قیصرسلیم کا نئے ناول پر ایک نظر

خاورچودھری

محفلین
قیصرسلیم کے نئے ناول ”نیانگربسالیا ہم نے“ پرایک نظر

(خاورچودھری)

جب دُنیا اس قدرنہیں پھیلی تھی اورلوگ آپس میں دیواروں کی طرح جڑے ہوئے تھے تو ان کے دُکھ درد بھی سانجھے تھے۔کسی ایک کی خوشی میں اگر سب شریک ہوتے توغم میں بھی برابرموجود ہوتے۔ان دنوں میں غم ہائے زمانہ کاپھیلاوٴ بھی یوں نہ تھا۔لوگ اگرخوش حال نہیں تھے تو یوں ناامیداوربدحال بھی نہ تھے۔صبرورضااورجہدکی خُوان کی مٹھی میں تھی۔سفرِ زیست کے لیے انھیں آج کی طرح مکر وفریب اورماردھاڑ کی اتنی عادت بھی نہ تھی۔اس قربت اورجڑت کے ماحول میں ان کے دل ایک تال اورلے پر دھڑکتے تھے اوریہی وہ خوبی تھی جو انھیں اپنے اپنے من کی بات کہنے پر مائل رکھتی۔حجروں،چوپالوں اورشیشم کے درختوں تلے جمنے والی محفلوں میں داستان گوئی کا سلسلہ شروع ہوا۔شبوں کو کاٹنے کے لیے بڑے بوڑھے حکمت ودانش کے موتی لٹانے لگے۔تصوراتی اور تخیلاتی کہانیوں نے رواج پایا توداستان گوئی باقاعدہ فن کا رُوپ دھارنے لگی۔قصہ گوچوپالوں اور عام محفلوں سے اُٹھ کر شاہوں کے درباروں میں چلے آئے اور اپنے اپنے جثے کے مطابق اپناحصہ وصول کرنے لگے۔کہانی کاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا توان کی وسعت ِ نظر اوراندازِ فکر میں بھی بوقلمونیاں اُترنے لگیں۔اس فضا میں پہلے پہل منظوم داستان گوئی نے رواج پکڑا۔۔۔۔۔ اور پھر نثر کامیدان بھی ان کی توجہ میں آیا۔ہمارے یہاں کہانی کی روایت بہت گہری اورپختہ ہے۔ اتنی کہ بعض کہانیوں پر حقیقت کا گمان گزرتا ہے بلکہ سچ یہی ہے کہ آج بھی دُور دیہاتوں میں لوک داستانوں کوحقیقت سمجھا جاتا ہے۔خصوصاًبوڑھیاں ان کہانیوں کوسچا کہہ کر ہی سناتی تھیں۔کہانی سنانے کا فن تواب قدرے ناپیدہوچکا ہے البتہ کہانی لکھنے کا رواج باقی ہے۔تقسیم سے پہلے طویل کہانیاں لکھنے کارواج تھا۔ بعد میں بھی کچھ لوگوں نے تسلسل کے ساتھ اس فن کواپنائے رکھاالبتہ یہیں کہیں سے مختصرنویسی بھی رائج ہو گئی۔وہ لوگ جوناول لکھتے اورپڑھتے تھے افسانے کے عادی ہوتے گئے اور آج حالت یہ ہے کہ اکثریت کے پاس افسانہ پڑھنے کا بھی وقت نہیں۔انٹرنیٹ نے دُنیاکوکسی ایک منطقے میں لاسمویا ہے۔اب اقداربدل رہی ہیں ، ترجیحات بدل رہی ہیں،ضرورتیں اورامکانات میں تغیربرپا ہوچکا ہے۔ایسے میں قلم سے جڑے رہنابجائے خود ایک بہت بڑا کام ہے اورپھر جولوگ اپنے تجربات اورمشاہدات کوزبان دے کرکاغذپرمنتقل اورپھرکتابی صورت میں چھاپ کرعام کرتے ہیں، بلاشبہ خراج تحسین پیش کیے جانے کے لائق ہیں۔ یہاں ایک بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے ۔وہ یہ کہ جولوگ کسی خاص زاویے یااندازِفکرکوسامنے رکھ کر کام کرتے ہیں ان کے کام کو سراہنا بہ ہر حال ضروری ہے۔ جن لوگوں کاخون بنیادوں میں شامل ہوتا ہے وہ عمارت کونقصان پہنچنے پرزیادہ دُکھ اٹھاتے ہیں۔جس نے تنکاتنکا چُن کاگھونسلا بنایا ہو،وہ طوفانوں کی بربادیوں سے غم نہ کھائے توپھرکون کھائے؟ایسے لوگ جب اظہارپرآتے ہیں تولفظوں اورحرفوں کوجس احتیاط اورخوبی سے برتتے ہیں وہ عام آدمی کا حصہ کیوں کر ہوسکتاہے؟ایسی ہستی جس نے اس دھرتی کی بنیاد پڑتے دیکھا،پھراس کی تعمیر میں شدومدسے حصہ لیا،اس کی تزئین وآرائش میں اپناپسینہ بہایا،اس کی خوش حالی اور ترقی کے لیے راحتیں اورسکون تیاگ دیے۔آج اگراُس کاجی جلتا ہے تو بجا طور پر۔۔۔ ۔ ۔ قیصرسلیم بھی ایک ایسی ہی ہستی کانام ہے۔
” نیا نگر بسالیا ہم نے “قیصرسلیم کانیاناول ہے جوحال ہی میں چھپ کر منظرعام پر آیا ہے۔اس سے پہلے فاضل مصنف آٹھ ناول تخلیق کر چکے ہیں۔ زیرِنظرناول 176صفحات کو محیط ہے اوراس کی کہانی دوخاندانوں کے گردگھومتی ہے۔چوں کہ مصنف کاتعلق کہانی کاروں کے اُس گروہ سے ہے جو بہ یک وقت روایت اورجدت کوساتھ لے کر چلتے ہیں،اِس لیے یہ ناول بھی انھی خوبیوں سے مملو ہے۔اگرچہ یہ ایک تصوراتی کہانی ہے مگر علامتوں اورتمثیلوں کے اثر نے اسے حقیقت آشناکردیا ہے۔یہ ایک سراسرمثبت ناول ہے اوراس کے تمام کرداراپنے اپنے مقامات پریوں جڑے ہوئے ہیں اگرذراکھسکے توکہانی بے جان ہوجائے۔ناول نگار نے تمام کرداروں کویوں تہِ قلم رکھا ہے کہ کسی بھی مرحلے پربغاوت یاسرکشی پرآمادہ نظر نہیں آتے۔اس پرغضب یہ کہ مصنف نے کمال ہنر مندی سے جزئیات نگاری مکمل کی اورمشاہدے کی گیرائی وگہرائی کاوہ ثبوت دیا جواَب خال خال ہی نظرآتا ہے۔ناول کی مرکزی کردار ایک گائیکہ نائلہ ایمن ہے۔ اس کردار کی نشست وبرخاست اورمکالموں سے جوتاثرپیداکیا گیا ہے وہ عام لکھنے والے کے قلم سے ممکن نہیں ۔فن ِ موسیقی سے شناسائی اور قریہ قریہ گھوم کر اسٹیج آرائی میں پیش آنے والے لوازمات سے جان کاری کے بغیراس کردار کو نبھانا ناممکن ہے۔قیصرسلیم نے اس ضمن میں کوئی ایک پہلوبھی نظر انداز نہیں کیا۔ اسی طرح نائلہ ایمن کی بہن جودت اوررباب کے کرداراورمکالمے
بھی بھرپوراورمکمل ہیں۔کیفی کیانی کے کردارپربھی احتیاط کی حدتک توجہ دی گئی،فاخرہ اورکرن کیانی کے کرداربھی مکمل ہیں اور ان کی زبان سے اداکیے گئے مکالمے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔اس ناول کے ہر ہر کردار کے لیے مطلوبہ منظرنگاری کمال درجے تک پہنچا دی گئی ہے۔کسی بھی مقام پر تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔نہایت شستہ اورپُرلطف زبان نے ناول کودوآتشہ کردیاہے۔کوئی بھی شخص جب اسے پڑھناشروع کرے گاتوپھراسے آخری سطر
تک کاسفر ایک ہی نشست میں طے کرناہوگا۔ہرہرجملہ ایک دوسرے سے یوں پیوست ہے جیسے ایک دیوارمیں چُنی گئی اینٹیں۔
جس طرح اپنے عنوان سے یہ ناول ظاہرکرتا ہے کہ مصنف نے کوئی نئی دُنیاتخلیق کی ہے،اسی طرح یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ دُنیاسے مصنف اُکتائے بیٹھا ہے۔یہ ناول دراصل ہماری قدروں کی تباہی اورروایات کی شکست پرکسی حدتک ماتم کرنے کے ساتھ ساتھ نئی اُمنگیں جگاتا ہے۔ہمیں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل پر اُکساتا ہے جس میں مجرموں،دہشت گردوں،لٹیروں اورسیاسی جماعتوں کاکوئی کردار نہ ہو۔جہاں پولیس کی کوئی ضرورت نہ ہو۔ اول تو لوگ برائیوں کی دلدل میں پھنسیں ہی نہیں اوراگرکبھی ایسا ہوتوآپس کے معاملات آپس میں ہی طے کر لیے جائیں۔ ناول میں ایک ایسے نئے شہرکوپیش کیا گیا ہے جہاں بسنے والوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے آبادی کی اور اپنے آپ کواُن جھمیلوں، مصیبتوں اور بے دماغیوں سے محفوظ کیاجوانھیں پہلے درپیش تھیں۔ شہر شہردندناتے پھرتے دہشت گردوں،لمحہ بہ لمحہ رُوپ بدلتے راہبرنماراہزنوں،گلی گلی اور گھر گھر میں چھپے بے ترسوں اورخودپرستوں کے جبرواستبدادسے آزاد یہ مثالی شہرروئے زمین پرشایدکہیں ہو۔مصنف نے ان ساری قباحتوں، خرابیوں اور ظلموں سے محفوظ ایک تصوراتی شہرآبادکیااورآج کے جلتے ہوئے پاکستان میں بسنے والوں کوامن اورخوش حالی کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے راستے بھی بتادیے، کہ کس طرح ان آلائشوں سے پاک ہوکرزندگی سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔کس طرح اپنے خون کے خلاف گواہی دینے والوں کوصحیح سمت عطاکی جاسکتی ہے۔کس طرح مایوسیوں میں گھرے ہووٴں کواُمیدکی انگلی پکڑائی جا سکتی ہے۔ یہ ساری باتیں کہانی کے بین السطورمیں تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔کسی بھی مقام پریہ گمان نہیں گزرتاکہ مصنف واعظانہ طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہی اس ناول کی سب سے بڑی خوبی ہے۔بہ ظاہر یہ ناول ایک گانے والی کے عشق کی داستان ہے۔بالکل سیدھی اورسپاٹ۔کہیں کوئی پیچیدگی اورخم نہیں۔ نائلہ ایمن اپنے بچپن کے ہمجولی کیفی کیانی کوبرسوں بعد دیکھتی ہے تواس کی محبت میں گرفتارہوکراپنی شخصیت کے گردقائم کردہ اناوٴں کے تمام خول خود بہ خوداُتار پھینکتی ہے۔ یہاں تک کہ اُس سے شادی بھی کر لیتی ہے۔تاہم اسی سیدھی سی کہانی میں مریم کی زبان سے اداکیے جانے والے مکالمے اورکیفی کیانی اورفاخرہ کے تعلق کے تذکرے سے کہانی ایک دم کئی پرتوں اوررنگوں کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔انھی کرداروں کی زبانی بہت ہی حساس اندازسے موجودہ پاکستانی معاشرے کی کہانی بیان ہوتی ہے اورپھرانھی کرداروں کے ذریعے سے ایک خوش کن اورمثالی پاکستان کاخواب دکھایا جاتاہے۔
کہانی شروع کرنے سے پہلے مصنف نے ”حال گیااحوال گیا“ کے عنوان تلے جواظہارخیال کیا ہے اُس میں انھوں نے دوٹو ک انداز سے اپنے نظریات واضح کر دیے ہیں۔مصنف کے نزدیک پارلیمانی نظام اپنی افادیت کھوچکا ہے اور اس سے وابستہ سیاسی جماعتیں چھیناجھپٹی کے علاوہ کچھ نہیں کر تیں۔ ملک میں اگرکچھ ترقی ہوئی بھی ہے تووہ فوجی ادوار میں۔بہ قول مصنف کے جنرل ایوب خان اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں قوم کوخوش حالی نصیب ہوئی ہے۔یقینامصنف نے ایسا محسوس کیا جبھی قلم بند بھی کیا۔مصنف نے اپنی عملی زندگی آغازکرنے سے پہلے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق قائم کیا اورپھرتقسیم کے ایک سال بعدپاکستان فضائیہ میں شامل ہوگئے اور یہیں سے ریٹائرمنٹ لی۔ظاہر ہے قیصرسلیم صاحب کامشاہدہ اورتجربہ اس حوالے سے معتبر ہے مگران کی رائے سے صدفی صدمتفق ہونا بھی ناممکن ہے۔آج ایک بڑی تعدادفوجی حکومتوں سے نہ صرف نالاں ہے بلکہ ان سے چھٹکارے کے لیے ہر ہرجتن کر رہی ہے۔ سڑکوں اورذرائع ابلاغ پرہونے والااحتجاج اسی بات کاثبوت ہے۔۔۔۔ اور پھر ان لوگوں کے نزدیک ملک کے خوش حال مستقبل کی ضمانت اور سا لمیت کاانحصار پارلیمانی طرزِ حکمرانی پر ہے۔ بہ ہر حال یہ علاحدہ بحث ہے۔
” نیا نگر بسا لیا ہم نے “ تاثر سے بھر پور اور کامیاب ناول ہے جواپنے پڑھنے والے کومایوسیوں سے نکال کر امنگوں اورمسابقت کی دُنیا میں لے جاتا ہے۔یہ سیدھی سی کہانی کتنے ہی بھیدوں سے نقاب کھینچ جاتی ہے اوریہی مصنف کی کامیابی پردلالت ہے۔

(کتاب ،میڈیاگرافکس،اے۔997سیکٹر11۔اے، نارتھ کراچی سے حاصل کی جاسکتی ہے)
 
Top