حسان خان
لائبریرین
"تاجیکان و اُزبکان دو خلقِ برادرند، اگرچه به دو خاندانِ خلقها تعلق دارند. میتوان گفت، که شِیرپیوند هستند و در بسیار موردها با شِیرِ یک زن، یک دایه پرورش یافتهاند. در آسیایِ مرکزی، حتّیٰ بیرون از حدودِ آن چنین دو خلقی کم میتوان پیدا کرد، که تا این اندازه خونشان به هم آمیخته، هستیِ معنوی، بینش و فهمششان به هم نزدیک آمده باشد. اگرچه امیزشِ خون با راههایِ گوناگون به گاه با طرزهایِ ناروا صورت میگرفت، هرگز نباید فراموش کرد، که شِیرپیوند و جانپیوند در میان است. هم تاجیکان و هم اُزبکان باید قدرِ این یگانگی بِدانند. احساسِ همخونی و برادری باید لحظهای سُست نشود و همیشه همدلی بِیفزاید. همدلی گاه، از همخونی مُهِمتر است. به خصوص همدلیای، که از خونپیوند به حاصل آمدهاست، قُدرتی خواهد داشت، که مردُم را به سرمنزلِ مقصودهای عالی بِرساند. آیندهٔ این دو خلق به این وابستگی خواهد داشت، که رشتههایِ پیوندِ دل آنها تا چه اندازه اُستُواری پیدا میکند.
علّامهٔ اقبالِ لاهوری گفتهاست:
نه افغانیم و نه تُرک و تتاریم،
چمنزادیم و از یک نوبهاریم.
تمیزِ رنگ و بو بر ما حرام است،
که ما پروردهٔ یک شاخساریم.
در چمنزارِ نوبهاران همه شاخسار از یکدیگر رنگ و بو میگیرد و در همبستگی نمو میکند. چمنزارِ تُرک و تاجیک از یک نوبهار این همه رنگآمیزی و نظرربایی دارد. قدرِ این نعمت باید دانیم و آن را چون مردُمکِ چشم احتیاط کنیم."
کتاب: خُراسان است اینجا
نویسنده: محمّدجان شکوری بُخارایی
سالِ اشاعتِ اول: ۱۹۹۶ء
"تاجکان اور اُزبکان دو برادر اقوام ہیں، اگرچہ وہ قوموں کے دو خاندانوں [ایرانی اور تُرک] سے تعلق رکھتی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہم شِیر ہیں اور اُنہوں نے کئی موارد میں ایک ہی زن اور ایک ہی دایہ کے شِیر سے پرورش پائی ہے۔ وسطی ایشیا میں، حتّیٰ اُس کی حدود سے بیرون بھی، ایسی دو اقوام کم ہی تلاش کی جا سکتی ہیں کہ جن کا خون اِس حد تک باہم آمیزش پا چُکا ہو اور اُن کی معنوی ہستی، اُن کی بینِش و فہمِش اِس حد تک باہم نزدیک آ چُکی ہو۔ اگرچہ یہ آمیزشِ خون مختلف طریقوں سے اور گاہے ناروا طرزوں سے صورت پذیر ہوتی تھی، لیکن ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ دونوں کے درمیان ہِم شِیری اور ہم جانی کا پیوند ہے۔ تاجکوں اور ازُبکوں دونوں کو اِس یگانگی کی قدر جاننا چاہیے۔ ہم خونی و برادری کا احساس ایک لحظہ بھی کمزور نہیں ہونا چاہیے اور ہمیشہ ہم دلی میں اضافہ ہوتے رہنا چاہیے۔ ہم دلی بعض اوقات ہم خونی سے اہم تر ہوتی ہے۔ خصوصاً جو ہم دلی خون کے رِشتے سے حاصل ہوئی ہو، وہ مردُم کو اپنے عالی مقصودوں کی سرمنزل تک پہنچانے کی قُدرت کی حامل ہو گی۔ اِن دو قوموں کا مستقبل اِس چیز سے وابستگی رکھے گا کہ اُن کے دلوں کے مابین اِتّصال کے رِشتے کس حد تک اُستُوار ہوں گے۔
علامہ اقبالِ لاہوری نے فرمایا ہے:
(ترجمہ) ہم نہ افغان ہیں اور نہ تُرک و تاتار ہیں۔۔۔ ہم چمن زادے ہیں اور ایک [ہی] نوبہار سے ہیں۔۔۔ رنگ و بو کی تمیز ہم پر حرام ہے۔۔۔ کیونکہ ہم ایک [ہی] شاخسار کے پرورش یافتہ ہیں۔
چمن زارِ نوبہاراں میں تمام شاخیں ایک دوسرے سے رنگ و بو حاصل کرتی ہیں اور ہم بستگی کی فضا میں نشو و نما کرتی ہیں۔ تُرک و تاجک کا چمن زار ایک ہی نوبہار کے باعث یہ تمام رنگ آمیزیاں اور نظر رُبائیاں رکھتا ہے۔ ہمیں اِس نعمت کی قدر جاننا اور اِس کی، چشم کی پُتلیوں کی مانند حفاظت کرنا لازم ہے۔"
علّامهٔ اقبالِ لاهوری گفتهاست:
نه افغانیم و نه تُرک و تتاریم،
چمنزادیم و از یک نوبهاریم.
