لال مسجد آپریشن۔۔۔ایک تلخ سوال

سید ابرار

محفلین
ہمارے ہاں ہر دوسرے بندے کو اس اصطلاح کے استعمال کی عادت ہے، ذرا وضاحت کیجیے یہ کونسی بلاہے؟

ساجد بھائی ” برین واشنگ “ پر ایک دلچسپ مضمون میں نے آج ہی پڑھا ہے ، آپ بھی پڑھ لیں ، یہ مضمون پاکستانی معاشرے نیز منافقانہ ذھنیت رکھنے والے افراد کی بھر پور عکاسی کرتا ہے ، اور یہ بھی کہ حقیقتا ، کون کس کی ”بر ین واشنگ “ کررہا ہے ؟

braindv0.gif

By abrar92 at 2007-08-07
روزنامہ امت کراچی
 
اس برین واشنگ پر مضمون یہاں نقل کرکے آپ نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کیا اسلامی نظام خواتین کے پردے تک محدود ہے؟ یا یہ ایک ریاستی، سیاسی، معاشی، مالیاتی، تعلیماتی اور شہریاتی نظام کا نام ہے۔ بھائی کسی نے پردہ نہیں کیا تو اللہ اسی سے حساب لے گا۔

لیکن جب کچھ لوگ اپنا ایک متوازی عدالتی نظام، اپنا ایک متوازی پولیس کا نظام اور ایک متوازی ایڈمنستریشن قائم کرنا چاہتے ہوں اور اس کے لئے کوشاں ہوں تو اس کو ہم عورتوں کے پردے کی آڑ میں نہیں‌ڈال سکتے ہیں۔ یہ دو بالکل الگ اشیاء ہیں اور ان کا کوئی تعلق نہیں آپس میں۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ جونہی کوئی اس چالاکی کی طرف اشارہ کرے، آپ عورتوں کے پردے کی بات کرکے ساری بات الجھا دیں۔

دیکھئے [ayah]2:177[/ayah]
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں
یہ آیت کس طرح ایمان کے بعد اور نماز سے پہلے (دونوں کس قدر اہم ہیں، سب جانتے ہیں) کس طرف اشارہ کرتی ہے؟ کہ

" اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) 1۔ مال قرابت داروں پر اور2۔ یتیموں پر اور3۔ محتاجوں پر اور4۔ مسافروں پر اور5۔ مانگنے والوں پر اور6۔ (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، "

کہ اپنا مال، کس کس پر خرچ کریں۔ یہاں اللہ تعالی پورے معاشرے سے مخاطب ہیں۔ ایک مکمل معاشی نظام کا حکم دے رہے ہیں، جس میں ویلفیر ہو، اللہ کی محبت میں۔

اسی بات کو دوبارہ سورۃ توبۃ میں [AYAH]9:60[/AYAH] میں دیکھئیے
بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض1۔ غریبوں اور محتاجوں 2۔ اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں 3۔ اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو 4۔ اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور5۔ قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور 6۔ اللہ کی راہ میں ( That is defence of ideological state جہاد کرنے والوں پر ) 7۔ اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

دوبارہ ہمارے مالی نظام میں ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہیے ہیں، ان کی تفصیل سورۃ توبۃ‌ میں دوبارہ دی جاتی ہے۔ ایک مالی نظام، جو نمائندہ ہو ان لوگوں کا جو اس میں شریک ہیں، اور ان کی بھلائی کے لئے ہو۔ تاکہ اس نظام میں زکو ( بڑھوتری یعنی Growth ) ہو۔

اگر آپ اس فورم میں ہیں، تو مجھے یقین ہے کہ آپ ایک اعلی تعلیم یافتہ شخصیت کے مالک ہیں۔ اور آپ کو اس عظیم اسلامی ریاستی ڈھانچہ کی تشکیل مقصود ہی جو Macro Economic and socio political Principles of the Holy Quran سے بنتا ہے۔ ذاتی افعال تو نسبتاَ آسانی سے درست ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایک ایسا نظام جس میں قرانی احکامات شامل ہوں نسبتا زیادہ محنت طلب کام ہے۔ اس کے لئے میں عرض کرچکا ہوں کے جدید علوم اور قرآنِ حکیم کے نظریات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے، ہمارے اکثر علماء قرآن حکیم کا علم تو رکھتے ہیں لیکن جو کتاب "بسم اللہ الرحمن الرحیم" سے شروع ہوتی ہے، اس میں سے رحمٰن اور رحیم دونوں نکال کر پر تشدد راہ اپناتے ہیں۔ ہمیں ابھی دیکھنا ہے کہ ایک ایسا نظام جس سے لوگوں سے پیار، احسان اور حسن سلوک کی جھلک ملتی ہو کون بنائے گا۔ ایک ایسے نظام کی تشکیل کون کرے گا جس میں Economic Growth (زکو- جس سے لفظ زکوٰۃ بنا ہے ) کی گارنٹی ہو۔ کمزور اور بے روزگار معاشی طور پر خوشحال ہو۔ یہ سب کوئی اور نہیں کرے گا۔ تمام نظریں آپ پر ہی ہیں۔ آُپ کو خود قرآن پڑھنا ہو گا اور جدید علوم سے اس کی روشنی میں اپنے لئے ترجیھات منتخب کرنا ہوں گی ، یہ وہ سبق ہے جسے ایک مسلم کسی مولوی، ملا، آیت اللہ کو Out source نہیں کرسکتا کہ لو، ہماری مملکت، عوام کی دولت، تم سنبھالو، ہم آرام کرتے ہیں!
والسلام۔
 
ہمارے ہاں ہر دوسرے بندے کو اس اصطلاح کے استعمال کی عادت ہے، ذرا وضاحت کیجیے یہ کونسی بلاہے؟

جی میں نے آپکی خواہش پر "برین واشنگ" کی مزید وضاحت بصد خلوص کی ہے۔ آپ کی تنقید و تعریف، خیالات کی ارتقاء کے لئے ضروری ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کسی بھی تنقید سے خوشی ہوتی ہے کہ لوگ سوچ رہے ہیں، یہ سوچنا، سوال کرنا اس بات کی نشانی ہے کے ہم نئی قلابازی سیکھنے اور پرانی قلابازی بھلانے کے لئے تیار ہیں۔

میرے پچھلے پیغام میں یہ اصطلاح، Rigid set of rules outside of the Holy Quran کے ضمن میں استعمال کی گئی ہے۔ کہ ایک ایسے نظام کی تشکیل جس میں تبدیلی قطعاَ ممکن نہ ہو، ناقابلِ قبول ہے۔
آپ کسی بھی تفسیر سے [AYAH]42:38[/AYAH] جس میں اللہ باہمی مشورہ سے یا مجلس شوری سے باہمی فیصلہ کا حکم دیتا ہے دیکھ لیجئے۔ اس کی روشنی میں آپ کسی بھی Rigid society کے تصور کا تجزیہ کیجئیے اور پھر اپنی رائے کا اظہار فرمائیے۔ یہ سارا ڈسکشن ہی اس باعث ہے کہ ہمارے سیاسی ڈھانچہ میں کونسی ترمیمات کی ضرورت ہے کہ ہمیں "اسلامی نظام" کے نام پر صرف بامعنی اصلاحات ہی قابل قبول ہوں۔

اس سلسلے میں‌بھائیوں سے سوالات:
1۔ قانون سازی منتخب شدہ نمائندوں کا حق ہے یا کہ مسجد کی امام کا؟ ذہن میں رہے کہ فتوی جاری کرنے اور، قانون بنانے میں کوئی فرق نہیں۔ جو لوگ عوام سے نمائندے منتخب کرنے کا حق چھیننا چاہتے ہیں اور اس کے لئے مختلف طریقوں سے رائے عامہ ہموار کرتے ہیں۔ کیا وہ برین واشنگ کر رہے ہیں؟
2۔ قانون استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرنے کا اختیار، عدالت کے جج کو ہے یا ایک خود سے چنے ہوئےعالم دین یا امام مسجد کو؟
ذہن میں رکھیے کہ عالم دین ایک ٹیچر ہے۔ ٹیچر یا لیکچرر یونیورسٹی میں خطبہ دیتا ہے اور امام یا عالم دین جمعہ کے جمعہ لیکچر اور کیا جج کے یونیورسٹی پروفیسر کو کسی جج کے فیصلے کو تبدیل کردینے کا حق حاصل ہونا چاہیئے؟

3۔ قانون کی امپلینٹیشن ،پولیس کی ذمہ داری ہے یا مدرسہ اور اسکولوں کے طالبعلموں کی؟
ذہن میں رکھئیے کے پولیس، عوام کی نمائندہ حکومت کی طرف سے رکھی گئی ہے، حکومت کا انتخاب عوام نے کیا ہے، قوانین آپ کے چنے ہوئے لوگون نے قران اور سنت کی روشنی میں بنائے ہیں (کم از کم کہنے کی حد تک) جب کہ طالب علم چاہے مدرسے کے ہوں یا اسکول کے، کسی قسم کے اختیارات نہیں رکھتے اور ابھی سیکھ ہی رہے ہیں۔ کسی درجے پر فائز بھی نہیں ہوئے ہیں

جب ہم موجودہ اصولوں کو ایک طرف ہٹاکر ان اصولوں کو توڑنا درست مان لیتے ہیں اور اس کے لئے ہمارے پاس مکمل تاویلات ہوتی ہیں تو اسی کو برین واشنگ کہتے ہیں۔

ہم آہستہ آہستہ اپنا نظام اچھے تعلیم یافتہ (جدید علوم اور مذہبی تعلیم سے آراستہ) نمائندے چن کر تبدیل کرسکتے ہیں۔ ہم کیوں ایسے لوگ چنتے ہیں جو مکمل طور پر تعلیم یافتہ نہیں ہوتے؟
ہماری اسی غلطی سے پھر ہر طرح کی بے اطمینانی جنم لیتی ہے اور پھر سانحات پر ختم ہوتی ہے۔
والسلام
 
گو کہ یہ دھاگہ، لال مسجد سے شروع ہوا تھا، لیکن ایک مقام پر سوال اور جواب کا رخ لال مسجد کے واقعہ سے ہٹ کر "پاکستان کے سیاسی نظام" میں موجود سقم کی طرف مڑ گیا۔ میرا بنیادی سوال ابھی تک تشنہ ہے کہ "وہ کونسی اصلاحات ہیں، جن کی پاکستان کے سیاسی نظام کو ضرورت ہے، جس کے بعد یہ نظام ایک اسلامی نظام کہلائے گا" اسی سوال کا دوسرا رخ‌ یہ تھا کہ " اسلامی نظام، جس کا نعرہ ایک سے زیادہ سیاسی پارٹی لگاتی ہے، کونسی تبدیلیاں لائے گا؟ کیا ان تبدیلیوں پر ہم سب متفق ہو چکے ہیں؟ آپ کم از کم تین بنیادی تبدیلیاں تجویز کریں، اس اسلامی نظام کے بارے میں۔

یہ بہت مشکل سوال ہیں اور ان سوالوں کے جواب بھی بہت مشکل ہیں اور کمپلکس سیاسی مقاصد اور منشور کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ بنیادی پیغام ایک ہے، سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے کچھ لوگ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتے ہیں تو کچھ اسلامی نظام کا۔ اس میں پر خلوص کون ہے، اس کا اندازہ مندرجہ بالا سوالات کے جواب سے ممکن ہئ لگایا جاسکے۔ ہم کچھ تعلیم یافتہ لوگ، اپنی قرآن فہمی کو بڑھاکر اس عمل میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ورنہ کم از کم درست سوال تو کر سکتے ہیں۔ کہ ہماری معاشی، سیاسی اور دوسری مشکلات کا کیا حل ہے؟ میں بہت قابل آدمی نہیں۔ لیکن قرآن کے کچھ ترجموں کی پروف ریڈنگ سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کچھ ‌سیاسی بازی گری زیادہ ہے اور اصل مسائل پر نظر بہت ہی کم ہے اور ہم کچھ معصوم واقع ہوئے ہیں۔ جو سمجھ میں‌آتا ہے، آپ سے شیئر کرلیتا ہوں، کہ جس پاکستان سے آپ پیار کرتے ہیں، میں بھی کرتاہوں۔
 

ابوشامل

محفلین
بات موضوع سے کہیں دور ہٹ چکی ہے لیکن کیونکہ ابھی تک کسی نے اس پر توجہ نہیں دی اس لیے میں اس پر اپنی رائے دے رہا ہوں:


فاروق سرور صاحب! السلام وعلیکم! آپ کی تمام باتیں بالکل درست ہیں اور میں ان سے بالکل اتفاق کرتا ہوں۔

مجھ ناچیز کو حقیر سے مطالعے سے جو بات سمجھ میں آئی ہے وہ یہ کہ مکمل طور پر نافذ کیا جائے تو پاکستان کا موجودہ آئین موجودہ دور کا بہترین اسلامی آئین ہے۔ کیونکہ اس میں حاکمیت اعلیٰ کا تصور دنیا بھر سے جدا ہے، اور ایسا تصور دنیا کے کسی اسلامی ملک کے قانون میں بھی نہیں پایا جاتا جبکہ قانون کا ماخذ بھی قرآن و سنت کو قرار دیا گیا ہے اس لیے میرے خیال میں یہ اسلامی لحاظ سے آئیڈیل ترین آئين ہے اور اس پر مکمل عملدرآمد ہی دراصل ملک کو اسلامی نظام کی جانب لے جائے گا۔

باقی اسلامی نظام کی جو تشریحیں (قبضہ گروپ انداز کی ;) انتہائی معذرت کے ساتھ) آپ نے بیان کی ہیں، وہ کسی "انتہا پسند" کی تو ہو سکتی ہیں، اسلامی نظام کے قیام کے لیے حقیقی تڑپ و جذبہ رکھنے اور اس کے لیے تگ و دو کرنے والا کوئی شخص اس طرح کی رائے نہیں رکھ سکتا کہ وہ عوام کے حقوق غصب کرے اور انہیں دبا کر رکھے۔ باقی رہی باتیں نظام پر کنٹرول اور اقتصادی و معاشی نظام کی، تو اس کے بارے میں اسلام کے واضح احکامات ہیں جو موجودہ دور میں کسی ریاست کو ترقی کی معراج پر پہنچا سکتے ہیں۔ میرے خیال میں آپ کے لیے بہتر ہوگا کہ سید قطب شہید کی کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں سے بیشتر کے اردو تراجم دستیاب ہیں اور اگر اعتراض نہ ہو تو سید مودودی کی کتب کا بھی مطالعہ کر لیں، آپ پر مندرجہ بالا تمام نکات انشاء اللہ واضح ہو جائیں گے۔ یہ کتابیں آپ کو درج ذیل ربط پر مل جائیں گی:

قرآن اردو کتب

خصوصا میں آپ کو سید قطب شہید کی معالم فی الطریق کا اردو ترجمہ "جادہ و منزل" پڑھنے کا مشورہ دوں گا۔ یہ کتاب اس ربط سے ڈاؤن لوڈ کریں جادہ و منزل (پی ڈی ایف فائل)۔ اس کتاب میں سید صاحب نے اسلامی نظریہ اور اسلامی تنظیم کے بنیادی خدوخال بیان کیے ہیں۔ اسی کتاب کو لکھنے کے "جرم" میں مصری حکومت نے سید قطب کو پھانسی دے دی تھی۔ اس کے علاوہ مذکورہ بالا ویب سائٹ پر سید مودودی اور دیگر مصنفین کی کئی کتابیں موجود ہیں جن میں اسلامی نظام کو موجودہ دور سے مکمل مطابقت رکھنے والا نظام قرار دیا گیا ہے۔ معیشت و اقتصادیات اور بنیادی اسلامی تعلیمات پربھی کتب موجود ہیں۔ میری خواہش یہ ہوگی کہ اسلامی نظام کو سمجھنے کے لیے اس ویب پر موجود تمام کتابوں کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔

اصل میں ہم گذشتہ کئی صدیوں سے اسلام کے اصل نظام سے محروم ہیں، اس کو عملی طور پر کہیں نافذ کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں لیکن اس کے عدم نفاذ کے باوجود اس نظام کو "ناقابل قبول" قرار دے کر بیک جنبش قلم مسترد کر دیتے ہیں۔ ہم نے اس نظام کو موقع ہی کتنا دیا کہ اس میں موجود خیر کا عنصر پورے معاشرے پر غالب آتا اور شر کو مٹا دیتا؟۔

تمام تر حالات کے باوجود ایک چیز کی خوشی بہرحال مجھے ہے کہ یہاں جتنے بھی افراد چاہے وہ موجودہ صورتحال سے ناخوش ہوں یا اسلام پسند رہنماؤں سے بد ظن، ایک چیز سب میں مشترک ہے کہ ان کے دل اسلام اور مسلمانوں کی بہتری کی تڑپ رکھتے ہیں۔ اللہ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ابوشامل، میں صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ ماضی میں کونسے ادوار حکومت ہیں جن کے نظام کو اسلامی کہا جا سکتا ہے؟ مسلمانوں کی حکومت تقریباً دنیا کے ہر خطے پر موجود رہی ہے۔ ان میں کچھ مثالیں تو ایسی ہوں گی جو سید قطب یا مودودی صاحب کے ذہن میں ہوں گی۔
 

غازی عثمان

محفلین
خلافت راشدہ ،

اس کے علاوہ بھی ہیں جن ثمرات خلافت جیسے نہیں تھے لیکن عالم اسلام کے پچھلے 125 سالہ دور سے کہیں بہتر تھے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
خلافت راشدہ ،

اس کے علاوہ بھی ہیں جن ثمرات خلافت جیسے نہیں تھے لیکن عالم اسلام کے پچھلے 125 سالہ دور سے کہیں بہتر تھے۔


جناب یہ تو کوئی بھی بتا سکتا ہے۔ اب خلافت راشدہ کا دور تو لوٹ کر آنے والا نہیں ہے۔ مجھے تاریخ اسلام سے کچھ اور مثالیں چاہییں جنہیں اسلامی حکومتیں کہا جا سکتا ہو اور جن معاشروں کو اسلامی معاشرے کہا جا سکتا ہو۔
 

زیک

مسافر
کالاپانی: کیا آپ حضرت عثمان اور حضرت علی کے دور کی بات کر رہے ہیں جو کافی وقت خانہ‌جنگی میں گزرا اور دونون خلفاء مسلمانوں ہی کی اس خانہ‌جنگی میں مارے گئے؟
 
ہمارے ہاں ہر دوسرے بندے کو اس "برین واشنگ" اصطلاح کے استعمال کی عادت ہے، ذرا وضاحت کیجیے یہ کونسی بلاہے؟

ذرا یہ دیکھئے، یقیناَ اس کے لکھنے والے برطانوی ہیں۔ یہ برین واشنگ کی اعلی ترین مثال ہے۔ کہ Royalty, Princehood, Lordship, Counts and Countesses کسی اور دنیا کے لوگ ہیں۔ اور Commons کسی اور دنیا کے لوگ۔ فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس اور تھرڈ کلاس ریل کے ڈبے آج بھی اسی ذہنیت کی یادگار ہیں۔

How to address the British Royalty and Aristocracy in person? x​
http://www.wikihow.com/Address-British-Royalty-and-Aristocracy-in-Person
اور کیتھولک مولوی سے کیسے بات کریں:
http://www.wikihow.com/Address-Catholic-Clergy

ان کے اپنے کمنٹس:
1۔ Giving preferential forms of address to royalty arguably helps to perpetuate a class society in which some people are considered superior by birth, or power, or wealth.

2۔ Tell them you are American and believe in equality and to keep their class system limited to their country.​


اس سے زیادہ کریہہ مثال اور کیا ہو سکتی ہے انسانی حرمت کی تضحیک کی؟ یعنی ہم ہر اس شخص کے پیر پڑیں جس کے پاس مال و زر زیادہ ہو؟ یہ تو انسانی بنیادی حقوق کی پامالی ہے۔ Worst example of Human rights violation and insult to humanity that one bows to a human because he or she is rich? x

اور قران کیا کہتا ہے؟
لقد کرمنا بنی آدم - کہ ہم نے آدم کی اولاد کو قابل صد احترام و اکرام بنایا۔
ملاحظہ فرمائیے ۔ [AYAH]17:70[/AYAH]
اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا

قرآن کا مطالعہ ہم کو وہ زریں اصول فراہم کرتا ہے جو ہم کو اپنی عزت کرنا سکھاتا ہے۔ کیا مندرجہ بالا آیت کی روشنی میں آپ کسی Roaylty, Prince, Lord, Count کی برتری تسلیم کریں گے؟

آج اسلام مساوات کا علمبردار ہے۔ اس کا ثبوت دنیا میں 3 فلیش پوائنٹس ہیں۔ ہندوستان ( برہمن کی ذات پات اور مساوات کی غیرموجودگی کی وجہ سے)، اسرائیل (کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہودی، یہودی ماں سے پیدا، خدا کا پسندیدہ، سب سے اعلی ہوتا ہے اور باقی سب معمولی ہیں)۔ اور برطانیہ (کہ یہ لوگ کسی مساوات کے قایل نہیں، اور ہر قسم کی درجہ بندی اور زات پات کی تفریق کرتے ہیں)۔ برطانیہ ایک ورچوئل فلیش پوائنٹ ہے، کہ یہاں سے اشاعتی جنگ ہوتی ہے۔ مسلمانوں‌کے خلاف جتنا مواد یہاں سے شائع ہوتا ہے اور British GDP کا جتنا فیصد اسلام دشمنی پر خرچ ہرتا ہے، شاید ہی کوئی دوسرا ملک اس حد تک جاتا ہو۔ وجہ؟ صرف اور صرف مساوات کی مخالفت۔

مجھے یقین ہے کہ ہماری یہ درد مندی ضرور کچھ نہ کچھ بہتری لائے گی۔ یہ ساری ابحاث بہتری کے حصول کے لئے ہی تو ہیں۔
والسلام۔
 
Top