لڑکی / عورت کی شادی میں ’ولی‘ کی اہمیت ؟

شمشاد

لائبریرین
پاکستان میں اور کون سے قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہیں؟ سب انگریزی قوانین ہی تو ہیں۔

اگر کوئی ایک آدھ قانون قرآن و سنت کے مطابق ہے بھی تو ہماری روشن خیال قیادت اسے بھی ختم کرنے کے چکر میں ہے۔

دوسری بات یہ کہ ہمارے علماء بھی تو اسلام سے مخلص نہیں ہیں۔ ان کو بھی کرسی، فرقہ اور جماعت کی پڑی ہے نہ کہ اللہ، رسول اور قرآن کی۔ اور یہی ہماری بدقسمتی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کارتوس خان نے کہا:
قیصرانی بھائی آپ نے اپنا خیال ظاہر کر دیا ہو سکتا ہے یہ درست ہو۔۔۔ لیکن بحیثیت ممبر جو بات میں جاننا چاہ رہا ہوں کیا میرا اتنا بھی حق نہیں ہے کہ میں اپنے ذہن میں‌ پیدا ہونےوالے سوالات کا جواب طلب کر سکوں۔۔۔ اس لئے اس لڑی کو بند کرنے کی بجائے اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرنے کی درخواست کروں گا۔۔۔ ورنہ یہ مسئلہ بھی دیگر مسئلوں کی طرح اختلافی مسئلہ قرار دے دیا جائے اور پھر کیسے ایک اختلافی مسئلہ قانون کی شکل اختیار کر سکتا ہے؟؟؟۔۔۔ اُمید ہے کہ آپ میرے ساتھ تعاون کریں‌گے۔۔۔

وسلام۔۔۔
آپ کی پہلی پوسٹ کا سوال تھا کہ حدیث کا حوالہ دیا جائے جو مہوش بہن نے دے دیا۔ اگر آپ کو ترجمہ درکار ہے تو وہی بھی دے دیا گیا۔ اور جہاں‌تک بات ہے ان سوالات کی
شمشاد بھائی۔۔۔ درست فرمایا آپ نے کے ہر فرقے نے اپنے اپنے طریقے پر نکال رکھا ہے۔۔۔ لیکن ہم فرقوں میں کیوں بٹے؟؟؟۔۔۔ کیا یہ تعلیم اسلام نے ہمیں دے یا پھر اسلام دشمنوں کی سازش اس کے پیچھے کار فرما ہے؟؟؟۔۔۔ اگر تو یہ تعلیم دین کی ہے کہ فرقوں میں بٹو تو سر آنکھوں پر لیکن اگر اس کے فرقہ بندی کے پیچھے اسلام دشمن سازشیں کارفرماں ہیں تو اس صورت حال میں ہماری کیا ذمداری ہونی چایئے؟؟؟۔۔۔ قرآن میں اللہ وحدہ لاشریک نے واضع طور پر بیان فرمادیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور فرقوں میں مت بٹو تو پھر اس واضع حکم کو ہم سب نے پس پشت کیوں ڈال رکھا ہے؟؟؟۔۔۔ایسے بہت سے سوال ہیں جو میرے ذہن میں امنڈ رہے ہیں جن کے مجھے جواب طلب ہیں مگر صورت حال اس کے بلکل مختلف ہے کسی بھی موضوع کو جب شروع کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ حقیقت حال ساتھیوں کو باہم پہنچانا ہوتا ہے نہ کے یہ کہہ کر ہم لڑی بند کر دیں اور بات ادھوری رہ جائے اور ایک عامی یہ سوچ کر دین سے متنفر ہوجائے کہ ہر کوئی اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے قرآن و سنت کا سہارا لے رہا ہے۔۔۔ ہمیں اس سوچ کا قلعہ قمع کرنا ہے اور واضع کرنا ہے کہ ہمارا مقصد قرآن و سنت کی بالادستی ہے کسی خاص مکتبہ فکر کی نہیں۔۔۔ اسی لئے میں یہ جاننا چاہتا ہوں کے اگر تو یہ فقہی مسئلہ تھا تو قانون کیسے بنا؟؟؟۔۔۔

تو براہ کرم ایک نیا دھاگہ کھول لیں۔ یہ موجودہ موضوع سے مطابقت نہیں رکھتا
 
پاکستان میں اور کون سے قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہیں؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

شمشاد بھائی بڑی پیاری بات کی ہے آپ نے کہ (پاکستان میں کون سے قوانیں قرآن و سنت کے مطابق ہیں)۔۔۔ یہی تو میں جاننا چاہ رہا تھا کہ جب پاکستان میں اسلامی نظام سرے سے ہے ہی نہیں تو پھر یہ شریعی عدالت پاکستان میں قائم کیوں کی گئی؟؟؟۔۔۔ اب چلیں اگر شریعی عدالت قائم کر بھی دی گئی ہے تو فقہاء کے درمیان جو اختلافی مسئلہ ہے تو اُس مسئلے کو قانون کی شکل کیسے دے سکتے ہیں۔۔۔ اچھا سب سے اہم بات اب جو فقہاء ہیں وہ کون سے فقہاء ہیں جن کے درمیان یہ ولی اختلاف بنا ہوا ہے؟؟؟۔۔۔ کیونکہ جب تک ہم کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ اں فقہاء کا تعلق کس مکتب فکر سے اُس وقت تک اس موضوع پر بحث کرنا سود مند ثابت نہیں ہوگا۔۔۔ اس لئے سب سے پہلے ہم کو اُن فقہاء کو اور اُن کے مکتب فکر کو سامنے لانا ہوگا جو اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں۔۔۔ میری گذارش ہے کہ مجھے اُن فقہاء اور وہ کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں کہ معلومات فراہم کی جائیں گی۔۔۔

وسلام۔۔۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

قیصرانی بھائی۔۔۔ جس حدیث کا حوالہ بقول آپ کے محترمہ مہوش علی نے دیا۔۔۔ کیا آپ اس حدیث کا اجتہاد امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کیا اُس کو حجت مان کر اُس پر عمل کر سکتے ہیں؟؟؟۔۔۔ قیصرانی بھائی سچائی بہت تلخ ہے اللہ نہ کرے کہ ہمارے کسی دشمن کی بہن اور بیٹی بھی ایسا اقدام کرے کہ ولی کے اجازت کے بغیر وہ نکاح المتعہ کر بیٹھے۔۔۔میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ ایسے لوگوں نظر رکھیں جو معاشرے میں فحاشی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں صنف نازک بن کر۔۔۔

وسلام۔۔۔
 
‏فأذن لنا رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏في ‏ ‏متعة النساء

