امن وسیم

محفلین
کتاب کا تعارف

قرآن مجید کو اس وضاحت کے ساتھ اتارا گیا ہے کہ یہ سراسر ہدایت اور حق کے معاملے میں پیدا ہو جانے والے اختلافات میں خدا کی آخری حجت ہے۔ اس کی دین میں یہی حیثیت ہے کہ اسے سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کا کام ہر زمانے میں حقیقی مسلمانوں کا ہدف رہا ہے۔ یہ کام شروع دور میں بہت سادہ اور کسی حد تک آسان بھی تھا که لوگ اس کی زبان سے مکمل طور پر آشنا، اس کی آیات کے پس منظر اور جس ماحول میں یہ اُتریں، اُن سے اچھی طرح سے واقف تھے۔ لیکن یہ قدرے مشکل اور پیچیدہ ہوتا چلا گیا جب اس کتاب کے براہ راست مخاطبین اس دنیا میں نہ رہے اور بعد میں آنے والوں کی زبان میں کچھ ناگزیر تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ الفاظ میں متولد مفاہیم پیدا ہوئے تو بعض اسالیب متروک ہو کر نئی نئی صورتوں میں ظاہر ہونے لگے۔ اس سلسلے کی ایک مشکل اُن نومسلموں کے ہاں بھی پیدا ہوئی جو عربی زبان سے قطعی نابلد ہونے کی بنا پر اپنے اور قرآن کے درمیان میں ایک قدرتی حجاب دیکھتے تھے۔ یہ حالات تھے جن میں صاحبان علم کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا که فہم قرآن کے کام کو باقاعدہ علمی طریقے سے انجام دیا جائے ۔ سو اُنھوں نے اسے متعدد زبانوں میں بیان کرنا شروع کیا جو ترجمہ کی ایک مستقل اور شان دار روایت کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔ اس سے پہلے کتاب کا اصل مدعا جاننے کے لیے انھوں نے بہت سی تفسیری کاوشوں کا بھی اہتمام کیا اور اس کے لیے عام طور پر دو طریقوں کو اختیار کیا: ایک یہ کہ اپنی طرف سے کوئی بات کہنے کے بجاے صرف اگلے لوگوں کی آرا کو نقل کر دیا اور دوسرے یہ کہ اصل زبان سے استشہاد کرتے ہوئے اور تاریخ کی حتمی شہادت اور آیات کے بین السطور سے مدد لیتے ہوئے خود اس کے مطالب کو بیان کیا۔ یہ کوششیں بہت سالوں تک اسی طرح ہوتی رہیں اور مسلمانوں کے تفسیری علم میں گراں قدر اضافے کا باعث بنیں۔
تاہم، یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور جلد ہی اپنی فطری صورت سے محروم ، بلکہ بڑی حد تک اس سے اجنبی ہو کر رہ گیا۔ یہ اُس وقت ہوا جب مسلمانوں پر منطق ، فلسفہ اور تصوف اُن کے خارج سے اور بعض فقہی اور کلامی عصبیتیں اُن کے داخل سے اثر انداز ہونا شروع ہوئیں۔ منطق کا غلبہ ہوا تو قرآن کا ایک کلام ہونا اور اس لحاظ سے نطق ہونا، نظروں سے بالکل اوجھل ہو گیا۔ فلسفے کا رواج ہوا تو اس کی سادگی کا حسن گہنا گیا اور یہ کسی کی سمجھ میں نہ آنے والا ایک معمہ اور چیستان بن کر رہ گیا۔ تصوف کے زیر اثر اِس میں سے وہ وہ مضامین ڈھونڈ نکالنے کی سعی ہوئی کہ اس کے الفاظ اپنی حکومت بالکل کھو بیٹھے اور انجام کار ’’باطن‘‘ کے محکوم محض قرار پائے۔ اور گروہی تعصبات نے تو اس معاملے میں قیامت ہی برپا کر دی کہ آیات کو اُن کے اصل مفہوم سے یک سر غیر متعلق کیا اور انھیں بے کار کی بحثوں میں اپنی تائید اور دوسروں کی مخالفت کا ایندھن بنا کے رکھ دیا۔
حالات کے اس تناظر میں پچھلی صدی میں بعض اہم پیش رفت ہوئیں۔ ہندوستان میں قرآن کے ایک بہت بڑے عارف، حمید الدین فراہی، خدا کی اس کتاب پر تان دیے گئے پردوں کو ہٹانے کا گویا عزم لے کر پیدا ہوئے۔ وہ اس طرح کہ زندگی بھر یہ کتاب اُن کی مساعی کا ہدف رہی۔وہ اسی کی خاطر جیے، بلکہ صحیح لفظوں میں کہا جائے تو وہ جتنی عمر جیے، اسی کے اندر جیے۔ خدا کی طرف سے بھی یہ انعام ہوا کہ اُس نے اپنی کتاب کو سمجھنے کا فطری منہاج اُن پر بالکل کھول دیا۔ اُنھوں نے اِس کے لیے کچھ اصول مرتب کیے اور بعض سورتوں کی تفسیر بھی لکھی۔ اُن کے یہی مرتب کردہ اصول تھے جن کی روشنی میں مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’تدبرقرآن‘‘ کے نام سے پورے قرآن پر کام کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مولانا کے پیش نظر چونکہ ان اصولوں کی روشنی میں تفسیر کرنے کا صحیح طریق واضح کر دینا تھا، اس لیے اُن کا انہماک زیادہ تر تفسیر میں رہا اور وہ ترجمہ پر زیادہ توجہ نہ دے سکے۔ محترم جاوید احمد غامدی نے ’’البیان‘‘ لکھی تو اسی کام کو آگے بڑھایا اور ترجمے میں بھی ان اصولوں کی رعایت کرنے کا پورا پورا اہتمام کیا اور مزید یہ کہ وہ خود بھی قرآن کے جید عالم ہیں، اس لیے کئی مقامات پر اپنا ایک مفرد اور مستقل موقف بھی بیان کیا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا فراہی نے اس کام کی بنیادیں فراہم کیں۔ مولانا اصلاحی نے اُنھی پر ایک عمارت اُٹھائی۔ غامدی صاحب نے بھی اس کا ایک حصہ تعمیر کیا اور مزید یہ کہ اس کی تزیین و آرایش کا بھی اچھا خاصا انتظام کیا۔ اور جہاں تک راقم کی اِس تحریر کا معاملہ ہے تو اس کی حیثیت بس اتنی ہے کہ وہ ایک صدی سے زیادہ میں بننے والی اس عمارت میں اور بالخصوص اس کی آخری تعمیر میں، اتفاق سے کچھ دن گزار چکا ہے اور اس کی خوبیوں سے کچھ نہ کچھ واقفیت بھی رکھتا ہے، اس لیے اُس کے دل میں اب یہ شدید تمنا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اس کا خوب خوب چرچا کرے تاکہ وہ سب بھی آئیں، اِس کی سیر دیکھیں اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کا سامان کریں۔
 

