لرزہ سا اِک بدن میں سِرکتا چلا گیا-ملک عدنان احمد

لرزہ سا اِک بدن میں سِرکتا چلا گیا
دِل بھی کچھ ایسا مچلا، دھڑکتا چلا گیا

آیا وہ جب تو ایسی معطّر ہوئی فضا
گلشن کا کونہ کونہ مہکتا چلا گیا

پھولوں میں ایسی آگ لگی اُس کے روپ سے
شعلہ سا اک چمن میں بھڑکتا چلا گیا

اِک ایک بل پہ قتل ہوئے درجنوں، پَہ وہ
مانندِشاخِ نرم لہکتا چلا گیا

اُن کی نظر سے مئے سی ٹپکتی چلی گئی
اور میں بھی رفتہ رفتہ بہکتا چلا گیا

جذبوں کی آگ واں تو چلو سرد ہوگئی
پَر یاں تو ایک جوالا دہکتا چلا گیا

احمد کو سب نے روکا کہ اس پار موت ہے
وارفتگی میں پھر بھی لپکتا چلا گیا

(ملک عدنان احمد)
 
Top