لڑکوں کی بےرخی پر لڑکیوں کا شکوہ

لڑکوں کی بےرخی پر لڑکیوں کا شکوہ

جانے کس دیس کھو گئے لڑکے
ہم سے کیوں دور ہو گئے لڑکے
کالج آنے کو دل نہیں کرتا
خار راہوں میں بو گئے لڑکے
راج کرنے کا خواب تھا اپنا
سارے ارماں ڈبو گئے لڑکے
کچھ بھی دیتے نہیں ہیں تحفے میں
کتنےکنجوس ہو گئے لڑکے
مست آنکھوں کا دلنشیں کاجل
آنسوئوں میں ڈبو گئے لڑکے
خون سے خط بھی اب نہیں لکھتے
کس قدر خشک ہو گئے لڑکے
ہم سے شادی کا ذکر چھڑتے ہیں
ڈر کےمارے ہی رو گئے لڑکے
ہم پہ اشعار بھی نہیں لکھتے
کیسے جاہل سے ہو گئے لڑکے
چھیڑتے ہیں نہ تاڑتے ہیں ہمیں
کتنے بےذوق ہو گئے لڑکے
نیند سے آنکھ پھر کھلی جوں ہی
کہہ کے ”اف“ پھر سے سوگئے لڑکے
 
راجا بھائی تو پہلے ہی بتا چکے جناب امجد صاحب!
ان کا اپنا ارشاد ہے:
’’ممکن تو نہیں لیکن فرض کر لینے میں حرج ہی کیا ہے۔‘‘
 
جانے کس دیس کھو گئے لڑکے
ہم سے کیوں دور ہو گئے لڑکے
کالج آنے کو دل نہیں کرتا
خار راہوں میں بو گئے لڑکے
راج کرنے کا خواب تھا اپنا
سارے ارماں ڈبو گئے لڑکے
کچھ بھی دیتے نہیں ہیں تحفے میں
کتنےکنجوس ہو گئے لڑکے
مست آنکھوں کا دلنشیں کاجل
آنسوئوں میں ڈبو گئے لڑکے
خون سے خط بھی اب نہیں لکھتے
کس قدر خشک ہو گئے لڑکے
ہم سے شادی کا ذکر چھڑتے ہی
ڈر کےمارے ہی رو گئے لڑکے
ہم پہ اشعار بھی نہیں لکھتے
کیسے جاہل سے ہو گئے لڑکے
چھیڑتے ہیں نہ تاڑتے ہیں ہمیں
کتنے بےذوق ہو گئے لڑکے



[/USER][/quot

واہ کیا بات ہے جناب۔ بہت داد قبول فرمائیے
 
کچھ بھی دیتے نہیں ہیں تحفے میں
کتنےکنجوس ہو گئے لڑکے
خون سے خط بھی اب نہیں لکھتے
کس قدر خشک ہو گئے لڑکے
ہم سے شادی کا ذکر چھڑتے ہیں
ڈر کےمارے ہی رو گئے لڑکے
ہم پہ اشعار بھی نہیں لکھتے
کیسے جاہل سے ہو گئے لڑکے
چھیڑتے ہیں نہ تاڑتے ہیں ہمیں
کتنے بےذوق ہو گئے لڑکے

ان اشعار نے میلہ لوٹ لیا،
یہ اب کلاس میں سناؤں گا اور پھر دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے
اچھا اچھا ہی تو اچھا ہے;)
ضرور سنائیئے گا کلاس میں۔ داد کے علاوہ جو کچھ ملے، وہ آپ کا :laughing3:
 
ہم سے شادی کا ذکر چھڑتے ہیں


ڈر کےمارے ہی رو گئے لڑکے


امجد علی راجہ صاحب اگر پہلا مصرع اسطرح ہوجائے کہ

ہم سے شادی کا ذکر چھڑتے ہی (بجائے ہیں کے)
ڈر کے مارے ہی روگئے لڑکے

تو کیسا رہے گا۔

دوسری بات کہ آپکے اشعار فیس بک پر اپلوڈ کرتا ہوں آپکے نام سے۔ اگر اجازت ہو تو
"ں" غلطی سے ٹائپ ہو گیا، انتظامیہ سے درست کرنے کی درخواست کر دی ہے۔
مصرعہ یوں ہی ہے جیسے آپ نے مشورہ عنایت فرمایا ہے "ہم سے شادی کا ذکر چھڑتے ہی"
جہاں جی چاہے اپ لوڈ کریں بھیا جی، شریکِ محفل ہونے والا سارا کلام آپ سب دوستوں کا ہی تو ہے۔
 
آپس کی بات ہے ۔ ۔ ۔ بات در اصل یہ ہے کہ آج کل کے لڑکوں کے پاس اتنے سارے غم (جیسے غم نکما پن، غم کاہلی، غم جاہلی، غم بھتہ خوری، غم ٹارگٹ کلنگ، غم روزگار، غم آوارگی، غم سیاہ ست، وغیرہ وغیرہ) جمع ہوگئے ہیں کہ وہ ”غم جاناں“ سے تقریباً بے نیاز سے ہوگئے ہیں ۔ :( ان سارے غموں کے نتیجہ میں اب تو سچ مچ کے ”قحط الرجال“ کا سا سماں ہے۔ لہٰذا لڑکیوں کا ”شکوہ“ بجا ہے۔:)
تو پھر لڑکیوں سے گزارش ہے کہ مذکورہ غموں کے خلاف مہم چلائیں تا کہ لڑکے غم جاناں کی طرف لوٹ آئیں ورنہ تحفے ملیں گے نہ خون سے لکھے گئے خط :)

