لڑتا ہوں بھنور سے ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں - اقبال اسلم

کاشفی

محفلین
غزل
(اقبال اسلم)
لڑتا ہوں بھنور سے ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
ساگر میں سما جاؤں وہ قطرہ تو نہیں ہوں

میں اپنی طرح ہوں ترے جیسا تو نہیں ہوں
بازار میں بکتا ہوا سودا تو نہیں ہوں

عکاس ہے آئینہ ابھی میری انا کا
ٹوٹا ہوں مگر ٹوٹ کے بکھرا تو نہیں ہوں

پھر سے اسی میدان میں آؤں گا پلٹ کر
کچھ پیچھے سرک آیا ہوں ہارا تو نہیں ہوں

میں خواب بھی دیکھوں تو خفا رہتے ہیں کچھ لوگ
لوگو میں تمہیں خواب دکھاتا تو نہیں ہوں

کچھ دیر کو دم لے لو مرے پاس تو آؤ
گرتی ہوئی دیوار کا سایہ تو نہیں ہوں

کیوں اتنے خفا ہو مری اتنی سی خطا پر
انسان ہوں میں کوئی فرشتہ تو نہیں ہوں

سر پر مرے بوسیدہ سی ٹوپی ہے مری ہے
میں تاج سا دربار میں سجتا تو نہیں ہوں
 
Top