لال مسجد سانحہ کا ذمہ دار کون؟

لال مسجد سانحہ، ذمہ دار کون؟


  • Total voters
    57
  • رائے شماری کا اختتام ہو چکا ہے۔ .

بنتِ حوا

محفلین
حکومت ذمہ دار ہے اس سب کی۔۔وہ اس کا حل چاہتے ہی نہیں تھے وہ صرف خاتمہ چاہتے تھے سب کا۔۔وہ اسی طرح اس مسلے کو حل کرنا چاہتے تھے جیسے انہوں نے کیا ہے خون بہا کر اپنے ہی بھائیوں کا۔۔۔
اگر مشرف کا کوئی فیملی ممبر یا کسی افسر کا کوئی اپنا اندر مسجد میں ہوتا تو ہم دیکھتے کہ مذاکرات کیسے ناکام ہوتے ہیں۔۔۔
اندر موجود لوگوں سے انہیں کیا فرق پڑھ سکتا تھا وہ تو غریب یتیم عام لوگ تھے جن کو مارنے سے انہیں نقصان نہیں لیکن فائدہ بہت پہنچ سکتا تھا دنیا کے فائدے کے للیے یہ اپنی آخرت تباہ کر رہے ہیں جن کے لیے انہیں ضرور جوابدہ ہونا پڑے گا وہاں جہاں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی اور ہر کسی کو اس کے کیے کا بدلہ ملے گا جو وہ کرتے تھے
 
بالکل صحیح کہا ہے آپ نے بنت حوا کہ حکومت ہی ذمہ دار ہے اس خون کی جو اس نے انتہائی بیدردی اور سفاکی سے بہایا ہے معصوم بچوں ، طلبہ اور طالبات کا اور مجھے حیرت ہے کہ اب بھی لوگ دونوں کو کس طرح ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں جبکہ آج بھی وہاں سے معصوم بچوں اور طالبات کی ہڈیاں مل رہی ہیں اور مرنے والوں کی باقیات گندے نالوں میں قرآن اور حدیث کی کتابوں کے مقدس اوراق کے ساتھ مل رہی ہیں۔

اس کے بعد بھی دونوں کو ذمہ دار ٹھہرانے والوں کو ایک بار انصاف سے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ اس طرح ہی رعایت دیتے رہیں گے وہ حکومت کو ، یوں ذمہ داری کو دونوں طرف ڈال کر۔

بنت حوا کیا آپ نے ووٹ ڈال دیا ہے ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
محب علوی، یہ حبِ علی سے زیادہ بغضِ معاویہ ہے۔ اس تھریڈ میں اپنی پوسٹس اول سے لیکر آخر تک دیکھ لو، تمھاری توپوں کا رخ مسلسل "دونوں والوں" کی طرف ہے، حالانکہ ووٹرز کی ایک کافی بڑی تعداد محض اور محض "لال مسجد انتظامیہ" کو موجب سمجھتی ہے۔ ایں چہ پوالعجبی است، کچھ خامہ فرسائی اس پر بھی کریں۔

۔
 

بنتِ حوا

محفلین
بالکل صحیح کہا ہے آپ نے بنت حوا کہ حکومت ہی ذمہ دار ہے اس خون کی جو اس نے انتہائی بیدردی اور سفاکی سے بہایا ہے معصوم بچوں ، طلبہ اور طالبات کا اور مجھے حیرت ہے کہ اب بھی لوگ دونوں کو کس طرح ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں جبکہ آج بھی وہاں سے معصوم بچوں اور طالبات کی ہڈیاں مل رہی ہیں اور مرنے والوں کی باقیات گندے نالوں میں قرآن اور حدیث کی کتابوں کے مقدس اوراق کے ساتھ مل رہی ہیں۔

اس کے بعد بھی دونوں کو ذمہ دار ٹھہرانے والوں کو ایک بار انصاف سے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ اس طرح ہی رعایت دیتے رہیں گے وہ حکومت کو ، یوں ذمہ داری کو دونوں طرف ڈال کر۔

بنت حوا کیا آپ نے ووٹ ڈال دیا ہے ؟

جی بھائی ووٹ تو میں نے ڈال دیا ہے مجھے میری ایک دوست نے یہاں بلایا تھا اور اگر میں چاہتی تو اپنی بہت سی اور دوستوں کو بھی بلا سکتی تھی جو حکومت کو اس کا ذمہ دار سمجھتی تھی لیکن اب اس کا فائدہ کیا ہے اب ہو ہی کیا سکتا ہے ؟
جنہوں نے دونوں کو قصور وار ٹھہرایا ہے بے شک غلط ہے دونوں قصور وال کیسے ہو سکتے ہیں کیا اس مسلے کا صرف یہی ایک حل رہ گیا تھا صرف قتل و غارت ہی اس کا حل تھا ؟ کوئی اور طریقہ نہیں بچا تھا ؟ اندر کون تھے؟ کیا وہ ہمارے مسلمان بھائی نہیں تھے ؟ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے تو کیا اندر موجود سب لوگوں سے اتنا خطرہ تھا کہ اس کا واحد حل سب کا خاتمہ ہی تھا۔۔ حکومت نے جو اس آپریشن میں ہیر پھیر کیا ہے کسی کو نظر نہیں آرہا کیا وہ بوڑھے ماں باپ نظر نہیں آرہے جن کو ان کے بچوں کی لاشیں تک نہیں دی گئی جو اب بھی اپنے بچوں کو ڈونڈتے پھر رہے ہیں اگر یہ غور کریں تو بہت سی باتیں ایسی نظر آئیں گی جن کے لیے صرف اور صرف حکومت ذمہ دار ہے لیکن ہم مسلمان بے حس ہو گئے ہیں ہمیں کسی کے درد کا کیسے احساس ہو سکتا تھا کیوں کہ وہاں ہمارا کوئی بھائی نہیں تھا کوئی بہن نہیں تھی کوئی اپنا نہیں تھا پھر ہم کو کیسے احساس ہو سکتا ہے ان مرنے والوں کی تکلیف کا اور ان مرنے والوں کے پیچھے راہ تکتے رہ جانے والوں کی تکلیف کا۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اور مولانا عبدالعزیز کو جو بشارتیں موصول ہو رہی تھیں ان کے بارے میں بھی تو بتائیں۔ اور خود کش دھماکوں کی دھمکیاں دے کر کیا انہوں نے انسانیت کا پیغام دیا تھا؟ لال مسجد کے بے گناہوں کا قتل اگر انسانیت کا قتل ہے تو اس کے بعد سے خود کش دھماکوں میں جو بے گناہ افراد ہلاک ہوئے ہیں کیا وہ انسان نہیں تھے؟
 