امن وسیم

محفلین
کتاب لکھنے کی وجہ

دو وجوہات ہیں کہ ہم نے غامدی صاحب کی ’’البیان‘‘ پر لکھنے کا اِرادہ کیا ہے: ایک اس وجہ سے کہ ترتیب میں مؤخر ہونے کی بنا پر یہ مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کے کام کی مکمل اور آخری صورت ہے اور اس لیے اس کی خصوصیات بھی بڑی حد تک اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ دوسرے اس وجہ سے کہ ہمارے پیش نظر اصل میں ترجمہ پر لکھنا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ’’البیان‘‘ ہی وہ کتاب ہے جس میں ترجمہ مکمل طور پر فراہی اصولوں کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ مزید یہ بات بھی سامنے رہے کہ اس تحریر میں ہم چاہیں بھی تو اس کے تمام خصائص و امتیازات کا جائزہ نہیں لے سکتے، اس لیے ہم صرف چند چیزوں کے بارے میں اپنی گزارشات پیش کریں گے، جیسا که حروف، الفاظ، اسالیب اور اس میں پائی جانے والی توضیحات کے بارے میں۔ البتہ، ہم یہ کوشش ضرور کریں گے کہ ان چیزوں کو اس طرح سے ترتیب دیں کہ قرآن کو طالب علمانہ طرز سے پڑھنے والے حضرات کے لیے یہ ایک معاون کتاب کی صورت بھی اختیار کر جائے۔

( رضوان ٱللَّه )
 

امن وسیم

محفلین
باب اول

حروف

حرف آپس میں مل کر لفظ بناتے ہیں۔۱؂ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ لفظوں کا محض ایک جز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ لفظوں کے ساتھ جڑ کر اور جملوں کے ساتھ مل کر آتے ہیں اور اُس وقت اپنا ایک مستقل مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ کلام کی معنویت چونکہ بہت کچھ ان کے فہم پر منحصر ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ انھیں سمجھنے اور دوسری زبان میں منتقل کرنے کا کام بہت زیادہ احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔ یہ کام ’’البیان‘‘ میں کس قدر احتیاط کے ساتھ کیا گیا ہے، ذیل میں چند حروف کے بارے میں کیا گیا کلام اس کی کافی دلیل ہو سکتا ہے۔

’’ف‘‘ کے ترجمے - ۱

یہ حرف قرآن میں کثرت سے استعمال ہوا ہے اور اپنے اندر بہت سے معانی لیے ہوئے ہے ۔ قدیم تراجم میں اسے عام طور پر ’’پس‘‘ سے بیان کیا جاتا ہے اور نسبتاً نئے ترجموں میں ’’سو‘‘ اور ’’تو‘‘ سے۔ ان میں سے ’’پس‘‘ عربی زبان کی ’’ف‘‘ ہی کی طرح معنی و مفہوم کی بہت سی جہتیں رکھتا ہے اور اپنے اندر یہ صلاحیت بھی رکھتا ہے کہ ’’ف‘‘ کو بڑی حد تک بیان کر دے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ آج کے قاری کے لیے اس کے تمام پہلوؤں کا اِدراک کرنا اور صرف اس ایک لفظ سے کلام میں موجود مختلف معانی کو اخذ کر لینا اب کسی طرح بھی ممکن نہیں رہا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ’’سو‘‘ اور ’’تو‘‘ کا بھی ہے۔ چنانچہ اس صورت احوال میں لازم ہو جاتا ہے کہ ہم کسی آیت میں’’ ف‘‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے اردو کے وہی الفاظ استعمال کریں جو اُس مقام میں اُس سے مراد لیے گئے ہوں۔ ہمارے خیال کے مطابق ’’البیان‘‘ میں چند دوسرے تراجم کی طرح ، بلکہ اس سے کچھ مزید بڑھ کر اس ضرورت کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔ ذیل میں ہم ’’البیان‘‘ میں کیے گئے ’’ف‘‘ کے مختلف ترجموں کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں:

۱۔ البتہ

وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا. وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ھَضْمًا.(طٰہٰ۲۰: ۱۱۱۔ ۱۱۲)
’’اس دن نامرادی ہے اُن کے لیے جو ظلم کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں۔ اِس کے برخلاف جو نیک عمل کرے گا اور اس کے ساتھ ایمان بھی رکھتا ہو گا، اُس کو البتہ اُس دن کسی حق تلفی اور کسی زیادتی کا اندیشہ نہ ہو گا۔‘‘


مذکورہ آیت میں ’فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا‘ کی ’’ف‘‘ کا ترجمہ عام طورپر ’’تو‘‘ اور ’’سو‘‘ سے کیا گیا ہے۔ اس سے عام قارئین پر یہ بالکل بھی واضح نہیں ہو پاتا کہ یہ جملہ ’قَدْ خَابَ‘ کے تقابل میں آنے کی وجہ سے اپنے اندر مقابلے کا مفہوم اور ایک طرح کی تاکید بھی رکھتا ہے۔
ان کے بجاے’’ البتہ‘‘ کا لفظ، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بڑی آسانی سے ان دونوں پہلوؤں کو بیان کر رہا ہے۔

