سید ابرار
محفلین
حامد میر کے اس مضمون سے میں اس تھریڈ کا آغاز کررہا ہوں ؛ جس میں حامد میر نے ”لبرل فاشزم “ سے خبر دار کیا ہے ،
حقیقت تو یہ ہے کہ ”لبرل ذھنیت “ یہ پاکستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ، مگر بدقسمتی سے پاکستان روز اول ہی سے اس ذھنیت کا ”شکار“ رہا ہے ، اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس روشن خیا ل طبقہ ہی نے آج پاکستان کو معاشی ، اقتصادی اور سماجی اعتبار سے ”تباھی “ کے کنارہ لاکر کھڑا کیا ہے ،
لبرل فاشزم . . . . قلم کمان . . . …حامد میر
جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان رابطے تو بہت پرانے تھے لیکن براہ راست ملاقات کا کریڈٹ چوہدری اعتزاز احسن کو جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو پچھلے دو سال سے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ براہ راست ملاقات پر اصرار کر رہی تھیں لیکن جنرل صاحب ہچکچا رہے تھے۔ وہ اپنی پوزیشن مضبوط اور بے نظیر بھٹو کی پوزیشن کمزور سمجھ رہے تھے کیونکہ موصوفہ سوئس عدالتوں کے مقدمات میں پھنسی ہوئی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف کے روّیے میں تبدیلی کی وجہ سپریم کورٹ کا 20 جولائی کا فیصلہ ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن اور ان کے ساتھی وکلاء نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا مقدمہ سپریم کورٹ سے جیت کر جنرل پرویز مشرف کی اخلاقی و سیاسی پوزیشن کو اتنا کمزور کردیا کہ وہ صرف بے نظیر بھٹو نہیں بلکہ نواز شریف کے ساتھ سمجھوتے پر راضی ہو گئے لیکن بے نظیر کے برعکس نواز شریف نے اس شخص کو ملنے سے انکار کردیا جسے انہوں نے خود 1998ء میں سنیارٹی کے اصول نظر انداز کرتے ہوئے چیف آف دی آرمی اسٹاف بنایا تھا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مقدمے کی سماعت کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب جنرل پرویز مشرف کے ایک معتمدِ عزیز نے چوہدری اعتزاز احسن کے ساتھ تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی انتہا پسندوں کے مقابلے پر لبرل قوتوں کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس ملاقات کا اصل مقصد یہ تھا کہ لبرل ازم کے نام پر چوہدری اعتزاز احسن اپنے موٴکل جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ساتھ چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کی مشکلات کم کردیں۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اگر چوہدری اعتزاز احسن یہ بات مان لیتے اور جان بوجھ کر مقدمہ ہار جاتے تو کیا کچھ حاصل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء کی تحریک کے نتیجے میں عدلیہ قوم کی امیدوں کا مرکز بن چکی ہے، عدلیہ مضبوط ہوگی تو آئین و قانون مضبوط ہوگا اور آئین و قانون کی بالادستی ہی مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ چوہدری صاحب کے انکار نے کئی صاحبان اقتدار کو غصے کی آگ میں مبتلا کردیا اور پھر اس غصے کا اظہار قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے رکن شیخ وقاص اکرم کے ذریعہ کروایا گیا جنہوں نے چوہدری اعتزاز احسن کو فاشسٹ قرار دیا حالانکہ چوہدری صاحب نے پوری زندگی میں کبھی چڑیا تک نہیں ماری۔ شیخ وقاص اکرم کی تقریر سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ عنقریب سپریم کورٹ چوہدری اعتزاز احسن کے موٴکل جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف فیصلہ سنانے والی ہے اور اس کے بعد چوہدری صاحب کو غدّاری کے الزام میں پکڑ کر جیل میں پھینک دیا جائے گا لیکن 20 جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلے نے ان سب منصوبوں پر پانی پھیردیا۔
