امن وسیم
محفلین
کتاب کا تعارف
قرآن مجید کو اس وضاحت کے ساتھ اتارا گیا ہے کہ یہ سراسر ہدایت اور حق کے معاملے میں پیدا ہو جانے والے اختلافات میں خدا کی آخری حجت ہے۔ اس کی دین میں یہی حیثیت ہے کہ اسے سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کا کام ہر زمانے میں حقیقی مسلمانوں کا ہدف رہا ہے۔ یہ کام شروع دور میں بہت سادہ اور کسی حد تک آسان بھی تھا که لوگ اس کی زبان سے مکمل طور پر آشنا، اس کی آیات کے پس منظر اور جس ماحول میں یہ اُتریں، اُن سے اچھی طرح سے واقف تھے۔ لیکن یہ قدرے مشکل اور پیچیدہ ہوتا چلا گیا جب اس کتاب کے براہ راست مخاطبین اس دنیا میں نہ رہے اور بعد میں آنے والوں کی زبان میں کچھ ناگزیر تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ الفاظ میں متولد مفاہیم پیدا ہوئے تو بعض اسالیب متروک ہو کر نئی نئی صورتوں میں ظاہر ہونے لگے۔ اس سلسلے کی ایک مشکل اُن نومسلموں کے ہاں بھی پیدا ہوئی جو عربی زبان سے قطعی نابلد ہونے کی بنا پر اپنے اور قرآن کے درمیان میں ایک قدرتی حجاب دیکھتے تھے۔ یہ حالات تھے جن میں صاحبان علم کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا که فہم قرآن کے کام کو باقاعدہ علمی طریقے سے انجام دیا جائے ۔ سو اُنھوں نے اسے متعدد زبانوں میں بیان کرنا شروع کیا جو ترجمہ کی ایک مستقل اور شان دار روایت کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔ اس سے پہلے کتاب کا اصل مدعا جاننے کے لیے انھوں نے بہت سی تفسیری کاوشوں کا بھی اہتمام کیا اور اس کے لیے عام طور پر دو طریقوں کو اختیار کیا: ایک یہ کہ اپنی طرف سے کوئی بات کہنے کے بجاے صرف اگلے لوگوں کی آرا کو نقل کر دیا اور دوسرے یہ کہ اصل زبان سے استشہاد کرتے ہوئے اور تاریخ کی حتمی شہادت اور آیات کے بین السطور سے مدد لیتے ہوئے خود اس کے مطالب کو بیان کیا۔ یہ کوششیں بہت سالوں تک اسی طرح ہوتی رہیں اور مسلمانوں کے تفسیری علم میں گراں قدر اضافے کا باعث بنیں۔
تاہم، یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور جلد ہی اپنی فطری صورت سے محروم ، بلکہ بڑی حد تک اس سے اجنبی ہو کر رہ گیا۔ یہ اُس وقت ہوا جب مسلمانوں پر منطق ، فلسفہ اور تصوف اُن کے خارج سے اور بعض فقہی اور کلامی عصبیتیں اُن کے داخل سے اثر انداز ہونا شروع ہوئیں۔ منطق کا غلبہ ہوا تو قرآن کا ایک کلام ہونا اور اس لحاظ سے نطق ہونا، نظروں سے بالکل اوجھل ہو گیا۔ فلسفے کا رواج ہوا تو اس کی سادگی کا حسن گہنا گیا اور یہ کسی کی سمجھ میں نہ آنے والا ایک معمہ اور چیستان بن کر رہ گیا۔ تصوف کے زیر اثر اِس میں سے وہ وہ مضامین ڈھونڈ نکالنے کی سعی ہوئی کہ اس کے الفاظ اپنی حکومت بالکل کھو بیٹھے اور انجام کار ’’باطن‘‘ کے محکوم محض قرار پائے۔ اور گروہی تعصبات نے تو اس معاملے میں قیامت ہی برپا کر دی کہ آیات کو اُن کے اصل مفہوم سے یک سر غیر متعلق کیا اور انھیں بے کار کی بحثوں میں اپنی تائید اور دوسروں کی مخالفت کا ایندھن بنا کے رکھ دیا۔
حالات کے اس تناظر میں پچھلی صدی میں بعض اہم پیش رفت ہوئیں۔ ہندوستان میں قرآن کے ایک بہت بڑے عارف، حمید الدین فراہی، خدا کی اس کتاب پر تان دیے گئے پردوں کو ہٹانے کا گویا عزم لے کر پیدا ہوئے۔ وہ اس طرح کہ زندگی بھر یہ کتاب اُن کی مساعی کا ہدف رہی۔وہ اسی کی خاطر جیے، بلکہ صحیح لفظوں میں کہا جائے تو وہ جتنی عمر جیے، اسی کے اندر جیے۔ خدا کی طرف سے بھی یہ انعام ہوا کہ اُس نے اپنی کتاب کو سمجھنے کا فطری منہاج اُن پر بالکل کھول دیا۔ اُنھوں نے اِس کے لیے کچھ اصول مرتب کیے اور بعض سورتوں کی تفسیر بھی لکھی۔ اُن کے یہی مرتب کردہ اصول تھے جن کی روشنی میں مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’تدبرقرآن‘‘ کے نام سے پورے قرآن پر کام کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مولانا کے پیش نظر چونکہ ان اصولوں کی روشنی میں تفسیر کرنے کا صحیح طریق واضح کر دینا تھا، اس لیے اُن کا انہماک زیادہ تر تفسیر میں رہا اور وہ ترجمہ پر زیادہ توجہ نہ دے سکے۔ محترم جاوید احمد غامدی نے ’’البیان‘‘ لکھی تو اسی کام کو آگے بڑھایا اور ترجمے میں بھی ان اصولوں کی رعایت کرنے کا پورا پورا اہتمام کیا اور مزید یہ کہ وہ خود بھی قرآن کے جید عالم ہیں، اس لیے کئی مقامات پر اپنا ایک مفرد اور مستقل موقف بھی بیان کیا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا فراہی نے اس کام کی بنیادیں فراہم کیں۔ مولانا اصلاحی نے اُنھی پر ایک عمارت اُٹھائی۔ غامدی صاحب نے بھی اس کا ایک حصہ تعمیر کیا اور مزید یہ کہ اس کی تزیین و آرایش کا بھی اچھا خاصا انتظام کیا۔ اور جہاں تک راقم کی اِس تحریر کا معاملہ ہے تو اس کی حیثیت بس اتنی ہے کہ وہ ایک صدی سے زیادہ میں بننے والی اس عمارت میں اور بالخصوص اس کی آخری تعمیر میں، اتفاق سے کچھ دن گزار چکا ہے اور اس کی خوبیوں سے کچھ نہ کچھ واقفیت بھی رکھتا ہے، اس لیے اُس کے دل میں اب یہ شدید تمنا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اس کا خوب خوب چرچا کرے تاکہ وہ سب بھی آئیں، اِس کی سیر دیکھیں اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کا سامان کریں۔
قرآن مجید کو اس وضاحت کے ساتھ اتارا گیا ہے کہ یہ سراسر ہدایت اور حق کے معاملے میں پیدا ہو جانے والے اختلافات میں خدا کی آخری حجت ہے۔ اس کی دین میں یہی حیثیت ہے کہ اسے سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کا کام ہر زمانے میں حقیقی مسلمانوں کا ہدف رہا ہے۔ یہ کام شروع دور میں بہت سادہ اور کسی حد تک آسان بھی تھا که لوگ اس کی زبان سے مکمل طور پر آشنا، اس کی آیات کے پس منظر اور جس ماحول میں یہ اُتریں، اُن سے اچھی طرح سے واقف تھے۔ لیکن یہ قدرے مشکل اور پیچیدہ ہوتا چلا گیا جب اس کتاب کے براہ راست مخاطبین اس دنیا میں نہ رہے اور بعد میں آنے والوں کی زبان میں کچھ ناگزیر تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ الفاظ میں متولد مفاہیم پیدا ہوئے تو بعض اسالیب متروک ہو کر نئی نئی صورتوں میں ظاہر ہونے لگے۔ اس سلسلے کی ایک مشکل اُن نومسلموں کے ہاں بھی پیدا ہوئی جو عربی زبان سے قطعی نابلد ہونے کی بنا پر اپنے اور قرآن کے درمیان میں ایک قدرتی حجاب دیکھتے تھے۔ یہ حالات تھے جن میں صاحبان علم کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا که فہم قرآن کے کام کو باقاعدہ علمی طریقے سے انجام دیا جائے ۔ سو اُنھوں نے اسے متعدد زبانوں میں بیان کرنا شروع کیا جو ترجمہ کی ایک مستقل اور شان دار روایت کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔ اس سے پہلے کتاب کا اصل مدعا جاننے کے لیے انھوں نے بہت سی تفسیری کاوشوں کا بھی اہتمام کیا اور اس کے لیے عام طور پر دو طریقوں کو اختیار کیا: ایک یہ کہ اپنی طرف سے کوئی بات کہنے کے بجاے صرف اگلے لوگوں کی آرا کو نقل کر دیا اور دوسرے یہ کہ اصل زبان سے استشہاد کرتے ہوئے اور تاریخ کی حتمی شہادت اور آیات کے بین السطور سے مدد لیتے ہوئے خود اس کے مطالب کو بیان کیا۔ یہ کوششیں بہت سالوں تک اسی طرح ہوتی رہیں اور مسلمانوں کے تفسیری علم میں گراں قدر اضافے کا باعث بنیں۔