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

محترمہ مہوش علی حدیث کا جو عربی متن آپ نے پیش کیا ہے اُس میں (متعہ النساء) لکھا ہوا ہے اور جو آپنے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ منسوب اجتہاد پیش کیا ہے اُس میں نکاح المتعہ لکھا ہے؟؟؟۔۔۔ متعہ اور نکاح کیا ایک ہی چیز ہے؟؟؟۔۔۔ اگر ہے تو میں متعہ کی تعریف جاننا چاہوں گا؟؟؟۔۔۔

وسلام۔۔۔
 

باذوق

محفلین
نکاح اور متعہ

مہوش علی نے کہا:
کارتوس صاحب،
گفتگو اردو میں ہی ہو رہی ہے، مگر ریفرنس کا مسئلہ آیا تو ہمارے پاس اردو میں صحاح ستہ ڈیجییٹل شکل میں موجود نہیں ہیں، اور اسی لیے صرف ریفرنس کو انگلش میں جوں کا توں نقل کر دیا گیا ہے۔ باذوق صاحب کے پاس صحیح مسلم کا اردو ورژن موجود ہو گا اس لیے شاید وہ آپکی مدد کر سکیں۔
۔۔۔۔ باقی مجھے نہیں لگتا کہ ادھر علماء حضرات بیٹھے ہوئے ہیں جو ان فقہی معاملات پر بحوث کر سکیں۔ لہذا ایسی دقیق مسائل کے لیے آپ کو یہ سوال کسی اسلامی فورم پر اٹھانا چاہیے۔
مہوش علی ، بہت معذرت ۔ لیکن مجھے گمان تھا کہ آپ اس دھاگے میں متنازعہ معاملات اٹھا کر مسئلہ کو نہیں الجھائیں گی ۔ آپ کیا سمجھتی ہیں ؟ میں نے انصارِ کربلا کی متعہ والی فائل نہیں پڑھی ہوگی ؟
آپ کہتی ہیں کہ ۔۔۔
ہمارے پاس اردو میں صحاح ستہ ڈیجییٹل شکل میں موجود نہیں ہیں
چلیے نہیں ہیں ۔۔۔ لیکن صحیح مسلم کی متذکرہ حدیث صرف اردو محفل پر ہی نہیں بلکہ محفل کی وکی پر بھی ہے ۔ اور اس کو کسی دوسرے نے نہیں بلکہ خود آپ نے پبلش کیا ہے ۔ چلئے کوئی بات نہیں کہ ممکن ہے آپ فراموش کر گئی ہوں ۔
مگر ایک بار پھر معذرت ۔۔۔ مجھے اس اردو ترجمہ پر اعتماد نہیں ہے ! لہذا میں نے یہاں اس دھاگے میں اس حدیث کا وکی والا لنک دینا مناسب نہیں سمجھا ۔
دوسری اہم بات :
یہ معاملہ نکاح میں ولی کی بحث پر مشتمل تھا ۔۔۔۔ لیکن آپ نے متعہ والی حدیث quote کی ۔ ہماری اس موضوع پر بحث ہی نہیں ہے کہ متعہ حرام ہے ، جائز ہے یا حلال ہے ۔۔۔ یہ ایک بالکل الگ معاملہ ہے ۔ نکاح اور متعہ دو بالکل مختلف معاملات ہیں جن پر بوجوہ میں یہاں بحث کرنا نہیں چاہتا ۔
امام مسلم رحمہ اللہ اس حدیث کو جس باب کے تحت بیان کر رہے ہیں وہ سب کو معلوم ہے اور اس پر امام نووی نے کوئی ’اجتہادی فیصلہ‘ نہیں دیا ہے ۔
اجتہاد تو تب کی جاتا ہے کہ جب کسی معاملہ کو اختیار کرنا ہو اور اس کی حلت و حرمت کے متعلق قرآن و سنت خاموش نظر آئیں ۔ صحیح مسلم میں کچھ احادیث متعہ کے متعلق کہتی ہیں کہ اب یہ قیامت تک کے لیے حرام ہے اور یہ روایت صحیح مسلم میں خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔ (اردو محفل وکی پر چیک کر لیں)۔ تو جو چیز خود احادیث سے حرام قرار پائے ۔۔۔ اس کے متعلق ’اجتہاد‘ کا شور مچانا لایعنی امر ہے ۔

باقی مجھے نہیں لگتا کہ ادھر علماء حضرات بیٹھے ہوئے ہیں جو ان فقہی معاملات پر بحوث کر سکیں۔
مانا کہ فقہی مباحث کھڑے کرنا اور آخر میں کسی نتیجے پر پہنچ کر فتویٰ دینا ۔۔۔ یہ ہمارا کام نہیں ۔
لیکن ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ پھر ہم یہ سب کام کیوں کر رہے ہیں ؟ مثلاََ یہی کہ قرآن کے مختلف اردو تراجم ، احادیث کے زخیرے اور دیگر اسلامی مواد کی آنلائن دستیابی کے لیے انفرادی و اجتماعی کوششیں ۔۔۔ کیا یہ علم کی صرف اشاعت کا معاملہ ہے یا علم سیکھنے اور عمل کرنے کی طرف ’دعوت‘ بھی ؟
کیا ’دعوت‘ ایسی بھی ہوتی ہے کہ ہم ایک حدیث کمپوز کر کے ایک جگہ رکھ دیں اور جب کوئی دوسرا اس کو پڑھ کر کچھ دریافت کرنا چاہے تو سب مل کر شور مچانا شروع کر دیں کہ ۔۔۔ آپ کا سوال کرنا اور ہمارا مباحث میں الجھنا وقت کا زیاں ہے !
یہ تو اسی مخصوص جماعت کا منشور ہو گیا جو مساجد میں ایک خاص کتاب کا درس دیتی ہے اور ہم اس پر کچھ پوچھنے جائیں تو زور زبردستی سے دھمکا کر خاموش کرا دیا جاتا ہے ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
شمشاد برادر،
دیکھیں صدق دل سے بھی اگر فقہ کو سمجھا جائے، تب بھی اختلافِ رائے ممکن ہے۔ اس لیے میں شروع سے گذارش کر رہی تھی کہ اختلاف رائے کی گنجائش رکھی جائے۔
اختلافِ رائے کا براہ راست مطلب فرقہ بندی نہیں ہے، بلکہ فرقہ بندی اُس وقت ہوتی ہے جب اختلاف رائے کو برداشت نہ کیا جائے اور دوسرے فریق پر الزامات لگنے شروع ہو جائیں۔
آجکل کے علماء کو تو اختلاف رائے کے نام پر بُرا بھلا کہا جا رہا ہے، مگر کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ اختلافِ رائے قدیم فقہاء کے درمیان بھی موجود تھا۔ کیا اس اختلاف رائے کی وجہ امام ابو حنیفہ، مالک، حنبل اور شافعی اور بیسیوں اور فقہاء فرقہ پرست بن گئے؟ اور فقہاء کو رہنے دیں، کیا صحابہ بھی فرقہ پرست تھے کیونکہ اُن میں بھی اختلافِ رائے تھا؟ کیا صحابہ بھی صحیح حدیث کو چھوڑ دیتے تھے جو اِن میں اختلافِ رائے تھا؟

