ٹائپنگ مکمل لائبریری ٹیگ سلسلہ : آثار الصنادید

فہیم

لائبریرین
fahim

Aasar1_page_0094.jpg
اس کا نشان باقی تھا اور جب راجہ بلال دیو والے کرناٹک پر فتح ہوئی اور ملک نائب اور خواجہ حاجی 711 ہجری مطابق 1311 عیسوی کے وہاں فتوحات لیکر آئے تو تین سو بارہ ہاتھی اور بیس ہزار گھوڑے اور چھیانوے من سونا اور سونے اور موتی اور جواہرات کے صد ہا صندوق اسی قصر مٰں بادشاہ کے پیش کش کیے گئے تھے اور جب سلطان غیاب الدین تغلق شاہ عرف غازی الملک نے ناصر الدین خسرو شاہ پر فتح پائی تو اسی قصر میں آیا اور تعزیت سلطان قطب الدین اور اسکے بھائیوں کی کی۔

تغلق آباد

جبکہ نوبت سلطنت کی غیاث الدین تغلق شاہ تک پہنچی اس نے 761 ہجری مطابق 1321 عیسوی کے قلعہ اور شہر تغلق آباد بنانا شروع کیا اور طرح طرح کی عمارتوں سے مرتب کیا جس زمانے میں کہ خبر فتح ہونے ملک تلنگ اور قلعہ ورنکل المعروف بسلطان پور بادشاہ کو پہنچی ہے یعنی 723 ہجری مطابق 1323 عیسوی میں تو یہ قلعہ وار شہر بالکل تیار ہوچکا تھا اور اس خبر کی خوشی میں دلی اور قلعہ اور شہر تغلق آباد میں بہت دھوم سے روشنی ہوئی تھی یہ قلعہ پہاڑ پر واقع ہے اور نہایت مستحکم اور بہت نفیس بنا تھا عمارت اس کی بالکل چونہ اور سنگ خارا سے بنائی تھی لیکن اب بالکل خراب اور ویران ہے اکثر جگہ سے فصیل قلعہ کی ٹوٹی پھوٹی قائم ہے مگر اندر کے مکانات بالکل ٹوٹ گئے ہیں کہ نام و نشان
 

فہیم

لائبریرین
تک نہیں رہا بنجر گڑہوں اور پتھروں کے ڈھیر کے اور کچھ نہیں معلوم ہوتا قلعہ کے بیچوں بیچ میں ایک بہت بلند مکان خاص بادشاہ کی سیر کا تھا اس کو جہاں نما کہتے تھے یہ قلعہ اور شہر اس طرح پر ملا کر بنایا ہے کہ سارا شہر اور قلعہ ایک قلعہ معلوم ہوتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اتنا بڑا قلعہ اور کوئی نہ ہوگا مشہور ہے کہ اس قلعہ اور شہر کے چھپن کوٹ اور باون دروازے ہیں اور کچھ عجب نہیں کہ ایسا ہی ہو مگر بسبب شکستہ ہوجانے مکانات اور دیواروں کے ہم شمار نہ کرسکتے یہ قلعہ شہر شاہجہاں آباد سے جانب جنوب چھ کوس کے فاصلے پر راجہ ناہر سنگھ بلم گڑھ والے کی عملداری میں واقع ہے۔

عادل آباد یا محمد آباد یا عمارت ہزار ستون

جبکہ سلطان محمد تغلق شاہ عرف فخرالدین جونا غیاث الدین تغلق شاہ کا بیٹا بادشاہ ہوا اسنے 768 ہجری مطابق 1327 عیسوی میں یہ قلعہ تغلق آباد کے پاس بنایا اور محمد آباد یا عال آباد اس کا نام رکھا اور ہزار ستون سنگ مرمر کے اس میں لگائے تھے اس سبب عمارت ہزار ستون بھی کہتے تھے اور جو کہ اس بادشاہ نے اپنا لقب سلطان محمد عادل تغلق شاہ رکھا تھا اس سبب محمد آباد اور عادل آباد بھی کہتے تھے یہ قلعہ بھی ایک چھوٹی سی بلند پہاڑی پر واقع ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکان صرف بطور سیر گاہ کے بنایا تھا کیونکہ قلعہ تغلق آباد کی جانب جنوب پہاڑوں کے بیچ میں ایک میدان ہے کہ اس میں پانی رہتا تھا اس بادشاہ نے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
12 سے 15 تک

