لفظوں کی لفاظی

حمیر یوسف

محفلین
یہ بات بار بار دہرائے جانے کے قابل ہے کہ کوئی بھی زندہ زبان جامد اور متعیّن شکل میں قائم نہیں رہ سکتی۔ عالمی سیاست کی ہلچل، مقامی سیاست کی اکھاڑ بچھاڑ، عالمی سطح پر آنے والے تہذیبی انقلاب اور مقامی سطح پر ہونے والی چھوٹی موٹی ثقافتی سرگرمیاں یہ سب عوامل ہماری زبان پر اثر انداز ہوتے ہیں یعنی ہمارا واسطہ نئے نئے الفاظ سے پڑتا ہے یا پُرانے لفظوں کا ایک نیا مفہوم ابھر کر سامنے آتا ہے۔

ہر زندہ زبان اِن تبدیلیوں کو قبول کرتی ہے اور اپنا دامن نئے الفاظ و محاورات سے بھرتی رہتی ہے۔انہی تبدیلیوں کے دوران بعض زیرِ استعمال الفاظ و محاورات متروک بھی ہو جاتے ہیں۔ گویا جس طرح ایک زندہ جسم پُرانے خلیات کو ختم کر کے نئے بننے والے خلیات کو قبول کرتا ہے اسی طرح ایک زندہ زبان میں بھی ردّوقبول کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

اُردو کی بُنیاد اگرچہ ہندوستان کی مقامی بھاشاؤں پر استوار ہوئی تھی لیکن اس کے ذخیرۂ الفاظ نے عربی اور فارسی کے لسانی خزانوں سے بھی بہت استفادہ کیا ہے چنانچہ آج بھی اُردو جُملے کی ساخت تو مقامی ہے اور جُملے کا فعل بھی بالعموم مقامی ہوتا ہے لیکن جُملے کے دیگر عناصر میں عربی اور فارسی کے اثرات صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔

اُردو میں مستعمل بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کی اصل صورت اور تلفظ عربی فارسی یا سنسکرت میں بالکل مختلف تھا لیکن عوامی استعمال میں آنے کے بعد اُن لفظوں کا حُلیہ تبدیل ہو گیا۔ بعض مصلحینِ زبان اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ لفظ جِس زبان سے آیا ہو اُردو میں بھی اسکا تلفظ اور استعمال اسی زبان کے مطابق ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے یہ ایک سراسر ناجائز مطالبہ ہے۔

ذیل میں چند ایسے الفاظ دیے جا رہے ہیں جن کا تلفظ اُردو میں آ کر تبدیل ہو گیا ہے اور اب یہ تبدیل شدہ تلفظ ہی درست سمجھاجائے گا۔

سنسکرت کا لفظ ویاکُل جب اُردو میں آیا تو بیکل ہو گیا یعنی بے چین، بے قرار۔ سنسکرت کا پشچِم اُردو میں پچھَم ہو گیا اسی طرح سنسکرت پُوْر^و اُردو تک آتے آتے پُوَرب ہو گیا۔

فارسی میں لفظ پِیراہن ہے یعنی پ کے نیچے زیر ہے لیکن اُردو میں یہ پَیراہن بن چُکا ہے یعنی پ کے اُوپر زبر کے ساتھ۔ اسی طرح فارسی کا پِیرایہ اُردو میں آ کر پَیرایہ بن جاتا ہے۔

عربی لفظ حِجامۃ میں ج کے نیچے زیر ہے لیکن اُردو میں حَجامت بنا تو ح کے اوپر زبر لگ گئی۔ اسی طرح عربی کے حَجَلہ میں ح اور ج دونوں کے اوپر زبر ہوتی ہے لیکن اُردو میں آ کر یہ حُجْلہ بن گیا یعنی ح کے اوپر پیش لگ گئی (مثلاً حُجلہء عروسی)۔ عربی کے لفظ حِشمۃ کا مطلب حیاداری ہے۔ اُردو میں آ کر اسکا مطلب شان و شوکت اور رعب داب بن گیا۔ ساتھ ہی اسکا تلفظ بھی بدل گیا اور ح پر زبر لگ گئی یعنی یہ حَشمت بن گیا۔

