لبرل فاشزم اور پاکستان

سید ابرار

محفلین
حامد میر کے اس مضمون سے میں اس تھریڈ کا آغاز کررہا ہوں ؛ جس میں حامد میر نے ”لبرل فاشزم “ سے خبر دار کیا ہے ،
حقیقت تو یہ ہے کہ ”لبرل ذھنیت “ یہ پاکستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ، مگر بدقسمتی سے پاکستان روز اول ہی سے اس ذھنیت کا ”شکار“ رہا ہے ، اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس روشن خیا ل طبقہ ہی نے آج پاکستان کو معاشی ، اقتصادی اور سماجی اعتبار سے ”تباھی “ کے کنارہ لاکر کھڑا کیا ہے ،

لبرل فاشزم . . . . قلم کمان . . . …حامد میر


جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان رابطے تو بہت پرانے تھے لیکن براہ راست ملاقات کا کریڈٹ چوہدری اعتزاز احسن کو جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو پچھلے دو سال سے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ براہ راست ملاقات پر اصرار کر رہی تھیں لیکن جنرل صاحب ہچکچا رہے تھے۔ وہ اپنی پوزیشن مضبوط اور بے نظیر بھٹو کی پوزیشن کمزور سمجھ رہے تھے کیونکہ موصوفہ سوئس عدالتوں کے مقدمات میں پھنسی ہوئی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف کے روّیے میں تبدیلی کی وجہ سپریم کورٹ کا 20 جولائی کا فیصلہ ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن اور ان کے ساتھی وکلاء نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا مقدمہ سپریم کورٹ سے جیت کر جنرل پرویز مشرف کی اخلاقی و سیاسی پوزیشن کو اتنا کمزور کردیا کہ وہ صرف بے نظیر بھٹو نہیں بلکہ نواز شریف کے ساتھ سمجھوتے پر راضی ہو گئے لیکن بے نظیر کے برعکس نواز شریف نے اس شخص کو ملنے سے انکار کردیا جسے انہوں نے خود 1998ء میں سنیارٹی کے اصول نظر انداز کرتے ہوئے چیف آف دی آرمی اسٹاف بنایا تھا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مقدمے کی سماعت کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب جنرل پرویز مشرف کے ایک معتمدِ عزیز نے چوہدری اعتزاز احسن کے ساتھ تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی انتہا پسندوں کے مقابلے پر لبرل قوتوں کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس ملاقات کا اصل مقصد یہ تھا کہ لبرل ازم کے نام پر چوہدری اعتزاز احسن اپنے موٴکل جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ساتھ چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کی مشکلات کم کردیں۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اگر چوہدری اعتزاز احسن یہ بات مان لیتے اور جان بوجھ کر مقدمہ ہار جاتے تو کیا کچھ حاصل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء کی تحریک کے نتیجے میں عدلیہ قوم کی امیدوں کا مرکز بن چکی ہے، عدلیہ مضبوط ہوگی تو آئین و قانون مضبوط ہوگا اور آئین و قانون کی بالادستی ہی مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ چوہدری صاحب کے انکار نے کئی صاحبان اقتدار کو غصے کی آگ میں مبتلا کردیا اور پھر اس غصے کا اظہار قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے رکن شیخ وقاص اکرم کے ذریعہ کروایا گیا جنہوں نے چوہدری اعتزاز احسن کو فاشسٹ قرار دیا حالانکہ چوہدری صاحب نے پوری زندگی میں کبھی چڑیا تک نہیں ماری۔ شیخ وقاص اکرم کی تقریر سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ عنقریب سپریم کورٹ چوہدری اعتزاز احسن کے موٴکل جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف فیصلہ سنانے والی ہے اور اس کے بعد چوہدری صاحب کو غدّاری کے الزام میں پکڑ کر جیل میں پھینک دیا جائے گا لیکن 20 جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلے نے ان سب منصوبوں پر پانی پھیردیا۔

