لیفٹننٹ کرنل ہارون اسلام شہید

شاکرالقادری

لائبریرین

ابوسعید سے روایت ہے کہ جب مسجد کی تعمیر کا وقت آیا تو ہم لوگ ایک ایک اینٹ لے جاتے تھے اور عمار دو دو اینٹیں، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھا تو آپ نے انکی﴿یعنی عمارکی﴾ مٹی جھاڑی اور فرمایا:
ویح عمارتقتلہ الفئۃ الباغیۃ ،یدعوھم الی الجنۃ و یدعونہ الی النار، قال : یقول عمار:اعوذ باللہ من الفتن

﴿صحیح بخاری جلد اول، باب تعاون فی بناء المسجد، رقم:2657﴾
ترجمہ:
افسوس ! کہ عمار کو باغی جماعت قتل کر ڈالے گی، ییہ انکو جنت کی دعوت دیگا اور وہ لوگ اس کو دوزخ کی طرف بلائیں گے، اس کے بعد عمار کہا کرتے تھے میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں فتنوں سے
 

qaral

محفلین
اب تک بہت ساری گفتگو ہوچکی اور میرا نہیں خیال کہ یہ کسی طر ح بھی اتفاق رائے کی جانب جائے گی مگر میں ان لوگوں سے جو مسلسل غازی برادران کو سپورٹ کر ر ہے ہیں پوچھوں گا کیا وہ سمجھتے ہیں جو ان لوگوں نےغازی برادران کیا وہ بالکل ٹھیک تھا میرا نہیں‌ خیال کہ مجھے کسی کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ میں نے اس معاملے میں نے حکومت کو سپورٹ کیا ہے مگر شروع سے یہ لکھا ہے کہ حکومت معاملے کو اور بھی اچھی طرح ہینڈل کر سکتی تھی مگر شا ید اگر وہ زیادہ نرمی دکھاتے تو اس طرح کے واقعات روزانہ ہونے لگ پڑتے آپ خود سوچئے اگر وہ غازی کی بات مان کر اس کی شرطوں پر اس کو وہاں سے محفوط رستے سے نکل جانے دیتے تو پھر تو ہر دوسرا مولوی اس طرح کی تحریک شروع کر دیتا خیر میرا سوال وہی ہے

میں ان لوگوں سے جو مسلسل غازی برادران کو سپورٹ کر ر ہے ہیں پوچھوں گا کیا وہ سمجھتے ہیں جو ان لوگوں نے کیا وہ بالکل ٹھیک تھا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

یا غلط

جواب دیں
 

qaral

محفلین
عجیب بات کرتے ہیں آپ بھی باسم کہ ان پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا ان کے تھوڑے صیحیح اور تھوڑے غلط نےاتنے سارے لوگوں کی جان لی اور جو لوگ اند سے باہر آئے ہیں تو ان کے بیانات تو ہم نے بھی سنے ہیں اگر 40% ان کے حق میں بات کر رہے ہیں تو 60% حکومت کو درست قرار دے رہے ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے اپنے لوگ بھی ان کیخلاف بات کر رہے ہیں اور زیادہ تر طالبات ہی ان کےحق میں بات کر رہی ہیں جو اند سٹوروں میں بند تھیں اور صورتحال کا ان کو اندازہ بھی نہیں تھا اور پھر ویسے بھی اپنے استاد کیخلاف بات کرنا جسسے آپ روحانی سطح پر متا ثر ہوں کیسے ممکن ہے اگر وہ غلط نہیں تھا تو
 

قیصرانی

لائبریرین
سید ابرار کی طرف سے ایک پوسٹ کی گئی تھی جو مجھے ابھی تلاش کرنے پر نہیں‌ مل رہی۔ اگر کوئی دوست مدد کر سکے۔ کچھ ہنٹس درجِ ذیل ہیں اور ان کے ساتھ ہی اس سے متعلق میرے چند سوالات ہیں (سید ابرار کی پوسٹ سے مجھے ایسا لگا تھا کہ وہ اس معامعلے کو کچھ اندر سے جانتے ہیں)

1۔ انہوں یعنی سید ابرار نے بتایا تھا کہ مسجد میں‌ "مجاہدین" تھے۔ یہ بات ہم جانتے ہیں کہ غازی اور طلباء و طالبات کو "مجاہدین" نہیں بلکہ انہی ناموں‌ سے پکارا گیا تھا جو میں نے ابھی لکھے، یعنی غازی، طلباء و طالبات۔ "مجاہدین" سے ان (سید ابرار) کی کیا مراد تھی؟

