امیرالاسلام ہاشمی لکھنا پڑا مجھکو: امیرالاسلام ہاشمی

محمد امین

لائبریرین
بہ مجبوری ہر اک رنج و محن لکھنا پڑا مجھ کو،
بنا کر خود کو موضوعِ سخن لکھنا پرا مجھ کو،

وہ بے ہنگم سی کہ جن کو دیکھ کر میں توبہ کرتا تھا،
بہ مجبوری انہیں "توبہ شکن" لکھنا پڑا مجھ کو،

زبانیں جن کی قینچی کی طرح چلتی ہیں شوہر پر،
انہیں شیریں زباں، شیریں دہن لکھنا پڑا مجھ کو،

ہر اک محفل میں جلووں کی جو رشوت پیش کرتی تھیں،
وہ جیسی بھی تھیں "جانِ انجمن"‌لکھنا پڑا مجھ کو،

مری مجبوریوں نے نازکی کا خون کرڈالا،
ہر اک "گوبھی بدن"‌کو "گلبدن"‌لکھنا پڑا مجھ کو،

جب اک "الہڑ" بنی دلہن کسی "بوسیدہ" شوہر کی،
تو اسکے سرخ‌جوڑے کو کفن لکھنا پڑا مجھ کو،

وہ جنکی عمر کی گھڑیاں نہایت سست چلتی ہیں،
سند سے انکی پیدائش کا سِن لکھنا پڑا مجھ کو،

بسا اوقات حرمت بھی قلم کی داؤ پر رکھ دی،
لٹیروں کو "محبانِ وطن" لکھنا پڑا مجھ کو،

حقیقت یہ کہ وہ بچے نہ مجرم تھے نہ قاتل تھے،
تو سب کا قصہِ دار و رسن لکھنا پرا مجھ کو،

بہت مشکل تھا جن کو ڈھونڈنا "میک-اپ کے ملبے"‌سے،
سو اندازے سے ان کا "بانکپن" لکھنا پڑا مجھ کو۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اف، کس آزمائش سے گزرنا پڑا مجھ کو،
یہ کسی زمانے کی پنجابی فلموں کے سکرپٹ رائٹر کی روداد لگتی ہے جب انتہائی وزنی ہیروئنیں ڈانس کرتے ہوئے گندم کے کھیتوں میں تھریشر کی طرح پھر جایا کرتی تھیں۔ :laughing:
 
Top