لب پہ کوئی دعا نہیں آتی

ایم اے راجا

محفلین
لب پہ کوئی دعا نہیں آتی
دل سے اٹھتی صدا نہیں آتی

کی ہے کوشش بڑی مگر جاناں
تجھ سی کرنا وفا نہیں آتی

دستِ یاراں نے بھی بہت لوٹا
پر مجھے تو دغا نہیں آتی

گر وہ کرتا ہے تو کرے لیکن
ہم کو کرنا ریا نہیں آتی

ناتواں دل کو کسنے چھیڑا پھر
راس خوش کن ادا نہیں آتی

چاک دامن چلا ہوں کس جانب
راہ کی انتہا نہیں آتی

دل دکھانا گناہ ہے پھر بھی
باز خلقِ خدا نہیں آتی

زندگی دشت ہو مری جیسے
چھونے بادِ صبا نہیں آتی

غم میسر بہت رہا راجا
پر زباں پہ صدا نہیں آتی​
 
بہت عمدہ۔

ویسے میں کنفیوژ ہوں کہ کچھ مقامات پہ آتی قافیے کے ساتھ کرنا لکھا گیا ہے جب کہ مجھے لگتا ہے کہ کرنی ہو تو زیادہ بہتر رہے گا۔ خیر بہتر تو اساتذہ ہی بتائیں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
سعود اس کو تو مان بھی لیا جائے ۔ لیکن ’دغا آتی‘ کو کیا کہو گے۔
پوسٹ مارٹم، تو بعد میں کروں گا (رات کے بارہ بجنے والے ہیں) فی الحال اس شعر کی داد وصول کرو
زندگی دشت ہو مری جیسے
چھونے بادِ صبا نہیں آتی
 

محمد وارث

لائبریرین
دل دکھانا گناہ ہے پھر بھی
باز خلقِ خدا نہیں آتی

زندگی دشت ہو مری جیسے
چھونے بادِ صبا نہیں آتی

واہ بہت خوب، لا جواب اشعار ہیں راجا صاحب!
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دیکھا راجا بھائی میں نے آپ کو ایس ایم ایس پربتایا تھا دغا یہاں نہیں آئے گا غزل تو بہت بہترین ہے یہ تو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں بس کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے اس پر توجہ دیں شکریہ
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ، وارث بھائی، خرم بھائی۔
استادِ محترم بہت شکریہ، اب تو پوسٹ مارٹم کردیں بیچاری درد سے تڑپ رہی ہے ;)
 

مغزل

محفلین
دل دکھانا گناہ ہے پھر بھی
باز خلقِ خدا نہیں آتی


بہت خوب ، اللہ کے مشقِ سخن زورِ قلم تیز
 

الف عین

لائبریرین
لب پہ کوئی دعا نہیں آتی
دل سے اٹھتی صدا نہیں آتی
/// چلے گا

کی ہے کوشش بڑی مگر جاناں
تجھ سی کرنا وفا نہیں آتی
//کی ہے کوشش بہت۔۔۔۔
تجھ سے کرنی وفا۔۔۔۔

دستِ یاراں نے بھی بہت لوٹا
پر مجھے تو دغا نہیں آتی

///قافیہ غلط ہے۔ ’ دستِ یاراں‘ کی ترکیب بھی درست نہیں۔ کہنا کیا چاہتے ہو؟ یہ بھی واضح نہیں۔

گر وہ کرتا ہے تو کرے لیکن
ہم کو کرنا ریا نہیں آتی

///گر وہ؟
وہ جو کرتا ہے۔۔
ہم کو کرنی ریا۔۔۔۔۔
لیکن ریا کیا مطلب؟ کیا جفا کہنا چاہ رہے ہو۔ یوں کہو۔
ہم کو کرنی جفا نہیں اتی۔

ناتواں دل کو کسنے چھیڑا پھر
راس خوش کن ادا نہیں آتی
///دونوں مصرعوں میں ربط نہیں۔ کون سی ادا راس نہیں ہے۔ یہ واضح نہیں ۔ پہلا مصرع کچھ بدلو۔ یوں کہو تو!!
مسکرا کر بھی ہم نے دیکھ لیا
راس ۔۔۔۔۔۔۔
کچھ اور بھی ممکن ہے۔ یہ تو محض مشورے کے لئے فوراً سامنے آ گیا۔

چاک دامن چلا ہوں کس جانب
راہ کی انتہا نہیں آتی
///بحر میں ہے۔ اگرچہ یہ واضح نہیں کہ راہ کی انتہا نہ آنے پر شاعر کا کیا جذبہ ہے، تاسف کا، تعجب کا، یا خوشی کا۔۔ منزل تک نہ پہنچنے کا تاسف ہی ہوتا ہے لیکن جنوں کی حالت میں کچھ بھی ممکن ہے۔پہلے مصرعے میں ’کس جانب‘ کا بھی کچھ سوچو۔ جیسے
چاک دامن چلا ہوں دشت کی سمت