دیکھیں، علماء کا رویہ اس معاملے میں یہ ہے کہ جو چیزیں دین کی بنیاد ہیں، مثلا اللہ کی وحدت، رسول، دیگر انبیاء، کتب، ملائکہ۔۔۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ مگر جب بات فروعات تک پہنچتی ہے اور فقہ کے مسائل سامنے آتے ہیں، تو پھر علماء اس کو فرقہ پرستی نہیں کہتے بلکہ ایسی آراء کی Respect کرتے ہیں۔

اگر آپ اس چیز کو مدِ نظر رکھیں گے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
باذوق صاحب، آپ نے ایک دعویٰ کیا ہے:

آپ کہتی ہیں کہ ۔۔۔
ہمارے پاس اردو میں صحاح ستہ ڈیجییٹل شکل میں موجود نہیں ہیں
چلیے نہیں ہیں ۔۔۔ لیکن صحیح مسلم کی متذکرہ حدیث صرف اردو محفل پر ہی نہیں بلکہ محفل کی وکی پر بھی ہے ۔ اور اس کو کسی دوسرے نے نہیں بلکہ خود آپ نے پبلش کیا ہے ۔ چلئے کوئی بات نہیں کہ ممکن ہے آپ فراموش کر گئی ہوں ۔
مگر ایک بار پھر معذرت ۔۔۔ مجھے اس اردو ترجمہ پر اعتماد نہیں ہے ! لہذا میں نے یہاں اس دھاگے میں اس حدیث کا وکی والا لنک دینا مناسب نہیں سمجھا


اچھا مجھے یاد آیا آپ اُس "مختصر صحیح مسلم" کی بات کر رہے ہیں جسے ہم لوگوں نے انپیج فائلز سے تبدیل کیا تھا۔


باذوق صاحب،

آپ کو اس ترجمے پر اعتماد کیوں نہیں؟؟؟؟؟ جبکہ "مختصر صحیح مسلم" کی یہ کتاب آپ کے پسندیدی ویب سائیٹ "قران و سنہ ڈاٹ کام" کی ہی پیشکش ہے؟ کیا اس کے پیچھے کچھ اور وجہ کارفرما ہے؟

اچھا اگر آپ کو اس "مختصر صحیح مسلم" کا ترجمہ پسند نہیں، تو یقینا آپ کے پاس "مکمل صحیح مسلم" اردو میں موجود ہو گی۔ آپ اُس کو سکین کر کے کیوں نہیں پیش کر دیتے؟

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

آپ نے مزید تحریر کیا ہے:

یہ معاملہ نکاح میں ولی کی بحث پر مشتمل تھا ۔۔۔۔ لیکن آپ نے متعہ والی حدیث quote کی ۔ ہماری اس موضوع پر بحث ہی نہیں ہے کہ متعہ حرام ہے ، جائز ہے یا حلال ہے ۔۔۔ یہ ایک بالکل الگ معاملہ ہے ۔ نکاح اور متعہ دو بالکل مختلف معاملات ہیں جن پر بوجوہ میں یہاں بحث کرنا نہیں چاہتا ۔

بخدا، پوری محفل اس بات کی گواہ ہے کہ میں نے متعہ کے حرام یا حلال ہونے کی کوئی بحث سرے سے ہی نہیں چھیڑی۔ بلکہ میں نے جو حدیث پیش کی ہے، وہ تو بذاتِ خود متعہ کو حرام کہہ رہی ہے۔ میں نے تو اس حدیث سے صرف اور صرف ولی کا مسئلہ بیان کیا تھا۔ میں اپنے الفاظ پھر نقل کرتی ہوں:

۔ یہ عقد اگرچہ کہ "عقدِ متعہ" تھا، مگر اسکا اطلاق یقینی طور پر "عقد دائمہ (یعنی نکاح)" پر بھی ہوتا ہے۔۔۔۔۔ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ رسول (ص) عورتوں کو اجازت دے دیں کہ بغیر ولی کے وقتی نکاح تو کرتی رہیں، مگر جب دائمی نکاح کی بات آئے تو وہ بغیر ولی کے نہ ہو سکے؟؟؟

بخدا، آپ کو قسم ہے کہ میرے الفاظ دکھائیں جہاں میں نے متعہ کو حلال کرنے کی بحث یہاں چھیڑی ہو۔

اور اگر یہ الفاظ نہ دکھا سکیں، تو پھر مجھ پر الزام لگانا بند فرمائیں کہ میں متعہ کو حلال ثابت کر رہی تھی۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

اور آپ مزید تحریر فرماتے ہیں:

امام مسلم رحمہ اللہ اس حدیث کو جس باب کے تحت بیان کر رہے ہیں وہ سب کو معلوم ہے اور اس پر امام نووی نے کوئی ’اجتہادی فیصلہ‘ نہیں دیا ہے ۔
اجتہاد تو تب کی جاتا ہے کہ جب کسی معاملہ کو اختیار کرنا ہو اور اس کی حلت و حرمت کے متعلق قرآن و سنت خاموش نظر آئیں ۔


آپکی پوری تحریر میں صرف ایک یہ حصہ ہے جسے واقعی میری تحریر کا جواب کہا جا سکتا ہے (ورنہ باقی تو آپ بے پر کی اڑاتے رہے ہیں)۔

ادھر بھی آپ اصل موضوع کو چھوڑ کر اجتہاد کی لفاظی کے پیچھے پناہ لے رہے ہیں، حالانکہ یہ حدیث بذاتِ خود یہ ثابت کر رہی ہے کہ سن 8 ہجری (فتح مکہ کے بعد تک، یعنی رسول (ص) کی وفات سے ڈیڑھ سال قبل تک) صحابیات بغیر ولی کے خود اپنے متعلق فیصلہ کر رہی ہیں، اور اس کے ضمن میں میرا سوال یہی تھا کہ:

یہ عقد اگرچہ کہ "عقدِ متعہ" تھا، مگر اسکا اطلاق یقینی طور پر "عقد دائمہ (یعنی نکاح)" پر بھی ہوتا ہے۔۔۔۔۔ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ رسول (ص) عورتوں کو اجازت دے دیں کہ بغیر ولی کے وقتی نکاح تو کرتی رہیں، مگر جب دائمی نکاح کی بات آئے تو وہ بغیر ولی کے نہ ہو سکے؟؟؟