اس فیصلے کے ایک ہفتے کے اندر اندر جنرل پرویز مشرف ابوظبی میں ایک ایسی عورت کے سامنے بیٹھنے پر مجبور ہوگئے جس کے باپ کو انہوں نے ہمیشہ فاشسٹ کہا۔ جب سے ابو ظبی میں جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی ہے میں نے جنرل صاحب کی کتاب ” ان دی لائن آف فائر “ کا صفحہ 58 بار بار پڑھا اور بار بار سوچا ہے کہ جنرل پرویز مشرف جیسے لبرل شخص نے ذوالفقار علی بھٹو کو فاشسٹ کیوں کہا ؟ اپنی مشہور زمانہ کتاب میں جنرل پرویز مشرف نے لکھا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ترقی پسندانہ نظریات کے نام پر آمرانہ طرز کی حکومت قائم کی کیونکہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہنا چاہتے تھے اور جتنا نقصان بھٹو نے پاکستان کو پہنچایا کسی دوسرے نہیں پہنچایا۔ اپنی کتاب میں جنرل پرویز مشرف نے بھٹو کو فاشسٹ کے علاوہ منافق بھی قرار دیا اور لکھا ہے کہ بھٹو نے محض مذہبی طبقے کو خوش کرنے کیلئے شراب و جوئے پر پابندی لگائی اور اتوار کی بجائے جمعہ کی چھٹی کروا دی۔ یہ سب پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خیال میں لبرل صرف وہی ہے جو مذہبی طبقے کو ساتھ لیکر چلنے کی بجائے اس پر چڑھ دوڑے۔ بھٹو صاحب کے کئی اقدامات سے لبرل عناصر خوش نہ تھے۔ جب 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے کئی ماہ کی بحث کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تو کچھ لبرل دانشوروں نے بھٹو کو فاشسٹ کہنا شروع کردیا حالانکہ یہ فیصلہ ایک شخص نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے کیا تھا۔ اگر بھٹو فاشسٹ ہوتے تو ان کے اپنے دور حکومت میں تھانہ اچھرہ لاہور میں ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج نہیں ہوسکتا تھا لیکن اس کے باوجود ایک باوردی جرنیل پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم اور ایٹمی پروگرام کے بانی کو ملکی تاریخ کا بدترین حکمران قرار دیتا ہے۔
اب جبکہ جنرل صاحب لبرل قوتوں کے اتحاد کے نام پر فاشسٹ کی بیٹی سے ملاقات کرچکے ہیں تو یہ سوال اہم ہے کہ کیا فاشسٹ کی بیٹی کے ساتھ مل کر وہ واقعی مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے میں کامیاب ہو سکیں گے ؟ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا مرکز صوبہ سرحد اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقے ہیں۔ ان علاقوں میں آج کل بے نظیر بھٹو کی سیاسی طاقت کا یہ عالم ہے کہ صوبائی اسمبلی کے بعض حلقوں میں پیپلز پارٹی کے پاس امیدوار نہیں ہیں۔ قبائلی علاقوں میں اس پارٹی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے تو پھر مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں طاقت استعمال کی جائے گی اور بے نظیر بھٹو طاقت کے استعمال کی حمایت کریں گی۔ دوسرے الفاظ میں مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ لبرل فاشزم کے ذریعہ کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو پھر پاکستان کو خانہ جنگی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
پیپلز پارٹی ایک لبرل جماعت ضرور ہے لیکن اس جماعت کو چاہئے کہ مذہبی طبقے کے ساتھ اعلان جنگ کرنے کی بجائے اہم قومی امور پر اسے ساتھ لیکر چلے بالکل ویسے ہی جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین پر مذہبی جماعتوں کا تعاون حاصل کیا تھا۔
پاکستان میں کچھ لبرل فاشسٹ ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ پیپلز پارٹی کو اس ایجنڈے کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں جو جارج ڈبلیو بش کا ایجنڈا ہے۔ یہ لبرل فاشسٹ کہتے ہیں کہ ہم تو بڑے امن پسند لوگ ہیں ہمارے پاس مذہبی انتہا پسندوں کی طرح اسلحہ ہے اور نہ ہی خودکش بمبار ہیں لیکن اردو اخبارات نہ جانے کیوں ہمیں بدنام کرتے ہیں حالانکہ ہم تو جمہوریت پسند لوگ ہیں۔ جمہوریت پسند تو فاشزم کا بانی مسولینی بھی تھا جس نے 1922ء سے 1943ء تک اٹلی پر حکومت کی۔ مسولینی کا قریب ترین اتحادی جرمنی کا حکمران ہٹلر تھا۔ دونوں خود کو جمہوریت پسند کہتے تھے لیکن اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ صرف بندوق کی زبان میں بات کرتے تھے۔ آج کے لبرل حکمران بھی اپنے مخالفین کو غدّار یا مذہبی انتہاپسند قرار دیکر پوری ریاستی طاقت ان کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ اس لبرل فاشزم کے ردعمل میں عراق سے افغانستان تک مسلح مزاحمت ہونے لگے تو پھر مذہبی انتہا پسندی کا رونا روتے ہیں۔
ان لبرل فاشسٹوں سے جب پوچھا جائے کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد سے دنیا محفوظ ہونے کی بجائے مزید غیر محفوظ کیوں ہو رہی ہے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ان کی کج فہمی کا یہ عالم ہے کہ اسلام آباد کی لال مسجد پر زبردستی سفید رنگ پھیر کر سمجھتے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی ختم ہو جائے گی۔ پاکستان میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات سے صاف نظر آتا ہے کہ لبرل قوتوں کے اتحاد کے نام پر فاشسٹ روّیہ اختیار کرنا اور معاشرے کو دو طبقوں میں تقسیم کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلے کا حل صرف اور صرف حقیقی جمہوریت کا قیام اور آئین و قانون کی بالادستی ہے۔ اگر جمہوریت کے نام پر مسولینی اور ہٹلر بننے کی کوشش کی گئی تو یہ لبرل فاشزم تباہی کے سوا ہمیں اور کچھ نہ دے گی،
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