ظاہری شکل و صورت کے مفہوم میں ہم حُلیہ کا لفظ عام استعمال کرتے ہیں لیکن اسکا اصل عربی تلفظ حِلیہ ہے یعنی ح کے نیچے زیر ہے۔ پرندے کے پوٹے اور پِتّے کو عربی میں حوَصَََلہ کہتے ہیں یعنی ص پر زبر کے ساتھ، لیکن اُردو میں ص پر جزم ہے اور اسکا تلفظ حوص+ لہ ہو گیا ہے۔ اُردو میں اسکا لُغوی مفہوم مستعمل نہیں ہے بلکہ یہ صرف ہمت اور جرات کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔

عربی میں خََصْم(ص پر جزم) کا مطلب ہے دُشمن، جس سے نکلا ہوا لفظ خُصُومت (دشمنی) اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ البتہ خود لفظ خصم ہمارے یہاں شوہر کے لئے استعمال ہوتا ہے اور وہ بھی اِس تبدیلی کے ساتھ کہ ص پر جزم کی بجائے زبر لگا دی جاتی ہے (خَصَم)۔

عربی میں لفظ دَرَجہ ہے یعنی دال پر زبر اور ر پر بھی زبر، لیکن اُردو میں ہم دْرجہ کہتے ہیں (در + جہ)۔ عربی میں ُدکّان کی ک پر تشدید ہے لیکن اُردو میں نہیں ہے۔ عربی میں لفظ رحِم ہے یعنی ح کے نیچے زیر لیکن اُردو میں یہ رحْم بن گیا (ح پر جزم)۔ عربی میں صِحّت کی ح کے اوپر تشدید ہوتی ہے لیکن اُردو میں نہیں ۔

عربی میں ُقطْب کی ط پر جزم ہے لیکن اُردو میں ق اور ط دونوں پر پیش ہے۔ ( ُُقُطب)۔ عربی میں لفظ مَحَبہّ تھا یعنی م اور ح دونوں پر زبر، لیکن اُردو میں مُحبّت بن گیا اور م کے اوپر پیش لگ گئی۔

فارسی میں لفظ مُزد+ور تھا جو کہ بعد میں مُزدُرو بن گیا لیکن اُردو میں پہنچا تو م کے اوپر پیش کی جگہ زبر لگ گئی اور مَزدور ہوگیا۔ عربی میں لفظ مُشَاعَرہ ہے یعنی ع کے اوپر زبر ہے لیکن اُردو میں اسکی شکل مشاعِرہ ہو چکی ہے اور یہی درست ہے، جسطرح عربی کا موسِم اُردو میں پہنچ کر موسَم ہو چکا ہے (س پر زبر) اور اب اسی کو درست تسلیم کرنا چاہیئے۔

عربی کے نَشاط میں ن پر زبر ہے لیکن اُردو میں ہم ن کے نیچے زیر لگا کر نِشاط لکھتے ہیں اور اُردو میں یہی درست ہے۔

عربی میں لفظ نُوّاب تھا، نون پر پیش اور واؤ پر تشدید۔ یہ اصل میں لفظ نائب کی جمع تھی، اُردو میں آ کر اسکا مطلب بھی بدلا اور تلفظ بھی نواب ہو گیا۔

جدائی کے معنیٰ میں استعمال ہونے والا عربی لفظ وَداع ہے (واؤ پر زبر) لیکن اُردو میں اسکی شکل تبدیل ہو کر وِداع ہو چکی ہے (واؤ کے نیچے زیر)۔

جِن لوگوں کا بچپن پنجاب میں گزرا ہے انھوں نے لفظ ’بکرا عید‘ ہزاروں مرتبہ سُنا اور بولا ہو گا۔ بچپن میں اسکی یہی توضیح ذہن میں آتی تھی کہ اس روز بکرا ذبح کیا جاتا ہے اس لئے یہ بکرا عید ہے۔ کچھ بڑے ہوئے تو اسطرح کے جُملے پڑھنے سننے کو ملے۔ ’میاں کبھی عید بکرید پر ہی مِل لیا کرو‘ اِس ’بکرید‘ کی کھوج میں نکلے تو پتہ چلا کہ یہ تو دراصل بقرعید ہے اور اسکا بکرے سے نہیں بقر (گائے) سے تعلق ہے۔