2۔ انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالعزیز اپنے بھائی کو بطور ضمانت "مجاہدین" کو دے کر برقعے میں ملبوس ہو کر نکلے تاکہ تحریک چلائی جا سکے۔ یہاں ضمانت سے ان کی کیا مراد تھی؟ ضمانت ہمیشہ اپنے سے طاقتور کو دے کر نکلا جاتا ہے۔ کیا یہاں مسجد کا کنٹرول مولانا برادران کے پاس تھا یا کہ "مجاہدین" کے پاس؟

3۔ "مجاہدین" غیر ملکی تھے یا پاکستانی؟

4۔ اگر "مجاہدین" غیر ملکی تھے تو کیا ان کے پاس مناسب دستاویزات تھی جن پر وہ سفر کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئے؟

5۔ ایک جنرل سوال۔ ایک طرف میڈیا میں عبدالرشید غازی کے بارے کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس کوئی جہادی تربیت وغیرہ نہیں‌ تھی۔ دوسری طرف میڈیا میں ہی کہا جاتا ہے کہ فضل الرحمان خلیلی غازی کے حربی استاد رہ چکے تھے افغانستان میں۔ اس کی کچھ وضاحت کہ اصل بات کیا تھی؟ (بقول بی بی سی، ایک بار جب غازی پر اسلام آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا تو انہوں نے اپنی کلاشن کوف/کلاکوف سے فائرنگ کر کے حملہ آوروں کو فرار ہو نے پر مجبور کر دیا تھا)
 