تاہم، یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور جلد ہی اپنی فطری صورت سے محروم ، بلکہ بڑی حد تک اس سے اجنبی ہو کر رہ گیا۔ یہ اُس وقت ہوا جب مسلمانوں پر منطق ، فلسفہ اور تصوف اُن کے خارج سے اور بعض فقہی اور کلامی عصبیتیں اُن کے داخل سے اثر انداز ہونا شروع ہوئیں۔ منطق کا غلبہ ہوا تو قرآن کا ایک کلام ہونا اور اس لحاظ سے نطق ہونا، نظروں سے بالکل اوجھل ہو گیا۔ فلسفے کا رواج ہوا تو اس کی سادگی کا حسن گہنا گیا اور یہ کسی کی سمجھ میں نہ آنے والا ایک معمہ اور چیستان بن کر رہ گیا۔ تصوف کے زیر اثر اِس میں سے وہ وہ مضامین ڈھونڈ نکالنے کی سعی ہوئی کہ اس کے الفاظ اپنی حکومت بالکل کھو بیٹھے اور انجام کار ’’باطن‘‘ کے محکوم محض قرار پائے۔ اور گروہی تعصبات نے تو اس معاملے میں قیامت ہی برپا کر دی کہ آیات کو اُن کے اصل مفہوم سے یک سر غیر متعلق کیا اور انھیں بے کار کی بحثوں میں اپنی تائید اور دوسروں کی مخالفت کا ایندھن بنا کے رکھ دیا۔
حالات کے اس تناظر میں پچھلی صدی میں بعض اہم پیش رفت ہوئیں۔ ہندوستان میں قرآن کے ایک بہت بڑے عارف، حمید الدین فراہی، خدا کی اس کتاب پر تان دیے گئے پردوں کو ہٹانے کا گویا عزم لے کر پیدا ہوئے۔ وہ اس طرح کہ زندگی بھر یہ کتاب اُن کی مساعی کا ہدف رہی۔وہ اسی کی خاطر جیے، بلکہ صحیح لفظوں میں کہا جائے تو وہ جتنی عمر جیے، اسی کے اندر جیے۔ خدا کی طرف سے بھی یہ انعام ہوا کہ اُس نے اپنی کتاب کو سمجھنے کا فطری منہاج اُن پر بالکل کھول دیا۔ اُنھوں نے اِس کے لیے کچھ اصول مرتب کیے اور بعض سورتوں کی تفسیر بھی لکھی۔ اُن کے یہی مرتب کردہ اصول تھے جن کی روشنی میں مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’تدبرقرآن‘‘ کے نام سے پورے قرآن پر کام کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مولانا کے پیش نظر چونکہ ان اصولوں کی روشنی میں تفسیر کرنے کا صحیح طریق واضح کر دینا تھا، اس لیے اُن کا انہماک زیادہ تر تفسیر میں رہا اور وہ ترجمہ پر زیادہ توجہ نہ دے سکے۔ محترم جاوید احمد غامدی نے ’’البیان‘‘ لکھی تو اسی کام کو آگے بڑھایا اور ترجمے میں بھی ان اصولوں کی رعایت کرنے کا پورا پورا اہتمام کیا اور مزید یہ کہ وہ خود بھی قرآن کے جید عالم ہیں، اس لیے کئی مقامات پر اپنا ایک مفرد اور مستقل موقف بھی بیان کیا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا فراہی نے اس کام کی بنیادیں فراہم کیں۔ مولانا اصلاحی نے اُنھی پر ایک عمارت اُٹھائی۔ غامدی صاحب نے بھی اس کا ایک حصہ تعمیر کیا اور مزید یہ کہ اس کی تزیین و آرایش کا بھی اچھا خاصا انتظام کیا۔ اور جہاں تک راقم کی اِس تحریر کا معاملہ ہے تو اس کی حیثیت بس اتنی ہے کہ وہ ایک صدی سے زیادہ میں بننے والی اس عمارت میں اور بالخصوص اس کی آخری تعمیر میں، اتفاق سے کچھ دن گزار چکا ہے اور اس کی خوبیوں سے کچھ نہ کچھ واقفیت بھی رکھتا ہے، اس لیے اُس کے دل میں اب یہ شدید تمنا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اس کا خوب خوب چرچا کرے تاکہ وہ سب بھی آئیں، اِس کی سیر دیکھیں اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کا سامان کریں۔