قلعہ رائے پتھورا​
جبکہ تنورون کو قوم سے دلی کی حکومت جاتی رہی اور چوہانوں کے پاس پونچی اور اے پتھورا راجہ ہوا اوسنے سمت 1200 ایک ہزار دو سو بکراجیت مطابق 1143 عیسوی موافق 538 ہجری میں یہ قلعہ بنایا اگرچہ اس زمانے میں یہ قلعہ بالکل منہدم ہوگیا ہے لیکن کہیں کہیں ٹوٹی پھوٹی فصیل باقی رہ گئی ہے یہ قلعہ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بنا ہے اور اسکے گرد پہاڑوں میں خندق بنائی تھی اوراس خند میں تمام جنگلوں کا پانی گھیرا کر ڈالا تھا کہ بارہ مہنے اسمین پانی رہتا تھا اب بھی کہیں کہیں پانی کے رکاؤ کے بندپائے جاتے ہیں دیوار غربی اس قلعہ کی کچھ کچھ قائم ہے اور اسی طرف کی خندق بھی باقی ہے اور غزنیں دروازے کا بھی ڈھیر معلوم ہوتا ہے میں نے اس طرف کی دیوار کو اسطرلاب کے عمل سے ناپا تو پینسیٹھ فٹ بلند حندق کی زمین سے پیمایش میں آئی معلوم نہیں کہ اس سے اور کسقدربلند تھی جو ٹوٹ گئی اس قلعہ کی فیصیل کا آثار بہت چوڑا ہے پہلے تو خندق کیطرف سے فصیل اور برج چنے ہیں اور جہاں اوسکی اونچائی قلعہ کی زمیں کے برابر ہوگئی ہے وہاں سے شترہ فٹ عرض چھوڑ کر اکیس فٹ کے آثار سے دیوارچپنی شروع کی ہے اور پھر قلعہ کی طرف گیا رہ فٹ کا آثار چھوڑ کر آٹھ فٹ کے آثار سے دیوار چنی ہے اور یقین ہے کہ اسی دیوار پر کنگورے بھی ہونگے یہ قلعہ ایک مدت تک دارالخلافت مسلمان بادشاہوں کا بھی رہا ہے چنانچہ سلطان​
13​
قطب الدین ایبک اور سلطان شمشالدین التمش بھی اسی قلعہ میں رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔ہجری مطابق 1289 عیسویں جب سلطان جلال الدین فیروز خلجی نے کیلوکھڑی کے پاس نیا شہر آباد کیا تو یہ شہر پُرانی دلی کے نام سے مشہور ہوا چنانچہ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب سلطان جلال الدین فیروز خلیجی سے دلی کے ریسوان نے بعیت کی تو شہر سے لاکر پُرانی دلی میں الگے بادشاہوں کی تختگاہ میں تخت پر بٹھایا اور اس زمانے کے اگلے بادشاہوں کی تختگاہ قصرسفید تھا جو راے پتھورا کے قلعہ میں سلطان قطب الدین ایبک نے بنایا تھا اس تمہید سے ثابت ہوا کہ توزک تیموری میں جب قلعہ کو دہلی کہنہ لکھا ہے وہ یہی قلعہ ہے۔​
غزنین دروازہ​
اس قلعہ کی جانب غرب میں ایک بہت بڑا درازہ تھا معلوم نہیں کہ راجہ پتھورا کے وقت میں اوسکا کیا نام تھا مگر مسلمانوں کے وقت میں اوسکو غزنی دروازہ کہتے تھے اسو اسطے کہ غزنی کی فوج اسی دروازے سے اس قلعہ میں داخل ہوئی تھی اس درازے کے سوا اس قلعہ کے نوعرازے اور تھے​
قصر سفید​
اس قلعہ رائے پتھورا میں سلطان قطب الدین ایبک نے اپنے زمانہ بادشاہت میں جو 602 ہجری مطابق 1205 عیسوی سے شروع ہوا تھا ایک محل بنایا اور اسکا قصر سفید نام رکھا اور یہ وہی قصر ہے جسمیں ملک اختیار الدین الستگین رزیر​
14​
الدین بہرام شاہ کا عین دربار کیوقت 639 ہجری مطابق 1241 عیسویں ماراگیا اور اسی قصرمیں سلطان ناصر الدین محمود بن شمس ادلین تخت پر بیٹھا اور اسی قصر میں سلطان ناصر الدین کے وقت میں 658 ہجری مطابق 1259 عیسوی میں ہلاکو خان کا ایلچی آیا اور اوسکی ملازمت کے وقت میں اتنا بڑا اور بار ہوا کہ چشم ملک نے بھین ہ دیکھا ہوگا اور اسی قصرمیں سلطان غیاث الدین بلبن تخت پر بیٹھا مگر اب اس قصر کا نشان نہیں پایا جاتا​
کوشک لال​
اس کوشک کو سلطان غیاث الدین بلبن نے اپنے بادشاہ ہونے سے پہلے بنایا تھا اور جب وہ بادشاہ ہوا تو اسی کو شک کے پاس قلعہ مرزغن بنایا تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب سلطان جلال الدین فیروز خلجی سے دل کے رئیس موفق ہوگئے اور کیلو کھڑی میں سے لاکر پُرانی دلی کے تخت پر بھٹا یا تو بادشاہ وہاں سے کوشک لال میں آیا اور اوسکے دروازے پر سے پیادہ پاہوا امر انے عرض کیا کہ آپ سواری پر سے کیوں اوترتے ہیں سلطان نے کہا کہ یہ کوشک میرے آقا سلطان غیاث الدین بلبن کا بنوایا ہوا ہے کہ اوسنے بادشاہ ہونے سے پہلے بنایا تھا مجھے لازم ہے کہ جو ادب اوسکا اوس زمانے میں کرتا تھا اب بھی کروں اس تمہید سے معلوم ہوا کہ یہ کوشک 664 ہجری مطابق 1265 عیسوی سے دس پانچ برس پہلے کا بنا ہوا ہے مگر بادشاہ ہونے کے بعد بھی پھر بادشاہ اکثر اسی کو شک میں رہتا تھا اور جس زمانے میں​
15​
اوسکو شکار کا شوق ہوا ہے پہر رات رہے سے اسی کو شک میں سے سوار ہوتا تھا اور سلطان علاالدین خلیجی کو شک سیری بنانے سے پہلے اسی کو شک میں رہتا تھا اور سلطان غیاث الدین تغلق شاہ اسی کو شک میں تخت پر بیٹھا تھا اس کو شک کے عمارت کی تفصیل کسی کتاب میں نظر نہیں پڑی کہ کس قطع کی عمارت تھی لیکن اب اسمیں کچھ شک نہیں رہا کہ سلطان جی کی درگاہ کے پاس لال محل کر کر جو عمارت مشہور ہے یہ اسی کو شک میں کا ایک ٹکڑا ہے یہ محل بہت خوشنما نرا سنگ سرخ کا بنا ہوا ہے ستوں لگا کر دو منزلہ عمارتیں بنائی ہیں لیکن اب بہت خراب ہے اور دن بند اور خراب ہوتا جاتا ہے اس محل میں چند قبریں بھی بن گئی ہیں اور اس سبب سے بڑا شبہہ پڑا تھا کہ شاہد یہ عمارت کو شک لالا نہ ہو مگر اب یہ شبہہ نہیں رہا اور ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب یہاں قبر ستان بننا شروع ہوا تو رفتہ رفتہ لوگوں نے اس محل میں بھی ویران پڑا تھا قبریں بنا دیں​
قلعہ مرزغن​
بعد اسکے جب سلطان غیاث الدین بلبن بادشہ ہوا تو اوسنے 666 ہجری مطابق 1267 عیسوی میں اوسی کو شک لال کے پاس ایک قلعہ بنایا اور اوسکا مرزغن نام رکھا کہ اب غیاث پور کر کر مشہور ہی اور سلطان المشایخ نظام الدین اولیاں کا وہیں مزار ہے لکھا ہے کہ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں یہ دستور تھا کہ جو مجرم​
 

محمد امین

لائبریرین
صفحہ ۲۷

دہلی شیر شاہ

جبکہ شیر شاہ دلی کا بادشاہ ہوا اوسکو بھی نیا شہر آباد کرنے کی ہوس ہوئی اور اوسنے ۱؎ دہلیِ علائی اور کوشک سیری کو ویران کر کر اندر پت کے پاس دریا کے کنارے پر سنہ ۹۴۸ ہجری مطابہق سنہ ۱۵۴۱ عیسوی میں ایک شہر آباد کیا کہ وہ شیر شاہ کی دلی مشہور تھی۔ یہ شہر متصل کوٹلۂ فیروز شاہ آباد ہوا تھا بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمایوں بادشاہ نے جو شہر آباد کرنا شروع کیا تھا وہ بسبب تزلزل کے جو اوسکی سلطنت میں واقع ہوا آباد ہونے سے رہ گیا تھا اوسہی شہر کو شیر شاہ نے از سرِ نو آباد کیا ہے کیونکہ اوس میدان کے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اوس جگہ کوئی اور ایسی جگہ نہیں ہے کہ ہمایوں کے شہر کے سوا اور کوئی شہر آباد ہوا ہو۔

کابلی دروازہ دہلی شہر شاہ

اگرچہ اس شہر کا اب کچھ نشان نہیں رہا مگر شاہجہاں آباد کے دلی دروازے کے باہر جیلخانہ سرکاری کے متصل ایک بہت خوبصورت دروازہ قائم ہے یہ دروازہ شیرشاہ کی دلی کا ہے اور اس دروازے سے کابل کو راہ جاتی تھی اسواسطے کابلی دروازہ کہتے ہیں۔ یہ دروازہ چونے اور پتھر سے بہت خوبصورت بنا ہوا ہے اور دروازے پر حجرہ اور نشیمن بہت خوبصورتی سے بنائے ہیں اور روکار اس دروازے کی ساری سنگِ سرخ کی ہے اس سبب سے عوام میں لال دروازے کے نام سے مشہور ہے۔

سلیم گڈھ یا نور گڈھ

۱؎ تاریخ شیخ عبد الحق و مرات آفتاب نما
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 26​
اس نے 821ہجری مطابق 1418 عیسوی دریا کے کنارے ایک شہر بسایا اور مکانات بنائے مگر اب اس قلعہ کا پتا نہیں معلوم ہوتا کچھ عجب نہیں کہ موضع خضر آباد جو اس زمانے میں مشہور ہے وہی شہر خضر آباد، آباد ہو مگر یہ بات مشہور ہے کسی تاریخ کی کتاب سے اس کا پتا نہیں ملا۔​
مبارک آباد​
جبکہ سلطان مبارک شاہ خضر خان رایات اعلیٰ کا بیٹا بادشاہ ہوا اور 837ہجری مطابق 1433 عیسوی کے ایک قلعہ اور شہر بنانا شروع کیا اور مبارک آباد اس کا نام رکھا اور اس قلعہ کی عمارت دیکھنے کو خود بادشاہ جایا کرتا تھا ہنوز عمارت تمام ہونے نہیں پائی تھی کہ امرا نے مخالفت کرکے اسی قلعہ میں بادشاہ کو مار ڈالا اور محمد شاہ کو تخت پر بٹھایا عوام الناس اس قلعہ کو وہاں جانتے ہیں جہاں اس بادشاہ کا مقبرہ صفدر جنگ کے مقبرے کے سامنے ہے چنانچہ وہ گاؤں بھی مبارک پور کوٹلہ کے نام سے مشہور ہے لیکن ہماری رائے میں تاریخ کی کتابوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ افواہ غلط ہے کیونکہ اس بادشاہ نے یہ شہر اور قلعہ دریا کے کنارے پر بسایا تھا اور اس زمانے میں دریا مبارک پور کوٹلہ کے نیچے ہرگز نہیں بہتا تھا کیونکہ اس سے پہلے کی اسی کے پاس عمارتیں موجود ہیں بلکہ ہمارے نزدیک یہ شہر اور قلعہ دریا کے کنارے پر اس مقام پر ہو جہاں کہ اب موضع مبارک پور ریتی موجود ہے تو کچھ عجب نہیں بلکہ یہی بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 29​
کچھ مصالحہ جمع ہوا اور کہیں کہیں سے بنیاد اونچی بھی ہوئی اتنے میں عزت خان ٹھٹھہ کی صوبہ داری پر مامور ہوا اور قلعہ کا اہتمام اللہ وردی خان کو سپرد ہوا ۔ دو برس، ایک مہینہ، گیارہ دن میں اس کے اہتمام سے قلعہ کی چاروں طرف کی دیوار بارہ بارہ گز اونچی ہوگئی پھر اس کا اہتمام کرمت خان کے سپرد ہوا اور بیسویں سال جلوس میں اس کے اہتمام سے بن چکا۔ کل مدت تعیر قریب نو برس کے ہوئ۔ چوبیسویں ربیع الاول 21 جلوسی مطابق 1058 ہجری موافق 1648 عیسوی بادشاہ نے اس قلعہ میں پہلا جلوس کیا۔ سر سے پاؤں تک یہ قلعہ سنگ سرخ کا بنا ہوا ہے اور ہر ایک مقام پر کنگرے اور مرغولیں بہت خوبصورتی سے بنائے ہیں اس قلعہ کو ہشت پہل بنایا ہے۔ طول اس کا ہزار گز اور عرض چھ سو گز کا ہے جس کی کل زمین چھ لاکھ گز ہوئی۔ اس حساب سے یہ قلعہ اکبر آباد کے قلعہ سے دو گنا ہے۔ فصیل اس قلعہ کی پچیس گز اونچی ہے اور گیارہ گز گھری بنیاد ہے۔ دیوار کا آثار بنیاد سے پندرہ گز اور اوپر سے دس گز کا ہے۔ اس قلعہ کے جانب شرق جمنا بہتی ہے باقی تینوں طرف خندق جس کا محیط تین ہزار چھ سو گز کا ہے پچیس گز چوڑی اور دس گز گھری کھود کر پختہ بنا دی ہے کہ نہر کے پانی سے دن رات لبریز بھری رہتی ہے تھی۔ اس قلعہ کے بننے میں پچاس لاکھ روپیہ خرچ ہوئے اور بعضی کتابوں میں لکھا ہے کہ سو لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ پچاس لاکھ قلعہ کے بننے میں اور پچاس لاکھ قلعہ کے اندر کے مکانوں میں۔​
دلی دروازہ و لاہوری دروازہ قلعہ
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 30​
دو دروازے اس قلعہ کے بہت بڑے ہیں ایک جنوبی دروازہ جو دلی دروازے کے نام سے مشہور ہے اور دوسرا غربی دروازہ جو لاہوری دروازے کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دونوں دروازے بہت خوبصورت بنے ہوئے اور دروازوں پر سہ دریان بہت خوشنمائی سے بنائی ہیں۔ لاہوری دروازے پر قلعہ دار صاحب رہتے ہیں مشہور ہے کہ ان دروازوں کے آگے کچھ اوٹ نہ تھی اور قلعہ میں سے نگاہ دور تک چلی جاتی تھی۔ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ان دونوں دروازوں کے آگے کھوگس بنائے گئے ہیں۔ ان دونوں دروازوں کے آگے خندق پر تختہ تھا۔ 1226 ہجری مطابق 1821 عیسوی میں تختے کی جگہ پختہ پل بنائے ہیں اور دونوں پلوں پر یہ کتبہ لگایا ہے۔​
ہو الغنی
5 جلوس والا 1226 ہجری مطابق 1811 عیسوی در عہد شاہ جمجاد محمد اکبر بادشاہ غازی صاحب قراں ثانی باہتمام ولا ورالدولہ راپرٹ ما فقرس بہادر دلیر جنگ پل فیض منزل تعمیر یافت۔​
چھتہ لاہوری دروازہ
یہ چھتہ بھی بہت خوب بنا ہوا ہے۔ لداؤ اس چھتے کا بہت اونچا ہے اور یہ چھتہ بھی بہت لمبا ہے اور اس میں منبت کاری بہت خوب کی ہے اور دونوں طرف دو منزلے مکان بنے ہوئے ہیں اور بیچ میں ایک چوک ہے اور اس کی چھٹ روشنی کے لیے کھلی ہوئی ہے۔ یہ چھتہ بازار مسقف کے نام سے بھی مشہور ہوا ہے۔ ان دروازوں کے سوا​
 