دیکھئے، اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں کھل کر نکاح کی شرائط بیان کیں، مگر ان میں کہیں بھی عورت کے لیے ولی کی شرط کا ذکر نہیں۔

اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ سورہ نساء مدینہ کے بالکل ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی، مگر اسکے باوجود اوپر بیان کردہ حدیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ صحابیات سن 8 ہجری میں بغیر ولی کے خود اپنے متعلق فیصلہ کر رہی ہیں۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

آگے آپ تحریر فرماتے ہیں:

صحیح مسلم میں کچھ احادیث متعہ کے متعلق کہتی ہیں کہ اب یہ قیامت تک کے لیے حرام ہے اور یہ روایت صحیح مسلم میں خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔ (اردو محفل وکی پر چیک کر لیں)۔ تو جو چیز خود احادیث سے حرام قرار پائے ۔۔۔ اس کے متعلق ’اجتہاد‘ کا شور مچانا لایعنی امر ہے ۔

مجھے پہلے ہی لگ رہا تھا کہ آپ اصل موضوع پر جواب دینے کی بجائے موضوع کو الگ ہی رنگ دینے کی کوشش کریں گے اور مجھے خارجی بحث میں پھنسانا چاہیں گے۔ ہمیں یہاں متعہ کے حلال حرام ہونے کا مسئلہ نہیں درپیش جو آپ بار بار اس اصل موضوع کو چھوڑ کر اس طرف بھاگ رہے ہیں۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

آگے آپ تحریر فرماتے ہیں:

مانا کہ فقہی مباحث کھڑے کرنا اور آخر میں کسی نتیجے پر پہنچ کر فتویٰ دینا ۔۔۔ یہ ہمارا کام نہیں ۔
لیکن ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ پھر ہم یہ سب کام کیوں کر رہے ہیں ؟ مثلاََ یہی کہ قرآن کے مختلف اردو تراجم ، احادیث کے زخیرے اور دیگر اسلامی مواد کی آنلائن دستیابی کے لیے انفرادی و اجتماعی کوششیں ۔۔۔ کیا یہ علم کی صرف اشاعت کا معاملہ ہے یا علم سیکھنے اور عمل کرنے کی طرف ’دعوت‘ بھی ؟
کیا ’دعوت‘ ایسی بھی ہوتی ہے کہ ہم ایک حدیث کمپوز کر کے ایک جگہ رکھ دیں اور جب کوئی دوسرا اس کو پڑھ کر کچھ دریافت کرنا چاہے تو سب مل کر شور مچانا شروع کر دیں کہ ۔۔۔ آپ کا سوال کرنا اور ہمارا مباحث میں الجھنا وقت کا زیاں ہے !

کیا یہ آپکی عادت ہے کہ ہر چیز کو غلط رنگ دے دیا جائے یا پھر آپ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں؟

ہم پہلے سے عرض کر رہے ہیں کہ ہم کسی چیز کے متعلق اُسی وقت انصاف کے ساتھ فیصلہ کر سکتے ہیں جب ہمیں یقین ہو جائے کہ ہم نے اس کے متعلق تمام شواہد اور ثبوت اکھٹے کر لیے ہیں۔

چونکہ اس محفل میں ہم میں سے کوئی بھی عالم نہیں اور اس لیے یقین سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق تمام ثبوت اکھٹے نہیں ہوئے ہیں، تو خود بتائیے کہ ہم کسی مسئلے کے متعلق کیسے انصاف سے فیصلہ صادر کر سکتے ہیں۔

یہاں صورتحال کچھ یوں ہے کہ آپ تو اپنے دلائل لے کر آ گئے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ بس آپ کی بات کو قبول کر لیا جائے اور مخالف فریق (جو یہاں غیر حاضر ہے، یعنی وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ) اُس کے دلائل نہ سنیں جائیں۔ نہ صرف یہ کہ آپ نے فریق مخالف کے دلائل ادھر پیش نہیں ہونے دیے، بلکہ بالکل شروع سے آپ سپریم کورٹ پر لعن طعن کر رہے ہیں۔


\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

آگے آپ تحریر فرماتے ہیں:

یہ تو اسی مخصوص جماعت کا منشور ہو گیا جو مساجد میں ایک خاص کتاب کا درس دیتی ہے اور ہم اس پر کچھ پوچھنے جائیں تو زور زبردستی سے دھمکا کر خاموش کرا دیا جاتا ہے ۔

مجھے نہیں لگتا کہ کسی نے اس محفل میں آپکو ڈرایا یا دھمکا کر خاموش کرایا ہے، بلکہ آپکو پوری آزادی کے ساتھ اپنے دلائل پیش کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ اور اگر اب بھی کوئی دلیل رہ گئی ہو تو اُس کا بھی شوق پورا فرما لیجئے۔

لیکن کیا ہمیں اپنی رائے پیش کرنے کا حق نہیں کہ یہاں ایک فریق (یعنی سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت) اپنے دفاع کے لیے موجود نہیں، لہذا بہتر ہو گا کہ اُن کے دلائل آنے پر ہی کوئی فیصلہ کیا جائے۔۔۔۔۔۔ تو کیا یہ رائے دینا آپکو ڈرانے اور دھمکا کر خاموش کرا دینا ہے؟؟؟

[اور باذوق صاحب، پتا نہیں آپ کس منہ سے یہ اعتراضات فرما رہے ہیں، جبکہ یہ آپ ہی ہیں جو اردو پیجز پر کھل کر ایک فرقے کی پشت پناہی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے نظریات پھیلا رہے ہوتے ہیں اور باقیوں کو برا بھلا، کافر و مشرک بنا رہے ہوتے ہیں، اور کوئی اپنی صفائی پیش کرنا چاہے تو فورا اُسے Banned لسٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ اب خود فرمائیے کہ مسجد میں مخصوص جماعت کا منشور، اور ڈرا دھمکا کر چپ کرا دینے کی یہ ادا کس پر صادق آتی ہے؟]

باقی اللہ نگہبان۔

اللہ تعالیٰ آپ سب پر اور محمد و آلِ محمد پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے۔ امین۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کارتوس خان نے کہا:
‏فأذن لنا رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏في ‏ ‏متعة النساء

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

محترمہ مہوش علی حدیث کا جو عربی متن آپ نے پیش کیا ہے اُس میں (متعہ النساء) لکھا ہوا ہے اور جو آپنے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ منسوب اجتہاد پیش کیا ہے اُس میں نکاح المتعہ لکھا ہے؟؟؟۔۔۔ متعہ اور نکاح کیا ایک ہی چیز ہے؟؟؟۔۔۔ اگر ہے تو میں متعہ کی تعریف جاننا چاہوں گا؟؟؟۔۔۔