محب علوی، یہ حبِ علی سے زیادہ بغضِ معاویہ ہے۔ اس تھریڈ میں اپنی پوسٹس اول سے لیکر آخر تک دیکھ لو، تمھاری توپوں کا رخ مسلسل "دونوں والوں" کی طرف ہے، حالانکہ ووٹرز کی ایک کافی بڑی تعداد محض اور محض "لال مسجد انتظامیہ" کو موجب سمجھتی ہے۔ ایں چہ پوالعجبی است، کچھ خامہ فرسائی اس پر بھی کریں۔

۔

وارث ، یہ محاورہ تو بذات خود جانبداری کی ایک تاریخی مثال رکھتا ہے اور خود اس کی اپنی تاریخ بھی جانبداری کے جڑوں سے پھوٹی ہے۔ میں بالکل قائم ہوں اس بات پر کہ میں نے دونوں طرف والوں کو ہی اس سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ لال مسجد انتظامیہ سے اس سانحہ سے پہلے غلطیاں نہیں ہوئیں تھیں بلکہ میرا استدلال حکومتی کاروائی پر ہے کہ یہ کاروائی جو ایک عظیم سانحہ میں ڈھل گئی اس کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔
ایک چھوٹی سی مثال دے دیتا ہوں شاید اس سے میری بات کی وضاحت ممکن ہوجائے۔ وطن عزیز میں قانون نام کی شے کم کم پائی جاتی ہے مگر بہرحال اس کا وجود ہے سہی اور باشعور اور بقائے باہمی کا احترام کرنے والے سب لوگ اسی کمزور ترین قانون کا ہی سہارا لیتے ہیں اور اس کی روشنی میں کاروائی کرنے کو کہتے ہیں اور یہی اصولی طور پر ہونا بھی چاہیے۔ لال مسجد انتظامیہ کی جتنی بھی غلطیاں تھیں اور انہوں نے قانون کی جو بھی خلاف ورزیاں کی تھیں ان پر ملک میں قانونی کاروائی کی بہت سی شکلیں ہیں اور ان کے تحت کسی بھی کاروائی کی میں نے اس سانحہ سے پہلے بھی حمایت کی تھی اور اب بھی کرتاہوں کہ جو جو کاروائیاں خلاف قانون تھیں ان پر ملکی قانون کے تحت کاروائی ہوتی اور ہونی چاہیے تاکہ حکومت اپنی رٹ قانون کے ذریعے قائم کرے نہ کہ اندھی طاقت کے ذریعے جس میں ہر کس و ناکس کو بے گناہ اور گناہگار کا فرق کیے بغیر سزا دے دی جائے۔
قتل کی منصوبہ بندی ، اقدام قتل ، قتل اور بربریت کے ساتھ قتل ان چاروں کی سزا ایک نہیں ہے اور نہ کسی معاشرے میں ایک ہو سکتی ہے مگر حکومت نے ایسے طرز عمل کو اختیار کیا جو کسی طرح سے بھی جائز اور قانون کے دائرے میں نہیں تھا۔ ایک غیر قانونی اور غیر مقبول حکومت شاید یہی کرسکتی تھی اور جن کے اشارے پر کیا وہ بھی اب طشت از بام ہے اور ان طاقتوں کی طرف سے شاباش اور مزید کاروائیاں تیز کرنے کا حکم بھی آچکا ہے اور پورے ملک میں حالات انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں اور روز بروز کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ معاملات کو گہرائی میں جائے بغیر ، مہذب طریقے سے گفتگو اور قانون کے تحت حل کرنے کی بجائے اندھی طاقت سے طے کرنے کے ایسے ہی نتائج برآمد ہوتے ہیں اور مزید بدتر نتائج برآمد ہوتے رہیں گے اگر ایسی ہی حکمت عملی کو روا رکھا گیا۔

یہ ووٹرز کی کونشی بڑی تعداد ہے جو محض اور محض ‘لال مسجد انتظامیہ‘ کو موجب سمجھتی ہے ، کیا آپ کے پاس کوئی غیبی آنکھ ہے جو ان ووٹران کو دیکھ رہی ہے اور باقی سب نہیں دیکھ پا رہے۔ تمام ٹی وی چینلز ، اخبارات اور خود اسی ووٹنگ میں بھی اکثریت نے حکومت کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور اس کی ذمہ دار ہے بھی حکومت کیونکہ آپ کسی گروہ یا چند افراد سے نہیں حکومت سے امن امان ، تحفظ اور حالات کو بہتر رکھنے کی امید رکھتے ہیں کہ یہ حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہوتے ہیں ، اس بات پر حکومتیں اور عہدیداران مستعفی ہو جایا کرتے ہیں مگر ماشاءللہ یہاں تو لوگ حکومت کی ذمہ داریوں کو بھی برابر تقسیم کر دیتے ہیں تو پھر حکومتی عہدیداران کا جواب اسی قسم کا ہوتا ہے جیسا شیخ رشید کا تھا جب موصور سے ریلوے کے حادثہ پر مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ

‘ میں کیوں مستعفی ہو جاؤں ، کیا میں ریل گاڑی کا ڈرائیور ہوں ‘
 

اجمل

محفلین
حکومتی سطح پر اس معاملے میں جو رویہ اپنایا گیا اور اس خصوصی تناظر میں پروپیگنڈے کے لئے جو ہتھیار استعمال کئے گئے بلاشبہ صاحب علم و ظرف اس سے بھی بخوبی آگاہ ہوں گے ۔ اس سارے معاملے کا سب سے المناک پہلو وہ آپریشن ہے جس کا اختتام 10 جولائی 2007ء کو سینکڑوں ہلاکتوں اور خود مسجد کے تقدس کی پامالی کی صورت میں سامنے آیا ۔ وہ اپنوں کے مقابل اپنے، وہی مٹھی بھر مسلمانوں کی جماعت کے آگے صف آرا فوج ۔ وہی پھول جیسے معصوم بچے ۔ وہی پانی و تراسیل کی بندش اور وہی مقتل میں اذانیں ۔ اللہ اکبر ۔ یہ سب کچھ اس مملکت خداداد پاکستان میں ہوا جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور جس کے آئین میں قرآن و سنت کی بالادستی کی قسم بھی کھائی گئی تھی ۔ حکومت نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ یہ ریاست کی رٹ ۔ قانون کی بالادستی اور حاکموں سے بغاوت کا معاملہ تھا اور حلیفان حکومت نے بھی جن میں عوام و خواص دونوں شامل ہیں اسی اصول پر اتفاق کر لیا اور اتنے بڑے سانحے و ظلم کے لئے محض اسی کو وجہ بنا ڈالا ۔ اگر لوگ شریعت کو پسند نہیں کرتے اور خواہشات نفس کی پیروی میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا اور اللہ کا معاملہ ہے لیکن انہیں کیوں سزائیں دی جا رہی ہیں جو ایسا کرنا نہیں چاہتے ۔ وہ شخص جو ایمان کا دعویدار ہے وہ کمزور سے کمزور حیثیت میں بھی منکرات کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرے گا اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر اسکے ایمان کا معاملہ گڑبڑ ہے ۔ حدیث ہے

”تم میں سے جو شخص کوئی بدی دیکھے، اس کو ہاتھ سے بدل دے ۔ اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے روکے ۔ اگر زبان سے بھی نہ روک سکے تو دل سے بُرا سمجھے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے ۔ [بخاری و مسلم] ۔ آج لمحہ فکریہ یہی ہے کہ اگر اسی فارمولے کو سامنے رکھ کر اہل ایمان الگ کئے جائیں تو شاید چند ہی افراد اپنا شمار کسی ایک درجے میں کرا سکیں گے باقی سب ہی کا معاملہ ناگفتہ بہ ہوگا

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا ۔ ۔ ۔ کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

وہ لوگ جو مسلمان ہیں اور اس بات کے دعویدار بھی کہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے کیسے اس بدترین ظلم میں ایک حصہ دار بن بیٹھے اور کیسے انہوں نے حقائق و واقعات کو یکسر فراموش کردیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سب شریعت سے خوفزدہ ہیں کیونکہ شریعت کے تقاضے انہیں مرغوباتِ نفس سے دور کردیں گے اور جبراً انہیں ان باتوں سے اجتناب کرنا پڑے گا جو ان کا معمول بن چکا ہے ۔ اسلام کے نام لیوا تو بہت ہیں لیکن عملی طور پر کچھ کرنا نہیں چاہتے ۔ یہ خوف تو ایسے گروہوں نے پیدا کیا جن کے طور طریقوں سے نفاذ شریعت کے امکانات ہویدا ہونے لگے تھے یا کم از کم یہ اندیشے جنم لینے لگے تھے کہ اگر واقعی کبھی نفاذ شریعت ممکن ہو رہی تو پھر کیا ہوگا؟ یہ سُود کا لین دین ۔ یہ فحاشی ۔ یہ بدقماشیاں ۔ یہ قحبہ گری اور آنکھوں کے یہ مزے جو ہمہ وقت مختلف پہلوؤں سے میسر ہیں ۔ کیسے مہیا و دستیاب ہوں گے؟ سو ایک بڑے جتھے نے یکسر اس گروہ کی آواز کو مسترد کردیا اور حکومت کی رِٹ ملکی قوانین اور حکمرانوں سے بغاوت کا نام لے کر حلیفانِ حکومت میں شامل ہوگئے۔

شریعت کے معاملے میں کچھ لو اور کچھ دو والا اصول درست نہیں ہے لیکن دنیاوی اصول کے مطابق کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مسئلہ حل کیا جاتا تو خون ناحق سے مسجد و مدرسہ کی زمین سُرخ نہ ہوتی ۔ یہ تو سراسر ظلم و ناانصافی ہے کہ جو بات طبعیت کو گوارہ نہ ہو قطع نظر اس کے کہ وہ کہاں تک درست ہے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا جائے اور وہ بھی ایسے تشدد کا جس سے قتال وابستہ ہو ۔ آپریشن سے قبل بھی اور بعد میں بھی سرکار و حلیفان سرکار کی جانب سے بھانت بھانت کی وجوہات پیش کی جا رہی ہیں ۔ کہیں زمینوں پر قبضے کی بات ہے تو کہیں شریعت کے ازخود نفاذ کی بات یا پھر اندر اسلحہ اور غیرملکیوں کی موجودگی کی لیکن کچھ بھی ثابت نہ کیا جا سکا ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ان معصوموں کی اموات کے فیصلے کہیں اور ہوئے تھے اور جن پر عملدرآمد اسی پالیسی کا حصہ ہے جو آج اقوام مغرب نے اسلام و مسلمان دشمنی کے تناظر میں ہر سمت جاری کر رکھی ہے۔ امریکا نے عراق پر حملہ کیلئے جواز تراشا تھا کہ وہاں بڑی مقدار میں کیمیاوی ہتھیار موجود ہیں لیکن ایک بڑی تباہی و بربادی کے بعد وہاں سے کیا برآمد کیا؟

فرماتے ہیں کہ کسی فرد یا ٹولے کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ جب چاہے ایسے مطالبات لے کر اٹھ کھڑا ہو اور حکومت کی رِٹ کو چیلنج کرے ۔ ان کا یہ ارشاد اسلامی سیاست و شریعت کے خلاف ہے ۔ اسلامی تاریخ لاتعداد ایسی نظیریں پیش کرتی ہے جہاں فرد سے لے کر افراد تک اور افراد سے لے کر گروہوں تک نے نفاذ شریعت کا مطالبہ بھی کیا اور اس کے لئے حاکموں ۔ جابروں اور آمروں سے ٹکر بھی لی ۔ واقعہ کربلا سے بڑھ کر اس کی مثال کیا ہوگی کہ بہتّر افراد نے محض شریعت کی سربلندی کے لئے ایک آمر سے ٹکر لی اور خود تو دنیاوی اعتبار سے ختم ہوگئے لیکن اپنی سنّت پر چلنے کا ایک واضح اصول چھوڑ گئے۔ حکومت کی رِٹ کا فلسفہ گھڑنے والے اور اس کے خلاف ایسی آوازوں کو ناپسند کرنے والے کیا واقعہ کربلا کو بھی خاکم بدہن ایسا ہی کوئی واقعہ قرار دیں گے؟

سائنس و ٹیکنالوجی کے اس کمرشل دور میں جبکہ لوگ محض دنیاوی کامیابیوں اور فراوانی دولت کی خاطر تعلیم کے مختلف میدان اپنے بچوں کے لئے منتخب کر رہے ہیں ان بچوں سے یہ بدترین انتقام کیا معنی رکھتا ہے جو دین کی محبت میں ان مدرسوں کا رخ کر رہے ہیں ؟ بے شک اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں
 

ساجد

محفلین
محترم اجمل صاحب ، اگر آپ کی بات کو لے کر آگے چلیں کہ لوگوں کی اکثریت شریعت کے نفاذ کے مطالبے کی مخالفت پر اس لئیے اتر آئی کہ ان کو دلفریب نظاروں اور شہوات کی کھلم کھلا پیروی کرنے میں مشکل ہو گی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں میں یہ سوچ پیدا کیوں ہوئی؟ اور اس بات کو جانچنے کا کیا پیمانہ ہے کہ اتنی بڑی قتل وغارت پر پاکستان کے کروڑوں عوام محض اپنی شہوات کے اسیر ہونے کی وجہ سے خاموش رہے یا پھر اصل وجہ کچھ اور ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم مرض کی تشخیص میں ہی غلطی کر رہے ہوں؟ کروڑوں نا سہی لاکھوں کو تو آواز اٹھانا چاہئیے تھی نا!!! جب کہ صورت حال یہ ہے کہ علماء کرام اور دینی جماعتوں کی طرف سے بھی کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستانی عوام سیاست دانوں اور فوج کے ساتھ ساتھ اب مذہبی رہنماؤں سے بھی مایوس ہو چکی ہے؟ اور علماء کرام نے بھی حالات کا جائزہ لے کر خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی کہ سڑکوں پر آ کر اپنی مقبولیت کا پول نہ کھل جائے۔
اور پھر اس بات کی طرف بھی غور فرمائیے کہ اس اندوہناک سانحے کے بعد جس قسم کے حالات پیدا ہوئے وہ کس طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں منظم جرائم کرنے والے گروہوں کے ارکان ہوں یا فرقہ بازی پھیلانے والے عناصر جب بھی ان پر شکنجہ کسا گیا تو اور تفتیش کی گئی تو ان کے ڈانڈے کہاں ملے پائے گئے؟ بہت بڑی مثال ہے اپنے ایک وزیر کھیل کے اغواء کی کہ کس طرح سے حکومت وقت کو بھی میران شاہ میں سودے بازی پر مجبور ہونا پڑا لیکن اپنی خفت مٹانے کے لئیے حکومت نے اس سودے بازی سے ہمیشہ انکار کیا۔ اب دیکھا جائے تو جانے انجانے میں غازی برادران بھی انہی عناصر کے ہاتھوں میں چلے گئے تھے کہ جو ہر بات کو منوانے کے لئیے تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔اس بات کے کافی زیادہ شواہد آپ کو خود غازی برادران کے سابقہ خطبات اور انٹرویوز سے بھی مل جائیں گے کہ امن اور مٹھاس کی سرائیکی سر زمین سے تعلق رکھنے والے ان بھائیوں کا لہجہ اتنا تلخ کیوں ہو گیا تھا۔ یہاں میں اختلافی مسائل نہیں چھیڑنا چاہتا صرف ان معروضی حقائق پر بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جو ہم سب کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں اور دیکھ رہی ہیں۔ اور انہی حقائق کی ایک تلخی ہے یہ خود کش دھماکے اور عوام الناس میں پھیلا ہوا خوف۔ ہمیں اس سانحے کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر ڈالنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہئیے کہ ہم بھلے کسی خوش فہمی میں رہیں لیکن در حقیقت ہم ابھی تک غلام ہیں اور اپنی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے حالات کا غیر جانبداری سے تجزیہ کرنے اور ان کو ٹھیک کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمارے آقا ہمیں اپنے پنجے سے نکلنے ہی نہیں دیتے ۔ امریکا کی غلامی تو اظہر من الشمس ہے لیکن بہت سارے اور گروہ بھی ہمیں غلام بنائے ہوئے ہیں۔ اور ہم عقیدے اور مسلک کے نام پر برضا و رغبت ان کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ آپ ہی فرمائیے کہ بفرض محال آج پاکستان میں نفاذ شریعت کا اعلان کر دیا جاتا ہے تو کون سی شریعت پر ہم متفق ہوں گے؟ ہر فرقہ اور گروہ ہاتھوں میں کلاشنکوفیں اٹھائے اپنی شریعت نافذ نہیں کروانا چاہے گا؟ لال مسجد کے حالات کا آپ نے بہت باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ان دردناک لمحات میں کہ جب آپریشن ہو رہا تھا ہمارے چند علماء کرام کس بے فکری سے قہقہے لگا رہے تھے اور شاید دل ہی دل میں غازی برادران کی بے دخلی کے بعد اس مسجد کا انتظام ملنے کی آس لگائے ہوں گے۔
حضور والا ، یہ معاملہ صرف لال مسجد ، شہید کی گئی مساجد کی تعمیر یا نفاذ شریعت کا ہی نہیں تھا۔ اس میں سیاست بھی ملوث ہو گئی تھی۔ بین الاقوامی قاتل بش اینڈ کمپنی اور ان کی پروموٹڈ القاعدہ نے مل کر اس کو ہمارے لئیے ایک المیہ بنایا ہے۔ ان میں سے ایک کی نمائندہ ہماری حکومت بنی اور دوسرے گروہ نے غازی برادران کو کمال ہوشیاری سے مذہب کے نام پہ استعمال کیا۔
محترم واقعہ کربلا کو کسی بھی طرح سے اس خونیں ٹکراؤ سے نسبت نہیں دی جا سکتی۔ ایسا کر کے ہم کربلا کے شہیدوں کی قربانیوں کی اہمیت کم کر دیں گے۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم

جناب ساجد صاحب شریعت میں نہ دیوبندی ہیں ، نہ بریلوی نہ اہلحدیث،
اپ ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ قرآن میں کس کا اختلاف ہے قرآن نے سب حدود بیان کر لی ہیں اب وہ الگ بات ہے کہ یہی مسلمان موسیقی کو روح کا عذا کہے اور پھر سمجھنے کے لیے لاجک ڈھونڈے !یعنی جو حبیث روحیں قرآن و حدیث کی شرین آواز سے چین نہ پاتی ہوں، اور ذکر اللہ کی شراب صافی سے بھی انھیں حظ نہ ملتا ہوں تو ان کی غذاغنا، و مزا میراور موسیقی ہی ہو سکتی ہے
اب اپ موسیقی والا شریعت چاہئنگے یا قرآن والا اختلاف ہیں چھوڑیں قوالی لے لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ساجد

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم

جناب ساجد صاحب شریعت میں نہ دیوبندی ہیں ، نہ بریلوی نہ اہلحدیث،
اپ ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ قرآن میں کس کا اختلاف ہے قرآن نے سب حدود بیان کر لی ہیں اب وہ الگ بات ہے کہ یہی مسلمان موسیقی کو روح کا عذا کہے اور پھر سمجھنے کے لیے لاجک ڈھونڈے !یعنی جو حبیث روحیں قرآن و حدیث کی شرین آواز سے چین نہ پاتی ہوں، اور ذکر اللہ کی شراب صافی سے بھی انھیں حظ نہ ملتا ہوں تو ان کی غذاغنا، و مزا میراور موسیقی ہی ہو سکتی ہے
اب اپ موسیقی والا شریعت چاہئنگے یا قرآن والا اختلاف ہیں چھوڑیں قوالی لے لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



واجد حسین صاحب ، آپ کی بات اپنی جگہ لیکن جو نکتہ میں نے اُٹھایا ہے اُس کو آپ زیر بحث نہیں لائے۔ مسلم معاشرہ بھی انسانوں کا ہی معاشرہ ہوتا ہے ۔جس میں ولی اللہ بھی ملیں گے اور گناہ گار بھی۔ بات یہ نہیں ہے کہ کون کتنا متقی ہے ۔ سوچنا تو یہ ہے کہ اگر شریعت کے نفاذ کا اعلان کر دیا جائے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مسلکی فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہم لوگ کس حد تک ایک اتفاق رائے پیدا کر سکتے ہیں شریعت کے اوامر و نواہی پر۔ اور کیا ہم جانتے ہیں کہ شریعت کے تقاضے کیا ہیں؟
مطلب یہ کہ اجماعِ امت کی کوئی سبیل کی ہے ہم نے؟ تاریخ تو کچھ اور ہی بتا رہی ہے ہمیں۔ ماضی قریب میں ہی دیکھئیے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس ریاست میں مسجدوں اور امام بارگاہوں کی کیا درگت بنائی ہے ہم نے۔ اور اب ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہئیے کہ ان کے پیچھے ہمارے فرقہ وارانہ نظریات ہی تھے۔ جب تک ہم حقیقت تسلیم نہیں کریں گے تب تک مسائل کے حل کی طرف قدم نہیں بڑھا سکیں گے۔
جب عدم برداشت اور تعصب کا یہ عالم ہو تو ہوا میں تلواریں چلانا مناسب نہیں۔ بہتر ہے کہ پہلے ہم اپنے معاشرے میں پائی جانے والی بے چینیوں کا سبب معلوم کریں اور ان کو دور کرنے کی سعی کریں۔ اور جب لوگوں میں آگاہی اور برداشت پیدا ہو گی تو ان میں عزت نفس کا احساس اجاگر ہو گا۔ اور جب کسی قوم میں عزت نفس پیدا ہوتی ہے تو اس میں خود بخود وہ صفات پیدا ہو جاتی ہیں کہ جن کا تقاضا ہمارا دین کرتا ہے۔
خالی نعروں سے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی سے تو اسلام نافذ نہیں ہونے والا۔
 

اجمل

محفلین
محترم ساجد صاحب ۔ السلام علیکم
میں نے کسی خاص گروہ کا نام لئے بغیر اصل صورتِحال واضح کی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قوم کی اکثریت جس میں مولانا کہلانے والے بھی شامل ہیں عملی طور پر خود غرض ہیں ۔ اور جو کوئی دوسرے کا بھلا کرے جبکہ اسے خود کوئی فائدہ نہ ہو یا نقصان ہو تو لوگ اسے بیوقوف یا پاگل کہتے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ داڑھی والوں سے بھی نا اُمید ہو چکے ہیں کیونکہ ان کی اکثریت کے کلام اور عمل میں یکسانیت نہیں ہے ۔
آپ نے ڈانڈے تو ملا دیئے مگر ڈانڈے ملانے کے ذریعہ پر آپ نے غور نہیں کیا جو روشن خیال حکومت اور روشن خیال ذرائع ابلاغ ہیں ۔

جس وزیر کے اغواء کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ اغواء نہیں ہوا تھا بلکہ جو غلط کاروبار وہ کرتا تھا اس کے دام وصول نہ ہونے پر جب وہ اگلا سودا کرنے گیا تو بطور ضمانت رقم کی وصولی تک اسے وہیں روک لیا گیا اور جزوی وصولی ہونے پر چھوڑ دیا گیا ۔ اسی لئے حکومت کو خاموش ہونا پڑا ورنہ جو حکومت باجوڑ مدرسہ کے بچوں کو صرف امریکہ کی خوشنودی کیلئے ہلاک کر سکتی ہے وہ اس علاقہ کی تہس نہس نہ کر دیتی ۔

آپ نے لال مسجد کے خطیب عبدالعزیز اور نائب خطیب عبدالرشید غازی کو انتہاء پسندوں کا ہتھیار بنا دیا ۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کب سے ان دونوں بھائیوں کو جانتے ہیں ؟ یا پھر وہی سرکاری اور اخباری باتوں پر تکیہ کر رہے ہیں ؟

اصل بات کی طرف آپ نے اشارہ تو کر دیا مگر لقمہ لگانے کی غلطی کر گئے ۔ القاعدہ کا اس واقعہ یا پاکستان میں ہونے والے کسی واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ اور سچ پوچھئے تو القاعدہ سوائے امریکی پروپیگندہ کے کچھ نہیں ۔ دھماکے وغیرہ کسی خاص فائدہ کیلئے کرائے جاتے ہیں ۔ ذرا غور کیجئے کہ پاکستان میں بم دھماکوں اور ٹارگٹ شوٹنگ کا فائدہ کسے پہنچ سکتا ہے تو آپ کو یکے بعد دیگرے مندرجہ ذیل نام نظر آئیں گے ۔ امریکہ ۔ بھارت ۔ وہ لوگ جو دونوں میں سے کسی کی حمائت چاہتے ہوں ۔ یہاں اسلام آباد میں جو اندر کھاتے باتیں ہو رہی ہیں ان کے مطابق ایف 8 مرکز اور آبپارہ میں دھماکے حکومتی ایجنسیوں نے کرائے ۔ خیال رہے کہ عینی شاہدین کے مطابق یہ خود کُش دھماکے نہیں تھے مگر حکومت نے انہیں خود کُش قرار دیا ۔

اگر آپ نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے حوالہ سے اس سال جنوری سے اب تک کے سارے واقعات اپنے پاس لکھ لئے ہوتے تو آپ میرے مندرجہ بالا مضمون سے نہ صرف متفق ہوتے بلکہ شائد اس سے بڑھ کر لکھتے ۔