۲۔ لیکن

حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ. فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.(البقرہ ۲: ۲۳۸۔ ۲۳۹)
’’اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص اُ س نماز کی جو درمیان میں آتی ہے ،اور اللہ کے حضور میں نہایت ادب کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔پھر اگر خطرے کا موقع ہو تو پیدل یا سواری پر، جس طرح چاہے پڑھ لو۔ لیکن جب امن ہو جائے تو اللہ کو اُسی طریقے سے یاد کرو جو اُس نے تمھیں سکھایا ہے ، جسے تم نہیں جانتے تھے۔‘‘


ان آیات کا اصل مدعا یہ ہے کہ نمازوں کی حفاظت کی جائے اور انھیں خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے۔ پھر خوف کی حالت میں ایک رخصت کا بیان کر کے ’فَاِذَآ اَمِنْتُمْ‘ کے الفاظ میں اصل مدعا کی پھر سے تاکید کر دی گئی ہے۔ اس ’’ف‘‘ کے لیے زیادہ تر مترجمین نے ’’پھر‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ’’البیان‘‘ میں ’’لیکن‘‘ کا لفظ آیا ہے جو بخوبی بتا رہا ہے کہ یہ رخصت اصل حکم میں محض استثنا کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ یہ اصل حکم کی اہمیت کو نظروں سے اوجھل بھی نہیں ہونے دے رہا۔

۳۔ تاہم

فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْبَتَھَا م نَبَاتًا حَسَنًا.(آل عمران ۳: ۳۷)
’’تاہم اُس کے پروردگار نے اُس لڑکی کو بڑی خوشی کے ساتھ قبول فرمایا اور نہایت عمدہ طریقے سے پروان چڑھایا۔‘‘


حضرت مریم کی والدہ نے اپنا بچہ خدا کے لیے وقف کرنے کی نذر مانی۔ توقع کے برعکس، ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تو انھیں اس بات کا کچھ ملال ہوا که وہ بیٹے کے بجاے اُسے وقف کر رہی ہیں۔ مگر خدا نے اسی بیٹی کو قبول فرمایا اور بڑی اچھی طرح سے قبول فرمایا۔ اسی بات کو ’فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ‘ کے جملے میں بیان کیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہاں ’’ف‘‘ کا ترجمہ ’’تاہم‘‘ کے لفظ سے کرنا بڑا معنی خیز ہے اور والدۂ مریم کے اِس تردد، اور اس کے باوجود خدا کی طرف سے ہونے والی قبولیت کو خوب خوب بیان کر رہا ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
’’ف‘‘ کے ترجمے - ۲

۴۔ اچھا تو

فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ.(البقرہ ۲: ۲۶۰)
’’اچھا، تو چار پرندے لے لو، پھر اُن کو اپنے ساتھ ہلا لو۔‘‘

سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خدا سے درخواست کی کہ مجھے دکھائیں کہ آپ مردوں کو کس طرح سے زندہ کریں گے؟ فرمایا: کیا تم ایمان نہیں رکھتے ؟ عرض کیا: ایمان تو رکھتا ہوں، لیکن خواہش ہے کہ میرا دل پوری طرح سے مطمئن ہو جائے۔ اس پر فرمایا ہے کہ اگر تم ایمان رکھتے ہو اور محض شرح صدرکے لیے یہ دیکھنا چاہتے ہو تو یوں کرو کہ ..... اور اس ساری بات کے لیے یہاں صرف ’’ف‘‘ کو استعمال کیا ہے۔ اب دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ ’’ پس‘‘ اور ’’پھر‘‘ کے مقابلے میں ’’البیان‘‘ میں لائے گئے ’’اچھا، تو‘‘ کے الفاظ اس بات کو کس خوب صورتی سے ادا کر رہے ہیں۔
ایک مقام پر ’’ف‘‘ کا ترجمہ انھی ’’اچھاتو‘‘ کے الفاظ میں کیا ہے ، مگر اس سے کلام کے ایک اور پہلو کو کھولا ہے:

وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَفَلَمْ تَکُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ فَاسْتَکْبَرْتُمْ وَکُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ.(الجاثیہ ۴۵: ۳۱)
’’رہے وہ جنھوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا، اُن سے کہا جائے گا: اچھا تو میری آیتیں کیا تمھیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں؟ مگر تم نے تکبر کیا اور تم مجرم لوگ تھے۔‘‘


یہ آخرت کے دن کا بیان ہے۔ یہاں ’’اچھاتو‘‘ کے الفاظ ایک تو منکروں کی طرف خدا کے اُس التفات کو بیان کر رہے ہیں جس کے بعد اُن سے شدید باز پرس ہوا چاہتی ہے، اور دوسرے اُس تردید کو بھی بیان کر رہے ہیں جو خدا کی طرف سے اُن کی متوقع معذرتوں پر کی گئی ہے۔

۵۔ اچھا

فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ.(الاعراف ۷: ۷۱)
’’اچھا، انتظارکرو، میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔‘‘


حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوت توحید کو اس طرح سے پیش کیا که ان سے خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔ قوم نے پھر بھی ماننے سے انکار کیا تو اُن کے ایمان سے قطعی مایوس ہو کر اور کچھ دھمکی آمیز اسلوب میں فرمایا ہے: ’فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ‘۔ ’’البیان‘‘ میں یہاں ’’ف‘‘ کا ترجمہ’’ اچھا‘‘ کے لفظ سے کیا گیا ہے اور ہمارے خیال میں مایوسی اور دھمکی کے ان دو پہلوؤں کو بہت واضح طور پر بیان کر رہا ہے۔

۶۔ آخرکار

فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا.(الاعراف ۷: ۷۲)
’’آخرکار ہم نے اُس کو اور اُنھیں جو اُس کے ساتھ تھے، اپنی رحمت سے بچا لیا۔‘‘


یہ سیدنا ہود علیہ السلام کی سرگذشت کا آخری جملہ ہے۔ کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد اُن کی دھمکی کے واقع ہو جانے اور جس مقصد سے یہ سرگذشت سنائی گئی ہے، اُسے بیان کرنے کے لیے یہاں ’’ف‘‘ لائی گئی ہے۔ ’’آخرکار‘‘ کا لفظ اصل میں انھی دو نکتوں کا نہایت بلیغ بیان ہے۔

۷۔ اب

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَصَدَفَ عَنْھَا.(الانعام ۶: ۱۵۷)
’’اب اُن سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلاؤ دیں اور اُن سے منہ موڑیں۔‘‘