وسلام۔۔۔

محترم کارتوس خان صاحب،

معذرت کے ساتھ، مگر آپ کو ضرورت ہے کہ آپ دوسروں سے بات کرنے سے قبل کچھ تمیز سیکھیں۔

دوسرا بات یہ کہ پتا نہیں آپ کس اندھے پن کے ساتھ دوسروں کی تحریریں پڑھتے ہیں کہ بات کچھ ہوتی ہے اور آپ کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں (اس سے پہلے بھی آپ ایک دوسرے ڈسکشن فورم میں یہ حرکت کر چکے ہیں)۔

محترم،

ان الفاظ کا سرے سے مجھ سے کچھ تعلق ہی نہیں، بلکہ یہ امام نوووی ہیں جو اس کو "نکاح المتعہ" کہہ رہے ہیں۔ اب جائیے اور انہیں پکڑئیے کہ انہوں نے کیوں متعہ کو "نکاح المتعہ" کہا ہے اور براہ مہربانی مجھے معاف رکھئیے۔

بات یہ ہے کہ کسی مسئلہ پر بات چیت کرنے کے کچھ آداب اور تمیز ہوتی ہے، مگر یہ کیا کہ موضوع کیا شروع ہے اور یہ صاحب الگ ہی بانگیں دے رہے ہیں۔ ان صاحب کو تو شاید یہ بھی علم نہیں کہ میں نے جو حدیث پیش کی ہے، وہ خود متعہ کی حرمت بیان کر رہی ہے اور موضوع متعہ نہیں بلکہ عورت کے لیے ولی کی شرط ہے۔ (میرے خیال میں ابھی تک انہیں اس حدیث کا اردو ترجمہ تک نہیں مل سکا ہے، اور یہ حضرت بغیر سوچے سمجھے اپنی ہانکتے چلے جا رہے ہیں)۔
 

مہوش علی

لائبریرین
لیجئے، اب اس حدیث کا اردو ترجمہ "مختصر صحیح مسلم" سے پیش ہے جو کہ قران و سنہ ڈاٹ کام والوں کی پیشکش ہے:



باب: نکاح متعہ کے متعلق۔ 812: ربیع بن سبرہ سے روایت ہے کہ ان کے والد (رضی اللہ عنہ) غزوہ فتح مکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے ہمراہ تھے اور کہا کہ ہم مکہ میں پندرہ یعنی رات اور دن ملا کر تیس دن ٹھہرے تو ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی پس میں اور میری قوم کا ایک شخص دونوں نکلے اور میں اس سے خوبصورتی میں زیادہ تھا اور وہ بدصورتی کے قریب تھا اور ہم میں سے ہر ایک کے پاس چادر تھی اور میری چادر پرانی تھی اور میرے ابن عم کی چادر نئی اور تازہ تھی ۔یہاں تک کہ جب ہم مکہ کے نیچے یا اوپر کی جانب میں پہنچے تو ہمیں ایک عورت ملی جیسے جوان اونٹنی ہوتی ہے ،صراحی دار گردن والی (یعنی جوان خوبصورت عورت)پس ہم نے اس سے کہا کہ کیا تجھے رغبت ہے کہ ہم میں سے کوئی تجھ سے متعہ کرے؟ اس نے کہا کہ تم لوگ کیا دو گے؟ تو ہم میں سے ہر ایک نے اپنی چادر پھیلائی تووہ دونوں کی طرف دیکھنے لگی۔ اور میرا رفیق اس کو گھورتاتھا (اور اس کے سر سے سُرین تک گھورتا تھا )اور اس نے کہا کہ ان کی چادر پرانی ہے اور میری چادر نئی اورتازہ ہے۔ تواس(عورت) نے دو یا تین بار یہ کہا کہ اس کی چادر میں کوئی مضائقہ نہیں۔ غرض میں نے اس سے متعہ کیا۔ پھر میں اس عورت کے پاس سے اس وقت تک نہیں نکلا جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے متعہ کو حرام نہیں کر دیا ۔

لنک:

http://www.urduweb.org/mehfil/wiki.php?wakka=MukhtasarSahihMuslim17

نوٹ:
امام نووی اکیلے ہی نہیں، بلکہ امام مسلم نے بھی باب کا نام دیا ہے "نکاح المتعہ"۔ کارتوس صاحب، آپ اب امام مسلم کو بھی پکڑ لیجئے، مگر مجھے معاف رکھئے۔

بلکہ آپکو ہمت کیسے ہوئی کہ مجھ پر فحاشی پھیلانے کا الزام لگائیں۔ اگر یہ حدیث بیان کرنا فحاشی ہے، تو پھر امام مسلم نے کیوں اسے اپنے صحیح میں نقل کیا؟ تو جلا دیجئے صحیح مسلم کو اور جو الزامات لگانے ہیں، وہ لگائیں امام مسلم پر۔


\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

کارتوس صاحب،

دوسرے ڈسکشن فورمز میں آپ لوگوں کے طعنوں اور الزامات کا جواب دیتے دیتے میں بھی آپ جیسی تلخ ہو چلی تھی۔ شکر ہے کہ اس محفل میں آ کر پھر مجھے انسان بننے کا موقع ملا۔ یہ ہے اچھی صحبت کا اثر کہ مجھے یاد آیا کہ میں کیسے رنگوں سے محبت کرتی تھی اور محبتیں بانٹتی تھی۔ یہ سب کچھ اچھا ہونے کو ہی تھا کہ آپ حضرات یہاں بھی اپنی تلخ زبان لے کر آ پہنچے۔

اور اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شر سے ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ امین۔
 

باذوق

محفلین
طویل پوسٹ کے لیے معذرت

مہوش علی نے کہا:
لیجئے، اب اس حدیث کا اردو ترجمہ
اور باذوق صاحب، پتا نہیں آپ کس منہ سے یہ اعتراضات فرما رہے ہیں، جبکہ یہ آپ ہی ہیں جو اردو پیجز پر کھل کر ایک فرقے کی پشت پناہی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے نظریات پھیلا رہے ہوتے ہیں اور باقیوں کو برا بھلا، کافر و مشرک بنا رہے ہوتے ہیں، اور کوئی اپنی صفائی پیش کرنا چاہے تو فورا اُسے Banned لسٹ میں ڈال دیتے ہیں۔
ہر چند کہ یہ معاملہ ایک دوسرے فورم سے متعلق ہے لیکن درپردہ آپ کا الزام براہ راست مجھ پر لگتا ہے ۔ لہذا صرف اتنا جان لیں کہ : مذہبی معاملات کی بحث میں باذوق نے اُس فورم پر سوائے ایک کے ، آج تک کسی کو بین نہیں کیا ۔ اور جس کو بین کیا تھا اس نے حدیثِ رسول (ص) پر رکیک حملے کیے تھے جس کا اعتراف بھی اسی رکن کی جانب سے اُسی فورم کے کُھلے صفحات پر موجود ہے ۔ لہذا مذہبی مباحث میں ارکان کو بین کرنے کا جو الزام آپ نے مجھ پر لگایا ہے اس کا معاملہ میں اللہ پر چھوڑتا ہوں ۔
اور باقی یہ آپ کی باتیں :
یہ آپ ہی ہیں جو اردو پیجز پر کھل کر ایک فرقے کی پشت پناہی کر رہے ہوتے ہیں
اور اپنے نظریات پھیلا رہے ہوتے ہیں
اور باقیوں کو برا بھلا، کافر و مشرک بنا رہے ہوتے ہیں

