوں نے دُرُشت پشمی لباس پہنا ہوا تھا، اُن کا سر برہنہ تھا اور اُن کے سر کے بال بڑھے ہوئے تھے۔ اُن کے سر پر ایک وَجَب کے بقدر برف جمع ہو چکی تھی۔ اُس حال میں ایک کفش اُن کے پیر سے نکل کر برف میں رہ گیا، لیکن اُنہوں نے اُس کی جانب مطلقاً توجہ نہیں کی اور کمالِ آرام کے ساتھ چلتے رہے۔ ہرچند میں نے چاہا کہ اُن کے ساتھ کوئی گفتگو کروں، لیکن اُنہوں نے ذرا التفات نہیں دکھائی۔ خلاصہ یہ کہ اُن کے احوال اِس طرز پر گذرا کرتے تھے۔ اُن کا دیوان متداول و رائج ہے، وہ اپنی روش میں بے نظیر اور اپنی طرز میں بے عدیل ہیں۔ اُن کی نزاکتِ افکار اِس حد تک پہنچ گئی تھی کہ اُن کے بعض افکار و خیالات جادۂ اعتدال میں باقی نہیں رہے ہیں۔ اُن کی وفات اصفہان میں واقع ہوئی۔۔۔"

× بیگلربیگی = بیگوں کا بیگ، امیر الاُمَراء
× وَجَب = بالِشت
× کَفْش = جوتا
× پَشْمی = اُونی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شوکت بخاری، محمد بن اسحاق۔ (وف ۱۱۰۷ / ۱۱۱۱ھ)، شاعر، متخلص بہ شوکت۔ معروف بہ شوکتا۔ اُن کے پدر کا بخارا میں صرّافی کا پیشہ تھا اور اُن کا بھی چند مدت تک وہی پیشہ رہا تھا، تا آنکہ وہ اُزبکوں کے تاراج سے دوچار ہو گئے۔ مجبوراً ۱۰۸۸ھ میں وہ ہِرات چلے گئے اور خراسانی بیگلربیگی صفی قلی خان شاملو کی مصاحبت اختیار کر لی۔ وہ درویشوں کے حُلیے میں اصفہان چلے گئے اور علی ابنِ سہل اصفہانی کے مزار میں مسکن چُن لیا اور وفات کے بعد وہیں دفن ہوئے۔ عثمانی شعراء کے درمیان اُن کے اشعار کو بِسیار شہرت حاصل رہی ہے۔ وہ ایک مدتِ دراز تک وزیرِ خُراسان راقم مشہدی کی مصاحبت و حمایت سے مستفیض، اور مقیمائے مشہدی اور عظیمائے نیشابوری جیسے شاعروں کے ساتھ ہم نشین رہے تھے۔

مأخذ:
اثرآفرینان: زندگی‌نامهٔ نام‌آورانِ فرهنگیِ ایران: جلدِ سوم
 

حسان خان

لائبریرین
محمد افضل سرخوش لاہوری اپنے تذکرے 'کلمات الشعراء' میں 'شوکت بخاری' کے ذیل میں لکھتے ہیں:
"بسیار نازک‌خیال و صاحب تلاش و معنی‌یاب بوده‌است. گویند از خاک توران مثل او برنخاسته. اشعارش در ایران و سخن‌وران شهرت تمام دارد."
وہ بہت زیادہ نازک خیال و صاحبِ تلاش و معنی یاب تھے۔ کہتے ہیں کہ خاکِ تُوران سے اُن جیسا [کوئی دیگر] نہیں اُٹھا ہے۔ اُن کے اشعار ایران اور سخنوروں میں شہرتِ تمام رکھتے ہیں۔