قریش سے فرمایا ہے کہ ہم نے یہ کتاب اس لیے اُتاری ہے کہ مبادا تم کہو که کتاب تو ہم سے پہلے کے دو گروہوں پر اتاری گئی تھی اور ہم اُن کے پڑھنے پڑھانے سے بالکل بے خبر تھے۔ یا کہو کہ اگر ہم پر کتاب اتاری جاتی تو ہم اُن سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے۔ سو تمھارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح حجت اور ہدایت و رحمت تمھارے پاس آ گئی ہے ۔اس کے بعد فرمایا ہے: ’فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ‘۔ یہاں ’’ف‘‘ کا مطلب یہی ہے کہ اس کتاب کے آ جانے کے بعد تمہارے سب عذر ختم ہو گئے ہیں، چنانچہ جو اب بھی اسے جھٹلا دے گا، آخر اُس سے بڑا ظالم کون ہو گا۔ ’’اب‘‘ کا لفظ اسی مطلب کو ادا کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔
بعض مقامات پر موقع کلام اور فعل کے تکمیلی پہلو کی رعایت کرتے ہوئے اسی ’’اب‘‘ کے ساتھ کچھ اور لفظوں کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔جیسا کہ مثال کے طور پر ’’اب ذرا‘‘ اور ’’اب جاؤ‘‘ وغیرہ:

فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ.(البقرہ ۲: ۲۵۹)
’’اب ذرا اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کو دیکھو، اِن میں سے کوئی چیز سڑی نہیں۔‘‘
فَافْعَلُوْا مَاتُؤْمَرُوْنَ.(البقرہ ۲: ۶۸)
’’اب جاؤ اور وہ کرو جس کا تمھیں حکم دیا جا رہا ہے۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
’’ف‘‘ کے ترجمے - ۳

۸۔ اُس وقت

ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ.(الانعام ۶: ۱۶۴)
’’پھر تمھارے پروردگار ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے۔ اُس وقت وہ تمھیں بتا دے گا جس چیز میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘

یہاں ’’ف‘‘ کا ترجمہ عام طور پر ’’پھر‘‘ سے کیا گیا ہے۔ اس کے بجاے ’’اُس وقت‘‘ کے الفاظ اس اعتبار سے بہت بہتر ہیں کہ یہ اُس کے ظر ف ہونے کو بھی بیان کر رہے ہیں اور معنی میں اس سے پچھلے جملہ کے ’’ثم‘‘، یعنی ’’پھر‘‘ سے اس کے مختلف ہونے کو بھی نمایاں کر رہے ہیں۔ ’’ف‘‘ کے اس ظرفیہ استعمال کی اور بھی کئی مثالیں قرآن میں موجود ہیں، جیساکہ مثال کے طوپر:

لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ.(الفتح ۴۸: ۱۸)
’’اللہ ایمان والوں سے راضی ہو گیا، جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے، اُس وقت اللہ نے جان لیا جو کچھ اُن کے دلوں میں تھا تو اُس نے اُن پر طمانیت اتار دی۔‘‘


۹۔ پھر یہی نہیں

فَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَاُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمَالَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ. (آل عمران ۳: ۵۶)
’’پھر یہی نہیں، اِن منکروں کو میں دنیا اور آخرت ، دونوں میں سخت سزا دوں گا، اور وہ کوئی مددگار نہ پائیں گے ۔‘‘

یہاں بنی اسرائیل کے انکار کے نتیجے میں خدائی دینونت کے ظہور کا اعلان ہوا ہے۔ یعنی، اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان لوگوں سے الگ کر کے اپنے پاس لے جائے گا اور ماننے والوں کو اُن کے منکروں پر غلبہ عطا کرے گا اور آخرت میں ان سب کے اختلافات کی حقیقت بھی کھول دے گا۔ اور صرف یہی نہیں ہو گا، بلکہ منکروں کو دنیا اور آخرت، دونوں میں عذاب اور ماننے والوں کو اُن کی محنت کا صلہ بھی عطا کرے گا۔ ’فَاَمَّا الَّذِیْنَ‘ کے ’’ ف‘‘ کا ترجمہ ’’پھر یہی نہیں‘‘ کے الفاظ میں کریں تو یہ ساری بات ادا ہو جاتی ہے۔ اس کے بجاے ’’سو‘‘ لایا جائے تو اصل بات کسی طرح بھی واضح نہیں ہو پاتی اور اگر ’’پھر‘‘ لایا جائے تو سرے سے اصل مدعا ہی خراب ہو جاتا ہے۔

۱۰۔ مگر

وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَفَلَمْ تَکُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ فَاسْتَکْبَرْتُمْ وَکُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ. (الجاثیہ ۴۵: ۳۱)
’’رہے وہ جنھوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا، اُن سے کہا جائے گا: اچھا تو میری آیتیں کیا تمھیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں؟ مگر تم نے تکبر کیا اور تم مجرم لوگ تھے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کا منکرین سے یہ پوچھنا کہ تمھیں میری آیتیں کیا پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں؟ استفسار کے لیے نہیں، بلکہ اقرار کے لیے ہو گا۔مطلب یہ ہو گا که تمھیں میری آیتیں واقعتا پڑھ کر سنائی جاتی تھیں۔ چنانچہ اس کے بعد ’فَاسْتَکْبَرْتُمْ‘ کی ’’ف‘‘ کا ترجمہ ’’مگر‘‘ سے کرنا ہی زیادہ موزوں ہو سکتا ہے جو اس بات کو بھی بیان کر رہا ہے کہ اُن پر یہ آیتیں یقیناً پڑھ کر سنائی جاتی تھیں اور اُس ملامت کو بھی بیان کر رہا ہے جو ان آیتوں کے مقابلے میں استکبار کرنے پر اُنھیں کی جا رہی ہے۔

۱۱۔ اس لیے

وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْمِنُوْنَ.(البقرہ ۲: ۸۸)
’’اور انھوں نے کہا: ہمارے دلوں پر غلاف ہیں۔نہیں، بلکہ اِن کے اس کفر کی وجہ سے اللہ نے اِن پر لعنت کر دی ہے، اس لیے اب یہ کم ہی مانیں گے۔‘‘



یہود نے مسلسل انکار کی روش اختیار کی تو اس کی پاداش میں خدا کی طرف سے اُن پر لعنت کر دی گئی۔ ہم جانتے ہیں کہ اس لعنت کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ملعونین ایمان لانے سے یک سر محروم ہوجاتے ہیں، چنانچہ فرمایا ہے: ’فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْمِنُوْنَ‘۔ اس لیے اب یہ کم ہی مانیں گے۔ یہاں ’’ف‘‘ کو ’’اس لیے‘‘ کے الفاظ میں بیان کرنا، اس اعتبار سے زیادہ صحیح ہے کہ لعنت اور ایمان سے مستقل محرومی ۲؂ کے درمیان میں جو سبب اور مسبب کا تعلق پایا جاتا ہے، یہ اُسے بہت اچھی طرح سے واضح کر دیتا ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
’’ف‘‘ کے ترجمے - ۴

۱۲۔ اس کے باوجود

اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ.(البقرہ ۲: ۷۵)
’’اس کے باوجود، (مسلمانو)، کیا تم ان سے یہ توقع رکھتے ہو که یہ تمھاری بات مان لیں گے۔‘‘


اس مقام پر یہود کے ہاں دینی امور میں پائے جانے والے گریز اور اُن کی سرکشی کا بیان ہوا ہے۔ اس دوران میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ‘۔ دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ یہاں ’’ف‘‘ کا ترجمہ ’’اس کے باوجود‘‘ کے الفاظ میں ادا کرنا بہت زیادہ مناسب ہے اور مسلمانوں کو اُن کی سادہ لوحی پر بہت اچھے طریقے سے متنبہ کر رہا ہے جو یہود کے اِس منفی رویے کے باوجود اُن سے بعض مثبت امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔

۱۳۔ اس پر بھی

فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ.(البقرہ ۲: ۱۸۴)
’’اس پر بھی جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے۔‘‘


ایمان والوں پر روزے فرض کیے گئے ہیں تاکہ اُن میں اللہ کا ڈر پیدا ہو۔ روزہ اپنی ذات میں ایک پابندی کا نام ہے جو بالعموم نفس پر شاق گزرتی ہے، چنانچہ فرمایا ہے کہ یہ بہت زیادہ نہیں، بلکہ گنتی کے چند روز ہیں۔ مزید یہ کہ کسی معقول عذر کی وجہ سے اگر یہ مقررہ دنوں میں نہ رکھے جا سکیں تو دوسرے دنوں میں رکھ لیے جائیں ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہاں ’’ف‘‘ کا ترجمہ ’’اس پر بھی‘‘ کے الفاظ میں کرنا، جس طرح روزوں کے متعلق رعایت کے پہلو کو بیان کر رہا ہے ، اسی طرح روزوں میں پائی جانے والی مشقت کے ہلکے پن کی طرف اشارہ کر کے ہمیں اُن کی ترغیب بھی دے رہا ہے۔
یہ اسلوب اُن مقامات پر بھی آیا ہے جہاں کچھ حرمتوں سے باز رہنے کاحکم دیا ہے اور مقصد یہی ہے کہ ان احکام میں پائی جانے والی نرمی کو نمایاں کیا جائے۔ جیسا که مثال کے طور پر جب مردار، خون، سؤر کا گوشت اور غیرالله کے نام کا ذبیحہ حرام قرار دیا تو اسی ’’ف‘‘ کو استعمال کیا ہے اور ’’البیان‘‘ میں وہاں بھی اس کا ترجمہ ’’اس پربھی‘‘ کے الفاظ ہی سے کیا گیا ہے:

فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ.(البقرہ ۲: ۱۷۳)
’’اس پر بھی جو مجبور ہو جائے، اس طرح کہ نہ چاہنے والا ہو، نہ حد سے بڑھنے والا تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘


۱۴۔ اِس طرح

فَرَجَعْنٰکَ اِلآی اُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَےْنُھَا وَلَا تَحْزَنَ.(طٰہٰ ۲۰: ۴۰)
’’اِس طرح ہم نے تم کو تمھاری ماں کی طرف لوٹا دیا که اُس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور اُس کو غم نہ رہے۔‘‘


حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے خدا سے الہام پا کر اُنھیں دریا کے حوالے تو کر دیا، مگر اپنے بچے سے یہ دوری برداشت کرنا اُن کے لیے کوئی آسان ہدف نہ تھا۔ سو خدا نے اپنی تدبیر سے کچھ ایسے انتظامات کیے کہ یہ سب دوریاں ختم ہو گئیں۔ ان انتظامات کی تفصیل ذکر کرنے کے بعد ان کا نتیجہ یوں بیان فرمایا ہے: ’فَرَجَعْنٰکَ اِلٰی اُمِّکَ‘۔ ’’اس طرح‘‘ کے الفاظ اصل میں اسی نتیجے کو بیان کر رہے ہیں۔
قرآن میں اس ’’ف‘‘ کو اور بھی کئی مقامات پر لایا گیا ہے، جیسا که مثال کے طور پر یہ آیت:

وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ.(البقرہ ۲: ۵۰)
’’اور یاد کرو، جب ہم نے تمھیں ساتھ لے کر دریا چیر دیا اور اِس طرح تمھیں بچالیا۔‘‘


۱۵۔ ورنہ

وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ.(الاعراف ۷: ۱۹)
’’ہاں ، البتہ تم دونوں اِس درخت کے پاس نہ جانا، ورنہ ظالم ٹھیرو گے۔‘‘


حضرت آدم سے کہا گیا ہے کہ وہ اور ان کی بیوی اس باغ میں رہیں اور اس میں سے جہاں سے چاہیں، کھائیں۔ ہاں، ان پر ایک پابندی ضرور ہے کہ وہ اس درخت کے پاس نہ جائیں۔ ’فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘ کہ اس کی خلاف ورزی پر وہ خدا کے ہاں ظالم قرار پائیں گے۔ اس پابندی اور خلاف ورزی کی صورت میں نکلنے والے اس کے نتیجے کو ’’ورنہ‘‘ کا یہ لفظ ’’پس‘‘ یا ’’پھر‘‘ کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح سے ادا کر رہا ہے۔
ذیل کی اس آیت میں بھی ’’ف‘‘ اسی مفہوم کے لیے آیا ہے:

وَ لَا تَمَسُّوْھَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَ کُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(الاعراف ۷: ۷۳)
’’اور کسی برے ارادے سے اِس کو ہاتھ نہ لگانا، ورنہ ایک دردناک عذاب تمھیں آ پکڑے گا۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
’’ف‘‘ کے دیگر ترجمے

⭕۱۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہَُ فَلَیْسَ مِنِّیْ.(البقرہ ۲: ۲۴۹)
’’اس کی صورت یہ ہو گی کہ جو اِس کا پانی پیے گا، وہ میرا ساتھی نہیں ہے۔‘‘

طالوت جب اپنی افواج کو لے کر نکلے تو اُنھوں نے لوگوں کو بتایا کہ اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایک ندی کے ذریعے سے تمھارا امتحان کرے گا۔ اس امتحان کی صورت کیا ہو گی؟ کہا: ’فَمَنْ شَرِبَ مِنْہَُ فَلَیْسَ مِنِّی‘۔ یہ ’’ف‘‘ تفصیل کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس کا ترجمہ ’’ اس کی صورت یہ ہو گی‘‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔

⭕۲۔ وَاِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا.(البقرہ ۲: ۶۰)
’’اور یاد کرو، جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا: اپنی لٹھیا اِس پتھر پر مارو۔ (اُس نے ماری) تو اُس سے بارہ چشمے بہ نکلے۔‘‘

’فَانْفَجَرَتْ‘ کی اس ’’ف‘‘ سے پہلے جو نحویوں کے ہاں فاے فصیحہ کہلاتی ہے، کوئی بات محذوف مانی جاتی ہے۔ ’’البیان‘‘ میں پہلے اُس بات یعنی، ’’اُس نے ماری‘‘ کو ظاہر کیا گیا ہے اور پھر ’’تو‘‘ کے ساتھ اُس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔

⭕۳۔ قَالَ اَلَا تَاْکُلُوْنَ. فَاَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃً.(الذاریات ۵۱: ۲۷۔ ۲۸)
’’اُس نے کہا: کیوں آپ کھاتے نہیں؟ پھر (اُن کے تردد کو دیکھ کر) اُس نے اپنے دل میں اُن سے کچھ اندیشہ محسوس کیا۔‘‘

’فَاَوْجَسَ‘ کی یہ ’’ف‘‘ اپنے ما قبل سے سبب کا تعلق رکھتی ہے ، مگر اسے سادہ انداز میں بیان کیا جائے تو کچھ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ’’سو‘‘ یا ’’پھر‘‘ وغیرہ سے ترجمہ کریں تو اس میں ترتیب یا تعقیب کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے جو یہاں بالکل بھی مقصود نہیں۔ اور اگر ’’اس پر‘‘ وغیرہ کے الفاظ لائیں تو ان سے سبب تو واضح ہو جاتا ہے، مگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس سوال کہ ’’آپ کھاتے کیوں نہیں؟‘‘ اور اس بات کے درمیان میں کہ ’’اس نے اپنے دل میں اُن سے کچھ اندیشہ محسوس کیا‘‘، کوئی سبب واضح نہیں ہو پاتا۔ ’’البیان‘‘ میں اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ ’’پھر‘‘ کا لفظ لا کر ’’اُن کے تردد کو دیکھ کر‘‘ کا وہ فقرہ بھی لکھ دیا گیا ہے جو پچھلے جملوں سے خودبخود مفہوم ہو رہا ہے۔
اس سے کچھ ملتی جلتی مثال یہ آیت بھی ہے:

فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَۃً.(النساء ۴: ۲۴)
’’پھر (اِس سے پہلے اگر مہر ادا نہیں کیا ہے تو) جو فائدہ اُن سے اٹھایا ہے ، اُس کے صلے میں اُن کا مہر اُنھیں ادا کرو، ایک فرض کے طور پر۔‘‘

’فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ‘ کے اس ’’ف‘‘ میں بھی سابقہ جملوں سے مترشح ہونے والا ایک مفہوم مضمر ہے۔ دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ جب اسے کھول دیا گیا تو اس کے نتیجے میں وہ ساری بحث سرے سے ختم ہو گئی جو آیت کے الفاظ اور سیاق و سباق سے صرف نظر کرتے ہوئے بعض حضرات نے یہاں پیدا کر لی ہے۔

⭕ ۴۔ فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ.(الدخان ۴۴: ۵۸)
’’سو (اِنھیں اِسی قرآن سے یاددہانی کرتے رہو، اے پیغمبر، اس لیے کہ ) ہم نے تو اِس کو تمھاری زبان میں نہایت موزوں بنایا ہے، اِسی لیے کہ یہ یاد دہانی حاصل کریں۔‘‘

یہ ’’ف‘‘ پچھلی کسی ایک بات پر نہیں ، بلکہ پورے سلسلۂ کلام پر آ گئی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ’’ف‘‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے کچھ ایسی وضاحت بھی کر دی جائے جو پچھلے سارے مضمون کے ساتھ اس کے اتصال کو بیان کر دے۔

⭕۵۔ فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِیْ صَرَّۃٍ فَصَکَّتْ وَجْھَھَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ.(الذاریات ۵۱: ۲۹)
’’اُس کی بیوی یہ سن کر حیرانی کے عالم میں آگے بڑھی، اپنا ماتھا پیٹا اور بولی: بڑھیا بانجھ، (اب جنے گی)؟‘‘

یہاں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ ’’ف‘‘ کا ترجمہ ضرور ہی کیا جائے، یہ ہر صورت میں لازم نہیں ہوتا۔ بعض اوقات اردو کے جملوں کی ترکیب خود ہی اسے بیان کر رہی ہوتی ہے ۔ ایسے میں لفظی ترجمہ پر اصرار کیا جائے تو کلام کی روانی میں خلل واقع ہوتا اور اس کی خوب صورتی بھی بڑی حد تک متاثر ہوتی ہے۔ چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اسی لیے ’فَصَکَّتْ وَجْھَھَا‘ کے ’’ف‘‘ کا لفظی ترجمہ چھوڑ دیا گیا ہے۔

________

۱؂ یاد رہے کہ اس تحریر میں ہم حرف اور لفظ کا باہمی فرق اردو زبان کے لحاظ سے کر رہے ہیں، وگرنہ عربی کی نحو میں حرف کو بھی لفظ ہی کہا جاتا ہے۔
۲؂ یاد رہے، یہاں ’’کم ہی مانیں گے‘‘ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کے ایمان کی کچھ نہ کچھ توقع بہرحال ابھی پائی جاتی ہے ۔ بلکہ یہ کسی چیز کی مطلق نفی کرنے کا ویسا ہی اسلوب ہے ، جیسا که ہم کسی کی بےجا حرکتوں کو دیکھ کر اس سے بالکل مایوس ہو جائیں اور کہیں کہ اس کے سدھرنے کا اب کم ہی اِمکان ہے۔

____________
 

الف عین

لائبریرین
یہ آپ کی ہی کتاب ہے؟ اندازہ تو یہی ہے کہ پوری کتاب یہاں کسی فائل سے کاپی پیسٹ کی جا رہی ہے
اگر کسی ویب سائٹ سے مستعار ہے تو مکمل حوالہ دیں۔ ورنہ مجھ کو تو مکمل کتاب ایک ساتھ ای میل سے یا ذاتی پیغام میں بھیج دیں برقی کتابوں کے لیے
 

امن وسیم

محفلین
یہ آپ کی ہی کتاب ہے؟ اندازہ تو یہی ہے کہ پوری کتاب یہاں کسی فائل سے کاپی پیسٹ کی جا رہی ہے
اگر کسی ویب سائٹ سے مستعار ہے تو مکمل حوالہ دیں۔ ورنہ مجھ کو تو مکمل کتاب ایک ساتھ ای میل سے یا ذاتی پیغام میں بھیج دیں برقی کتابوں کے لیے
یہ میری کتاب نہیں ہے۔ رضوان اللہ صاحب کی ہے جن کا ذکر کتاب کے تعارف (کتاب لکھنے کی وجوہ) میں ہوا ہے۔ یہ کتاب ابھی نامکمل ہے۔
جس ویب سائٹ سے اسے لیا گیا ہے اس کا ایک لنک بھیج رہا ہوں باقی حصوں کو وہاں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
http://www.javedahmadghamidi.com/ishraq/view/al-bayan-khasais-o-imtiazaat-one-one
 

الف عین

لائبریرین
گویا اشراق میں قسط وار چھپ رہی ہے یہ کتاب اور میری طرح ایک برقی کتاب بنانے کی کوشش آپ کی بھی ہے۔ لیکن کیوں کہ یہ فورم ہے اس لیے حوالے کے بغیر یہی سمجھا جائے گا کہ آپ کی ہی تحریر ہے
 

امن وسیم

محفلین
’واو‘‘

’’واو‘‘ کا حرف بھی قرآن میں کثرت سے استعمال ہوا ہے ۔ اسے مترجمین بالعموم ’’اور‘‘ کے لفظ سے ادا کرتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے درست ہے کہ عربی کے ’’واو‘‘ کی طرح یہ بھی اپنے اندر معنی و مفہوم کی بہت سی وسعتیں رکھتا ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں کو اپنی گرفت میں لے لینا، ایک عام قاری کے بس کی بات نہیں۔ چنانچہ قرآن کے اصل فہم کو ترجمے میں منتقل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ’’ واو‘‘ جس مقام پر جس معنی میں استعمال ہوا ہو، وہاں اُسی معنی کو ادا کرنے والے اردو کے الفاظ لائے جائیں۔ ’’البیان‘‘ میں یہ اہتمام کس قدر کیا گیا ہے، ذیل کی چند مثالیں بڑی حد تک اسے بیان کر دیتی ہیں:

’’واو‘‘ کے مختلف ترجمے - ۱

۱۔ ہاں

وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا.(النساء ۴: ۵)
’’ہاں، اِس سے فراغت کے ساتھ اُن کو کھلاؤ، پہناؤ اور اُن سے بھلائی کی بات کرو۔‘‘


یتیموں کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر وہ نادان اور بے سمجھ ہوں تو اُن کا مال اُن کے حوالے نہ کرو۔ اس ہدایت کا منشا یہ بالکل نہیں تھا کہ اُن کی واجبی ضروریات کو بھی پورا نہ کیا جائے، چنانچہ اصل حکم پر استدراک کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوھُمْ‘۔ یعنی، جہاں تک اُن کی ضروریات کا تعلق ہے تو انھیں فراغت کے ساتھ پورا کرو۔ یہاں ’’واو‘‘ کا ترجمہ ’’ اور‘‘ کے لفظ سے کریں تو یہ مدعا کسی طرح بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کے مقابلے میں ’’ہاں‘‘ کا لفظ آسانی سے اس مشکل کو حل کر دیتا ہے۔
’’البیان‘‘ میں بعض مقامات پر کلام کی مناسبت سے اس’’ہاں‘‘ میں مزید لفظوں کا اضافہ بھی کیا گیا ہے، جیسا کہ ’’ہاں،البتہ‘‘ یا ’’اورہاں‘‘ وغیرہ:

وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ.(الاعراف ۷: ۱۹)

’’ہاں، البتہ تم دونوں اِس درخت کے پاس نہ جانا، ورنہ ظالم ٹھیرو گے۔‘‘


یہاں ’’ہاں‘‘ کے ساتھ ’’البتہ‘‘ کا استعمال درخت کے پاس نہ جانے کے حکم میں پائی جانے والی ایک طرح کی تاکید کو بیان کر رہا ہے۔

وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ. (البقرہ ۲: ۱۸۷)
’’اور ہاں، تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو (رات کو بھی) بیویوں کے پاس نہ جانا‘‘


’وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ‘ کا ’’واو‘‘ اُس بات میں استثنا کو بیان کر رہا ہے جو کئی جملے پیچھے مذکور ہوئی ہے اور اس کے بعد اس کی بعض ضمنی تفصیلات آ گئی ہیں۔ چنانچہ بہتر یہی تھا کہ ’’ہاں‘‘ لا کر جس طرح استثنا کو بیان کیا جائے، اسی طرح ’’اور‘‘ لا کر اُس دور پڑی ہوئی بات کو ذرا قریب بھی کر دیا جائے۔