اس فیصلے کے ایک ہفتے کے اندر اندر جنرل پرویز مشرف ابوظبی میں ایک ایسی عورت کے سامنے بیٹھنے پر مجبور ہوگئے جس کے باپ کو انہوں نے ہمیشہ فاشسٹ کہا۔ جب سے ابو ظبی میں جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی ہے میں نے جنرل صاحب کی کتاب ” ان دی لائن آف فائر “ کا صفحہ 58 بار بار پڑھا اور بار بار سوچا ہے کہ جنرل پرویز مشرف جیسے لبرل شخص نے ذوالفقار علی بھٹو کو فاشسٹ کیوں کہا ؟ اپنی مشہور زمانہ کتاب میں جنرل پرویز مشرف نے لکھا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ترقی پسندانہ نظریات کے نام پر آمرانہ طرز کی حکومت قائم کی کیونکہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہنا چاہتے تھے اور جتنا نقصان بھٹو نے پاکستان کو پہنچایا کسی دوسرے نہیں پہنچایا۔ اپنی کتاب میں جنرل پرویز مشرف نے بھٹو کو فاشسٹ کے علاوہ منافق بھی قرار دیا اور لکھا ہے کہ بھٹو نے محض مذہبی طبقے کو خوش کرنے کیلئے شراب و جوئے پر پابندی لگائی اور اتوار کی بجائے جمعہ کی چھٹی کروا دی۔ یہ سب پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خیال میں لبرل صرف وہی ہے جو مذہبی طبقے کو ساتھ لیکر چلنے کی بجائے اس پر چڑھ دوڑے۔ بھٹو صاحب کے کئی اقدامات سے لبرل عناصر خوش نہ تھے۔ جب 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے کئی ماہ کی بحث کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تو کچھ لبرل دانشوروں نے بھٹو کو فاشسٹ کہنا شروع کردیا حالانکہ یہ فیصلہ ایک شخص نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے کیا تھا۔ اگر بھٹو فاشسٹ ہوتے تو ان کے اپنے دور حکومت میں تھانہ اچھرہ لاہور میں ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج نہیں ہوسکتا تھا لیکن اس کے باوجود ایک باوردی جرنیل پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم اور ایٹمی پروگرام کے بانی کو ملکی تاریخ کا بدترین حکمران قرار دیتا ہے۔
اب جبکہ جنرل صاحب لبرل قوتوں کے اتحاد کے نام پر فاشسٹ کی بیٹی سے ملاقات کرچکے ہیں تو یہ سوال اہم ہے کہ کیا فاشسٹ کی بیٹی کے ساتھ مل کر وہ واقعی مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے میں کامیاب ہو سکیں گے ؟ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا مرکز صوبہ سرحد اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقے ہیں۔ ان علاقوں میں آج کل بے نظیر بھٹو کی سیاسی طاقت کا یہ عالم ہے کہ صوبائی اسمبلی کے بعض حلقوں میں پیپلز پارٹی کے پاس امیدوار نہیں ہیں۔ قبائلی علاقوں میں اس پارٹی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے تو پھر مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں طاقت استعمال کی جائے گی اور بے نظیر بھٹو طاقت کے استعمال کی حمایت کریں گی۔ دوسرے الفاظ میں مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ لبرل فاشزم کے ذریعہ کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو پھر پاکستان کو خانہ جنگی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
پیپلز پارٹی ایک لبرل جماعت ضرور ہے لیکن اس جماعت کو چاہئے کہ مذہبی طبقے کے ساتھ اعلان جنگ کرنے کی بجائے اہم قومی امور پر اسے ساتھ لیکر چلے بالکل ویسے ہی جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین پر مذہبی جماعتوں کا تعاون حاصل کیا تھا۔