باسم

محفلین
قرال بھائی میرا خیال ہے آپ کے سوال کا جواب غازی خود بھی دے گیا تھا
" ہم نے اتنی بڑی غلطی نہیں کی جس کی اتنی بڑی سزا دی جارہی ہے "
ان کے قریب موجود طالبات کی بات کا اعتبار نہیں ہے اور ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں کا اعتبار ہے حالانکہ انہی طالبات کی بنیاد پر میڈیا نے اپنا رخ بدل لیا ہے بی بی سی اور جنگ اردو کی سائٹ دیکھی جاسکتی ہے
قیصرانی بھائی جہاں تک مجاہدین کی بات ہے تو حکومت کو چار یا پانچ دن بعد اچانک معلوم ہوا کہ 9 انتہائی مطلوب افراد اندر موجود ہیں
اور اب آپریشن ختم ہونے کے بعد اس بارے میں مکمل خاموشی ہے
یہ کیسے انتہائی مطلوب افراد تھے کہ انہیں پکڑنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی
طالبات نے یہ بھی کہا ہے کہ جب ہم باہر نکلیں اس وقت اندر 100 طلباء اور 80 طالبات تھیں
شاہد مسعود کے کالم سے ایک بچی کے اندر ہونے کا پتہ چلتا ہے
اسلام آباد (محمد صالح ظافر / خصوصی تجزیہ نگار) ” آپریشن خاموش“ جس نے لال مسجد کے میناروں، وہاں نماز و اذان اور ملحقہ جامعہ حفصہ میں تلاوت قرآن حکیم کی خوش الحان آواز کو خاموش کرا دیا ہے، نت نئے سوالوں کو جنم دے رہا ہے۔ مسجد کے گنبد پر دراڑیں نمودار ہو گئی ہیں، اس کا بیرونی حصہ نذرِ آتش ہو گیا ہے جبکہ جامعہ کا ڈھانچہ خطرناک حد تک ہل گیا ہے۔ 3/ جولائی کو آپریشن شروع ہونے کے بعد جمعرات کو پہلی مرتبہ صحافیوں کو اس جڑواں کمپلیکس کا دورہ کرایا گیا اور اس کے وہ حصے دکھائے گئے، جو اس کے موجودہ قابضین سیکورٹی فورسز دکھانے کیلئے آمادہ تھے، پاکستان کی مسلح افواج کے ارکان میجر جنرل وحید ارشد نے اس دورے میں صحافیوں کو آپریشن کی روداد سے آگاہ کیا۔ صحافی نو دن تک اس ہولناک آپریشن کی خبریں دیتے رہے لیکن عملی طور پر انہیں جامعہ حفصہ اور مسجد کے درو دیوار اس عرصے میں پہلے دن دیکھنے کا موقع مل رہا تھا، اس کا سبب حکومت کے دانشمندانہ ہتھکنڈے ہیں، جن کی وجہ سے اخبار نویسوں کو آپریشن کا شور سننے کا تو خوب موقع ملا لیکن وہ اس کا منظر یا اس کی جھلک دیکھنے سے معذور رہے۔ صحافیوں کو جامعہ کی پہلی اور دوسری منزل کے بعض کمرے دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہیں مسجد کے اگلے حصے میں بھی نہیں جانے دیا گیا۔ وفاقی وزراء یکے بعد دیگرے کمپلیکس کے فاتحانہ دورے کرتے رہے، جہاں ماحول سوگ میں ڈوبا تھا۔ جامعہ کا کیمپس بے ترتیبی سے تعمیر شدہ عمارت پر مشتمل ہے، جس کی تعمیر عام انداز میں کی گئی ہے، اس کی تعمیر میں ایسا سامان بظاہر استعمال نہیں ہوا، جس کی بنا پر اسے قلعہ قرار دیا جا سکے۔ طلبہ و طالبات کے ذاتی استعمال کی اشیاء کمروں میں جا بجا بکھری پڑی تھیں۔ان اشیا کو دیکھ کر با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ انکا تعلق حد درجہ غریب اور نادار خاندانوں سے تھا ۔ یہ طلباء فرش پر سوتے تھے اور ان کے جوتے راہداریوں میں بکھرے پڑے تھے ،جن میں خون جما تھا کونے کا ایک کمرہ اخبار نویسوں کو دکھا کر بتایا گیا کہ اس میں ایک خودکش بمبار نے دھماکے سے خود کو اڑا لیا تھا جس سے چھ دیگر افراد بھی لقمہ اجل بن گئے، کمرے میں پیٹرول بم ہونے کی وجہ سے وہاں آگ بھڑک اٹھی، کوئی شخص یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہو گا کہ کیمپس کے انتہائی اندر کوئی خودکش بمبار ایسے میں خود کو دھماکے سے کیونکر اڑائے گا جب اردگرد وہاں کوئی دشمن بھی موجود نہیں تھا۔ جن مورچوں، تہہ خانوں، سرنگوں اور دیگر دفاعی تعمیرات کا بہت چرچا تھا،وہ نہیں دکھائی گئیں، فرار کے راستوں اور اس سرنگ کا بھی سراغ نہیں ملا جو جامعہ سے لال مسجد تک جاتے ہوں۔ جنجگوؤں سے مبینہ طور پر برآمد ہونے والے ہتھیاروں کی نمائش کی گئی تھی، یہ ہتھیار بوسیدہ تھے اخبار نویسوں کو ان کی پڑتال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تاکہ وہ یہ پتہ چلا سکیں کہ انہیں حال میں زیر استعمال لایا گیا ہے یا نہیں۔ ہتھیار تو موجود تھے لیکن ان میں زیر استعمال لایا جانے والا گولہ بارود وہاں نہیں رکھا گیاتھا، گولیوں کا چھوٹا سا ڈھیر لگا دیا گیا تھا جو چھوٹے ہتھیاروں میں استعمال ہوتی ہیں۔ تقریباً تمام کمروں سے بدبو آرہی تھی، ان کمروں میں انسانی خون تو نہیں دیکھا گیا لیکن انتہائی خراب اور متعفن انسانی لاشوں سے بدبو وہاں سے اٹھ رہی تھی۔ یہ بھی حیران کن اتفاق ہے کہ جڑواں کمپلیکس کی داخلی و خارجی دیواریں گولیوں سے چھلنی تھیں جبکہ کمپلیکس کے سامنے جن دیواروں کے عقب میں فوجیوں نے پناہ لے رکھی تھی، ان پر گولیوں کے چھید دکھائی نہیں دے رہے تھے، جس سے مزاحمت کی سطح کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جامعہ حفصہ میں داخل ہوتے ہیں تو اس کے مرکزی دروازے بابِ عائشہ کے اوپر ایک بورڈ نصب ہے، جس پر مسلمان عورتوں کی دنیا میں سب سے بڑی درسگاہ کے الفاظ درج تھے۔ ذرائع ابلاغ کو وہ جگہ دکھائی گئی جہاں کرنل ہارون اسلام ایک مشن کی قیادت کرتے ہوئے گولی کا نشانہ بنے تھے۔ تہہ خانے کی نشاندہی کی گئی جہاں مولانا عبدالرشید غازی نے اپنی زندگی کا آخری سانس لیا۔ مولانا غازی کا سینہ ایک گولی نے چیرا، جس نے ان کے جسم و روح کے رشتے کو توڑ ڈالا ان کے جسم پر کئی گولیاں لگیں جس کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ ان کے جسم سے الگ ہو گئی۔مولانا عبدالرشید غازی نے اپنی آخری دنوں میں کہا تھا کہ انتظامیہ ان کی موت کے بعد بتائے گی کہ مولانا غازی کے پاس ایٹم بم بھی تھا۔ اب یہ بات درست ثابت ہو رہی ہے کہ حکومت ان کے اور مدرسے کے طلباء کیخلاف جو الزامات عائد کر رہی ہے، انہیں چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ ان طلباء کو مزاحمت کار اور جنگجو کا نام دیا جا رہا ہے۔ مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کے وحید ارشد کی تفصیلی بریفنگ کے باوجود متعدد سوالات اٹھائے جاتے رہیں گے، جاں بحق ہونے والوں کی تلاش لاینحل سوال رہے گا۔ غیر ملکی عناصر کی موجودگی سربستہ راز ہی رہے گی۔
آج کا جنگ
 

سید ابرار

محفلین
سید ابرار کی طرف سے ایک پوسٹ کی گئی تھی جو مجھے ابھی تلاش کرنے پر نہیں‌ مل رہی۔ اگر کوئی دوست مدد کر سکے۔ کچھ ہنٹس درجِ ذیل ہیں اور ان کے ساتھ ہی اس سے متعلق میرے چند سوالات ہیں (سید ابرار کی پوسٹ سے مجھے ایسا لگا تھا کہ وہ اس معامعلے کو کچھ اندر سے جانتے ہیں)
قیصرانی صاحب میں ”اندر“ سے کچھ نھیں جانتا ہوں، ظاہر ہے جب پاکستان میں رہنے والوں کو ہی ”حقائق“ سے ”نا آشنا“ رکھا گیا ہے ، تو بھارتی میڈیا ”حقائق “ سے پردہ کیسے اٹھاسکتا ہے ؟
یھاں ایک انگلش میگزین نے تو یہ عنوان لگایا ہے کہ یہ انڈیا کے لئے ایک سبق ہے یعنی پرویز مشرف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اب انڈیا کو بھی دینی مدارس پر فوجی آپریشن کرنے چاہئے ،اور ”بنیاد پرستوں“ کو ختم کردینا چاہئے ،
مگر ظاہر ہے ، بھارت میں نہ تو فوجی حکومت ہے اور نہ آمریت ، کہ پلٹ کر کچھ نہ” پوچھا “جائے ، اور چونکہ ہر 5 سال کے بعد بلکہ کبھی تو 3 سال کے بعد ہی ، مسلمانوں کے آگے ہاتھ جوڑ کر ، ووٹ مانگنے پڑتے ہیں ، اس لئے بے چارے سیاست داں اس قسم کی ”دہشت گردی “ دل سے چاہنے کے باوجود ، کر نہیں پاتے ،
آپ کو گجرات کے بد ترین فسادات یاد ہونگےمگر اس کے بعد ہندوستان کے 20 کروڑ مسلمانوں نے مرکزی الیکشن میں بی ، جے ، پی کو ہرا کر دن میں” تارے “بھی دکھلادئے تھے ،
 

سید ابرار

محفلین
1۔ انہوں یعنی سید ابرار نے بتایا تھا کہ مسجد میں‌ "مجاہدین" تھے۔ یہ بات ہم جانتے ہیں کہ غازی اور طلباء و طالبات کو "مجاہدین" نہیں بلکہ انہی ناموں‌ سے پکارا گیا تھا جو میں نے ابھی لکھے، یعنی غازی، طلباء و طالبات۔ "مجاہدین" سے ان (سید ابرار) کی کیا مراد تھی؟

2۔ انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالعزیز اپنے بھائی کو بطور ضمانت "مجاہدین" کو دے کر برقعے میں ملبوس ہو کر نکلے تاکہ تحریک چلائی جا سکے۔ یہاں ضمانت سے ان کی کیا مراد تھی؟ ضمانت ہمیشہ اپنے سے طاقتور کو دے کر نکلا جاتا ہے۔ کیا یہاں مسجد کا کنٹرول مولانا برادران کے پاس تھا یا کہ "مجاہدین" کے پاس؟

3۔ "مجاہدین" غیر ملکی تھے یا پاکستانی؟

4۔ اگر "مجاہدین" غیر ملکی تھے تو کیا ان کے پاس مناسب دستاویزات تھی جن پر وہ سفر کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئے؟

جس بات کا آپ نے حوالہ دیا ہے ، اس کا لنک میں نیچے فراہم کررہا ہوں ، پہلے اس کو پڑھ لیں ، تاکہ اس کے بعد مٰیں جو بات کہ رہا رہوں ، وہ آپ سمجھ جائیں
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=161577#post161577
آپ نے یہ پڑھ کر اندازہ لگالیا ہوگا کہ یہ ایک الزامی جواب تھا ؛ چونکہ جناب شاکر القادری صاحب مولانا عبد العزیز صاحب کے برقعہ میں فرار ہوتے ہوئے پکڑے جانے کا مذاق اڑارہے تھے ، ( جس پر اب سوالیہ نشان لگ چکے ہیں ،) شاید موصوف کی خواہش تھی کہ اگر مولانا بھی اپنے بھائی کی طرح پاکستان کی بھادر فوج کے ہاتھوں شھادت کا جام پی لیتے ، تو زیادہ اچھا ہوتا ، مگر افسوس یہ ”خواہش“ پوری نہ ہوسکی ،بھرحال اللہ نیتوں کو زیادہ جانتا ہے ،
تو میں نے اس مذاق اڑائے جانے کا ایک الزامی جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ اس کو ”جنگ“ مانتے ہی ہیں ، جو مولانا عبدالعزیز اور فوج کے درمیان ہورہی تھی ، (حالانکہ یہ حقیقت میں جنگ نھیں تھی بلکہ ایک ”احتجاج“ تھا ،) بھر حال اگر جنگ مان‌بھی لیں ، تب بھی یہ کوئی مذاق اڑانے کی چیز نہیں ، اس لئے کہ جنگ ”جوش“ سے نہیں ، بلکہ ”ہوش “ سے لڑی جاتی ہے ، اور مولانا کا اس طرح نکلنا ایک جنگی حکمت عملی ہی قرار دی جاسکتی ہے
دوسری بات یہ ہے کہ میں نے جھاں بھی مجاھدین کا لفظ استعمال کیا اس سے مراد مدرسہ کے وہ طلبہ تھے جو آخری دم تک پاک آرمی کے سامنے ڈٹے رہے ، خود طالبات نے اپنے بیان میں ان کو مجاھدین بھائیوں کے لفظ سے خطاب کیا ، مجاھدین سے کبھی کوئی خاص گروہ مراد نہیں لیا جاسکتا بلکہ جس کسی نے باطل کے خلاف آواز بلند کی وہ مجاھد ہے ، چاہے زبان سے یا تلوار سے ، یا کسی اور ذریعہ سے ، اور حقیقی مجاھد تو مجاھد بالسیف ہی ہے ،
 

سید ابرار

محفلین
میں نے اپنی پوسٹ میں غازی صاحب کی ضعیف والدہ اور معصوم نا بالغ بچوں کا ذکر کیا تھا جن کو غازی صاحب نے باہر جانے کی اجازت نہ دی میں نے ان لوگوں کا ذکر نہیں کیا جو خود اپنی مرضی سے مبینہ شوق شہادت سے سرشار جامعہ کے اندر رہ رہے تھے انہوں نے اپنے لیے خود یہ راستہ اختیار کیا تھا
جب کہ ضعیف والدہ اور معصوم نابالغ بچوں کو شیلٹر اور خود غرضی کے لیے استعمال کیا گیا اور کل قیامت کو یہی بچے پوچھیں گے کہ تمہیں تو شوق شہادت تھا ہمیں کس لیے شیلٹر بنایا کیا نابالغوں پر بھی شریعت لاگو ہوتی ہے کیا ہم پر بھی جہاد کا فریضہ عائد ہوتا تھا

”بہت خوب “
باہر جانے کی اجازت نہ دینا یہ بڑا جرم ہے ؟ یا خود ان کو اپنی گولیوں سے بھون دینا ؟
نشاندہی فرمائیں
اور حیرت ہے ان بچوں کی تو آپ کو فکر ہے ، اور جو طالبات اندر تھیں کیا پاک آرمی کے لئے ان کا قتل کرنا ”جائز“ ہوچکا تھا ،؟
کوئی تو سوچے ،،،،،،،،،،،،،،،، انصاف سے سوچے ،،،،،،،،،،،،،،،،
جس ”مبینہ غلطی“ کی اتنی ”بھیانک سزا “ دی گئی، کیا وہ غلطی ،،،،،،،،،،،،،،،،،واقعتا اتنی بھیانک تھی ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،یا پھر ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، کوئی ہے جو پرویز مشرف سے اس کا جواب پوچھے ؟
 