لال مسجد مذاکرات کے دوران دینی علماء کے قہقہوں کا حامد میر نے لکھا تھا مگر بعد میں اپنی تحریر کی سختی کو نرمی میں بدل دیا تھا ۔

ایک بات جس کی بشمول لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں محصورین میں سے کسی کو بھی اُمید نہ تھی یہ ہے کہ خود ہماری ہی حکومت اور ہمارے ہی ملک کے فوجی ڈیڑھ ہزار بچوں اور بچیوں کو اس بے دردی سے بھُون کر رکھ دیں گے ۔ ان کی لاشوں کی بے حُرمتی کریں گےمسجد کی بے حُرمتی کریں گے اور قرآن شریف کی کافروں سے بڑھ کر بے ادبی کریں گے ۔

آخر میں میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ لال مسجد میں جن لوگوں کو ہلاک کیا گیا ان کا قصور کیا تھا ؟ اُنہوں نے کسی کو جان سے مارا ؟ یا کسی کا بازو یا ٹانگ توڑی ؟ یا کسی کا سر یا آنکھ پھوڑی ؟

آپ نے کچھ گروہوں کی بات کی ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ گروہ بندی خلافِ شریعت ہے ۔ دوسرے نفاذِ شریعت میں کوئی گروہ بندی نہیں ۔ جو باتیں ان گروہ والوں نے اپنی طرف سے بنا لی ہیں ان کا نفاذ شرعی ضرورت نہیں ۔
 

سید ابرار

محفلین
۔ امریکا کی غلامی تو اظہر من الشمس ہے لیکن بہت سارے اور گروہ بھی ہمیں غلام بنائے ہوئے ہیں۔ اور ہم عقیدے اور مسلک کے نام پر برضا و رغبت ان کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ آپ ہی فرمائیے کہ بفرض محال آج پاکستان میں نفاذ شریعت کا اعلان کر دیا جاتا ہے تو کون سی شریعت پر ہم متفق ہوں گے؟ ہر فرقہ اور گروہ ہاتھوں میں کلاشنکوفیں اٹھائے اپنی شریعت نافذ نہیں کروانا چاہے گا؟

۔
ساجد صاحب کے ”دردمندانہ جذبات “واقعتا قابل قدر ہیں، مگر ایک بات کی جانب میں توجہ دلانا چاھونگا ، یہ بات اس سے پھلے بھی کئی بار کھی گئی ہے کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کیسےممکن ہے جب کہ یھاں مسلکوں کے درمیان شدید تناؤ موجود رہا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نفاذ شریعت کا” مسلکی اختلافات“ سے کوئی تعلق نھیں ہے ، تمام مسالک کے دیندار افراد کی یھی خواہش ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں‌ جھاں تقریبا %95 مسلم رہتے ہیں ، وہاں شریعت مکمل طور پر نافذ ہو ،
عدالتوں میں اسلامی قانون ، حجاب ، شراب پر پابندی ، فحاشی اور عریانیت کا خاتمہ وغیرہ کسی میں کوئی مسلکی اختلاف نھیں ہے ، غرض یہ ہے کہ ”دیندار“ حضرات تو اس مسئلہ میں اپنے ”مسلکی اختلافات“ پس پشت ڈال کر ”اتحاد“ کے لئے تیا ر ہیں ، ہاں” اختلاف “ اگر کسی کو ہے تو وہ پاکستان کے ”روشن خیال “ طبقہ کو ہے ، جو ”مذھب“ کو ایک ”رسمی چیز“ اور دین کے احکام کو ”فرسودہ اور دقیانوسی“ سمجھتے ہیں ،
 