پاکستان میں کچھ لبرل فاشسٹ ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ پیپلز پارٹی کو اس ایجنڈے کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں جو جارج ڈبلیو بش کا ایجنڈا ہے۔ یہ لبرل فاشسٹ کہتے ہیں کہ ہم تو بڑے امن پسند لوگ ہیں ہمارے پاس مذہبی انتہا پسندوں کی طرح اسلحہ ہے اور نہ ہی خودکش بمبار ہیں لیکن اردو اخبارات نہ جانے کیوں ہمیں بدنام کرتے ہیں حالانکہ ہم تو جمہوریت پسند لوگ ہیں۔ جمہوریت پسند تو فاشزم کا بانی مسولینی بھی تھا جس نے 1922ء سے 1943ء تک اٹلی پر حکومت کی۔ مسولینی کا قریب ترین اتحادی جرمنی کا حکمران ہٹلر تھا۔ دونوں خود کو جمہوریت پسند کہتے تھے لیکن اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ صرف بندوق کی زبان میں بات کرتے تھے۔ آج کے لبرل حکمران بھی اپنے مخالفین کو غدّار یا مذہبی انتہاپسند قرار دیکر پوری ریاستی طاقت ان کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ اس لبرل فاشزم کے ردعمل میں عراق سے افغانستان تک مسلح مزاحمت ہونے لگے تو پھر مذہبی انتہا پسندی کا رونا روتے ہیں۔
ان لبرل فاشسٹوں سے جب پوچھا جائے کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد سے دنیا محفوظ ہونے کی بجائے مزید غیر محفوظ کیوں ہو رہی ہے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ان کی کج فہمی کا یہ عالم ہے کہ اسلام آباد کی لال مسجد پر زبردستی سفید رنگ پھیر کر سمجھتے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی ختم ہو جائے گی۔ پاکستان میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات سے صاف نظر آتا ہے کہ لبرل قوتوں کے اتحاد کے نام پر فاشسٹ روّیہ اختیار کرنا اور معاشرے کو دو طبقوں میں تقسیم کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلے کا حل صرف اور صرف حقیقی جمہوریت کا قیام اور آئین و قانون کی بالادستی ہے۔ اگر جمہوریت کے نام پر مسولینی اور ہٹلر بننے کی کوشش کی گئی تو یہ لبرل فاشزم تباہی کے سوا ہمیں اور کچھ نہ دے گی،
حقیقت تو یہ ہے کہ ”لبرل ذھنیت “ یہ پاکستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ، مگر بدقسمتی سے پاکستان روز اول ہی سے اس ذھنیت کا ”شکار“ رہا ہے ، اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس روشن خیا ل طبقہ ہی نے آج پاکستان کو معاشی ، اقتصادی اور سماجی اعتبار سے ”تباھی “ کے کنارہ لاکر کھڑا کیا ہے ،
لبرل فاشزم . . . . قلم کمان . . . …حامد میر
جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان رابطے تو بہت پرانے تھے لیکن براہ راست ملاقات کا کریڈٹ چوہدری اعتزاز احسن کو جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو پچھلے دو سال سے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ براہ راست ملاقات پر اصرار کر رہی تھیں لیکن جنرل صاحب ہچکچا رہے تھے۔ وہ اپنی پوزیشن مضبوط اور بے نظیر بھٹو کی پوزیشن کمزور سمجھ رہے تھے کیونکہ موصوفہ سوئس عدالتوں کے مقدمات میں پھنسی ہوئی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف کے روّیے میں تبدیلی کی وجہ سپریم کورٹ کا 20 جولائی کا فیصلہ ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن اور ان کے ساتھی وکلاء نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا مقدمہ سپریم کورٹ سے جیت کر جنرل پرویز مشرف کی اخلاقی و سیاسی پوزیشن کو اتنا کمزور کردیا کہ وہ صرف بے نظیر بھٹو نہیں بلکہ نواز شریف کے ساتھ سمجھوتے پر راضی ہو گئے لیکن بے نظیر کے برعکس نواز شریف نے اس شخص کو ملنے سے انکار کردیا جسے انہوں نے خود 1998ء میں سنیارٹی کے اصول نظر انداز کرتے ہوئے چیف آف دی آرمی اسٹاف بنایا تھا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مقدمے کی سماعت کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب جنرل پرویز مشرف کے ایک معتمدِ عزیز نے چوہدری اعتزاز احسن کے ساتھ تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی انتہا پسندوں کے مقابلے پر لبرل قوتوں کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس ملاقات کا اصل مقصد یہ تھا کہ لبرل ازم کے نام پر چوہدری اعتزاز احسن اپنے موٴکل جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ساتھ چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کی مشکلات کم کردیں۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اگر چوہدری اعتزاز احسن یہ بات مان لیتے اور جان بوجھ کر مقدمہ ہار جاتے تو کیا کچھ حاصل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء کی تحریک کے نتیجے میں عدلیہ قوم کی امیدوں کا مرکز بن چکی ہے، عدلیہ مضبوط ہوگی تو آئین و قانون مضبوط ہوگا اور آئین و قانون کی بالادستی ہی مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ چوہدری صاحب کے انکار نے کئی صاحبان اقتدار کو غصے کی آگ میں مبتلا کردیا اور پھر اس غصے کا اظہار قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے رکن شیخ وقاص اکرم کے ذریعہ کروایا گیا جنہوں نے چوہدری اعتزاز احسن کو فاشسٹ قرار دیا حالانکہ چوہدری صاحب نے پوری زندگی میں کبھی چڑیا تک نہیں ماری۔ شیخ وقاص اکرم کی تقریر سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ عنقریب سپریم کورٹ چوہدری اعتزاز احسن کے موٴکل جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف فیصلہ سنانے والی ہے اور اس کے بعد چوہدری صاحب کو غدّاری کے الزام میں پکڑ کر جیل میں پھینک دیا جائے گا لیکن 20 جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلے نے ان سب منصوبوں پر پانی پھیردیا۔
اس فیصلے کے ایک ہفتے کے اندر اندر جنرل پرویز مشرف ابوظبی میں ایک ایسی عورت کے سامنے بیٹھنے پر مجبور ہوگئے جس کے باپ کو انہوں نے ہمیشہ فاشسٹ کہا۔ جب سے ابو ظبی میں جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی ہے میں نے جنرل صاحب کی کتاب ” ان دی لائن آف فائر “ کا صفحہ 58 بار بار پڑھا اور بار بار سوچا ہے کہ جنرل پرویز مشرف جیسے لبرل شخص نے ذوالفقار علی بھٹو کو فاشسٹ کیوں کہا ؟ اپنی مشہور زمانہ کتاب میں جنرل پرویز مشرف نے لکھا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ترقی پسندانہ نظریات کے نام پر آمرانہ طرز کی حکومت قائم کی کیونکہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہنا چاہتے تھے اور جتنا نقصان بھٹو نے پاکستان کو پہنچایا کسی دوسرے نہیں پہنچایا۔ اپنی کتاب میں جنرل پرویز مشرف نے بھٹو کو فاشسٹ کے علاوہ منافق بھی قرار دیا اور لکھا ہے کہ بھٹو نے محض مذہبی طبقے کو خوش کرنے کیلئے شراب و جوئے پر پابندی لگائی اور اتوار کی بجائے جمعہ کی چھٹی کروا دی۔ یہ سب پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خیال میں لبرل صرف وہی ہے جو مذہبی طبقے کو ساتھ لیکر چلنے کی بجائے اس پر چڑھ دوڑے۔ بھٹو صاحب کے کئی اقدامات سے لبرل عناصر خوش نہ تھے۔ جب 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے کئی ماہ کی بحث کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تو کچھ لبرل دانشوروں نے بھٹو کو فاشسٹ کہنا شروع کردیا حالانکہ یہ فیصلہ ایک شخص نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے کیا تھا۔ اگر بھٹو فاشسٹ ہوتے تو ان کے اپنے دور حکومت میں تھانہ اچھرہ لاہور میں ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج نہیں ہوسکتا تھا لیکن اس کے باوجود ایک باوردی جرنیل پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم اور ایٹمی پروگرام کے بانی کو ملکی تاریخ کا بدترین حکمران قرار دیتا ہے۔