سید ابرار

محفلین
میں نے میڈیا کے ساتھ رشید غازی کی ٹیلی فونک گفتگو کو کئی مرتبہ براہ راست سنا ہے میں نے میڈیا کے افراد کو بار بار غازی رشید کی منتیں کرتے ہوئے دیکھا ہہے کہ خدارا والدہ کو باہر بھیج دیں پچوں اور بچیوں کو باہر بھیج دیں بلکہ ایک مرتبہ تو جیو نیوز کے کامران خان نے میڈیا کی طرف سے یہ ضمانت بھی فراہم کر دی تھی کہ پورے کا پورا میڈیا آپ کے معاملہ کو واچ کرے گا اور آپ کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہونے دی جائے گی
میں نے بلقیس ایدھی اور عبدالستار ایدھی کی اپیلیں بھی سنیں
میں نے علمائے کرام کے اس وفد کو بھی مسجد میں جاتے اور باہر آتے دیکھا

کم از کم میں تو اندھا بہرا نہیں
میرے کانوں میں غازی عبدالشید کی آوازیں اب تک گونج رہی ہیں جہاں وہ بچوں کو باہر بھیجنے سے انکاری ہیں
کتنا اچھا ہوتا کہ جیو کے کامران صاحب صدر پرویز مشرف سے یھی اپیلیں فرماتے ، کہ براہ کرم ”طاقت“ کا ناجاٰئز فاٰئدہ مت اٹھائیں ،
اپنی ”بھادر“ فوجیوں کے ہاتھوں معصوم بچوں اور نوجوانوں کا خون مت بھائیے ،
آخر گولیاں چلانے کا اختیار انہی کے پاس تھا
یھی نھیں بلکہ ایدھی صاحب ، معزز علماء بلکہ پوری قوم پرویز مشرف کے آگے ڈٹ کر کھڑی ہوجاتی ،جیسے چیف جسٹس والے معاملہ میں ڈٹ کر کھڑی ہوئی تھی ، تو کیا پرویز مشرف کی ”ہمت“ تھی کہ اس قسم کے کسی آپریشن کے بار ے میں سوچ لے ، جس کے لئے شاید ،،،،،،،،،،،،،،،،سب سے بڑا خدا” اقتدار “ہی ہے ،
اللہ نے ہمیں جو آنکھیں دی ہیں اس نے تو یھی دیکھا کہ
لال مسجد کے اندر جتنا خون بھا ہے
چاہے معصوم بچوں کا ہو
یا بے گناہ طالبات کا ،
سب یا تو انھی فوجیوں کی گولیوں کانشانہ بنے ہیں ، یا انھی کے چلائے ہوئے تیروں کا نشانہ


بلکہ ایک اور سوال پرویز مشرف کے ، حامیوں سے
اگر ”یرغمال“
کوئی امریکی سفیر ہوتا
یا پرویز مشرف کی کوئی اولاد
یا کوئی وزیر
بلکہ
یاکوئی امریکی باشندہ
تو کیا ”یزید وقت پرویز مشرف“ کی ”جرات تھی کہ اس قسم کا کوئی آپریشن کرسکے ،بلکہ ”سوچ“ بھی لے
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
منصور "قیصرانی" بھائی ہر وقت action میں ہوتے ہوں کبھی کبھی reaction بھی ہوتا ہے ;)
 

ساجداقبال

محفلین
سید ابرار برادر آپ خوامخواہ دل جلا رہے ہیں، ان "روشن خیالوں" کو اسوقت آپریشن کی یاد کیوں نہیں آئی جب ایم کیو ایم "اپنی" ریاست در ریاست میں لوگوں کا قتل عام کر رہے تھے. اسوقت تو یہ ماضی میں جاکر ایم کیو ایم کے موجودہ اقدامات کا جواز ڈھونڈ رہے تھے. ایم کیو ایم والوں نے تو حقیقتا ریاست در ریاست جناح پور کے نقشے بھی بنا لئے تھے. یہ لوگوں ایم کیو ایم کی دہشتگردیوں کیلیے تو تاویلیں نکال لیتے ہیں مگر اس موجودہ معاملہ کی تہہ تک نہیں جانا چاہتے. یہ کبھی آپکو یہ نہیں بتائیں گے کہ مسجدیں گرا کر حکومت نے اسلام کی بہت خدمت کی. اور پھر انہی مسجدوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کے وعدہ سے مکر کر اسلام کو مزید چار چاند لگا دیے.
 
Top