دل دکھانا گناہ ہے پھر بھی
باز خلقِ خدا نہیں آتی
///درست ہے۔ بلکہ اچھا ہے۔

زندگی دشت ہو مری جیسے
چھونے بادِ صبا نہیں آتی
///درست بلکہ اچھا ہے۔ بہت خوب

غم میسر بہت رہا راجا
پر زباں پہ صدا نہیں آتی
///’پہ‘ بمعنی پر درست نہیں لگتا، لیکن "پر زباں پر" بھی اچھا نہیں لگتا۔ پھر پہلے مصرعے میں ’بہت‘ بھی بھرتی کا ہے، بلکہ حشو۔ زباں پر صدا آنا؟ کیا ’چیخ‘ سے مراد ہے؟ ’میسر‘ کا استعمال بھی غلط ہے۔ اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ ماشاء اللہ ہر چیز میسر ہے آرام و آسائش کی۔۔ غم میسر تو نہیں ہوتا۔ ہاں، غم کو سرمایۂ حیات مانا جائے تو درست ہے، لیکن کوئی قرینہ اس کا نہیں نکلتا۔ دوسرے مصرعے میں چیخ نہ آنا اس صورت میں درست نہیں ہوتا۔
غم رہا دل میں جاں گزیں راجا
کچھ زباں پر صدا نہیں آتی
کہا جا سکتا ہے، لیکن بہت Flat شعر ہو جاتا ہے۔.
 

ایم اے راجا

محفلین
السلام علیکم سر، میں نے مندرجہ بالا غزل کے کچھ اشعار کو تبدیل کر دیا ہے، اب ذرا ملاحظہ فرمائیے۔

لب پہ کوئی دعا نہیں آتی
دل سے اٹھتی صدا نہیں آتی

کی ہے کوشش بڑی مگر جاناں
تجھ سی کرنی وفا نہیں آتی

وہ جو کرتا ہے تو کرے لیکن
ہم کو کرنا ریا نہیں آتی

کس نے چھیڑا ہے دردِ دل ایسا
راس کوئی دوا نہیں آتی

عمر گذری ہے تیرگی پیتے
رات کی انتہا نہیں آتی

دل دکھانا گناہ ہے پھر بھی
باز خلقِ خدا نہیں آتی

زندگی دشت ہو مری جیسے
چھونے بادِ صبا نہیں آتی

قتل کر کے بھی صاف بچ نکلا
کیوں اسے کچھ سزا نہیں آتی

اب یہاں سے نکل چلو راجا
راس آب و ہوا نہیں آتی
 

الف عین

لائبریرین
کی ہے کوشش بڑی مگر جاناں
تجھ سی کرنی وفا نہیں آتی
/// اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی؟؟؟

وہ جو کرتا ہے تو کرے لیکن
ہم کو کرنا ریا نہیں آتی
/// میرا اعتراض اب بھی بجا ہے، ’کرنی ریا‘ ہوگا۔ لیکن یہاں ’ریا‘ سے مطلب؟ یہ محبوب سے مقابلہ ہو رہا ہے نا؟ اگر محض یہ کہنا ہے کہ ہم ریا نہیں کرتے، جس کو کرنی ہو، وہ کرے۔۔ تو پھر "وہ‘ کیوں؟ اس سے خیال تو محبوب کی طرف ہی جاتا ہے نا؟ِ


کس نے چھیڑا ہے دردِ دل ایسا
راس کوئی دوا نہیں آتی
/// لو یہاں دردِ دل تم نے چھیڑ دیا۔ سازِ دل چھیڑا جاتا ہے۔۔ اس کو یوں درست کیا جا سکتا ہے۔
درد دل ایسا تم نے بخش دیا
اس ’بخشنے‘ سے شعر میں یہ لطف بڑھ جاتا ہے کہ شاعر کو درد میں لذت مل رہی ہے۔

عمر گذری ہے تیرگی پیتے
رات کی انتہا نہیں آتی
یہ شعر مکمل ہی بدل ڈالا۔ الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے ذرا سوچا کرو راجا کہ کس لفظ کے کیا معنی ہیں، اس سے کچھ اور مطلب تو نہیں نکلتا، کیا ضروری ہے کہ جو تمیارے ذہن میں ہے، وہی سب سمجھیں۔ اور اگر ابہام بھی ہو تو اس میں بھی وہی معنی سمجھیں جو بعید ترین ہو۔۔
یہاں ’تیرگی پینے‘ سے کیا مراد ہے؟

قتل کر کے بھی صاف بچ نکلا
کیوں اسے کچھ سزا نہیں آتی
۔/// یہ نیا شعر کہا ہے تم نے۔’سزا آنا‘ سے کیا مراد ہے؟ شاید مطلب محض یہ ہے کہ بقول عرفان صدیقی کے ایسا "کیوں نہیں ہوا" کہ ہر قاتل کو قتل کی سزا ملے۔ لیکن اس سے در اصل تمہارا شعر ہی قتل ہو گیا بے چارا۔۔یہاں ردیف ’آتی‘ کے ساتھ کچھ اور درست نہیں آتا۔