تمیزِ رنگ و بو بر ما حرام است،
که ما پروردهٔ یک شاخساریم.
در چمنزارِ نوبهاران همه شاخسار از یکدیگر رنگ و بو میگیرد و در همبستگی نمو میکند. چمنزارِ تُرک و تاجیک از یک نوبهار این همه رنگآمیزی و نظرربایی دارد. قدرِ این نعمت باید دانیم و آن را چون مردُمکِ چشم احتیاط کنیم."
کتاب: خُراسان است اینجا
نویسنده: محمّدجان شکوری بُخارایی
سالِ اشاعتِ اول: ۱۹۹۶ء
"تاجکان اور اُزبکان دو برادر اقوام ہیں، اگرچہ وہ قوموں کے دو خاندانوں [ایرانی اور تُرک] سے تعلق رکھتی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہم شِیر ہیں اور اُنہوں نے کئی موارد میں ایک ہی زن اور ایک ہی دایہ کے شِیر سے پرورش پائی ہے۔ وسطی ایشیا میں، حتّیٰ اُس کی حدود سے بیرون بھی، ایسی دو اقوام کم ہی تلاش کی جا سکتی ہیں کہ جن کا خون اِس حد تک باہم آمیزش پا چُکا ہو اور اُن کی معنوی ہستی، اُن کی بینِش و فہمِش اِس حد تک باہم نزدیک آ چُکی ہو۔ اگرچہ یہ آمیزشِ خون مختلف طریقوں سے اور گاہے ناروا طرزوں سے صورت پذیر ہوتی تھی، لیکن ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ دونوں کے درمیان ہِم شِیری اور ہم جانی کا پیوند ہے۔ تاجکوں اور ازُبکوں دونوں کو اِس یگانگی کی قدر جاننا چاہیے۔ ہم خونی و برادری کا احساس ایک لحظہ بھی کمزور نہیں ہونا چاہیے اور ہمیشہ ہم دلی میں اضافہ ہوتے رہنا چاہیے۔ ہم دلی بعض اوقات ہم خونی سے اہم تر ہوتی ہے۔ خصوصاً جو ہم دلی خون کے رِشتے سے حاصل ہوئی ہو، وہ مردُم کو اپنے عالی مقصودوں کی سرمنزل تک پہنچانے کی قُدرت کی حامل ہو گی۔ اِن دو قوموں کا مستقبل اِس چیز سے وابستگی رکھے گا کہ اُن کے دلوں کے مابین اِتّصال کے رِشتے کس حد تک اُستُوار ہوں گے۔
علامہ اقبالِ لاہوری نے فرمایا ہے:
(ترجمہ) ہم نہ افغان ہیں اور نہ تُرک و تاتار ہیں۔۔۔ ہم چمن زادے ہیں اور ایک [ہی] نوبہار سے ہیں۔۔۔ رنگ و بو کی تمیز ہم پر حرام ہے۔۔۔ کیونکہ ہم ایک [ہی] شاخسار کے پرورش یافتہ ہیں۔
چمن زارِ نوبہاراں میں تمام شاخیں ایک دوسرے سے رنگ و بو حاصل کرتی ہیں اور ہم بستگی کی فضا میں نشو و نما کرتی ہیں۔ تُرک و تاجک کا چمن زار ایک ہی نوبہار کے باعث یہ تمام رنگ آمیزیاں اور نظر رُبائیاں رکھتا ہے۔ ہمیں اِس نعمت کی قدر جاننا اور اِس کی، چشم کی پُتلیوں کی مانند حفاظت کرنا لازم ہے۔"
آخری تدوین: