تاسف لیاقت علی عاصم انتقال فرما گئے۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
انا للہ و انا الیہ راجعون
دورِ حاضر کے معتبر شعراء میں سے ایک صاحبِ طرز شاعر محترم لیاقت علی عاصم خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

تدفین بعد نماز ظہر محمد شاہ قبرستان نارتھ کراچی میں ادا کی جائے گی۔

دعا کو بے اثر جانا ہے آخر
بہت جی کر بھی مر جانا ہے آخر
لیاقت علی عاؔصم
 

فرقان احمد

محفلین
محترم لیاقت علی عاصم 14 اگست 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے ۔۔ ابتدائی سکونت کیماڑی منوڑہ رہی۔۔ تعلیم کے حصول کے بعد۔۔ معاشی ضرورت کے تحت مختلف اداروں سے منسلک رہے۔اس کے بعد کراچی لغت بورڈ نے انہیں بطور مدیر اعلی کے تفویض کیا گیا۔ ہنوز اسی ادارے سے وابستہ ہیں۔۔ انتہائی رحم دل، منکسرالمزاج ، مرنجا مرنج اور ذود رنج۔۔ نابغہ روزگار ہستی ۔۔ اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ اب نارتھ کراچی میں سکونت پزیر ہیں۔۔” سبدِ گل” کے نام سے شعری کلیاں ۔۔ دوسرا مجموعہ ” آنگن میں سمندر” اور تیسرا شعری مجموعہ ” رقصِ وصال” کے نام سے منصہ ءِ شہود پر آچکے ہیں۔۔ غالب سے نہایت عقیدت رکھتے ہیں اور اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ یہ دیکھیئے :
غالب نے سونپ دی مجھے عاصم ، عروسِ شعر
“حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا ”
انتہائی مشّاق مصورہونا۔۔ ان کی شخصیت کا دوسرا رخ ہے۔ کلاسیکی موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔۔ پرروردگار نے انہیں خوبصورت آواز سے نوازا ہے۔۔۔ ان کے حلقہءِ دوستاں میں: جنابِ عزم بہزاد،نصیر ترابی، خواجہ رضی حیدر، جاذب ضیائی اور سعید آغا جیسی نامور شخصیات شامل ہیں۔مجھ ناچیز کو بھی ان سے شرفِ مجلس حاصل ہے۔ انہیں حیطہءِ متعلقہ سے بھرپور آگاہی حاصل ہے ؛
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
پیشِ نظر غزل ان کے خاص لب و لہجے کی ترجمانی کرتی ہے۔داخلی و خارجی حقیقتوں کا بھرپور اظہار،غزل کو حدیثِ دلبری سے حدیثِ زندگی کی جلا دینے میں عاصم صاحب کا اپنامنفرد انداز ہے۔۔۔۔کہیں‌کہیں شبہات غزل کے حسن کو دوآتشہ کردیتے ہیں۔ میرا مقصد صرف آپ سے ان کی شخصیت کا تعارف کرانا تھا جس پر مجھ ایسا طفلِ مکتب کماحقہ‘ بات کرنے سے بھی معذور ہے۔شعر پر بات کرنے کو زبان جل جاتی ہے۔۔ یہ منسب ، اہل علم کو سزاوار ہے۔
میں ایسا کون زندہ ہوں کہ پوچھوں
کراچی کے غزل خواں مرگئے کیا
والسلام
م۔م۔مغل

لیاقت علی عاصم 14 اگست 1951 میں پیدا ہوئے اُن کے اجداد کا تعلق ہندوستان کے ساحلی علاقے، کوکن سے ہے۔ مادری زبان (کوکنی) مراٹھی کی ایک بولی ہے۔ والد، حاجی علی شرگائوں کر نے قرارداد پاکستان منظور ہونے کے فوراً بعد مغرب کا رخ کیا۔ کراچی کے ساحلی علاقے، منوڑا میں ڈیرا ڈالا ۔
آٹھویں تک تعلیم منوڑا سے حاصل کی۔ کھارادر کے ایک اسکول سے 68ء میں، سائنس سے میٹرک کیا۔ پھر ایس ایم سائنس کالج میں داخلہ لے لیا ۔ پھر اسلامیہ کالج کا حصہ بن گئے۔ انٹر کے بعد اپنا بوجھ خود ڈھونے کی خواہش پر 320 روپے ماہ وار پر کے پی ٹی میں ملازم ہوگئے ۔ روشنی کو پیغامات کے قالب میں ڈھالنے کا فن سیکھنے کے لیے چھے ماہ کا کورس ہوتا تھا، جو اُنھوں نے ڈیڑھ ماہ میں پاس کر لیا ۔ اُسی زمانے میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کیا۔ خواہش تھی کہ یونیورسٹی میں پڑھا جائے۔ شعبۂ صحافت میں داخلہ نہیں ہوا، تو عارضی طور پر شعبۂ اردو کا حصہ بن گئے۔ پھر وہیں دل لگ گیا۔ اُسی مضمون میں ماسٹرز کیا ۔ ماسٹرز تو بہ آسانی کر لیا، مگر ملازمت کے لیے بڑے دھکے کھانے پڑے۔ درخواستیں جمع کرواتے، انٹرویوز دیتے، ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرتے، مگر بے روزگاری ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیتی ۔
خاصی بھاگ دوڑ کے بعد بالآخر 80ء میں وہ اردو ڈکشنری بورڈ سے نتھی ہوگئے۔ یہ قصّہ خاصا دل چسپ ہے۔ کہتے ہیں، پریشانی کے اس زمانے میں ایک دوست نے اُنھیں ڈاکٹر ابوالخیرکشفی سے بات کرنے کا مشورہ دیا۔ براہ راست تقاضا کرنے کے وہ قائل نہیں تھے، سو ایک غزل لکھ کر بھیج دی،
جس کے دو اشعار کچھ یوں تھے:

فکرِ معاش دن یہ دکھائے تو کیا کروں
ماں کی دعا بھی کام نہ آئے تو کیا کروں
تاریکی سارے گھر کی مسلط ہو ذہن پر
اور چاند مجھ کو چھت پر بلائے تو کیا کروں

کشفی صاحب نے دوسرے ہی روز اردو ڈکشنری بورڈ پہنچنے کی ہدایت کر دی۔ پہلے کارڈ نویسی کرتے رہے۔ پھر پرانے مسودوں کی ایڈیٹنگ شروع کی۔ 90ء میں ایڈیٹر کا منصب سنبھالا، اور2011 میں اسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ جس زمانے میں ادارے سے منسلک ہوئے تھے، ’’تاریخی اردو لغت‘‘ کی تیسری جلد پر کام ہورہا تھا۔ بائیسویں اور آخری جلد بھی اُن کی موجودگی میں شایع ہوئی۔ الغرض اپنے کیریر میں وہ اس لغت کی بیس جلدوں کی تیاری میں شامل رہے۔ خدمات کے اعتراف میں ادارے کی جانب سے تعریفی سند اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔
پیشہ ورانہ سفر کے بعد شعری سفر پر بات شروع ہوئی۔ ان کے بہ قول، گھر کے ماحول اور موسیقی سے شغف نے اُنھیں شعر کہنے کی راہ سُجھائی۔ 65ء کی جنگ میں خندق کھودنے کے تجربے سے گزرے، جس نے اندر کے شاعر کو اظہار کی دہلیز پر پہنچا دیا۔ پہلی غزل تب ہی کہی۔ اِس ضمن میں اسکول کے استاد، عبدالجبار ہاشمی کی حوصلہ افزائی خوب کام آئی۔ استاد نے اُنھیں داغ کو پڑھنے کا مشورہ دیا کہ داغ زبان کا شاعر ہے۔ نویں کے استاد، عبدالماجد نے بھی راہ نمائی کی۔ آنے والے برسوں میں سر نہوڑاے شعر کہتے رہے۔ کسی سے اصلاح نہیں لی۔ اپنا کلام کسی کو دکھاتے ہوئے گھبراتے تھے۔ ابتدا میں نظمیں کہیں، رباعیات کا بھی تجربہ کیا، پھر اظہار کی خواہش نے غزل کے قالب میں ڈھلنا شروع کر دیا۔ تخلص تو عاصم ہی تھا، مگر عندلیب شادانی سے متاثر ہو کر عاصم شادانی کے نام سے بھی لکھا۔ پھر لیاقت علی عاصم ہوگئے
70ء میں اُن کی غزل ایک مؤقر اخبار کے ادبی صفحے پر شایع ہوئی۔ پھر ’’اوراق‘‘ میں اُن کی شاعری نے جگہ پائی
مشاعرے پڑھنے کا باقاعدہ آغاز تو 74ء میں ہوا، مگر پہلا مشاعرہ اُنھوں نے ایس ایم کالج کی طرف سے پڑھا تھا۔ دراصل بھٹو صاحب کے زمانے میں ’’دور اصطلاحات‘‘ کے زیر عنوان این ای ڈی کالج میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔ راغب مراد آبادی اس کے میزبان تھے۔ پروین شاکر کا بھی، اُن کے مطابق، وہ پہلا مشاعرہ تھا
مجموعوں کی اصل تعداد تو چھے ہے، مگر وہ 88ء میں شایع ہونے والے اپنے دوسرے مجموعے ’’آنگن میں سمندر‘‘ کو اپنی پہلی کاوش گردانتے ہیں۔ اِس کتاب میں اُن کے فن کی بابت عبیداﷲ علیم، احمد ہمدانی اور حسنین جعفری کے مضامین شامل تھے۔ ’’آنگن میں سمندر‘‘ اُن کا اکلوتا مجموعہ ہے،
96ء میں تیسرا مجموعہ ’’رقص وصال‘‘ شایع ہوا
اگلا مجموعہ ’’نشیب شہر‘‘ تھا
2012 میں ’’باغ تو سارا جانے ہے‘‘ شایع ہوئی
زندگی کا خوش گوار لمحہ وہ تھا، جب خود کو بہ طور شاعر والد کے سامنے ظاہر کیا۔ دُکھ بھرے لمحات بھی کئی آئے۔ ہمیشہ کسی شے کی کمی کا احساس رہتا ہے۔ غم، اپنوں کی جدائی سے نتھی ہیں۔
عام طور سے شلوار قمیص میں نظر آتے ہیں۔ سی فوڈ سے رغبت ہے۔ بارش کا موسم بھاتا ہے۔ 81ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹوں، دو بیٹیوں سے نوازا۔ بچوں سے دوستانہ روابط رہے۔ گھر والوں نے کبھی وقت کی کمی کی شکایت نہیں کی کہ گھر اور پیشہ ورانہ ذمے داریاں میں ہمیشہ توازن رکھا۔
تین عشروں تک لیاقت علی عاصم اردو ڈکشنری بورڈ سے نتھی رہے۔ تاریخی اردو لغت کی تیاری میں وہ شامل تھے۔ بتاتے ہیں، 58ء میں قائم ہونے والے اس ادارے نے ستر کی دہائی میں ایک ایسی لغت پر کام شروع کیا، جس میں الفاظ کے معنوں کے ساتھ اُن کی سند اور تاریخ بھی ہو۔ بیس جلدیں اُن کی موجودگی ہی میں تیار ہوئیں۔ اُنھوں نے اِسے ’’اپ ڈیٹ‘‘ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کروا دیا تھا۔ توقع تھی کہ ریٹائرمینٹ کے بعد حکومت اِس ضمن میں ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرے گی، مگر ایسا نہیں ہو، جس کا انھیں قلق ہے

ایک نقطۂ نگاہ سے تو یہ تنہا اور اداس لوگوں کا مرکز ہے، جہاں وہ ایک دوسرے کا غم بانٹتے ہیں۔ ہاں، کئی ایسے ہیں، جنھیں اصولاً شعر نہیں کہنا چاہیے، مگر ہم کسی کو روک نہیں سکتے۔ کوئی برا اور فضول کام کرنے سے بہتر ہے کہ انسان شعر کہہ لے۔‘‘ یہاں سے رومن اسکرپٹ کے بڑھتے استعمال پر بات نکلی۔ کہنا ہے،’’میں بھی رومن میں لکھتا ہوں، مگر اِس کا سبب میری نااہلی اور تکنیکی کم زوری ہے۔ البتہ میں یہ نہیں سمجھتا کہ اردو رسم الخط کو خطرہ ہے۔ یہ باقی رہے گا۔ میں رومن اسکرپٹ برتنے والوں سے یہی کہوں گا کہ وہ تلفظ کا خاص خیال رکھیں۔ لفظ کی ہجے اس طرح لکھیں کہ پورا تلفظ آجائے۔

ان کے کچھ اشعار آپ سب کی نظر

لوٹ آؤگے مرے پاس پرندے کی طرح
مری آواز کی سرحد سے گزر جاؤگے کیا

چھوڑ کر ناؤ میں تنہا مجھے عاصم تم بھی
کسی گمنام جزیرے پہ اُتر جاؤگے کیا

-------------------------------------

پھرے دشت دشت شاید در و بام کی اُداسی
مرے بعد کیا کرے گی مرے نام کی اُداسی

مرے ہم سفر تھے کیا کیا، میں کسی کو اب کہوں کیا
کوئی دھوپ دوپہر کی، کوئی شام کی اُداسی

------------------------------------

آنگن میں گم صم بیٹھا ہوں بے اسبابی کا رنج لئے
سنّاٹا باتیں کرتا ہے مجھ سے میں گویا زندہ ہوں

اوّل تو کوئی پوچھے گا نہیں ، اُس شہر میں میرے بارے میں
بالفرض یہ مشکل آن پڑے عاصم تو یہ کہنا زندہ ہوں
 

جاسمن

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ مغفرت فرمائے۔ جنت الفردوس میں جگہ دے۔ ان کی قبر کو روشن،ہودار،کشادہ اور ٹھنڈا رکھے۔ اس میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے۔ لواحقین کو صبرِ جمیل دے اور مرحوم کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے اور انھیں ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
 

ابوعبید

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائیں ۔ اور لواحقین کو صبر عطا فرمائیں ۔ آمین
 
کل ہی ان کا آخری مجموعہ کلام شائع ہوا۔

FB-IMG-1561784391314.jpg
 

بافقیہ

محفلین
انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔

ان کی ایک خوبصورت غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہیں ایسا نہ ہو دامن جلا لو
ہمارے آنسوؤں پر خاک ڈالو

منانا ہی ضروری ہے تو پھر تم
ہمیں سب سے خفا ہو کر منا لو

بہت روئی ہوئی لگتی ہیں آنکھیں
مری خاطر ذرا کاجل لگا لو

اکیلے پن سے خوف آتا ہے مجھ کو
کہاں ہو اے مرے خوابو خیالو

بہت مایوس بیٹھا ہوں میں تم سے
کبھی آ کر مجھے حیرت میں ڈالو
 

بافقیہ

محفلین
افسوس کے ساتھ ۔۔۔ :cry:
ہمارا تعلق کوکن کے بالکل قریب سے ہے اور خود ہماری مادری زبان نوائطی میں کوکنی زبان کے بیشتر الفاظ شامل ہیں۔۔۔
 
نوے کی دھائی کے آغاز میں دبئی میں سلیم جعفری کے منعقد کردہ مشاعروں کی وڈیوز دیکھنا میرا مشغلہ تھا۔ ان دنوں دبئی کے المنصور وڈیو والے یہ مشاعرے وڈیو کیسٹس پر ریلیز کرتے تھے اوریہ کیسٹس دس روپے کرائے پر مل جاتے تھے۔ ایسے ہی مشاعرے کے دوران میرا لیاقت علی عاصم اور ان کی شاعری سے پہلا تعارف ہوا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ سلیم جعفری نے ان کے تعارف میں محشر بدایونی کا یہ فقرہ دہرایا کہ "آنے والی غزل کے تیور دیکھنے ہوں تو لیاقت علی عاصم کی شاعری دیکھو"۔ انھوں نے مشاعرے میں جو دو غزلیں پڑھیں ان کے مطلع یہ تھے:

ہمیں پسند سہی، اب یہ رنگ مت پہنو
پرائے تن پہ ہماری امنگ مت پہنو

ہمارا خواب کیا جھوٹا تھا جو تعبیر تک پہنچا
نہ مجنوں کو ملی لیلیٰ نہ رانجھا ہیر تک پہنچا

میں تادیر ان غزلوں کے حصار میں رہا اور کراچی کے مختلف بک اسٹالز پر لیاقت علی عاصم کے شعری مجموعے ڈھونڈتا رہا جس میں مجھے ناکامی ہوئی۔ وقت گزرتا گیا۔ 1995 میں میری ملاقات جون ایلیا کے حجرے میں انیق احمد سے ہوئی، جنھوں نے مجھے طارق روڈ پر واقع ایک ایرانی ہوٹل میں مدعو کیا جہاں بقول ان کے چند احباب منگل کی شام کو جمع ہوتے ہیں۔ وہاں میری پہلی ملاقات لیاقت علی عاصم سے ہوئی۔ ان کے علاوہ عزم بہزاد اور سعید آغا سے بھی یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ پہلی ملاقات میں لیاقت علی عاصم مجھے بہت روکھے سے لگے۔ چپ چاپ۔ ہاتھ میں سگریٹ، آنکھیں دیواروں پر کچھ ڈھونڈتی ہوئی، اور آس پاس سے بے نیاز بلکہ بیزار۔ اس ہوٹل میں دو تین ملاقاتوں کے بعد عزم بہزاد نے مجھے اپنے گھر سنیچر کی رات ہونے والی ہفتہ وار نشست میں شرکت کی دعوت دی۔ اب ہر سنیچر کی رات دیگر احباب کے ساتھ لیاقت علی عاصم سے بھی ملاقاتیں شروع ہوگئیں، اور رفتہ رفتہ ان کی شخصیت پر سے بیزاری اور روکھے پن کا خول اترنے لگا اور وہ لیاقت علی عاصم نمودار ہوا جو اپنی غزلوں کی طرح خوبصورت، رنگوں اور خوشبو بھرا رسیلا انسان ہے۔ شعری وفور سے لبریز۔ صاف گو۔ صاف دل۔ ایک پیارا دوست۔ عزم بہزاد کی نشست میں ہم سب تازہ غزلیں سناتے تھے مگر سچی بات ہے کہ عاصم بھائی کی غزل اکثر و بیشتر سب سے اچھی ہوا کرتی تھی۔

کچھ باتیں میں ان دنوں بھی کہتا تھا اور اب بھی کہتا ہوں۔ لیاقت علی عاصم جیسا تراشیدہ، مضبوط اور رواں مصرع کہنے والے شاعر بہت کم ہیں، اور بہترین اشعار کی جتنی تعداد لیاقت علی عاصم کے کلام میں ملتی ہے، اس کی مثال فی زمانہ ملنا بہت مشکل ہے۔ چند ماہ قبل عاصم بھائی کی خواہش پر میں نے ان کی کلیات سے غزلوں کا انتخاب کیا تو بے حد کڑا معیار قائم رکھنے کے باوجود میں انتخاب کو101 غزلوں سے کم نہ کرسکا۔ خدا کرے عاصم بھائی جلدی سے ٹھیک ہوں اور یہ انتخاب شائع ہو جس کا مقدمہ لکھنے کا وعدہ بھی انھوں نے مجھ سے لے رکھا ہے۔

لیاقت علی عاصم فنی طور پر پختہ اور زبان جاننے والے شاعر ہیں۔ اپنے بعد آنے والوں کے لیے ریاضت اور محنت کی عمدہ مثال ہیں۔ وہ بحیثیت شاعر آج بھی ویسے ہی تر و تازہ ہیں جیسے تیئیس چوبیس برس قبل تھے۔ بہت سی غزلیں ابھی کہنا باقی ہیں۔ بہت سے اشعار ہمیں یاد ہونا باقی ہیں۔ ابھی بھائی اقبال پیرزادہ نے عاصم بھائی کی تصویر بھیجی۔ دل دہل گیا۔ دعائیں کرتے ہوئے یہ تحریر لکھ دی کہ اس بہانے مزید دعائیں جاگیں اور عاصم بھائی یکایک اٹھ بیٹھیں اور کہیں "مچھلی کھائیں آج؟"
-----------------------------------------------------------------------------

عرفان ستار
 
خبر ملی ہے کہ ان کے بھائی بھی انتقال فرما گئے ہیں۔
ان کے بڑے بھائی عبدالحمید صاحب بھی دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
الله پاک دونوں بھائیوں کو غریقِ رحمت کرے، درجات بلند فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے!
آمین یارب العالمین!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top