قصہ ایک دلچسپ ملاقات کا

متلاشی

محفلین
اس دفعہ چھوٹی عید (عید الفطر) کے بعد میرا ٹیکسلا جانا ہوا تو محفل کے دو معروف دوستوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔۔ سوچا تھا وقت نکال کر تفصیل سے احوال بیان کروں گا مگر شو مئی قسمت یہ خیال دیارِ دل سے نوکِ قلم تک آنے سے پہلے ہی ذہن سے محو ہو گیا۔
قصہ کوتاہ سب سے پہلے میری ملاقات تنویر قریشی بھائی سے ہوئی وہ واہ کینٹ سے ٹیکسلا آ کر مجھے اپنے گھر لے گئے ۔۔ وہاں انہوں نے ایک خطاط دوست (اشفاق صاحب) کو بھی بلایا ہوا تھا ۔ انکے ساتھ کافی اچھی گپ شپ رہی۔ تنویر بھائی نے ایک پرتکلف عشائیے کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا ، مگر میری بدقسمتی کے میں نے دوپہر کا کھانا ہی بہت لیٹ کھایا تھا تقریبا شام میں ہی تو اس پرتکلف ضیافت کے مزے اڑانے سے قاصر رہا ۔۔ (امید ہے تنویر بھائی اس کوتاہی سے صرفِ نظر کریں گے ) دعوتِ طعام سے قبل تنویر بھائی نے ہمیں اپنے چڑیا گھر کی سیر بھی کرائی جو انہوں نے بالا خانے میں بنا رکھا ہے اور وہاں نوع نوع کے خوبصورت پرندے پال رکھے ہیں ۔۔ ان کی چہکار سن کر دل بہت خوش ہوا ۔ اس کے بعد تنویر بھائی مجھے واپس ٹیکسلا چھوڑ گئے ۔
دو دن بعد بروز جمعہ میں نے @عبدالمجيد بھائی سے ملاقات کےلیے پشاور کا رختِ سفر باندھا۔ عبدالمجید کو پہلے ہی اطلاع دے دی گئی تھی ، ان کے چھوٹے بھائی نے مجھے اڈے سے رسیو کیا اور عبدالمجید بھائی کی دوکان پر لے گئے ، وہاں میرا پُر تپاک استقبال ہوا ، وہاں عبدالمجید بھائی کے کچھ دوست بھی آئے ہوئے تھے ان سے بھی تعارف ہوا، ان دوستون نے چونکہ افغانستان کےلیے نکلنا تھا اس لیے عبد المجید بھائی پہلے ان کو بھگتانے میں مصروف رہے۔ وہاں قریبا ایک گھنٹہ پشتو میں بھرپور گفتگو ہوتی رہتی مگر میرے پلے ایک لفظ بھی نہ پڑا ، میں ہونقوں کی طرح کبھی عبدالمجید بھائی کو منہ اٹھا کر دیکھ لیتا تو کبھی ان کے دوستوں کو اور پھر مسکرا دیتا، گو کہ عبدالمجید بھائی درمیان میں بار بار میری کلفت ختم کرنے کےلیے کچھ باتوں کا اردو ترجمہ بھی کرتے رہے ، مگر اتنے سارے پٹھانوں کے درمیان ایک بندہ ، میرا مطلب ایک پنجابی آخر کیا کرتا ۔۔ صد شکر اسی دوران عبد المجید کے چھوٹے بھائی پشاوری پلاؤ لے آئے اور ساتھ پشاوری نان بھی۔۔ جب دستر خوان لگ رہا تھا تو میں سمجھا شاید نان کے ساتھ کوئی سالن بھی ہو گا مگر یہ بعد میں پتہ چلا کہ وہاں نان چاولوں کے ساتھ بھی کھایا جاتا ہے خیر ہم نے پشاور کا مشہور پشاوری پلاؤ کھایا جو واقعی بہت لذیز تھا ۔ اس کے بعد نماز جمعہ کےلیے قریبی مسجد گئے وہاں وضو کے لیے قطار میں کھڑا ہوا، وہاں ایک عجیب بات دیکھی کہ ہر ٹونٹی کے درمیان ایک چھوٹی سی دیوار ہے ، مجھے خیال ہوا کہ شاید ایک دوسرے کو چھینٹوں سے بچانے کےلیے یہ اہتمام کیا گیا ہے، دل سے اس اقدام کےلیے بے ساختہ تحسین نکلی ، مگر اس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے وہاں سے آگے والے بندے کو اٹھ کر ازار بند باندھتے دیکھا۔۔۔ تب ہمارا ماتھا ٹھنکا اور ہم معاملے کی تہ تک پہنچ گئے ، وہ وضو خانہ نہیں بلکہ استنجا خانہ تھا ۔۔۔ ہم تھوڑا آگے کھسکے تو وضو خانہ بھی نظر آ گیا ، خیر نمازِ جمعہ ادا کی ۔ واپسی پر عبد المجید بھائی نے ہمیں پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار کی سیر بھی کروائی۔ اس کے بعد وہ ہمیں اپنا پرنٹنگ پریس دکھانے لے گئے۔ بالا خانے پر نشست گاہ تھی وہاں بیٹھ کر گپ شپ کی پتہ چلا کہ آج کل عبدالمجید بھائی کو آسٹرالوجی کا شوق چڑھا ہوا ہے انہوں نے گھرکی چھت پر ایک دور بین بھی نصب کر رکھی ہے جس پر بقول ان کے وہ روز رات کوستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں جبکہ بقول دیگرے یہ سارا اہتمام وہ چاند پر چرخہ کاٹتی بڑھیا کی بیٹی کے دیدار کےلیے کرتے ہیں یا پھر آسمان سے پرے جنت کی حوریں تلاشتے ہیں اب حقیقتِ حال سے یا تو وہ خود واقف ہیں یا پھر ان کا خدا۔۔ !
خیر وہاں پر ہماری *مشترکہ محبوبہ کا ذکر بھی زور و شور سے ہوا اور دیر تک اسی دلربا کے قصے چلتے رہے ۔ باتوں کے دوران وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اور باہر رات ڈھل گئی ، میں نے عبدالمجید بھائی سے رخصت کی اجازت چاہی مگر وہ بضد تھے کہ وہ دو چار دن نہیں تو کام از کم ایک رات تو ان کے ہاں قیام کروں ، مگر ایک تو ہمیں حکامِ بالا کی طرف اجازت نہ تھی اور دوسرا لاک ڈاؤن کا خطرہ تھا کیونکہ ہفتہ اور اتوار مکمل لاک ڈاؤن ہوتا اور بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پر بھی پابندی تھی ۔ با دلِ نخواستہ انہوں نے رخصت کی اجازت دینے سے پہلے ہمیں پشاور کے ایک معروف ریستوران سے دنبہ کڑاھی کھلائی جو لذت میں واقعی بے مثال تھی ۔ ان کے ایک پبلشر دوست بھی شریکِ طعام تھے۔
رخصت سے پہلے دفعتًا ہمیں یاد آیا کہ ہم پہلی دفعہ نئے دیس میں آئے ہیں تو خاتونِ خانہ کےلیے اس دیس کی کوئی سوغات ہدیہ لے کر چلنا چاہیے ، عبدالمجید بھائی سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بازار سرِ شام ہی بند ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران عبدالمجید بھائی نے اپنی ذاتی تجربہ سے بتایا کہ پشاور کی ایک مشہور سوغات کھانے اور پہننے دونوں کے لیے یکساں مفید ہے یعنی ٹو ان ون اور وہ ہے پشاوری چپل وہ لے جاؤں ۔۔۔ مگر بازار بند تھا۔ خیر ڈرائی فروٹ کی ایک دوکان کھلی ملی وہاں سے کچھ لیا اور پھر عبدالمجید مجھے رات دس بجے کے قریب بس اسٹینڈ پر چھوڑ آئے اور یوں ایک دلچسپ ملاقات اختتام پذیر ہوئی ۔
* فونٹ سازی
 