یہ بھی تین مختلف الزامات ہیں جو آپ نے بلا ثبوت مجھ پر لگائے ہیں ، اس کا جواب میں محفل پر ہی ایک پوسٹ میں دے چکا ہوں غالباََ۔ یہ معاملہ بھی روزِ حشر زیرِ بحث آئے گا ، انشاءاللہ۔

آپ نے مزید تحریر کیا ہے:
یہ معاملہ نکاح میں ولی کی بحث پر مشتمل تھا ۔۔۔۔ لیکن آپ نے متعہ والی حدیث quote کی ۔ ہماری اس موضوع پر بحث ہی نہیں ہے کہ متعہ حرام ہے ، جائز ہے یا حلال ہے ۔۔۔ یہ ایک بالکل الگ معاملہ ہے ۔ نکاح اور متعہ دو بالکل مختلف معاملات ہیں جن پر بوجوہ میں یہاں بحث کرنا نہیں چاہتا ۔
بخدا، پوری محفل اس بات کی گواہ ہے کہ میں نے متعہ کے حرام یا حلال ہونے کی کوئی بحث سرے سے ہی نہیں چھیڑی۔

میرے اقتباس سے یہ واضح ہی نہیں ہوتا کہ متعہ کی حلت و حرمت کی بحث آپ نے چھیڑی ہے ۔ پھر بھی اگر آپ ایسا سمجھتی ہیں تو اپنے اُس شبہ کو دور کر لیں ۔ میرا زور اس بات پر تھا اور ہے کہ متعہ اور نکاح دو مختلف معاملات ہیں لہذا قوانین بھی ان کے لیے الگ ہوں گے ۔ لہذا نکاح میں ولی کی بحث کے معاملے میں متعہ کی حدیث ، دلیل کے طور پر پیش نہیں کی جا سکتی ۔
اس کی مثال قرآن کے ایک اور قانون سے سمجھئے ۔ قرآن میں زنا کی سزا سو کوڑے ہے لیکن ۔۔۔ قرآنی آیت اس بات کی وضاحت نہیں کرتی کہ شادی شدہ زانی اور غیر شادی شدہ زانی میں کیا فرق ہوگا ؟ یا فرق نہیں ہوگا ؟
آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ حدیث ، زنا کے ایک ہی معاملے کو دو مختلف زاویوں سے ٹریٹ کرتی ہے اور شادی شدہ زانی اور غیر شادی شدہ زانی کے لیے الگ الگ سزا کا قانون بیان کرتی ہے !
بعینہ یہی معاملہ نکاح کے ساتھ ہے ۔۔۔
متعہ کو ’عقد النکاح‘ کہا جائے یا ’نکاح المتعہ‘ ۔ بہرحال نکاح اور متعہ دو مختلف معاملات ہیں اور ان کے لیے صحیح احادیث میں قوانین بھی مختلف قسم کے بیان ہوئے ہیں ۔
لہذا میرے اس موقف کو قبول کرنے میں کسی کو قباحت نہیں ہونا چاہئے کہ : اصل نکاح (جس کو آپ نے ’دائمی نکاح‘ کا عنوان دیا ہے) جن قوانین پر مبنی ہے ، وہی قوانین ولی کے معاملے میں دلیل کے طور پر پیش کیے جانے چاہئیں ۔

ہمیں یہاں متعہ کے حلال حرام ہونے کا مسئلہ نہیں درپیش جو آپ بار بار اس اصل موضوع کو چھوڑ کر اس طرف بھاگ رہے ہیں۔
یہ بات تو میں بھی کہہ رہا ہوں کہ ولی کی اس بحث میں ، متعہ کے حلال حرام ہونے کا مسئلہ درپیش نہیں ہے ۔ لیکن میں خود سے متعہ والے مسئلے کی طرف بھاگ نہیں رہا بلکہ آپ مجھے بھاگنے پر مجبور کر رہی ہیں ۔ بھلا آپ جیسی علمی شخصیت کو اس بات کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی کہ نکاح کی بحث میں متعہ کی حدیث پیش فرمائیں ؟ لہذا میرا اعتراض بجا اور برقرار ہے !!

یہ عقد اگرچہ کہ "عقدِ متعہ" تھا، مگر اسکا اطلاق یقینی طور پر "عقد دائمہ (یعنی نکاح)" پر بھی ہوتا ہے۔۔۔۔۔ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ رسول (ص) عورتوں کو اجازت دے دیں کہ بغیر ولی کے وقتی نکاح تو کرتی رہیں، مگر جب دائمی نکاح کی بات آئے تو وہ بغیر ولی کے نہ ہو سکے؟؟؟
بقول شاکر القادری صاحب ۔۔۔ اس کو کہتے ہیں : لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا !!
یاد ہے ۔۔۔ اس بحث کے شروع میں آپ نے مجھ پر کیا الزام لگایا تھا ؟؟
ذرا اپنا یہ اقتباس یاد کیجئے :
اسی طرح دوسری اور تیسری آیت جو آپ نے نقل فرمائی ہے،مجھے اُن کا بھی براہ راست تعلق اس مسئلے سے نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی قولِ رسول ان آیات کے متعلق ہے بلکہ قیاس کی بنیاد پر انکا تعلق اس مسئلے سے جوڑا گیا ہے جس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔
آپ قرآنی آیات کے اس معاملے میں قیاس کا الزام لگا رہی ہیں لیکن یہی قیاس کیا آپ اپنے درج بالا قول میں بھی دہرا نہیں رہی ہیں ؟ کیا یہ آپ کا قیاس نہیں جو آپ "ممکن ہے" کہہ کر رسول اللہ کی اجازت پر سوالیہ نشان لگا رہی ہیں ؟؟
قرآن میں بیان کردہ ’زنا‘ کی سزا کی مثال سے میں ثابت کر چکا ہوں کہ ایک ہی معاملے کے لیے دو مختلف سزائیں شریعت میں وارد ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ’شادی شدہ کا زنا‘ ایک الگ معاملہ ہے اور ’غیرشادی شدہ کا زنا‘ ایک علحدہ مسئلہ ہے ۔
لہذا آپ کا درج ذیل جملہ شرعی دلیل کا متقاضی ہے :
یہ عقد اگرچہ کہ "عقدِ متعہ" تھا، مگر اسکا اطلاق یقینی طور پر "عقد دائمہ (یعنی نکاح)" پر بھی ہوتا ہے
کسی قرآنی آیت یا کسی صحیح حدیث سے براہ مہربانی ثابت کیجئے کہ : "عقدِ متعہ" کے قوانین کا اطلاق یقینی طور پر "عقد دائمہ (یعنی نکاح)" پر بھی ہوتا ہے ؟؟
ورنہ قبول فرمائیں کہ یہ محض آپ کا قیاس یا عقلی تُک بندی ہے !!

اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں کھل کر نکاح کی شرائط بیان کیں، مگر ان میں کہیں بھی عورت کے لیے ولی کی شرط کا ذکر نہیں۔
کیا شریعت صرف قرآن کا ہی قانون ہے ؟ کوئی بھی مستند عالمِ دین ہم کو سینکڑوں ایسے تعبدی ، معاشرتی اور اخلاقی قوانین بتا سکتا ہے جن کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں مگر جن کو صحیح احادیث مفصلاََ بیان کرتی ہیں ۔ اگر قرآنی آیات حجت ہیں تو صحیح حدیث کیوں حجت نہیں ؟ مکمل شریعت تو بنتی ہی قرآن اور سنت سے ہے !! لہذا یہ مغالطہ نہیں دیا جانا چاہئے کہ
قرآن میں کہیں بھی عورت کے لیے ولی کی شرط کا ذکر نہیں
اگر بالفرض قرآن میں نہیں ہے تو حدیث میں تو ضرور ہے !!

اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ سورہ نساء مدینہ کے بالکل ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی، مگر اسکے باوجود اوپر بیان کردہ حدیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ صحابیات سن 8 ہجری میں بغیر ولی کے خود اپنے متعلق فیصلہ کر رہی ہیں۔
میں ثابت کر چکا ہوں کہ : اصل نکاح (جس کو آپ نے ’دائمی نکاح‘ کا عنوان دیا ہے) اور متعہ دو مختلف معاملات ہیں اور قوانین بھی ان کے لیے علحدہ ہیں ۔ یہاں بات عورت کے خود اپنے متعلق فیصلہ کی نہیں بلکہ نکاح اور متعہ کی تفریق کی ہے ۔

چونکہ اس محفل میں ہم میں سے کوئی بھی عالم نہیں اور اس لیے یقین سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق تمام ثبوت اکھٹے نہیں ہوئے ہیں، تو خود بتائیے کہ ہم کسی مسئلے کے متعلق کیسے انصاف سے فیصلہ صادر کر سکتے ہیں۔
ہو سکتا ہے "عالم" کی تعریف آپ کے نزدیک کچھ اور ہو اور میرے نزدیک کچھ اور ۔ اور جب "عالم" کی تعریف پر ہی اتفاق نہ ہو تو کوئی بات یقین سے نہیں کی جا سکتی ۔
ویسے بھی میں اسی دھاگے میں اعتراف کر چکا ہوں کہ : کوئی متفقہ فیصلہ صادر کرنے کے لیے بحث کھڑی نہیں کی جا رہی ہے ۔ اور نہ میں نے کبھی اس بات پر زور دیا ہے کہ میرے موقف کو ہر حال میں قبول کر لیا جائے ۔ ہاں اگر کسی کو ایسا محسوس ہی ہوتا ہے تو وہ انفرادی سوچ کا قصور ہے ، خاکسار کا نہیں ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مہوش علی نے کہا:
دوسرے ڈسکشن فورمز میں آپ لوگوں کے طعنوں اور الزامات کا جواب دیتے دیتے میں بھی آپ جیسی تلخ ہو چلی تھی۔ شکر ہے کہ اس محفل میں آ کر پھر مجھے انسان بننے کا موقع ملا۔ یہ ہے اچھی صحبت کا اثر کہ مجھے یاد آیا کہ میں کیسے رنگوں سے محبت کرتی تھی اور محبتیں بانٹتی تھی۔ یہ سب کچھ اچھا ہونے کو ہی تھا کہ آپ حضرات یہاں بھی اپنی تلخ زبان لے کر آ پہنچے۔

اور اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شر سے ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ امین۔

السلام علیکم

مہوش ، رنگوں سے محبت اور محبتیں بانٹنا جاری رکھیں، یقیناً آپ رنگ اور محبت دونوں میں امیر ہیں !
 

نبیل

تکنیکی معاون
مہوش، تلخیاں پھیلانے والے یہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے۔ آپ دل چھوٹا نہ کریں۔ انشاءاللہ ہم اس محفل کے اچھے ماحول کو خراب نہیں ہونے دیں گے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
زبردست مہوش بہن۔ آپ نے بہت عمدگی سے جوابات دیئے ہیں۔ رہی بات ان لوگوں کی جو اپنے اصل نام کی بجائے فرضی ناموں سے “تشریف“ لاتے ہیں، ان کے بارے کچھ کہنا کارِ وارد ہے۔ یہ لوگ محض‌شر پسندی سے ایسی باتیں شروع کرتے ہیں کہ دوسرے خوامخواہ تلخ‌ ہو جائیں

اب کیا اتنا کافی نہیں‌کہ ایک ممبر آتے ہی بتا رہے ہیں کہ وہ کئی فورمز سے بین ہو چکے ہیں۔ کیا ان کے اس تعارف کو سن کر ایسا نہیں لگتا کہ وہ صاحب اپنے منہ بتا رہے ہیں کہ بچ کر رہنا۔ میں‌ اتنا اچھا بھی نہیں

دوسرا ہنستے کھیلتے لوگ کسے اچھے نہیں‌لگتے۔ اگر کسی کو اچھے نہیں‌لگتے تو صرف انہیں اچھے نہیں لگتے جن کا کام ہے تلخیاں اور دکھ اور بری سوچیں‌ پھیلانا۔ ان لوگوں‌کو اچھے نہیں‌لگتے جنہیں احادیث اور قرآن کے حوالوں سے فحاشی چھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے لوگوں کا کام ہے دوسروں‌کو محض اچھے راستے سے بھٹکانا۔ دین کو اتنا مشکل کرکے بتانا کہ لوگ صرف یہی سمجھیں‌ کہ ہم برے ہیں
 