ابرار، مجھے آپ کی اسلام اور پاکستان کے ساتھ وابستگی اچھی لگتی ہے۔ لیکن کبھی آپ انڈیا اور انڈیا کے مسلمانوں کے بارے میں بھی لکھا کریں۔ اس سے بھی ہماری معلومات میں اضافہ ہوگا۔

والسلام
 
ہاں‌یہ بات درست ہے۔ میرے تعلق میں‌ابھی تک جتنے بھی ہندوستانی مسلم ائے وہ اتنے جرات مند نہ تھے جتنے کہ اپ ہیں‌ماشاللہ۔
میں‌علی گڑھ، دہلی اور ساوتھ کے کافی مسلمانوں‌سے مل چکا ہوں‌مگر تاثر یہ بنتا ہے کہ جیسے ڈرے ہوئے ہیں۔
میرے ایک حیدرابادی ہندو ساتھی نیا نیا ایا تو شراب لیکر جارہا تھا۔ مجھے کہنے لگا کہ مل کر شغل کرتے ہیں۔ جب اس کو بتایا کہ میں‌الحمدللہ مسلم ہوں‌اور شراب اسلام میں‌حرام ہے تو حیران ہوگیا۔ کہنے لگا وہاں‌حیدراباد میں‌تو میرے سارے مسلم دوست پیتے ہیں۔ اسپر میں‌حیران ہوگیا۔
 

زیک

مسافر
یہ لبرل فاشزم تو ترکیب ہی غلط لگتی ہے۔ ملاحظہ کریں مریم ویبسٹر لغت سے دونوں الفاظ کے معانی:

Main Entry: lib·er·al
Function: adjective
Etymology: Middle English, from Anglo-French, from Latin liberalis suitable for a freeman, generous, from liber free; perhaps akin to Old English lEodan to grow, Greek eleutheros free
1 a : of, relating to, or based on the liberal arts <liberal education> b archaic : of or befitting a man of free birth
2 a : marked by generosity : OPENHANDED <a liberal giver> b : given or provided in a generous and openhanded way <a liberal meal> c : AMPLE, FULL
3 obsolete : lacking moral restraint : LICENTIOUS
4 : not literal or strict : LOOSE <a liberal translation>
5 : BROAD-MINDED; especially : not bound by authoritarianism, orthodoxy, or traditional forms
6 a : of, favoring, or based upon the principles of liberalism b capitalized : of or constituting a political party advocating or associated with the principles of political liberalism; especially : of or constituting a political party in the United Kingdom associated with ideals of individual especially economic freedom, greater individual participation in government, and constitutional, political, and administrative reforms designed to secure these objectives

Main Entry: fas·cism
Function: noun
Etymology: Italian fascismo, from fascio bundle, fasces, group, from Latin fascis bundle & fasces fasces
1 often capitalized : a political philosophy, movement, or regime (as that of the Fascisti) that exalts nation and often race above the individual and that stands for a centralized autocratic government headed by a dictatorial leader, severe economic and social regimentation, and forcible suppression of opposition
2 : a tendency toward or actual exercise of strong autocratic or dictatorial control <early instances of army fascism and brutality -- J. W. Aldridge>​
 

سید ابرار

محفلین
السلام علیکم،

ابرار، مجھے آپ کی اسلام اور پاکستان کے ساتھ وابستگی اچھی لگتی ہے۔ لیکن کبھی آپ انڈیا اور انڈیا کے مسلمانوں کے بارے میں بھی لکھا کریں۔ اس سے بھی ہماری معلومات میں اضافہ ہوگا۔

والسلام
وعلیکم السلام
میں نے سوچا تو کئی بار تھا کہ انڈیا کے حالات کے بارے میں بھی کچھ لکھوں‌ مگر پھر سوچا کہ پتہ نھیں ”پاکستانی احباب “ کی طرف سے ”پذیرائی “ بھی ہوگی یا نھیں ؟ اب آپ کے ”توجہ “ دلانے کے بعد انشاء اللہ جلد ہی شروع کرونگا
 

سید ابرار

محفلین
چونکہ “لبرل فاشزم “ پر بات چل رہی ہے ؛ اور یہ طئے ہے کہ ”مذھبی انتھا پسندی “ کے خلاف مقابلے میں‌ ”لبرل طبقہ“ ،
”پاک فوج “ کو ایک ”ہتھیار“ کے طور پر استعمال کرے گا ، مگر یہ بات بھی ”ذھن نشین“ رہے کہ اپنی ”تربیت“ سے قطع نظر پاک فوج بھر حال آج تک اپنے آپ کو ایک ”اسلامی فوج “ سمجھتی آئی ہے ، ”ترک فوج “ اور ”پاک فوج“ میں‌ بھر حال ”فرق“ موجود ہے ، مگر لگتا ہے پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کے ”فیصلے “ جھاں ،پاک فوج “ کو نفسیاتی طور “ پر ”شکست و ریخت“ سے دوچار کررہے ہیں‌ ،وہیں پاکستانی قوم اور پاک فوج کے درمیان” جذباتی رشتوں “میں بھی دراڑ آئے ہیں‌،
زیر نظر مضمون اسی پھلو کی عکاسی کرتا ہے ، اسے ضرور پڑھئے ، اور ”دشمن“ کی ”عیاری اور مکاری “ کا ”اعتراف“ کیجئے ؛ جو ”گھر“ کو ”آگ “ لگارہا ہے ، ”گھر “ کے ”چراغ“ سے ،

پاک فوج کو سلام

ہفتہ, 21 جولائی, 2007, 11:18 (GMT+5)

طیبہ ضیاء

ملک میں آگ اور خون کی جنگ جاری ہے۔ دوست دشمن اور ظالم مظلوم میں تمیز مٹ چکی ہے۔ لال مسجد آپریشن جیسا ظلم تو ابوغریب جیل میں بھی نہ ہوا۔ فلوجہ میں بھی اتنی بیدردی کے ساتھ گولیاں نہ چلائی گئیں۔ ردِ عمل شدت اختیار کر چکا ہے، مایوسی کی تاریکیوں میں عدلیہ کی آزادی اُمید کی آخری کرن ہے۔ جس روز انصاف آزاد ہوگیا، اس روز لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہونیوالے ظلم اور لاپتہ طالبات کی گنتی اور خون بہا کا حساب ہوگا۔ بےگناہوں کے قتلِ عام کا سدباب ہوگا۔ جس ملک کا میڈیا اور عدلیہ خودمختار ہو، وہ بیرونی طاقتوں کی غلامی سے آزاد ہوتا ہے۔ امریکہ سے ڈکٹیشن لینے والے حکمرانوں کا سب سے بڑا ظلم "پاک فوج کو سلام" کہنے والی پاکستانی قوم کو فوج سے بدظن کرنا ہے۔

پرویز مشرف نے ایک بار کہا تھا کہ اُن کی خواہش ہے قوم انہیں تاریخ میں یاد رکھے، ان کی آرزو پوری ہوگئی۔ اس ملک پر فوجی حکمرانوں کا تسلط رہا مگر کسی کا دورِ حکومت اس قدر بھیانک نہ تھا۔

چند جرنیلوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان کا سانحہ اور پاک فوج کی ہزیمت قوم کو خون کے آنسو رلاتی رہی۔ اس کے باوجود پاک فوج کی عظمت برقرار رہی۔ جنرل مشرف کے دور میں عوام اور فوج کو مدِمقابل لا کھڑا کیا گیا ہے۔

ایک فوجی افسر سے لال مسجد آپریشن کے بارے میں بات ہوئی تو ہنستے ہوئے بولے کہ ہم انڈیا سے لڑنے کی پریکٹس کر رہے ہیں جبکہ ایک ریٹائرڈ افسر نے رنجیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر تھا کہ:

"میرا پورا خاندان فوج میں سے ہے لیکن آج میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے بیٹوں نے فوج جائن نہیں کی۔"


کسی ملک کی بقاء کا دارومدار اس کی دفاعی طاقت ہے۔ ایک کرنل کو ان کے بریگیڈیئر بننے پر احباب نے مبارکباد دی۔ ترقی کے بعد ان کا تبادلہ وزیرستان میں کردیا گیا۔ بریگیڈیئر نے وزیرستان جانے سے انکار کیا تو انہیں مستعفی ہونا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیرستان بھیجنے کے لئے پروموٹ کیا گیا تھا جبکہ ان کا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ وہ مسلمان بھائیوں پر گولیاں برسائیں اور خود بھی شہادت کے مرتبہ سے محروم ہو جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ آپریشن سائلنس کے دوران کرنل ہارون کو جو کہ جنرل مشرف کے اے ڈی سی بھی رہ چکے ہیں، گولی مار دی گئی۔ انکے اہلِ خانہ بھی کرنل ہارون کو اعلانیہ شہید کہنے سے گریزاں ہیں۔ مختلف ایجنسیوں اور فوج کے منتخب شدہ جنرل مشرف کے قابلِ اعتماد 168 افسران پر مشتمل ٹیم کو آپریشن سائلنس کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ فوجی وفاداروں نے قوم کی نظروں میں فوج کی عظمت کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

امریکہ پاکستان کو القاعدہ کی "سیف ہیون" کہتا ہے۔ اب اسے یہ کہنے کا موقع بھی مل گیا ہے کہ جو ملک دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بن جائے، اس غیر ذمہ دار ملک کے ہاتھوں میں ایٹمی طاقت غیر محفوظ ہوجاتی ہے۔ امریکہ کا مقصد پاکستان کو ایٹمی قوت سے محروم کرنا ہے۔ بش کے جال میں جنرل مشرف بری طرح پھنس چکے ہیں۔

امریکہ کے سابق ترجمان، عراق سٹڈی گروپ کے چئرمین اور نائن الیون کمیشن کے وائس چیئرمین Lee Hamilton نے کہا ہے کہ:

“Pakistan has a safe heaven in Pakistan today where Al-Qaeda can regroup, rethink and get ready for more attacks. U.S forces should go after Al-Qaeda in Pakistan”