اب جبکہ جنرل صاحب لبرل قوتوں کے اتحاد کے نام پر فاشسٹ کی بیٹی سے ملاقات کرچکے ہیں تو یہ سوال اہم ہے کہ کیا فاشسٹ کی بیٹی کے ساتھ مل کر وہ واقعی مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے میں کامیاب ہو سکیں گے ؟ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا مرکز صوبہ سرحد اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقے ہیں۔ ان علاقوں میں آج کل بے نظیر بھٹو کی سیاسی طاقت کا یہ عالم ہے کہ صوبائی اسمبلی کے بعض حلقوں میں پیپلز پارٹی کے پاس امیدوار نہیں ہیں۔ قبائلی علاقوں میں اس پارٹی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے تو پھر مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں طاقت استعمال کی جائے گی اور بے نظیر بھٹو طاقت کے استعمال کی حمایت کریں گی۔ دوسرے الفاظ میں مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ لبرل فاشزم کے ذریعہ کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو پھر پاکستان کو خانہ جنگی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
پیپلز پارٹی ایک لبرل جماعت ضرور ہے لیکن اس جماعت کو چاہئے کہ مذہبی طبقے کے ساتھ اعلان جنگ کرنے کی بجائے اہم قومی امور پر اسے ساتھ لیکر چلے بالکل ویسے ہی جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین پر مذہبی جماعتوں کا تعاون حاصل کیا تھا۔
پاکستان میں کچھ لبرل فاشسٹ ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ پیپلز پارٹی کو اس ایجنڈے کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں جو جارج ڈبلیو بش کا ایجنڈا ہے۔ یہ لبرل فاشسٹ کہتے ہیں کہ ہم تو بڑے امن پسند لوگ ہیں ہمارے پاس مذہبی انتہا پسندوں کی طرح اسلحہ ہے اور نہ ہی خودکش بمبار ہیں لیکن اردو اخبارات نہ جانے کیوں ہمیں بدنام کرتے ہیں حالانکہ ہم تو جمہوریت پسند لوگ ہیں۔ جمہوریت پسند تو فاشزم کا بانی مسولینی بھی تھا جس نے 1922ء سے 1943ء تک اٹلی پر حکومت کی۔ مسولینی کا قریب ترین اتحادی جرمنی کا حکمران ہٹلر تھا۔ دونوں خود کو جمہوریت پسند کہتے تھے لیکن اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ صرف بندوق کی زبان میں بات کرتے تھے۔ آج کے لبرل حکمران بھی اپنے مخالفین کو غدّار یا مذہبی انتہاپسند قرار دیکر پوری ریاستی طاقت ان کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ اس لبرل فاشزم کے ردعمل میں عراق سے افغانستان تک مسلح مزاحمت ہونے لگے تو پھر مذہبی انتہا پسندی کا رونا روتے ہیں۔
ان لبرل فاشسٹوں سے جب پوچھا جائے کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد سے دنیا محفوظ ہونے کی بجائے مزید غیر محفوظ کیوں ہو رہی ہے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ان کی کج فہمی کا یہ عالم ہے کہ اسلام آباد کی لال مسجد پر زبردستی سفید رنگ پھیر کر سمجھتے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی ختم ہو جائے گی۔ پاکستان میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات سے صاف نظر آتا ہے کہ لبرل قوتوں کے اتحاد کے نام پر فاشسٹ روّیہ اختیار کرنا اور معاشرے کو دو طبقوں میں تقسیم کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلے کا حل صرف اور صرف حقیقی جمہوریت کا قیام اور آئین و قانون کی بالادستی ہے۔ اگر جمہوریت کے نام پر مسولینی اور ہٹلر بننے کی کوشش کی گئی تو یہ لبرل فاشزم تباہی کے سوا ہمیں اور کچھ نہ دے گی،