عربی فارسی اور سنسکرت کے علاوہ بھی اُردو نے کئی زبانوں سے خوشہ چینی کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ اُردو میں آ کر لفظوں کی شکل خاصی بدل گئی ہے۔ جیسے انگریزی کا سٹیمپ پیپر اُردو میں اشٹام پیپر اور بعد میں صرف ’اشٹام‘ رہ گیا۔ تُرکی کا چاغ اُردو میں آ کر چاق ہو گیا اور پُرتگالی زبان کا بالڈی اُردو میں آ کر بالٹی بن گیا۔

باہر کے لفظوں نے اُردو میں داخل ہونے کے بعد جو شکل اختیار کر لی ہے اب اسی کو معیاری تسلیم کر لینا چاہیئے۔ منبع و ماخذ تک پہنچ کر اُن کے قدیم تلفظ کا کھوج لگانا ایک عِلمی مشغلہ تو ہو سکتا ہے لیکن روزمرّہ استعمال میں اصل اور پرانے تلفظ کو مُسلط کرنے کی کوشش اُردو کی کوئی خدمت نہیں ہو گی بلکہ اسکی راہِ ترقی میں روڑے اٹکانے والی بات ہوگی۔

ماخذ: http://www.bbc.com/urdu/learningenglish/story/2005/11/051102_zuban_o_biyan_rza.shtml
 

تلمیذ

لائبریرین
کاش یہ بات کوئی ٹی وی کے اینکر پرسنز اور نیوز ریڈرز کو سمجھا دے تو یہ اردو کے لئے کار عظیم ہوگا۔ بعض اوقات تو ان کے منہ سے الفاظ کا اتنا احمقانہ تلفظ سننے کو ملتا ہے کہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔
 
آخری تدوین:
عربی میں خََصْم(ص پر جزم) کا مطلب ہے دُشمن، جس سے نکلا ہوا لفظ خُصُومت (دشمنی) اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ البتہ خود لفظ خصم ہمارے یہاں شوہر کے لئے استعمال ہوتا ہے اور وہ بھی اِس تبدیلی کے ساتھ کہ ص پر جزم کی بجائے زبر لگا دی جاتی ہے (خَصَم)۔
اردو میں لفظ خصم اپنے اصل تلفظ یعنی ص پر جزم اور اپنے اصل مطلب کے ساتھ مستعمل ہے۔
کیوں نہ وحشتِ غالبؔ باج خواہِ تسکیں ہو؟
کشتۂ تغافل کو خصمِ خوں بہا پایا

تیر کو تیرے ، تیرِ غیر ہدف
تیغ کو تیری، تیغِ خصم نیام

غالب
اور ثانی الذکر لفظ خصم ص پر زبر کے ساتھ خاوند، آقا، مالک کے معنوں میں معروف ہے ۔اس کی ص پر جزم والی صورت بھی مل جاتی ہے جیسے دو خصمی۔ اب یہ کس زبان سے آیا ہے یہ کوئی لسانیات سے تعلق رکھنے والا ہی بتا سکتا ہے۔
 
عربی کے نَشاط میں ن پر زبر ہے لیکن اُردو میں ہم ن کے نیچے زیر لگا کر نِشاط لکھتے ہیں اور اُردو میں یہی درست ہے۔
نشاط اردو میں بھی زبر کے سات مستعمل ہے۔
نَشاط۔۔۔خوشی، مسرت،وغیرہ
نَشاۃ۔۔۔۔ اگنا ، پیدائش، نئی زندگی
جو زیر کے ساتھ مستعمل وہ سنسکرت سے اردو میں آیا۔
نِشات۔۔۔ تیز دھار، چمکدار
 
پرندے کے پوٹے اور پِتّے کو عربی میں حوَصَََلہ کہتے ہیں یعنی ص پر زبر کے ساتھ، لیکن اُردو میں ص پر جزم ہے اور اسکا تلفظ حوص+ لہ ہو گیا ہے۔ اُردو میں اسکا لُغوی مفہوم مستعمل نہیں ہے بلکہ یہ صرف ہمت اور جرات کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔
لفظ حوصلہ بھی اپنے اصل تلفظ میں ہی مستعمل ہے نہ کہ ص ساکن کے ساتھ
اسدؔ ، اے ہرزہ درا، نالہ بہ غوغا تا چند
حوصلہ تنگ نہ کر، بے سبب آزاروں کا


تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تُو نے پھر کیوں کی تھی میری غمگساری ہائے ہائے !