"پاکستان القاعدہ کیلئے محفوظ جنت بن چکا ہے۔ لہٰذا اب امریکہ کو اپنی فوج پاکستان میں بھیج دینی چاہئے"۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ صدر پرویز کی القاعدہ کے خلاف اختیار کی گئی حکمتِ عملی کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ پاکستان میں القاعدہ کیخلاف جنگ میں سخت انداز اختیار کرنے پر اصرار کیا جائے گا۔ مزید جارحانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک جان کی خاطر بے شمار جانوں کو بیدردی سے روندا جا رہا ہے۔ لال مسجد کے جارحانہ آپریشن کے باوجود امریکہ خوش نہیں۔ پاکستان کو عراق بنانا مقصود ہے۔ پاکستان کی ڈکٹیٹرشپ کو امریکہ پر اندھا اعتماد تھا۔ ظلم اندھا دھند ہے جبکہ امریکہ پر اعتماد کا خون ہوچکا ہے۔ صدر بش نے اپنی ساکھ بحال رکھنے کے لئے ہمیشہ القاعدہ کا سہارہ لیا ہے۔ امریکہ کے انتخابات کا موسم قریب ہے۔ عراق جنگ کی ناکامی کی وجہ سے آئندہ انتخابات میں ری پبلکن کی کامیابی کیلئے امریکہ میں ہولناک سانحہ کی توقع ہے۔ پاکستان کو عراق بنانے کا آغاز لال مسجد ڈرامے سے ہوچکا ہے۔

ایک امریکی پاکستانی بچے نے کہا کہ "پاکستان میں بجٹ کا ایک فیصد بھی تعلیم پر خرچ کیا جاتا تو آج پاکستان کے لوگ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے تھے۔ سکول جاتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی القاعدہ ہوں۔"

جامعہ حفصہ کی معصوم بچیوں کو بیدردی سے قتل کرنا اور پھر ان کی لاشوں کو جلانا اور گڑھے کھود کر دفنانا مردوں والا کام نہیں۔ مسجد کا نام ہی لال نہیں، اس کے درودیوار کو بھی لہو کے چھینٹوں سے لال کردیا گیا۔ حکمرانوں نے اپنے اس "زنانہ ایکشن" کے بعد مسجد پر گلابی رنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے لال مسجد "گلابی مسجد" بن جائے گی۔

مغرب میں گلابی رنگ نسوانیت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے بعد میڈیا کو وہاں کی تباہ کاریاں دکھانے کے لے مدعو کیا گیا، تصاویر دکھائی گئیں، مسجد کی تباہ شدہ ایک دیوار پر سرخ روشنائی سے لکھا ہوا تھا۔۔۔

"یوں تو دنیا دیکھنے میں کس قدر خوش رنگ تھی
قبر میں جاتے ہی دنیا کی حقیقت کھل گئی"

اس شعر میں غازی اور شہید اپنے حکمرانوں کے انجام کی حقیقت کو بے نقاب کر گئے ہیں۔

پرویز مشرف کہتے ہیں کہ ملک میں ایمرجنسی لگے گی اور نہ ہی انتخابات ملتوی ہونگے۔ میں آئین کے مطابق چلوں گا۔" بوکھلاہٹ میں غلط جملہ بول گئے جبکہ آئین انکے مطابق چلتا ہے۔ فوج کو چھوٹے بڑے سب نے مشورہ دیا تھا کہ فوج کو عزت کے ساتھ بیرکوں میں بھجوا دیا جائے مگر آمریت کے نصیب میں بے نصیبی لکھ دی گئی ہے۔

میاں نواز شریف نے کہا ہے "لال مسجد والوں کا صرف یہ قصور تھا کہ انہوں نے گن پوائنٹ پر ناجائز قبضہ کر رکھا تھا جبکہ گن پوائنٹ پر پورا ملک قبضہ میں کیا جا چکا ہے۔" خوف اور رنج و الم کی اس اندھیر نگری میں ناقابلِ برداشت صدمہ قوم کی بیٹیوں کی فوجی بھائیوں سے ناراضگی ہے۔" ٹیلی ویژن پر ملک کی حالتِ زار دیکھ کر ایک میجر صاحب کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ ان کی یہ کیفیت دیکھ کر احساسات کی دنیا سے بازگشت سنائی دی کہ پاک فوج اور قوم قلب و جان ہیں۔ پاکستان کے گلی کوچوں سے "پاک فوج کو سلام" کے نعرے گونجتے ہی رہیں گے۔

http://news.mission.pk/index.php?mod=article&cat=tayyabazia&article=19
مشن نیوز
 
Top