ولی، نکاح ، متعہ

1 امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کنواری لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو وہ منعقد نہیں ہوتا جبکہ‌ حنفی فقہ میں فتویٰ اس بات پر ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح “ہم کفو“ میں ہو جاتا ہے غیر کفو میں نہیں۔
2 مگر ساتھ ہی اگر نکاح کنواری لڑکی کی اجازت کے بغیر زبردستی کیا جائے یعنی اگر ولی زبردستی نکاح کر دے اور لڑکی رضامند نہ ہو تو بھی نکاح نہیں ہوتا۔
چنانچہ ان ائمہ کی آرائ سے(جو یقینا ہم عامیوں سے کہیں زیادہ واقف قرآن و حدیث ہیں) میرے خیال میں معاملہ کافی صاف ہو جاتا ہے یعنی یہ دو طرفہ معاملہ ہیں رضا ولی کے ساتھ رضا لڑکی بھی اسلام کو مطلوب ہے۔
3 یہ بات بھی ثابت ہے کہ بغیر گواہوں کے نکاح نہیں ہوتا جیسا کہ ارشاد نبوی ہے کہ“وہ عورتیں زانیہ ہیں جو گواہوں کے بغیر اپنا نکاح کرلیتی ہیں“ مشکوٰۃ شریف، البحر الرائق ص 94 جلد 3)

4 متعہ کی بحث بلا وجہ ہی درمیان میں آگئی یقینا متعہ اب تا قیامت حرام ہے چنانچہ ایک حرام چیز بطور دلیل ایک حلال چیز (نکاح) کے لیے کیسے استعمال کی جاسکتی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ لوگوں کی ان محبتوں کا بہت بہت شکریہ اور اسی وجہ سے یہ محفل محبتوں کا گہوارہ ہے۔

ابن حسن، آپ کو خوش آمدید اور شکریہ کہ آپ نے مسئلے کی مزید وضاحت فرما دی اور چیزیں مزید صاف ہو گئیں کہ امام ابو حنیفہ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ عورت اپنی مرضی سے اپنے لیے انتخاب کر سکے (اور کفو کی شرط کا شاید براہ راست عورت کے فیصلے سے تعلق نہیں ہے بلکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک شاید ولی کے لیے بھی یہ شرط ہے)
 
محترمہ مہوش علی آپکی قدر افزائی کا شکریہ۔ فقہ حنفی کے مطابق اگر ولی لڑکی کا رشتہ اسکی مرضی سے غیر کفو میں‌کر دے تو بھی نکاح منعقد ہو جاتا ہے یعنی کفو کی شرط ولی کے لیے نہیں ہے تاہم لڑکی کی رضا مندی ہر حالت میں ضروری ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم ابن حسن۔ اتنی اچھی وضاحت کرنے کا بہت شکریہ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دین کی بات مختصر اور جامع انداز میں بھی کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے نفرت بھرا انداز اختیار کرنا یا مناظرہ بازی کرنا ضروری نہیں ہے۔
 

خرم

محفلین
ابن حسن بھائی بہت خوب۔ دوسرا موضوع ہے اور یہاں بھی آپ نے بات بہت اچھی طرح بیان فرمائی۔ اللہ جزا دے۔ ولی کون ہو سکتا ہے اس بارے میں بھی اگر ائمہ کا نقطہ نظر بیان فرما دیں تو تشنگی دور ہو جائے۔
مہوش بہن آپ ایسے دل نہ چھوٹا کیا کیجئے۔ اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو عزیز رکھتا ہے۔ لہٰذا خوبصورتیوں‌سے پیار کرتے رہنا چاہئے۔ باقی جہاں تک بات تلخیوں کی ہے تو یہ بھی ہمارے بھائی ہیں۔ اللہ انہیں ہمارے معاملہ میں رحمدل بنائے۔ آمین۔ باتیں بنانی تو بہت آسان ہیں مگر بات بنائے رکھنا بہت مشکل اور کیا کیجئے کہ مشکل کام کے کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔
 

باذوق

محفلین
کچھ باتیں غیر متعلق سی

مہوش علی :
یہ امام نوووی ہیں جو اس کو "نکاح المتعہ" کہہ رہے ہیں۔ اب جائیے اور انہیں قبر سے نکال کر اُن کا سر پھوڑئیے
آپ اب امام مسلم کو بھی اُن کی قبر سے نکال کر اُن کا گریبان پکڑ لیجئے،
جلا دیجئے صحیح مسلم کو اور جو الزامات لگانے ہیں، وہ لگائیں امام مسلم پر


سسٹر مہوش علی ،
آج سے پانچ چھ سال پہلے بھی ائمہ دین کے متعلق آپ کا رویہ ایسا ہی قابلِ اعتراض تھا جس طرح کہ آج ہے ۔ اور اس کا ثبوت میرے علاوہ بعض دوسروں کے پاس آج بھی موجود ہے ۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ یہ کونسی ذہنیت کی عکاسی ہے ؟
اخلاقِ حسنہ کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہونے والی کوئی محفل ہو یا خوبصورت رنگوں والا ماحول ، آدمی کے ذہن کو اس وقت تک نہیں بدل سکتا جب تک کہ وہ خود اسے بدلنے پر راضی نہ ہو ۔ اپنی خامیوں کا الزام دوسروں کی حرکتوں پر دھرنا اگر اتنا ہی آسان ہوتا تو دنیا بھر کے مصلحین و مبلغین اپنی غلطیوں کی چشم پوشی کے لیے خراب ماحول کو مورد الزام ٹھہرا کر خود بری ہو جایا کرتے !
اس قدر طویل عرصے میں بھی آپ کو اپنے قلم پر قابو نہیں آیا تو مجھے بھی اس کا افسوس ہے ۔

قیصرانی :
رہی بات ان لوگوں کی جو اپنے اصل نام کی بجائے فرضی ناموں سے “تشریف“ لاتے ہیں، ان کے بارے کچھ کہنا کارِ وارد ہے۔ یہ لوگ محض‌شر پسندی سے ایسی باتیں شروع کرتے ہیں کہ دوسرے خوامخواہ تلخ‌ ہو جائیں

ہو سکتا ہے آپ کا اشارہ دوسرے رکن کی جانب ہو ۔۔۔
مگر آپ محفل کی انتظامیہ کے ایک ذمہ دار رکن ہیں ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ : کسی رکن کا تلخ زبان استعمال کرنا ایک علحدہ امر ہے اور اپنے اصل نام کے بجائے فرضی نام سے “تشریف“ ایک الگ معاملہ ہے ۔ فرضی نام سے تو آپ بھی “تشریف“ لاتے ہیں اور باذوق بھی !
امید کہ آپ میری اس فہمائش پر ضرور غور کریں گے ، شکریہ ۔
 
Top