غالب
 
باہر کے لفظوں نے اُردو میں داخل ہونے کے بعد جو شکل اختیار کر لی ہے اب اسی کو معیاری تسلیم کر لینا چاہیئے۔ منبع و ماخذ تک پہنچ کر اُن کے قدیم تلفظ کا کھوج لگانا ایک عِلمی مشغلہ تو ہو سکتا ہے لیکن روزمرّہ استعمال میں اصل اور پرانے تلفظ کو مُسلط کرنے کی کوشش اُردو کی کوئی خدمت نہیں ہو گی بلکہ اسکی راہِ ترقی میں روڑے اٹکانے والی بات ہوگی۔
نتیجہ بھی خوب نکالا ہے صاحب تحریر نے کہ ہم اہل زبان کو چھوڑ کر عوام کے من پسند تلفظ کو اپنائیں جبکہ عوام خود اس میں حد درجہ مختلف ہیں۔اگر مصنف کی بات مان لی جائے تو صورت حال کچھ یوں ہو گی کہ
عوامی لہجے کے مطابق
ابر، صبر، حشر، جبر، نشر،نذر، عصر، اجر، قصر، وغیرہ وغیرہ
کو بر وزن
اثر ، بسر، سفر، مفر، ضرر، شرر، گہر، قمر، اگر، مگر، زبر، حضر، حذر، نظر، بدر، وغیرہ وغیرہ
پڑھنا اور لکھنا پڑے گا۔۔ اور اسی پر باقی کو قیاس کر لیں


تمنائے زباں، محوِ سپاسِ بے زبانی ہے
 
آخری تدوین:

حمیر یوسف

محفلین
اردو میں لفظ خصم اپنے اصل تلفظ یعنی ص پر جزم اور اپنے اصل مطلب کے ساتھ مستعمل ہے۔
کیوں نہ وحشتِ غالبؔ باج خواہِ تسکیں ہو؟
کشتۂ تغافل کو خصمِ خوں بہا پایا

تیر کو تیرے ، تیرِ غیر ہدف
تیغ کو تیری، تیغِ خصم نیام

غالب

لفظ حوصلہ بھی اپنے اصل تلفظ میں ہی مستعمل ہے نہ کہ ص ساکن کے ساتھ
اسدؔ ، اے ہرزہ درا، نالہ بہ غوغا تا چند
حوصلہ تنگ نہ کر، بے سبب آزاروں کا


تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تُو نے پھر کیوں کی تھی میری غمگساری ہائے ہائے !

غالب

بھٹی بھائی، یہ جو دو آپ نے مثالیں دی ہیں، ان کا استعمال صرف اشعار میں ہوتا نظر آیا ہے۔ اشعار میں جملوں کی تراکیب تھوڑی مختلف ہوجاتی ہے، صرف وزن بڑھانے کے لئے۔ انکا عام طور پر "بولیوں" میں استعمال اب آہستہ آہستہ متروک ہوتا جارہا ہے، جیسے بعض اشعار میں اب تک ہم کو "آوے گا، جاوے گا" وغیرہ نظر آتا ہے، لیکن عوامی بولی میں یہ لفظ اب متروک ہوکر "آئے گا، جائے گا" میں بدل چکے ہیں۔ اس مضمون میں یہی بات سمجھائی گئی ہے اور مضمون نگار نے زیادہ تر نثر اور عوامی لہجہ کے حساب سے مثالیں دی ہیں۔

نشاط اردو میں بھی زبر کے سات مستعمل ہے۔
نَشاط۔۔۔خوشی، مسرت،وغیرہ
نَشاۃ۔۔۔۔ اگنا ، پیدائش، نئی زندگی
جو زیر کے ساتھ مستعمل وہ سنسکرت سے اردو میں آیا۔
نِشات۔۔۔ تیز دھار، چمکدار

ویسے ہم نے زیادہ تر نشاط کو زیر کے ساتھ ہی پڑھا ہے، نثر میں بھی اور شعر میں بھی۔ جیسے کراچی کا "نشاط سینیما" وغیرہ
 

اکمل زیدی

محفلین
عربی میں خََصْم(ص پر جزم) کا مطلب ہے دُشمن، جس سے نکلا ہوا لفظ خُصُومت (دشمنی) اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ البتہ خود لفظ خصم ہمارے یہاں شوہر کے لئے استعمال ہوتا ہے اور وہ بھی اِس تبدیلی کے ساتھ کہ ص پر جزم کی بجائے زبر لگا دی جاتی ہے (خَصَم)۔