بہر حال حوصلہ افزائی کے لئے شکریہ
 
لڑکوں کی بےرخی پر لڑکیوں کا شکوہ

جانے کس دیس کھو گئے لڑکے
ہم سے کیوں دور ہو گئے لڑکے
:ohgoon:
کالج آنے کو دل نہیں کرتا
خار راہوں میں بو گئے لڑکے
سب راجا جی کے تخیل کی جادوگری ہے :daydreaming:
راج کرنے کا خواب تھا اپنا
سارے ارماں ڈبو گئے لڑکے
راج تو اب بھی ہے ان کا :mad3:
کچھ بھی دیتے نہیں ہیں تحفے میں
کتنےکنجوس ہو گئے لڑکے
کنجوس نہیں عقل مند:wink2:
مست آنکھوں کا دلنشیں کاجل
آنسوئوں میں ڈبو گئے لڑکے
خواتین کا پرانا ہتھیار:mad3:
خون سے خط بھی اب نہیں لکھتے
کس قدر خشک ہو گئے لڑکے
خشک نہیں عقلمند:tongueout4:
ہم سے شادی کا ذکر چھڑتے ہیں
ڈر کےمارے ہی رو گئے لڑکے
پہلی بیگم کا ڈر تھا نا :sad4:
ہم پہ اشعار بھی نہیں لکھتے
کیسے جاہل سے ہو گئے لڑکے
اتنا کچھ لکھنے کے بعد بھی جاہل:shocked:
چھیڑتے ہیں نہ تاڑتے ہیں ہمیں
کتنے بےذوق ہو گئے لڑکے
اب یہ شکوہ کہ شرافت نے کہیں کا نہ رکھا:sad4:
بہت خوب شہزاد بھیا!
ایک سے بڑھ کر ایک خوب جواب۔ میں تو یوں کہوں گا کہ ہر شعر کی وجہ آپ نے بیان فرما دی، لطف آگیا۔ سلامت رہیں۔
 
مست آنکھوں کا دلنشیں کاجل
آنسوئوں میں ڈبو گئے لڑکے

خوش خیالی ہی سہی ۔ بات زبردست ہے۔ واہ کیا خوب تخلیق ہے امجد علی راجا صاحب ۔داد قبول فرمائیں۔

وہ جو افسانہء دل سن کے ہنسا کرتے تھے
اتنا روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا
شکریہ عمر اعظم بھیا!
مزاح نگاری میں خوش خیالی کافی اہم کردار ادا کرتی ہے :)
 
ہیں!!!!!!
یہ کہاں کی لڑکیاں ہیں بھئی راجہ بھائی؟

اچھا موضوع چنا ؛)
شکریہ امجد میانداد بھیا! لڑکیاں کہیں کی بھی ہوں، لڑکوں کی بےرخی پرکچھ ایسا ہی ردِعمل سامنے آئے گا :)
یقین نہیں تو تجربہ کر کے دیکھ لیں ;)
 
اسی کی تائید کے لیے شعر لکھا ہے۔:)
راجا بھائی تو پہلے ہی بتا چکے جناب امجد صاحب!
ان کا اپنا ارشاد ہے:
’’ممکن تو نہیں لیکن فرض کر لینے میں حرج ہی کیا ہے۔‘‘
ممکن اس لئے نہیں کہ انسانی فطرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی، اور خاص کر شعراء کو تو بالکل بھی نہیں ;)
(اختلافِ رائے کی گنجائش تو بہرحال موجود ہے)۔

فرض کرنے کا مشورہ اس لئے دیا کہ بے یقینی کی کیفیت میں کچھ تو کمی واقع ہوگی :)
 
راجا بھائی تو پہلے ہی بتا چکے جناب امجد صاحب!
ان کا اپنا ارشاد ہے:
’’ممکن تو نہیں لیکن فرض کر لینے میں حرج ہی کیا ہے۔‘‘
اسی کی تائید کے لیے شعر لکھا ہے۔:)

ذرا یوسف بھیا کا پیغام بھی پڑھ لیجئے، تسلی کے لئے:

بات در اصل یہ ہے کہ آج کل کے لڑکوں کے پاس اتنے سارے غم (جیسے غم نکما پن، غم کاہلی، غم جاہلی، غم بھتہ خوری، غم ٹارگٹ کلنگ، غم روزگار، غم آوارگی، غم سیاہ ست، وغیرہ وغیرہ) جمع ہوگئے ہیں کہ وہ ”غم جاناں“ سے تقریباً بے نیاز سے ہوگئے ہیں ۔ :( ان سارے غموں کے نتیجہ میں اب تو سچ مچ کے ”قحط الرجال“ کا سا سماں ہے۔ لہٰذا لڑکیوں کا ”شکوہ“ بجا ہے۔:)
 
Top