ساجد

محفلین
وعلیکم السلام،
محترم اجمل صاحب و سید ابرار ، آپ حضرات کی اکثر باتوں سے مجھے اتفاق ہے۔ مثال کے طور پر کہ لال مسجد کے خون خرابے میں فائدہ صرف مسلم دشمن طاقتوں کو ہوا۔ اور محترم اجمل صاحب یہ خون خرابہ ہونے سے پہلے خود بھی ایک سے زیادہ بار تسلیم کر چکے ہیں کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کا غازی برادران کا فیصلہ اور طریقہ غلط تھا۔ میں نے بھی کبھی حکومت کے اس طاقت کے استعمال کے اقدام کو پسندیدگی سے نہیں دیکھا۔ مطلب یہ کہ ہم سب مانتے اور جانتے ہیں کہ دونوں فریق اپنی اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے۔
اجمل صاحب کی یہ بات درست ہے کہ لال مسجد میں ڈٹ جانے والوں کو اس بات کی ایک فی صد بھی امید نہیں تھی کہ ان کے خلاف اتنا سخت ایکشن ہو گا اور یہی بنیادی وجہ تھی کہ وہ ہر قانون شکنی بڑے دھڑلے سے کرتے تھے۔ ان کو اس ایکشن کی امید کیوں نہیں تھی ؟ اس بحث میں جائیں تو بات لمبی ہو جائے گی۔ بس یوں سمجھئیے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے جو گرہیں ہاتھوں سے لگائی تھیں ان کو انہیں دانتوں سے کھولنا پڑا ہے۔افغانستان کی جنگ میں جو باڑ چمن کی حفاظت کے لئیے لگائی گئی تھی وہی باڑ چمن کو کھانا شروع ہو گئی تھی۔
مجھے غازی برادران سے کوئی رنجش نہ تھی نہ ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ علماء بھی انسان ہی ہوتے ہیں ہمیں ان سے فرشتوں کے سے کردار کی توقع نہیں کرنا چاہئیے۔محض ایک شخص کی غلطی پر پورے علماء کو مطعون کرنا سراسر غلط ہے ۔ اس لحاظ سے انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ جو غلطی کرے اس کو ایسا کرنے سے منع کیا جائے نہ کہ ہلا شیری دی جائے۔ لیکن ہم جذبات میں جب بہتے ہیں تو بہت کچھ فراموش کر جاتے ہیں۔ اور نتیجے میں مرگ مفا جات ہمارا مقدر بنتی ہے۔ ابھی دیکھئیے کہ غازی برادران کے مخالفین ان کو ہر برائی کی جڑ قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں یہ سوچے بغیر کہ وہ جن جنرل صاحب کی حمایت کر رہے ہیں وہ خود اپنی ہٹ دھرمیوں سے ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آئیں ہیں۔ اور جو غازی صاحبان کے حمایتی ہیں ۔ وہ اب دراصل غازی عبدالرشید کی لاش پر سیاست چمکانے کی کوشش میں ہیں۔ اور جان بوجھ کر پورے پاکستان کی عوام کو ایک جنرل کی غلطی کی سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
وہ میانہ روی ، صبر اور استقامت جو ہمارے دین کا خاصہ ہیں ان کا شائبہ بھی دونوں فریقوں میں کہیں نظر نہیں آ رہا۔بس الزامات اور دشنام طرازیوں کا ایک سلسلہ شروع ہے جس کو خود کش حملوں اور پاک فوج کے جوانوں کو قتل کرنے والوں نے مزید سنگین بنا دیا ہے۔
مان لیجئیے کہ لال مسجد کا سانحہ امریکہ کے اشارے پر جنرل پرویز مشرف کے احکامات پر وقوع پذیر ہوا۔ لیکن اس کو جواز بنا کر پوری فوج کو گالی گلوچ کرنا اور ان پر قاتلانہ حملے کرنا کہاں کا انصاف ہے؟خود کش حملوں کی کیا تُک ہے؟ عام شہریوں کو کیوں قتل کیا جا رہا ہے؟ مخالف عقیدے کی مساجد اور خانقاہوں پر کیوں قبضے کئیے جا رہے ہیں؟ غیر قانونی ایف ایم ریڈیو سٹیشنوں کی مدد سے ایک دوسرے کو کافر اور واجب القتل قرار دینے کے فتوے کیوں جاری کئیے جا رہے ہیں؟ کیا اس طریقے سے ہم اپنے ملک یا عوام کی کوئی خدمت کر رہے ہیں یا پھر نفاذ شریعت کے لئیے اپنے لئیے کوئی سازگار ماحول پیدا کر رہے ہیں؟ نہیں یہ لوگ اپنی جہالت سے دین کو بدنام کر رہے ہیں اور شریعت کی ایسی تصویر پیش کر رہے ہیں کہ جس کے تصور سے ہی اب پاکستا نی عوام کانپ اُٹھتی ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ اب عوام کی اکثریت علماء کی حمایت سے گریزاں ہے۔ اگر یہ قاتل اور دہشت گرد علماء کی صفوں میں زبردستی گھس گئے ہیں تو امریکا یا مشرف سے بھی پہلے ہمارے علماء کا فرض ہے کہ ان کو نکال باہر کریں ۔ کیوں کہ یہ لوگ ان کے نفاذ شریعت کے کاز کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ اگر ہمارے علماء چاہیں تو پاکستان میں صرف ایک مہینے میں امن قائم ہو سکتا ہے اور قبائلی علاقہ جات میں استحکام بھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں علماء کرام کو بد امنی کا سبب قرار دے رہا ہوں ۔ یہ میں اس لئیے کہہ رہا ہوں کہ جن علاقوں میں یہ قاتل اور خود کش بمبار پناہ لیتے ہیں وہاں حکومت پاکستان کا قانون ایک حد تک لاگو کیا جا سکتا ہے۔ وہاں علماء اور قبائلی عمائدین کی بات زیادہ مانی جاتی ہے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ایک آدمی کی غلطی کی سزا پورے معاشرے کو نہیں دی جانی چاہئیے ۔ اگر پرویز مشرف غلط ہے تو اس کے خلاف تحریک شروع کرو۔ اسمبلی میں اپنی آواز اٹھاؤ۔ الیکشن میں اپنے ہم خیالوں کو کامیاب کروا کر شریعت کے نفاذ کے لئیے قانون سازی کرواؤ۔ سپریم کورٹ موجود ہے وہاں کیس درج کرواؤ۔ میڈیا کے ذریعے اپنے خیالات لوگوں تک پہنچاؤ۔۔۔۔۔یہ سب کچھ کرنے سے کون روکتا ہے آپ کو۔ لیکن بم دھماکے ، دھمکیاں ، اغواء ، گردن زدنی ، آرمی کے جوانوں اور عام شہریوں کا قتل عام اور اداروں پر حملے۔۔۔۔یہ کون سا اسلام نافذ کیا جا رہا ہے ہم پر؟ یہ کھلی دہشت گردی ہے اور ایسا کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ یہ لوگ شریعت کے نفاذ اور لال مسجد کے سانحہ کے بدلے کی آڑھ میں جو کچھ کر رہے ہیں اس کا اندازہ کرنے کی ہم نے شاید کبھی کوشش ہی نہیں کی۔
میرا محترم علماء کرام سے اکثر یہ سوال رہتا ہے کہ اگر ایک اسلامی ملک میں شریعت کے نفاذ کے معاملے پر اپنی بات منوانے کے لئیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے اور ملکی قانون کے متوازی راستہ اختیار کر کے معاشرے کو بد امنی اور بے چینی کا شکار کیا جائے تو بجائے خود اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب ملا کہ یہ طرزِ عمل غلط ہے ۔ دینِ اسلام سلامتی کا دین ہے اور فساد اسکی روح کے خلاف ہے۔ آپ کو بتاؤں کہ مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کی بڑی بڑی مساجد کے علماء کرام نے یہ جواب دیا ہے مجھے۔
اب آپ کہیں گے کہ یہ بم دھماکے تو حکومتی ظلم کا رد عمل ہے تو جناب رد عمل کے لئیے آپ کے پاس عوام کی طاقت ہے ۔ چند ہزار وکلاء اگر ملک کی سب سے طاقتور شخصیت کے غیر آئینی اور بد نیتی پر مبنی اقدام کی ایسی تیسی بِنا ایک گولی چلائے کر سکتے ہیں تو آپ کے پاس تو ان سے کہیں زیادہ فورس مدرسوں میں موجود ہے۔ ضرورت ہے تو اس فورس کو اپنے جذبات قابو میں رکھنے کی تربیت اور مُلکی قوانین کے احترام کا درس دینے کی۔
 
بہت اعلی ساجد صاحب۔
اور اس لئے اعلی کہ آپ کی سوچیں قرآن کے مطابق ہیں۔ ذیل میں۔ میں نے ساجد صاحب کی تحریر پر قرانی آیات کی روشنی ڈالی ہے۔ غلطی ہوئی ہو تو معافی کا خواستگار ہوں۔

شریعت، قرآن و سنت:
جیسا کہ حضرات متفق ہیں کہ شریعت "قرآن اور سنت ‌پر مشتمل ہے۔ قرآن، اللہ کی طرف سے بنیادی اصول بطور ایک مکمل آئین فراہم کرتا ہے کہ ہر قانون ان بنیادی اصولوں پر پورا اترے۔ اور سنت ان اصولوں‌ پر عمل پیرا ہونے اور ان اصولوں سے قانون اخذ کرنے کے طریقہ کار کو Establish کرتی ہے، کہ ایسا ہمارے رسول کریم نے کیا۔ (میں نے کوئی نئی بات کہنے کی کوشش نہیں کی ہے)