جاسم محمد

محفلین
اس دفعہ چھوٹی عید (عید الفطر) کے بعد میرا ٹیکسلا جانا ہوا تو محفل کے دو معروف دوستوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔۔ سوچا تھا وقت نکال کر تفصیل سے احوال بیان کروں گا مگر شو مئی قسمت یہ خیال دیارِ دل سے نوکِ قلم تک آنے سے پہلے ہی ذہن سے محو ہو گیا۔
قصہ کوتاہ سب سے پہلے میری ملاقات تنویر قریشی بھائی سے ہوئی وہ واہ کینٹ سے ٹیکسلا آ کر مجھے اپنے گھر لے گئے ۔۔ وہاں انہوں نے ایک خطاط دوست (اشفاق صاحب) کو بھی بلایا ہوا تھا ۔ انکے ساتھ کافی اچھی گپ شپ رہی۔ تنویر بھائی نے ایک پرتکلف عشائیے کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا ، مگر میری بدقسمتی کے میں نے دوپہر کا کھانا ہی بہت لیٹ کھایا تھا تقریبا شام میں ہی تو اس پرتکلف ضیافت کے مزے اڑانے سے قاصر رہا ۔۔ (امید ہے تنویر بھائی اس کوتاہی سے صرفِ نظر کریں گے ) دعوتِ طعام سے قبل تنویر بھائی نے ہمیں اپنے چڑیا گھر کی سیر بھی کرائی جو انہوں نے بالا خانے میں بنا رکھا ہے اور وہاں نوع نوع کے خوبصورت پرندے پال رکھے ہیں ۔۔ ان کی چہکار سن کر دل بہت خوش ہوا ۔ اس کے بعد تنویر بھائی مجھے واپس ٹیکسلا چھوڑ گئے ۔
دو دن بعد بروز جمعہ میں نے @عبدالمجيد بھائی سے ملاقات کےلیے پشاور کا رختِ سفر باندھا۔ عبدالمجید کو پہلے ہی اطلاع دے دی گئی تھی ، ان کے چھوٹے بھائی نے مجھے اڈے سے رسیو کیا اور عبدالمجید بھائی کی دوکان پر لے گئے ، وہاں میرا پُر تپاک استقبال ہوا ، وہاں عبدالمجید بھائی کے کچھ دوست بھی آئے ہوئے تھے ان سے بھی تعارف ہوا، ان دوستون نے چونکہ افغانستان کےلیے نکلنا تھا اس لیے عبد المجید بھائی پہلے ان کو بھگتانے میں مصروف رہے۔ وہاں قریبا ایک گھنٹہ پشتو میں بھرپور گفتگو ہوتی رہتی مگر میرے پلے ایک لفظ بھی نہ پڑا ، میں ہونقوں کی طرح کبھی عبدالمجید بھائی کو منہ اٹھا کر دیکھ لیتا تو کبھی ان کے دوستوں کو اور پھر مسکرا دیتا، گو کہ عبدالمجید بھائی درمیان میں بار بار میری کلفت ختم کرنے کےلیے کچھ باتوں کا اردو ترجمہ بھی کرتے رہے ، مگر اتنے سارے پٹھانوں کے درمیان ایک بندہ ، میرا مطلب ایک پنجابی آخر کیا کرتا ۔۔ صد شکر اسی دوران عبد المجید کے چھوٹے بھائی پشاوری پلاؤ لے آئے اور ساتھ پشاوری نان بھی۔۔ جب دستر خوان لگ رہا تھا تو میں سمجھا شاید نان کے ساتھ کوئی سالن بھی ہو گا مگر یہ بعد میں پتہ چلا کہ وہاں نان چاولوں کے ساتھ بھی کھایا جاتا ہے خیر ہم نے پشاور کا مشہور پشاوری پلاؤ کھایا جو واقعی بہت لذیز تھا ۔ اس کے بعد نماز جمعہ کےلیے قریبی مسجد گئے وہاں وضو کے لیے قطار میں کھڑا ہوا، وہاں ایک عجیب بات دیکھی کہ ہر ٹونٹی کے درمیان ایک چھوٹی سی دیوار ہے ، مجھے خیال ہوا کہ شاید ایک دوسرے کو چھینٹوں سے بچانے کےلیے یہ اہتمام کیا گیا ہے، دل سے اس اقدام کےلیے بے ساختہ تحسین نکلی ، مگر اس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے وہاں سے آگے والے بندے کو اٹھ کر ازار بند باندھتے دیکھا۔۔۔ تب ہمارا ماتھا ٹھنکا اور ہم معاملے کی تہ تک پہنچ گئے ، وہ وضو خانہ نہیں بلکہ استنجا خانہ تھا ۔۔۔ ہم تھوڑا آگے کھسکے تو وضو خانہ بھی نظر آ گیا ، خیر نمازِ جمعہ ادا کی ۔ واپسی پر عبد المجید بھائی نے ہمیں پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار کی سیر بھی کروائی۔ اس کے بعد وہ ہمیں اپنا پرنٹنگ پریس دکھانے لے گئے۔ بالا خانے پر نشست گاہ تھی وہاں بیٹھ کر گپ شپ کی پتہ چلا کہ آج کل عبدالمجید بھائی کو آسٹرالوجی کا شوق چڑھا ہوا ہے انہوں نے گھرکی چھت پر ایک دور بین بھی نصب کر رکھی ہے جس پر بقول ان کے وہ روز رات کوستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں جبکہ بقول دیگرے یہ سارا اہتمام وہ چاند پر چرخہ کاٹتی بڑھیا کی بیٹی کے دیدار کےلیے کرتے ہیں یا پھر آسمان سے پرے جنت کی حوریں تلاشتے ہیں اب حقیقتِ حال سے یا تو وہ خود واقف ہیں یا پھر ان کا خدا۔۔ !
خیر وہاں پر ہماری *مشترکہ محبوبہ کا ذکر بھی زور و شور سے ہوا اور دیر تک اسی دلربا کے قصے چلتے رہے ۔ باتوں کے دوران وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اور باہر رات ڈھل گئی ، میں نے عبدالمجید بھائی سے رخصت کی اجازت چاہی مگر وہ بضد تھے کہ وہ دو چار دن نہیں تو کام از کم ایک رات تو ان کے ہاں قیام کروں ، مگر ایک تو ہمیں حکامِ بالا کی طرف اجازت نہ تھی اور دوسرا لاک ڈاؤن کا خطرہ تھا کیونکہ ہفتہ اور اتوار مکمل لاک ڈاؤن ہوتا اور بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پر بھی پابندی تھی ۔ با دلِ نخواستہ انہوں نے رخصت کی اجازت دینے سے پہلے ہمیں پشاور کے ایک معروف ریستوران سے دنبہ کڑاھی کھلائی جو لذت میں واقعی بے مثال تھی ۔ ان کے ایک پبلشر دوست بھی شریکِ طعام تھے۔
رخصت سے پہلے دفعتًا ہمیں یاد آیا کہ ہم پہلی دفعہ نئے دیس میں آئے ہیں تو خاتونِ خانہ کےلیے اس دیس کی کوئی سوغات ہدیہ لے کر چلنا چاہیے ، عبدالمجید بھائی سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بازار سرِ شام ہی بند ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران عبدالمجید بھائی نے اپنی ذاتی تجربہ سے بتایا کہ پشاور کی ایک مشہور سوغات کھانے اور پہننے دونوں کے لیے یکساں مفید ہے یعنی ٹو ان ون اور وہ ہے پشاوری چپل وہ لے جاؤں ۔۔۔ مگر بازار بند تھا۔ خیر ڈرائی فروٹ کی ایک دوکان کھلی ملی وہاں سے کچھ لیا اور پھر عبدالمجید مجھے رات دس بجے کے قریب بس اسٹینڈ پر چھوڑ آئے اور یوں ایک دلچسپ ملاقات اختتام پذیر ہوئی ۔
* فونٹ سازی
اچھی ملاقات رہی۔ کوئی تصویر وغیرہ بھی لے لیتے :)
 

متلاشی

محفلین
بہت اچھا لکھا ۔ دنبہ کڑھائی کہاں سے کھائی۔ کیا نمک منڈی سے؟
میں پہلی دفعہ گیا تھا زیادہ علم نہیں غالباً قصہ خوانی بازار کے قریب ہی کوئی جگہ تھی، باہر ڈرائی فروٹس کی ڈھیر ساری دکانیں تھیں، غالباً فوڈ اسٹریٹ ٹائپ کوئی جگہ تھی
 

سید عمران

محفلین
اردو کی منجھلی کتاب سے پنچ سالہ امتحانی سوال:
بہت اچھا لکھا ۔ دنبہ کڑھائی کہاں سے کھائی۔ کیا نمک منڈی سے؟
مندرجہ بالا کی آپ کو صرف معلومات ہی معلومات ہیں یا عملی تجربہ بھی ہے؟؟؟
نیز کیا مؤخر الذکر صورت میں آپ سے میزبانی کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟؟؟
 

صابرہ امین

لائبریرین
اردو کی منجھلی کتاب سے پنچ سالہ امتحانی سوال:

مندرجہ بالا کی آپ کو صرف معلومات ہی معلومات ہیں یا عملی تجربہ بھی ہے؟؟؟
نیز کیا مؤخر الذکر صورت میں آپ سے میزبانی کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟؟؟
جی صرف معلومات ہی ہیں۔ یوٹیوب کے وی لاگز کی وجہ سے۔ نمک منڈی جانے کا شوق ہے کہ سنا ہے کڑاہی اور تکہ بہت لذیذ ہوتا ہے ۔ بس وہاں جانے کا پتہ نہیں کیوں اتفاق نہیں ہوا۔ آپ بتائیے کہ آپ کا تجربہ ہے؟ کیا چرسی تکہ کھایا ہے آپ نے؟
 

سید عمران

محفلین
جی صرف معلومات ہی ہیں۔ یوٹیوب کے وی لاگز کی وجہ سے۔ نمک منڈی جانے کا شوق ہے کہ سنا ہے کڑاہی اور تکہ بہت لذیذ ہوتا ہے ۔ بس وہاں جانے کا پتہ نہیں کیوں اتفاق نہیں ہوا۔ آپ بتائیے کہ آپ کا تجربہ ہے؟ کیا چرسی تکہ کھایا ہے آپ نے؟
چرسی تکہ گھر میں بنتا ہے۔ جو بھی کھاتا ہے انگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے (اپنی)۔
ایک بار اتفاقاً پشاور سے فضائی گزر ہوا۔ قصہ اُس گزر کا یہ ہوا کہ ہمارا ایمرجنسی میں اسلام آباد جانا ہوا۔ پی آئی اے سے معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ مطلوبہ وقت کی فلائٹ میسر نہیں۔ ائیر بلو سے معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ فلائٹ بھی ہے اور دام بھی آدھے ہیں۔ ہمارے تو مزے لگ گئے۔ جس رقم میں صرف جاتے اسی رقم میں ریٹرن ٹکٹس مل گئے۔
بس ایک مسئلہ تھا کہ ٹکٹس پر یہ رعائت پشاور کے لیے تھی۔ ہم نے کہا کوئی بات نہیں، پشاور سے اسلام آباد دو گھنٹے کا سفر ہے۔ اور سفر سے ہمیں کوئی ڈر نہیں ہے۔ سیر و سیاحت کے لیے ہمیں بہانہ چاہیے۔ اور کبھی تو وہ بھی نہیں چاہیے۔ خیر ہم پشاور اترے، وہاں سے ڈائیو پکڑی اور اسلام آباد جا اترے۔ یہ بتانا آپ لوگوں کے ذمہ ہے کہ ہمیشہ جا اُترے ہی کیوں ہوتا ہے، کبھی آ اُترے کیوں نہیں ہوتا؟؟؟
پشاور ائیر پورٹ پر جب جہاز لینڈ کرتا ہے تو لگتا ہے جیسے بہت بڑے سرسبز باغ میں اتر رہا ہے۔ جہاں ہر طرف درخت، پودے، پھول پتے اور ہریالی ہے۔ ہم اسلام آباد، ایبٹ آباد اور کشمیر میں اپنا کام نمٹا کے واپس پشاور آئے۔ وہاں ایک دن ایک رات رُکے۔ دن میں گھر والوں کے لیے شاپنگ کی۔ بولے تو لیڈیز سوٹ۔ یہ سوٹ اتنے اچھے تھے کہ ہم دوباہ رسا تڑا کر گھر سے بھاگنا چاہیں تو بتانے کے لیے محض یہی بہانہ کافی ہوگا کہ واپسی پہ آپ کے لیے سوٹ لیتے آئیں؟انتہائی دلچسپی کے اس اہم موقع پر ہم حسبِ معمول خود ستائشی کا موقع ہاتھ سے ہرگز جانے نہیں دیں گے کہ ہماری پسند بھی آخر کوئی چیز ہے یعنی اخیر ہے۔
رات کو نمک منڈی پہنچے اور اپنی بطنی و باطنی صلاحیتیں اُجاگر کرنے کی شاپنگ کی، وہی کھانے پینے والی۔ نمک منڈی میں ذائقہ دار دنبہ کڑاہی کھائی۔ پشاور سے متعلق ایک بات سنی تھی کہ وہاں کا پانی نہایت ہاضم ہے۔ ہم نے آدھا سیر دنبہ کا گوشت کھایا اور ایک لیٹر پشاوری پانی پیا۔ یوں کھایا پیا سب ہضم کیا۔ کوئی گرانی پریشانی نہیں ہوئی۔ اگلے دن فلائٹ سے قبل بغیر تلے چپلی کباب لیے۔ قیمہ میں سارے مسالے مکس کروائے اور گھر لے آئے۔گھر لاکر تلے۔ مگر کچھ خاص نہیں لگے۔ شاید جو چیز جہاں کی ہے وہیں بنانے اور کھانے میں ذائقہ دیتی ہے۔
امید ہے آپ سب بھائیوں اور ان کی بہنوں نے یہ ترغیبی مضمون پڑھ کر ارادہ رختِ سفر باندھنے کا کرلیا ہوگا۔ پشاور جانے کا سب سے اچھا موسم مارچ کا ہے۔ جب بہار اپنے جوبن پر ہوتی ہے، نیا نیا سبزہ خزاں کے پتے جھڑ نے کے بعد نکھرا نکھرا چہرہ نکال رہا ہوتا ہے۔ جب ہر طرف رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں۔ اور چہار سو ان کی خوشبو مہک رہی ہوتی ہے۔
بقول مقامی احباب پشاور میں بہار کا موسم پٹھان کو بھی شاعر بنا دیتا ہے!!!
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
چرسی تکہ گھر میں بنتا ہے۔ جو بھی کھاتا ہے انگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے (اپنی)۔
ایک بار اتفاقاً پشاور سے فضائی گزر ہوا۔ قصہ اُس گزر کا یہ ہوا کہ ہمارا ایمرجنسی میں اسلام آباد جانا ہوا۔ پی آئی اے سے معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ مطلوبہ وقت کی فلائٹ میسر نہیں۔ ائیر بلو سے معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ فلائٹ بھی ہے اور دام بھی آدھے ہیں۔ ہمارے تو مزے لگ گئے۔ جس رقم میں صرف جاتے اسی رقم میں ریٹرن ٹکٹس مل گئے۔
بس ایک مسئلہ تھا کہ ٹکٹس پر یہ رعائت پشاور کے لیے تھی۔ ہم نے کہا کوئی بات نہیں، پشاور سے اسلام آباد دو گھنٹے کا سفر ہے۔ اور سفر سے ہمیں کوئی ڈر نہیں ہے۔ سیر و سیاحت کے لیے ہمیں بہانہ چاہیے۔ اور کبھی تو وہ بھی نہیں چاہیے۔ خیر ہم پشاور اترے، وہاں سے ڈائیو پکڑی اور اسلام آباد جا اترے۔ یہ بتانا آپ لوگوں کے ذمہ ہے کہ ہمیشہ جا اُترے ہی کیوں ہوتا ہے، کبھی آ اُترے کیوں نہیں ہوتا؟؟؟
پشاور ائیر پورٹ پر جب جہاز لینڈ کرتا ہے تو لگتا ہے جیسے بہت بڑے سرسبز باغ میں اتر رہا ہے۔ جہاں ہر طرف درخت، پودے، پھول پتے اور ہریالی ہے۔ ہم اسلام آباد، ایبٹ آباد اور کشمیر میں اپنا کام نمٹا کے واپس پشاور آئے۔ وہاں ایک دن ایک رات رُکے۔ دن میں گھر والوں کے لیے شاپنگ کی۔ بولے تو لیڈیز سوٹ۔ یہ سوٹ اتنے اچھے تھے کہ ہم دوباہ رسا تڑا کر گھر سے بھاگنا چاہیں تو بتانے کے لیے محض یہی بہانہ کافی ہوگا کہ واپسی پہ آپ کے لیے سوٹ لیتے آئیں؟انتہائی دلچسپی کے اس اہم موقع پر ہم حسبِ معمول خود ستائشی کا موقع ہاتھ سے ہرگز جانے نہیں دیں گے کہ ہماری پسند بھی آخر کوئی چیز ہے یعنی اخیر ہے۔
رات کو نمک منڈی پہنچے اور اپنی بطنی و باطنی صلاحیتیں اُجاگر کرنے کی شاپنگ کی، وہی کھانے پینے والی۔ نمک منڈی میں ذائقہ دار دنبہ کڑاہی کھائی۔ پشاور سے متعلق ایک بات سنی تھی کہ وہاں کا پانی نہایت ہاضم ہے۔ ہم نے آدھا سیر دنبہ کا گوشت کھایا اور ایک لیٹر پشاوری پانی پیا۔ یوں کھایا پیا سب ہضم کیا۔ کوئی گرانی پریشانی نہیں ہوئی۔ اگلے دن فلائٹ سے قبل بغیر تلے چپلی کباب لیے۔ قیمہ میں سارے مسالے مکس کروائے اور گھر لے آئے۔گھر لاکر تلے۔ مگر کچھ خاص نہیں لگے۔ شاید جو چیز جہاں کی ہے وہیں بنانے اور کھانے میں ذائقہ دیتی ہے۔
امید ہے آپ سب بھائیوں اور ان کی بہنوں نے یہ ترغیبی مضمون پڑھ کر ارادہ رختِ سفر باندھنے کا کرلیا ہوگا۔ پشاور جانے کا سب سے اچھا موسم مارچ کا ہے۔ جب بہار اپنے جوبن پر ہوتی ہے، نیا نیا سبزہ خزاں کے پتے جھڑ نے کے بعد نکھرا نکھرا چہرہ نکال رہا ہوتا ہے۔ جب ہر طرف رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں۔ اور چہار سو ان کی خوشبو مہک رہی ہوتی ہے۔
بقول مقامی احباب پشاور میں بہار کا موسم پٹھان کو بھی شاعر بنا دیتا ہے!!!
حسب توقع آپ نے ہماری لوز بال پر چھکا لگا دیا۔ آپ کے سوال سے ہی آپ کی غرض و غایت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ داستان امیر حمزہ کا احوال اچھا لگا اگرچہ صرف نمک منڈی کا پوچھا تھا۔ :biggrin: اب جب اتنا سب کچھ پڑھ لیا تو یہ بھی بتائیے کہ آپ نے پلاؤ کے ساتھ نان کیسے کھایا؟ ہم تو اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ پلاؤ اور نان ایک ساتھ دیکھ کر سالن کا انتظار کرتے رہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو پلاؤ کے ساتھ ہی کھایا جاتا ہے۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کیسے کھائیں تو نان نہ کھا سکے ۔ ۔ :giggle:
 

سید عمران

محفلین
آپ کے سوال سے ہی آپ کی غرض و غایت کا اندازہ ہو گیا تھا۔
ہماری غرض و غایت تو روز روشن کی طرح واضح تھی۔۔۔
یعنی آپ کو شرف میزبانی کی سعادت دینے کی سعادت حاصل کرنا!!!
نیز کیا مؤخر الذکر صورت میں آپ سے میزبانی کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟؟؟
 
Top