ویسے اکثر ہمارے یہاں یہ اردو والا ...بعد میں پورے آب و تاب سے عربی والے کی عکّاسی کرتا ہے ......یعنی جب اپنے آپ سے دشمنی ہونے لگے تو بندا خصم بن جائے ...:LOL:

میں اکثر کراچی یونیورسٹی جانے کے لئے بس اسٹاپ پر کھڑا ہوتا تھا بس آتی تھی کنڈکٹر ...آواز لگاتا تھا ....نوشٹی ...نوشٹی.....ہم جنرل ہسٹری ..والوں کے ساتھ اردو ادب ..والے بھی ہوتے تھے ...سب بغیر کسی اعتراض کے بس میں بیٹھ جاتے تھے...سب کو سمجھ آجاتی تھی کے ....یونیورسٹی ہی کہا جا رہا ہے .....:)

ویسے بہت ...بہت شکریہ ...معلوماتی ....مضمون ارسال کرنے ۔۔۔۔۔۔۔۔(y)
 
بھٹی بھائی، یہ جو دو آپ نے مثالیں دی ہیں، ان کا استعمال صرف اشعار میں ہوتا نظر آیا ہے۔
محترم حمیر یوسف بھائی الفاظ کی صحت یعنی تلفظ کے لیے دلیل شعر سے ہی دی جاتی ہے اور وہ بھی اساتذہ کلام کے کلام سے۔نثر میں الفاظ کی صحت جانچنے کا واحد ذریعہ اعراب ہیں اور وہ لگائے نہیں جاتے۔
اشعار میں جملوں کی تراکیب تھوڑی مختلف ہوجاتی ہے، صرف وزن بڑھانے کے لئے۔
وزن کا مطلب شاید آپ سمجھے نہیں یا
پھر مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے بہر حال وزن کسی بھی شعر میں الفاظ کے ہجوں کی ترتیب کو کہتے ہیں ۔ جو کہ دونوں مصرعوں میں ایک ہوتی ہے۔ اور اسی سے الفاظ کے اصل تلفظ کی پہچان ممکن ہوتی ہے ۔ اور شاعری بنیاد ٹھہرتی ہے الفاظ کی صحت کے معاملے میں۔

انکا عام طور پر "بولیوں" میں استعمال اب آہستہ آہستہ متروک ہوتا جارہا ہے، جیسے بعض اشعار میں اب تک ہم کو "آوے گا، جاوے گا" وغیرہ نظر آتا ہے، لیکن عوامی بولی میں یہ لفظ اب متروک ہوکر "آئے گا، جائے گا" میں بدل چکے ہیں۔
عوامی بول چال سے زبان کی لغت ترتیب نہیں دی جاتی۔ اور نہ ہی ایسا کرنے سے زبان کی کوئی بہتری ممکن ہے۔
اس مضمون میں یہی بات سمجھائی گئی ہے اور مضمون نگار نے زیادہ تر نثر اور عوامی لہجہ کے حساب سے مثالیں دی ہیں۔
عوام کے غلط بولنے اور پڑھنے سے سند نہیں لی جا سکتی۔
مضمون میں میرے خیال میں سب سے قابلِ اعتراض یہ جملہ ہے جس کے لیے مصنف موصوف نے ساری تمہید باندھی۔
لیکن روزمرّہ استعمال میں اصل اور پرانے تلفظ کو مُسلط کرنے کی کوشش اُردو کی کوئی خدمت نہیں ہو گی بلکہ اسکی راہِ ترقی میں روڑے اٹکانے والی بات ہوگی۔
جو کہ میرے خیال میں کسی بھی طرح درست نہیں ہے
اس کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ الفاظ جو میں نے پہلے بھی بیان کیے۔
حشر، جبر، نشر،نذر، عصر، اجر، قصر، وغیرہ وغیرہ
ان کو عموما عوام مجرد حالت میں درمیان والے حرف پر زبر کے ساتھ پڑھتے اور بولتے ہیں۔۔
اور جب یہی الفاظ مرکبات کی صورت میں آتے ہیں تو ان کو عوام درمیان والے حرف پر جزم کے ساتھ پڑھتے اور بولتے ہیں یہ عام مشاہدے کی بات ہے۔
جیسے
نشرواشاعت
نذر و نیاز
جبر و استبداد
ایسی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔زبان کے غلظ استعمال کے حوالے سے۔ آپ اسی ایک مثال کو لے لیجیے اس سے زبان کی کون سی خدمت ہو گی۔ الفاظ کے درست ہجوں کا ایک بکھیڑا کھڑا ہو جائے گا آنے والی نسلوں کے لیے۔۔۔۔ تو مدعا یہ ہے کہ
Pronunciation
یا تلفظ ایک ضروری امر ہے
اور اس کو اساتذہ کلام و زبان سے ہی لیا جاتا ہے نہ کہ عوامی بول چال کے حوالے سے۔۔۔
 