پاکستان کا آئین:
اب آپ پاکستان کا آئین دیکھئے
http://www.pakistani.org/pakistan/constitution/preamble.html

12th April, 1973
Preamble
Whereas sovereignty over the entire Universe belongs to Almighty Allah alone, and the authority to be exercised by the people of Pakistan within the limits prescribed by Him is a sacred trust;
And whereas it is the will of the people of Pakistan to establish an order :-
Wherein the State shall exercise its powers and authority through the chosen representatives of the people;
Wherein the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, as enunciated by Islam, shall be fully observed;
Wherein the Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and Sunnah;​
اس آئین کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی ہے کہ تمام قوانین قرآن کے اصولوں کے مطابق اور سنت سے ثابت طریقہء کار پر مبنی ہوں گے۔

شوری: Mutual Consultation اور ایک اعلی درجے کی اسمبلی کی تشکیل:
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ایک آدمی کی غلطی کی سزا پورے معاشرے کو نہیں دی جانی چاہئیے ۔ اگر پرویز مشرف غلط ہے تو اس کے خلاف تحریک شروع کرو۔ اسمبلی میں اپنی آواز اٹھاؤ۔ الیکشن میں اپنے ہم خیالوں کو کامیاب کروا کر شریعت کے نفاذ کے لئیے قانون سازی کرواؤ۔ سپریم کورٹ موجود ہے وہاں کیس درج کرواؤ۔ میڈیا کے ذریعے اپنے خیالات لوگوں تک پہنچاؤ۔۔۔۔۔

دیکھئے قرآن کی [AYAH]42:38[/AYAH] ہمیں اپنے مسائل کا شوری (Mutual consultation)۔ (سینیٹ اور قومی اسمبلی) یعنی Elected نمائندوں (بیعت یا ووٹنگ )[AYAH]4:58[/AYAH]کی مدد سے دیتا ہے ، اور ان نمائندہ لوگوں‌ کی شناخت کرتا ہے انکی نیکی سے [AYAH]46:19[/AYAH] اور عوام کو حکم دیتا ہے کہ پھر اس گورننگ باڈی کے احکامات پر عمل کریں، نوٹ کیجئے [AYAH]4:59[/AYAH] وَاُوْلِي الاَمْرِ منکم

قوانین کی تبدیلی کے لئے فساد؟
لیکن بم دھماکے ، دھمکیاں ، اغواء ، گردن زدنی ، آرمی کے جوانوں اور عام شہریوں کا قتل عام اور اداروں پر حملے۔۔۔۔یہ کون سا اسلام نافذ کیا جا رہا ہے ہم پر؟

دیکھئے [AYAH]2:11[/AYAH] اور [AYAH]2:12[/AYAH] کہ زمین میں فساد کو اصلاح کا نام دینے کے بارے میں اللہ تعالی کا حکم۔

میرا محترم علماء کرام سے اکثر یہ سوال رہتا ہے کہ اگر ایک اسلامی ملک میں شریعت کے نفاذ کے معاملے پر اپنی بات منوانے کے لئیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے اور ملکی قانون کے متوازی راستہ اختیار کر کے معاشرے کو بد امنی اور بے چینی کا شکار کیا جائے تو بجائے خود اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب ملا کہ یہ طرزِ عمل غلط ہے
اس طریقہ کار کے بارے میں یعنی فساد کرکے اپنی بات منوانے کے بارے۔ میں مزید یہ آیات دیکھئے
[AYAH]2:205[/AYAH]
[AYAH]11:116[/AYAH]
[AYAH]5:33[/AYAH]

میرا مقصد ساجد صاحب کے مدلل جوابات کے بارے میں ریفرینس پہنچانا ہے۔ ساجد صاحب کے خیالات ہر مسلمان کے خیالات ہیں۔ شریعت نافذ کرنے کا درست طریقہ اسمبلیوں میں جاکر قوانین بنانے اور موجودہ قوانین کی اصلاح ہونا چاہیئے نہ کہ فساد، قتل اور معصوم جانوں کا ضیاع۔ مقصد کتنا خوبصورت ہو، طریقہ کار قرآن بیان کرتا ہے۔

اللہ کا وعدہ:
اللہ کا وعدہ ا ہے کہ درست طریقہ سے اس کے احکامات پر عمل کرنے سے اور حکومتی نظام چلانے سے وہ آپ کو تمام کرہ ارض پر حکومت عطا کرے گا۔ دیکھئے [AYAH]24:55[/AYAH]
 

ساجد

محفلین
باسم بھائی ، میں بلاگ شروع تو کردوں لیکن اس کو تسلسل کے ساتھ چلانا میرے لئیے محال ہو جائے گا۔ بسلسلہ روزگار مجھے اکثر گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے ۔ لمبی ڈیوٹی اور تھکا دینے والے میرے کام سے جب رات کو واپس آتا ہوں تو گھوڑے کے ساتھ ساتھ تانگہ بھی بیچ کر سو جاتا ہوں۔ اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کام نہ ہونے کی وجہ سے فارغ وقتی سے تنگ آ جاتا ہوں۔ تب آپ لوگوں کا دماغ کھانے اور اپنا وقت گزارنے یہاں آ دھمکتا ہوں۔
بلاگ لکھنا شروع کر دوں تو کچھ ایسا ہو گا کہ کبھی تو آپ مسلسل میری لمبی لمبی تحریریں پڑھ کر مجھ پر تین حرف بھیجیں گے کہ خوامخواہ وقت برباد کیا اور جب "لمبی جُدائی" حائل ہوا کرے گی تو شاید فاتحہ پڑھ کر مجھے ایصالِ ثواب کریں گے۔
بہر حال اب پاکستان منتقل ہونے کا اٹل فیصلہ میں نے کر لیا ہے اور بہت جلد اس پر عمل بھی ہونے والا ہے۔ آنے کے بعد بس چار ، چھ مہینے لگیں گے ایک غریب خانہ کی تیاری میں ۔ اس کے بعد آپ حضرات کو اپنی بے تکی باتوں سے زچ کرنے کا کافی وقت ہو گا میرے پاس۔
 
آپ کے خیالات پر قرآن کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ یہ میان روی۔ حقائق کی شناخت اور مناسب گفتار۔ اللہ برکت دے۔ مزید لکھئے۔ ہمارے پاس اسے لوگوں کی بہت کمی ہے جو قرآن فہم ہوں۔
والسلام
 
Top