میر انیس

لائبریرین
اپنے نام پر دلی آباد کی لیکن یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی اسواسطے کہ ہندوونکی اگلی پوتھیوں میں باوجود یکہ راجہ دلیپ کا ذکر ہی مگر کہیں دلی کا نام نہیں بلکہ جہاں لکھا ہی اندر پت ہی کر کر لکھا ہے اور بعضی تاریخوں میں لکھا ہے کہ 307 ہجری مطابق 919 عیسوی کے تنورون کے خاندان مین سے ایک راجہ نے شہر اندر پت کے برابر دہلی شہر بسایا اور جو کہ وہاں کی زمین نرم تھی اور ہندی میں دہلی نرم زمین کو کہتے ہیں جہاں میخ نہ تھم سکے اس سبب سے وہ بستی دہلی کرکر مشہور ہوگئی مگر اس سن میں نہ تنورون کی حکومت تھی اور نہ اس سبب سے دلی نام پڑ جانا قریب قیاس ہے اسواسطے یہ بات بھی قابل اعتماد کے نہیں مشہور بات جو صحیح بھی معلومہوتی ہے یہ ہے کہ راجہ دہلو قنوج کے راجہ نے اس سبب سے کہ دلی کے راجہ اکثر قنوج کے تابع رہے ہیں اندر پت میں اپنے نام پر شہر بسایاجب سے اس شہر کا نام دہلی مشہور ہوا بلکہ اصلی نام دہلی کا دہلو ہے چناچہ امر خسرو نے جلال الدین فیروز شاہ خطاب کرکے دہلو کا لف ظ ایک شعر میں باندھا ہے شعر
یانک اسپم بخش مانیز اخور بفر مابار گیر یا بفرمان وہ کہ گردون شینم و دہلو روم
راجہٓ دہلو راجہٓ پورس یعنی فور راجہٓ کمایوں کے ہم عصر تھا اور اوسی کی لڑائی میں ماراگیا اور قنوج تک راجہ فور کا عمل ہوگیا اوسکے بعد اسکندرکبیر شاہ ماسیدن یعنی مقدونیہ نے راجہ فور پر ستلج کے کنارے فتح پائی اور گنگا کے کنارے تک یعنی قنوج تک عمل کرلیا یہ واقعی تین سو اٹھائیس( 328 )سال قبل حضرت مسیح ہوا کہ تخمیناَیہی زمانہ دہلی شہر بسنے کا خیال ہوسکتا ہے
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 28
اس قلعہ کو اسلام شاہ بن شیر شاہ نے سن 1542 عیسوی سے پانچ برس کی مدت میں چار لاکھ روپیہ خرچ کرکربنایا لیکن صرف چار دیواری بننے پائی تھی کہ اسلام شاہ مرگیا اور قلعہ یوں ہی رہ گیا جلال الدین اکبر بادشاہ کے عہد میں مرتضٰی خان اکبری نے اسمیں کچھ مکانات بنائے تھے یہ قلعہ ابتک قلعہٓ شاہجہاں کے شمال مشرق کو دریا کے کنارے پر موجود ہے اور جبکہ نورالدین جہانگیر بادشاہ نے اس قلعہ کے دروازے کے آگے پل بنایا اوسوقت سے نور گڈھ کے نام سے مشہور ہوا
قلعہٓ شاہجہان
زہے قلعہ کا ندر بسا تین وے نہ اردی بہشت ست نی کل ندے
شہاب الدین محمد شاہجہاں بادشاہ نے ایک مدت تک اکبر الہ آباد کو دارالخلافت رکھا مسئلہ جلوسی مطابق سن 1048 ہجری موافق سن 561ملک شاہی اور سن 1638 عیسوی کے دلی میں قلعہ بننے کا حکم دیا اور اوسی سال بارھویں ذی الحجہ کو دریا کے کنارے سلیم گڈھ کے پاس قلعہ بننا شروع ہواحامد اور اوستاد احمد معماد جو اپنے فن میں یکتا تھے اس قلعہ کو بنواتے تھے مگر اس کامل دلیل سے کہ دیوان عام میں سنگین تخت کے پیچھے ایک مرقع تصاویر کا جو ریفیل اٹلی کی مصور نے آرفیوس کے گانے کا کھینچنا تھا پتھر کی پچیکاری کا بنا ہوا جسکا حال اوسکے مقام پر بیان ہوگا یقین ہے کہ کوئی نہ کوئی یوروپن اٹلی کے ملک کا بھی اس قلعہ کے بنانے میں شریک تھا پہلے پہل عزت خان کو اس قلعہ کا اہتمام ملا اور پانچ مہینے دودن میں اوسکے اہتمام سے قلعہ کی بنیادین کھدین اور
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
ص 9

پُرانا قلعہ

یہ پرانا قلعہ جو شہر شاہجہاں آباد کے جنوب کو مائل بشرق دلی دروازے کے باہر دو میل کے فاصلے پر واقع ہے وہی قلعہ ہے جس کو راجہ انکپال تو نور نے اپنے عہد حکومت میں بنایا اور بعضی تاریخ کی کتابوں میں مسلمان بادشاہوں کے حال میں اسی قلعہ کو قلعہ اندر پت لکھا ہے اس راجہ نے اس قلعہ کے دروازے پر پتھر کے دو شیر بنائے تھے اور ان کے پہلوؤں میں کانسے کے گھنٹے لٹکائے تھے جو فریادی خاص راجہ تک بلا مزاحمت جانا چاہتا تھا ان گھنٹوں کو بجاتا راجہ ان کی آواز سن کر اس کو بلا لیتا اور انصاف کرتا سن 718 ہجری مطابق سن 1318 عیسوی تک یہ شیر بنے ہوئے تھے الا اب نہیں ہیں معلوم نہیں کہ کب ٹوٹے آئین اکبری میں اس قلعہ کا بننا اور راجہ انکپال تنور کا راجہ ہونا سمت 429 بکر ماجیت مطابق سن 372 عیسوی میں لکھا ہے اور اس کتاب پر بھروسا کر کر ہر ایک تاریخ والے نے اسی سن کو نقل کردیا ہے مگر تحقیق کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ سن بالکل غلط ہیں کیونکہ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ سمت 429 سے سمت 847 تک تنورون کے خاندان میں بیس آدمیوں نے راج کیا اس کی اس کے بعد سمت 847 مطابق سب791 میں بیلد یو چوہان راجہ ہوا اور اس کی سات پشت نے راے پتھواتک پچانوے برس سات مہینے راج کیا اور راے پتھوراکو جو چوہان میں کا اخیر ساتوان راجہ تھا سلطان شہاب الدین غوری نے مارا اور مسلمانوں کے گھرانے
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
اک سوال کہ کیا جو اور جیسی املا اس تصویر میں دکھ رہی ہے ۔ ویسے ہی ٹائپ کرنا ہے ۔ ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(31)
اس قلعہ کے دو دروازے اور چھوٹی چھوٹی اور دو کھڑکیان اور اکیس برج ہین ۔ اون مین سے سات برج مدور اور چودہ مثمن ہین ۔
نقار خانہ یا ہتیا پول
دیوان عام مین جانے کا جو دروازہ ہے وہ نقار خانہ کہلاتا ہے ۔ یہ دروازہ بھی نرا سنگ سرخ کا بہت خوبصورت بنا ہوا ہے اور اوسپر مکانات اور ایک پچدرہ دالان دونون طرف سے کھلا بنا ہوا ہے اسی دالان مین بادشاہی نوبت بجتی ہے اور اسی سبب سے نوبت خانہ مشہور ہے اس دروازے کے آگے پتھر کے دو ہاتی اوتنے ہی بڑے جتنا کہ سچ مچ کا ہاتی ہوتا ہے ۔ بنائے تھے اور اسی سبب سے اسکو ہتیاپول بھی کہتے تھے ۔ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد مین وہ ہاتی توڑے گئے ۔ اس دروازے کے آگے دو سو گز کا لنبا اور ایک سو چالیس گز کا چوڑا چوک ہے اور بیچ میں بہت خوبصورت حوض ہے اور شمال اور جنوب کو بہت خوشنما بازار ہے اور اوسکے بیچ مین نہر بھی جاری ہے اس دروازے کے اندر اب بھی سواے شہزادون کے اور کوئی سواری پر نہین جا سکتا اسی مقام پر سے اوتر لیتے ہیں ۔
دیوان عام
یہ مکان بھی بہت نامی ہے اور بہت خوشنما بنا ہوا ہے جب کبھی دربار عام ہوتا تھا تو اوسمین بادشاہ جلوس کرتے تھے اوسمین تین درجے کے مکان ہین کہ اوسکی تفصیل ہم بیان کرتے ہین ۔
نشیمن ظل آلہی یا سنگین تخت
 
السلام علیکم
اک سوال کہ کیا جو اور جیسی املا اس تصویر میں دکھ رہی ہے ۔ ویسے ہی ٹائپ کرنا ہے ۔ ؟

وعلیکم السلام،

برادرم نایاب۔ ہمارا مشورہ ہے کہ جدید املا کے مطابق درستگی کر دیا کریں۔ ورنہ پروف ریڈنگ کے مراحل جان لیوا ہو جاتے ہیں۔ :) :) :)

ریفرنس: مقدس بٹیا، سیدہ شگفتہ بٹیا، فاتح بھائی، قیصرانی بھائی۔۔۔ :) :) :)
 
Top