حمیر یوسف

محفلین
ویسے اکثر ہمارے یہاں یہ اردو والا ...بعد میں پورے آب و تاب سے عربی والے کی عکّاسی کرتا ہے ......یعنی جب اپنے آپ سے دشمنی ہونے لگے تو بندا خصم بن جائے ...:LOL:
جی اسی طرح کی سینکڑوں ہزاروں مثالیں یہاں دی جاسکتی ہیں، کہ عربی کے الفاظ اپنی اصل شکل میں جو موجود تھے، وہ اردو میں آن کر کیا سے کیا ہوگئے، جیسے عربی کا لفظ "خلیفہ" جسکو پڑھ کر یہ خیال آتا ہے کہ کوئی بارعب بااختیار حکمران، جبکہ ہمارے "اردو" کے خلیفہ کا کیا حال بنا کہ گلی محلے کے نائی صاحبان پر آنکر رک گیا :p (ویسے ایک نائی بھی بہت بااختیار ہوتا ہے، دیکھا جائے تو، وہ جسطرح جس طرف ہماری گردن رکھنے کو کہتا ہے، ہم بلاچون چراں کیئے ہوئے اپنی گردن وہیں رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں ;):D) ۔ اسی طرح عربی کا لفظ "صلواۃ" جسکا متبادل ہم نے نماز سے لیکر اصل "صلواتیں پڑنا" کو محاورۃ گالیاں سننے سے لے لیا ہے۔ یعنی ایک بالکل یو ٹرن مطلب۔

میں اکثر کراچی یونیورسٹی جانے کے لئے بس اسٹاپ پر کھڑا ہوتا تھا بس آتی تھی کنڈکٹر ...آواز لگاتا تھا ....نوشٹی ...نوشٹی.....ہم جنرل ہسٹری ..والوں کے ساتھ اردو ادب ..والے بھی ہوتے تھے ...سب بغیر کسی اعتراض کے بس میں بیٹھ جاتے تھے...سب کو سمجھ آجاتی تھی کے ....یونیورسٹی ہی کہا جا رہا ہے

بس کنڈکٹروں کی بھی اپنی الگ ہی بولی ہوتی ہے، جو عام روز مرہ سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہے، اسمیں جگہوں کے نام مختصرا اور شارٹ کٹ میں بولے جاتے ہیں۔ اگر مسافر پہلی دفعہ بس کا سفر کررہا ہو، تو وہ یقینا سوچ میں پڑ جائے گا کہ یہ کونسا اسٹاپ بولا جارہا ہے جہاں اسکو اترنا ہے۔جیسے کریلا (موڑ)، انڈا (موڑ)، ٹنکی (اسٹاپ)، مکہ (چوک)، ڈھائی نمبر( اسٹاپ)، گولی مار (چورنگی) دو منٹ (چورنگی) وغیرہ وغیرہ :D ۔ قوسین میں لکھے گئے لفظوں کا ملا کر اسٹاپ کا نام ہے لیکن کنڈکٹر حضرات اسکو بغیر چوک ، اسٹاپ کے ساتھ تیزی تیزی سے ادا کررہے ہوتے ہیں

ویسے بہت ...بہت شکریہ ...معلوماتی ....مضمون ارسال کرنے ۔۔۔۔۔۔۔۔(y)
آپ کا بھی بہت بہت حوصلہ افزائی کا شکریہ اکمل بھائی، جب بھی مجھے کوئی نیٹ پر اچھی چیز ملتی ہے، میں اپنے احباب کے ساتھ اسکو شئیر ضرور کرتا ہوں
 
Top