اب یہاں سے نکل چلو راجا
راس آب و ہوا نہیں آتی
مقطع تم نے بدل ہی دیا ہے، اور یہ اچھا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
مّذرت چاہتا ہوں، جلدی میں کاپی پیسٹ کر دیا تھا اور درستگی رہ گئی تھی سو دوبارہ حاضر ہے، ایک شعر تبدیل کیا ہے اور ایک شعر کو نکال ہی دیا ہے۔ پر مجھے سمجھ نہیں آئی سر کہ، عمر گذری ہے تیرگی پیتے۔ رات کی انتہا نہیں آتی، کا مطلب کیا یہ نہیں بنتا کہ ایک مدت ہو گئی ہے اندھیرے میں رہتے مگر رات ختم ہی نہیں ہوتی؟

لب پہ کوئی دعا نہیں آتی
دل سے اٹھتی صدا نہیں آتی


کی ہے کوشش بہت مگر جاناں
تجھ سی کرنی وفا نہیں آتی


لوگ کرتے ہیں تو کریں لیکن
ہم کو کرنی ریا نہیں آتی


دردِ دل تم نے ایسا بخشا ہے
راس کوئی دوا نہیں آتی

سر اگر اس شعر کے مصرعہ اول کو یوں کر دیں تو کیسا رہے گا؟ دردِ دل تم نے ایسا بخشا ہے۔ راس کوئی دوا نہیں آتی۔

عمر گذری ہے دوڑتے لیکن
دشت کی انتہا نہیں آتی


دل دکھانا گناہ ہے پھر بھی
باز خلقِ خدا نہیں آتی


کو ئی صحرا ہو زندگی جیسے
چھونے بادِ صبا نہیں آتی



اب یہاں سے نکل چلو راجا
راس آب و ہوا نہیں آتی​
 

الف عین

لائبریرین
اب کچھ بہتر ہے غزل۔ ’تیرگی پینا‘ کوئی محاورہ نہیں ہوتا، اس لئے غلط ہے۔ اس سے کوئی تمہارا مطلب نہیں لے گا۔ اور
عمر گذری ہے دوڑتے لیکن
صحرا کی انتہا نہیں آتی
اس میں صحرا کا الف گر رہا ہے جو اچھا نہیں لگتا۔ اس کو ’دشت‘ کر دو نا!
 

ایم اے راجا

محفلین
اب کچھ بہتر ہے غزل۔ ’تیرگی پینا‘ کوئی محاورہ نہیں ہوتا، اس لئے غلط ہے۔ اس سے کوئی تمہارا مطلب نہیں لے گا۔ اور
عمر گذری ہے دوڑتے لیکن
صحرا کی انتہا نہیں آتی
اس میں صحرا کا الف گر رہا ہے جو اچھا نہیں لگتا۔ اس کو ’دشت‘ کر دو نا!
شکریہ، سر۔ اصل میں ایک اور شعر ہے، زندگی دشت ہو مری جیسے۔ چھونے بادِ صبا نہیں آتی۔ اس شعر میں دشت آیا ہے سو میرا ذہن نہیں مانا کہ دوبارہ دوسرے شعر میں بھی دشت آئے اور وہ بھی دوسری ترکیب سے سو صحرا کہا ہے حالانکہ آپ نے درست فرمایا کہ الف گرنا بھلا معلوم نہیں دے رہا۔

سر مندرجہ بالا پوسٹ میں ایک سوال تشنہ رھ گیا ہے، جو کہ دوبارہ عرض کرتا ہوں۔

دردِ دل ایسا تم نے بخش دیا
راس کوئی دوا نہیں آتی
سر اگر اس شعر کے مصرعہ اول کو یوں کر دیں تو کیسا رہے گا؟ دردِ دل تم نے ایسا بخشا ہے۔ راس کوئی دوا نہیں آتی۔
شکریہ استادِ محترم۔
 

الف عین

لائبریرین
درد دل والا شعر دونوں صورتوں میں اچھا ہے۔۔ تمہارا والا صرع بھی مجھے قبول ہے۔
رہی بات دشت کی کہ ااس کو دوسرے شعر میں باندھا ہے۔ لیکن مجھے یہ بہتر لگ رہا ہے کہ اس کو
زندگی دشت ہو مری جیسے۔ چھونے بادِ صبا نہیں آتی
میں کسی طرح صحرا کر دو۔ بادِ صبا کا تعلق صحرا سے زیادہ بہتر ہے۔ جیسے
زندگی جیسے میری صحرا ہے
بلکہ زندگی کو بھی بدل دو تو کیسا رہے۔
دل وہ صحرا ہے جس کو چھونے کو
کبھی باد صبا نہیں آتی
یا اس ضمن میں کچھ اور سوچو۔۔ خیال بہت اچھا ہے، اگر الفاظ بھی اس جذبے کا ساتھ دیں تو۔۔
یہ میرا مشورہ ہے۔ اس سلسلسے میں تم بھی سوچو اور کوئی مصرع یا دونوں مصرعوں کا متبادل۔
 

ایم اے راجا

محفلین
ارے وارث صاحب آپ بھی تو کچھ مشورہ دیں نا، کہاں گم ہیں اور نوید صادق، لگتا ہے سب لوگ اپنی اپنی میں لگے ہوئے ہیں۔
 
Top