جنابِ سرخوش کی یہ بات تو درست ہے کہ شوکت بخاری سخنوروں، یعنی عثمانی و تُورانی و افغان و مُغلی سخنوروں میں شہرت رکھتے تھے، لیکن ایران میں اُن کی شہرت کا سُخن نادرست ہے، کیونکہ وہاں کوئی شاعر اُن کا نام بھی نہیں جانتا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"مهم‌ترین ویژگی شعر شوکت بخارایی نازک‌اندیشی و خیال‌پردازی است که به طرز مبالغه‌آمیز دیده می‌شود. وارستگی و صوفی‌مشربی در اشعار او بسیار تأثیر گذاشته‌است. در خیال‌پردازی از شاعران دیگر سبک هندی جلو‌تر رفته و گاهی این خیال‌پردازی و مضمون‌آفرینی‌های او شعر او را از فهم دور ساخته‌است. برای دریافت اشعار شوکت باید دنیای خیالی او را پیدا کنیم."

"شوکت بخارائی کی شاعری کی اہم ترین خصوصیت نازک اندیشی و خیال پردازی ہے، جو مبالغہ آمیز طرز میں نظر آتی ہے۔ علائقِ دنیا سے وارستگی اور صوفی مشربی نے اُن کے اشعار پر بِسیار اثر ڈالا ہے۔ وہ خیال پردازی میں سبکِ ہندی کے دیگر شاعروں سے جلوتر چلے گئے تھے، اور گاہے اُن کی اِن خیال پردازیوں اور مضمون آفرینیوں نے اُن کی شاعری کو دور از فہم بنا دیا ہے۔ شوکت کے اشعار کے اِدراک کے لیے اُن کی خیالی دنیا کو کشف کرنا ضروری ہے۔"

مأخذ
 

حسان خان

لائبریرین
"شوکت در ایران چندان شناخته نیست ولی در سرزمین امپراطوری عثمانی طرف‌دار [و] پیروان زیادی پیدا کرده‌است. بین شاعران عثمانی سه شاعر برجسته شعرهایی سرودند که کاملاً تحت تأثیر سبک شوکت بوده‌اند. دیوان شوکت چندین بار نیز به ترکی عثمانی ترجمه و شرح شده‌است. بیشتر نسخ دیوان شوکت در کتاب‌خانه‌های ترکیه نگه‌داری می‌شود."

"شوکت ایران میں زیادہ معروف نہیں ہیں، لیکن دیارِ آلِ عثمان میں اُنہیں کئی طرف دار اور پیرَو مل گئے تھے۔ عثمانی شاعروں میں سے تین ممتاز شاعروں نے ایسے اشعار کہے ہیں جو کاملاً شوکت کے اسلوب کے زیرِ اثر تھے۔ بہ علاوہ، دیوانِ شوکت کا کئی بار عثمانی ترکی میں ترجمہ و شرح ہو چکی ہے۔ دیوانِ شوکت کے بیشتر نسخے تُرکیہ کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔"

مأخذ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"شوکت یکی از شاعران مهم سبک هندی شاخهٔ هندی است که در عصر خویش در سرزمین عثمانی و آسیای میانه شناخته شده بود و در بین شاعران عثمانی شهرت زیادی پیدا کرده بود. شوکت در ایران کاملاً ناشناخته است. به عنوان مثال در کتاب‌خانه‌های ترکیه بیش از صد نسخه از دیوان شوکت موجود است. ولی در کتاب‌خانه‌های ایران تعداد آن از ده نسخه تجاوز نمی‌کند. این امر گواهی علاقه شاعران عثمانی نسبت به شوکت می‌باشد. پادشاهان عثمانی نیز با ارادتی خاص به شوکت نگاه می‌کردند و سلطان مراد دستور داد تا دیوان شوکت را شرح کنند. دیوان شوکت چندین بار به زبان ترکی عثمانی ترجمه و شرح شده‌است که این نیز دلیل اهمیت شوکت در نزد عثمانیان می‌باشد."
(تُرگای شفق)


"شوکت سبکِ ہندی کی ہندی شاخ کے اہم شاعروں میں سے ایک ہیں، جو اپنے زمانے میں عثمانی سرزمین اور وسطی ایشیا میں معروف ہو گئے تھے، اور جنہوں نے عثمانی شاعروں کے مابین شہرتِ زیاد کسب کر لی تھی۔ شوکت ایران میں کاملاً غیر معروف ہیں۔ مثال کے طور پر تُرکیہ کے کتب خانوں میں دیوانِ شوکت کے سو سے زیادہ نسخے موجود ہیں۔ لیکن ایران کے کتب خانوں میں اُن کی تعداد دس نسخوں سے تجاوز نہیں کرتی۔ یہ چیز عثمانی شاعروں کی شوکت کی نسبت دل بستگی کی گواہی ہے۔ عثمانی سلاطین بھی ایک خاص ارادت کے ساتھ شوکت کی طرف نگاہ کرتے تھے اور سلطان مراد نے دیوانِ شوکت کی شرح کرنے کا حکم دیا تھا۔ دیوانِ شوکت کئی بار عثمانی ترکی میں ترجمہ و تشریح ہو چکا ہے، کہ یہ بھی شوکت کی عثمانیوں کے نزدیک اہمیت کا ایک ثبوت ہے۔"

مأخذ
 

حسان خان

لائبریرین
"سبکِ ہندی کی دو مشخّص شاخیں ہیں جو سبک شناسی و اسلوبیات کے لحاظ سے کاملاَ جداگانہ و مختلف خصوصیات رکھتی ہیں۔ صائب تبریزی، کلیم کاشانی، طالب آمُلی، ظہوری تُرشیزی، اور نظیری نیشابوری جیسے شعراء سبکِ ہندی کی ایرانی شاخ کے شعر گو شمار ہوتے ہیں۔ از طرفِ دیگر، اسیر شہرستانی، بیدل دہلوی، غنی کشمیری اور شوکت بخارائی جیسے شعراء سبکِ ہندی کی ہندی شاخ کے شعراء ہیں۔ ایرانی شاخ کو 'شیوۂ تمثیلی'، جبکہ ہندی شاخ کو 'طرزِ خیال' اور 'شیوۂ خیال بندی' بھی پکارا گیا ہے۔"
(تُرگای شفق)
مترجم: حسّان خان
مأخذ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
صدرالدین عینی اپنی کتاب 'نمونهٔ ادبیاتِ تاجیک' میں 'شوکت بخارایی' کے ذیل میں لکھتے ہیں:

"(اسمش محمد اسحاق است وفاتش به روایتی ۱۰۰۷ھ به روایت دیگر ۱۱۱۱ھ در اصفهان واقع شده)."

"در تذکرهٔ خزانهٔ عامره نوشته شده‌است که پدر شوکت صراف بوده، شوکت نیز در اوایل حال به صرافی مشغولی داشته. روزی دو سوار اوزبک در پیش دوکان او باهم گفتگو داشتند، اسبان ایشان بساط دوکان را پامال کردند. شوکت شوریده حرف ناخوشی زد. سپاهیان اوزبک به هم برآمده او را به دشنام و تازیانه اذیت رسانیدند. شوکت همان ساعت دل از یار و دیار برداشته راه خراسان پیش گرفت.
این واقعه در عهد حکومت عبدالعزیز خان بن نادر محمد خان واقع است. زیرا در خزانهٔ عامره از والهٔ داغستانی منقول است که شوکت به سال ۱۰۸۸ به هرات به خدمت صفی قلی خان شاملو که بکلربیکی آنجا بود رسیده. این تاریخ مطابق عهد عبدالعزیز خان است.
شیخ محمد علی حزین در تذکرهٔ خود وفات شوکت را ۱۱۰۷ یک‌هزار یک‌صد و هفت و صاحب مرآة الصفا ۱۱۱۱ یک‌هزار یک‌صد و یازده نوشته است."


"(اُن کا نام محمد اسحاق ہے۔ اُن کی وفات ایک روایت کے مطابق ۱۰۰۷ھ میں، جبکہ ایک دیگر روایت کے مطابق ۱۱۱۱ھ میں اصفہان میں واقع ہوئی۔)"

"تذکرۂ خزانۂ عامرہ میں مرقوم ہے کہ شوکت کے پدر صرّاف تھے، اور شوکت بھی اوائلِ زندگی میں صرّافی میں مشغول رہے۔ ایک روز دو اُزبک اسوار اُن کی دوکان کے آگے باہم گفتگو کر رہے تھے۔ اُن کے اسپوں نے دکان کی بساط کو پامال کر دیا۔ شوکت نے برہم ہو کر چند تلخ کلمات کہے۔ اُزبک سپاہیوں نے مجتمع ہو کر اُن کو دُشنام و تازیانہ سے اذیت پہنچائی۔ شوکت اُسی ساعت یار و دیار سے دل قطع کر کے خُراسان کی جانب عازم ہو گئے۔
یہ واقعہ عبدالعزیز خان بن نادر محمد خان کے عہد مین واقع ہوا تھا۔ کیونکہ خزانۂ عامرہ میں والہ داغستانی سے منقول ہے کہ شوکت ۱۰۸۸ھ میں ہِرات کے بیگلربیگی صفی قلی خان شاملو کی خدمت میں پہنچے تھے۔ یہ سن عبدالعزیز خان کے عہد سے مطابقت رکھتا ہے۔
بعد ازاں، شوکت خُراسان سے اصفہان چلے گئے اور آخرِ عمر تک شہر کے بیرون میں شیخ علی بن سہیل کے مزار میں اقامت گزیں رہے۔
شیخ محمد علی حزین نے اپنے تذکرے میں شوکت کے سالِ وفات کو ۱۰۰۷ھ، جبکہ مؤلفِ مرآۃ الصفا نے ۱۱۱۱ھ لکھا ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"محمد اسحٰق شوکت تخلص: اصل او از بخاراست و از کلامش مستفاد می‌شود که به هند آمده لیکن تا کابل و ‌نصرآبادی می‌گوید که در تاریخ سنة ۱۰۸۸ به هرات آمده و صفی قلی خان حاکم هرات بر او بسیار مهربانی کرده و میرزا سعدالدین راقم نیز خدمت او بسیار می‌نمود. و از بعضی مسموع است که شوکت در مشهد مقدس علی ساکنها السلام اواخر فروکش نموده. اوایل در گورستان می‌بود. میرزا سعدالدین محمد راقم که وزیر خراسان بود او را ازان جا آورده متوجهِ احوالِ او گشت. به هر طور اشعار او را طرز خاصی است. خیلی مضامین تازه دارد. کم کسی را چنین اتفاق می‌افتد. لیکن از بس که مشغول فکر تازه‌خیالی است بعضی از عباراتش از پایهٔ بلاغت افتاده و مطلب را چنان که باید موزون نه کرده. چنان که پاره‌ای ازان در مقام خود به تحریر می‌آید. راستی آن که تاره تلاش را این قسم بلاها پیش می‌آید."
[تذکرهٔ مجمع‌النفایس، جلدِ دوم، سراج‌الدین علی خان آرزو]

"محمد اسحاق متخلص بہ شوکت: اُن کی اصل بخارا سے ہے، اور اُن کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہند آئے تھے، لیکن کابُل تک۔ اور نصرآبادی کہتے ہیں وہ سن ۱۰۸۸ھ میں ہِرات آ گئے تھے، جہاں حاکمِ ہرات صفی قلی خان اُن پر بِسیار مہربان رہے تھے، اور میرزا سعدالدین راقم نے بھی اُن کی بِسیار تعظیم و خدمت کی تھی۔ اور بعضوں سے سننے میں آیا ہے کہ شوکت نے اواخر میں مشہدِ مقدّس علیٰ ساکنِہا السلام میں اقامت اختیار کر لی تھی۔ شروع میں وہ قبرستان میں رہتے تھے۔ وزیرِ خُراسان میرزا سعدالدین محمد راقم اُنہیں اُس جا سے لا کر اُن کے احوال پر متوجہ ہوئے۔ بہ ہر حال، اُن کے اشعار ایک خاص طرز رکھتے ہیں۔ وہ کئی تازہ مضامین کے مالک ہیں۔ کم ہی کسی کے لیے ایسا ممکن ہو پاتا ہے۔ لیکن چونکہ وہ تازہ خیال کی فکر میں مشغول رہتے تھے، اِس لیے اُن کی بعض عبارتیں پایۂ بلاغت سے گر گئی ہیں اور مقصود کو جس طرح موزوں کرنا چاہیے تھا، نہیں کیا ہے۔ جیسا کہ اُن میں سے چند مثالیں اپنے مقام پر تحریر میں آئیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعرِ تازہ جُو کو اِس قسم کی مصیبتیں پیش آتی ہیں۔"
 

حسان خان

لائبریرین
غمِ عشقت ز بس بِگْداخت جسمِ ناتوانم را
هُما عینک گذارد تا ببیند اُستُخوانم را
(شوکت بخاری)
تمہارے غمِ عشق نے میرے جسمِ ناتواں کو اِتنا زیادہ پگھلا دیا کہ میرے اُستُخوانوں کو دیکھنے کے لیے ہُما کو عینک لگانی پڑتی ہے۔
× اُستُخوان = ہڈّی

"میر رضی اقدس شوستری که ترجمهٔ او در سرو آزاد مسطور است بیان نمود که در ولایت یکی از ظرفا که در مصوری دستی داشت این مطلع شوکت را که
غم عشقت ز بس بگداخت جسم ناتوانم را
هما عینک گذارد تا ببیند استخوانم را
بر ورقی نوشت و تصویر کرد یعنی صورت شوکت در کمال نحافت و بالای آ‌ن صورت هما و پیش چشم هما عینکی کشید و چون این تصویر غرابتی داشت در مجامع به مردم می‌نمود و طبایع را در شگفتگی می‌آورد."
[خزانهٔ عامرہ، میر غلام علی آزاد بلگرامی]


"میر رضی اقدس شوستری نے، کہ جن کے احوال سروِ آزاد میں مسطور ہیں، بیان کیا کہ ایران میں مصوّری کی قدرت رکھنے والے ایک شخصِ ظریف نے شوکت کے اِس مطلع کو کہ
غمِ عشقت ز بس بِگْداخت جسمِ ناتوانم را
هُما عینک گُذارد تا ببیند اُستُخوانم را
(تمہارے غمِ عشق نے میرے جسمِ ناتواں کو اِتنا زیادہ پگھلا دیا کہ میرے اُستُخوانوں کو دیکھنے کے لیے ہُما کو عینک لگانی پڑتی ہے۔)
ایک ورق پر لکھا اور اُس کی صورت کَشی کی۔ یعنی شوکت کی صورت کو کمالِ لاغری کی حالت میں بنایا اور اُس کے بالا میں ہُما کی صورت اور ہُما کی چشم پر عینک کا نقش کهینچا۔ چونکہ یہ تصویر غرابت و نُدرت رکھتی تھی، وہ مجمعوں میں مردُم کو دِکھایا کرتے تھے اور طبائع کو شادمان و شگفتہ کیا کرتے تھے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"کلامش بس که تازگیِ الفاظ و رنگینیِ عبارت و شوخیِ معنی و نزاکتِ خیال دارد می‌توان گفت که شعرش معنی ندارد!"
[میر عبدالرزّاق خوافی اورنگ‌آبادی معروف به شاهنواز خان، بهارستانِ سُخن]


اُن کا کلام اِتنی زیادہ تازگیِ الفاظ و رنگینیِ عبارت و شوخیِ معنی و نزاکتِ خیال رکھتا ہے کہ کہا جا سکتا ہے اُن کی شاعری بے معنی ہے!"
 

حسان خان

لائبریرین
"شوکت اکثر مضامینِ ادّعایی می‌بندد و معانیِ وقوعی کم دارد."
(محمد صدیق حسن خان، شمعِ انجمن]


شوکت زیادہ تر خیالی مضامین باندھتے ہیں اور اُن [کی شاعری] میں معانیِ واقعی کم ہیں۔
 
Top