۲۔ بلکہ

اُولٰٓئِکَ لَاخَلَاقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(آل عمران ۳: ۷۷)
’’اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ، اور الله قیامت کے دن نہ اُن سے بات کرے گا، نہ اُن کی طرف نگاہ التفات سے دیکھے گا اور نہ اُنھیں (گناہوں سے) پاک کرے گا، بلکہ وہاں اُن کے لیے ایک دردناک سزا ہے۔‘‘


جنھوں نے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے میں دنیا کے مفادات کو ترجیح دی ہے ، ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ اُنھیں آخرت میں کوئی فائدہ نہ ملے گا، بلکہ یہ سب ملنا تو بہت دور کی بات: ’وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘، اُنھیں تو وہاں درد ناک عذاب بھگتنا ہو گا۔ دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ ’’اور‘‘ کے بجاے ’’بلکہ‘‘ کا استعمال اس ساری بات کو کس خوبی سے ادا کر رہا ہے۔
بعض مقامات پر ’’بلکہ‘‘ کے ساتھ اِس ’’واو‘‘ سے پہلے کی بات کو بھی دہرا دیا گیا ہے اور اس سے کلام کی معنویت اور زیادہ کھل گئی ہے اور وہ قریب الفہم بھی ہو گیا ہے:

وَلَوْلَآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِھِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَیْھَا یَظْھَرُوْنَ. وَلِبُیُوْتِھِمْ اَبْوَابًا وَّسُرُرًا عَلَیْھَا یَتَّکِئُوْنَ.وَزُخْرُفًا.(الزخرف ۴۳: ۳۳- ۳۵)

’’اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا که سب لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے (اور کوئی ایمان پر نہیں رہے گا) تو جو لوگ خداے رحمن کے منکر ہو رہے ہیں، اُن کے گھروں کی چھتیں ہم چاندی کی کر دیتے اور زینے بھی جن پر وہ چڑھتے اور اُن کے گھروں کے دروازے اور اُن کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے، بلکہ (چاندی ہی نہیں)، سونے کے بھی۔‘‘

۳۔ اب

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ.(الاعراف ۷: ۲۳)
’’دونوں بول اٹھے: پروردگار، ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے، اب اگر تو ہماری مغفرت نہ فرمائے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم ضرور نامراد ہو جائیں گے۔‘‘

یہ آدم و حوا کی توبہ کے الفاظ ہیں۔ اُنھوں نے پہلے اعتراف کیا ہے کہ ہم نے غلطی کا ارتکاب کیا اور اس طرح اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ پھر عرض کیا ہے: ’وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا‘۔ اِس ’’واو‘‘ کا ترجمہ ’’اور‘‘ کے بجاے ’’ اب‘‘ کے لفظ سے کریں تو غلطی کے بعد اُن کی پشیمانی اور اس کے بعد اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دینا، یہ دونوں ہی جہتیں بڑی خوب صورتی کے ساتھ ادا ہو جاتی ہیں۔
 

امن وسیم

محفلین
’’واو‘‘ کے مختلف ترجمے - ۲


۴۔ اس کے برخلاف

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ.(النمل ۲۷: ۱۵)
’’اس کے برخلاف ہم نے داؤد اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایا تھا، (مگر وہ ہمارے حضور جھکتے ہی چلے گئے) اور اُنھوں نے کہا: شکر ہے اللہ کے لیے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔‘‘


پہلے فرعون اور اُس کی قوم کا ذکر کیا ہے جن کے ظلم اور گھمنڈ کی وجہ سے اُن پر خدا کا عذاب نازل ہوا۔ اس کے بعد حضرت داؤد اور سلیمان کا ذکر کیا جو خدا کی نعمتوں کو پا کر کسی تکبر میں مبتلا نہیں ہوئے، بلکہ اُس کا حد درجہ شکر ادا کرنے والے ہوئے۔ ان دو رویوں کے باہم مختلف ہونے کو واضح کرنے کے لیے ’’البیان‘‘ میں ’وَلَقَدْ‘ کے واو کا ترجمہ ’’اس کے برخلاف‘‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے اور ہمارے خیال میں یہی زیادہ صحیح ہے ۔
’’البیان‘‘ میں’’واو‘‘کے اس ترجمہ کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، اس لیے کہ قرآن میں اِنذار اور بشارت کے نقطۂ نظر سے اکثر دو باہم متضاد معاملات زیر بحث آتے ہیں۔

۵۔ لیکن

قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌم بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ.(البقرہ ۲: ۲۱۷)
’’کہہ دو که اِس میں قتال بڑی ہی سنگین بات ہے، لیکن اللہ کی راہ سے روکنا اور اُس کو نہ ماننا اور بیت الحرام کا راستہ لوگوں پر بند کرنا اور اُس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا الله کے نزدیک اِس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔‘‘


حرام مہینوں میں قتال کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ہے کہ ان میں قتال کرنا واقعتا سنگین بات ہے ۔ اس کے بعد استدراک کرتے ہوئے فرمایا هے: ’وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ...‘ یعنی، جو رویہ مشرکین نے اختیار کر رکھا ہے، وہ تو اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ یہاں ’’واو‘‘ کا ترجمہ ’’اور‘‘ سے کریں تو یہ مضمون کچھ ہلکا سا ہو جاتا ہے ، مگر اس کے مقابلے میں ’’لیکن‘‘ کا لفظ اسے پوری شدت کے ساتھ بیان کر رہا ہے۔
اگر استدراک کی اس ’’واو‘‘ کو نہ سمجھا جائے اور اسے ادا کرنے کے لیے لفظ بھی’’اور‘‘ ہی کا استعمال میں لایا جائے تو بعض اوقات اصل مدعا نظروں سے اوجھل ہو جاتا، حتیٰ کہ بعض صورتوں میں بالکل خلط ملط ہو کر رہ جاتا ہے، جیسا کہ اس آیت میں:

وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ.(النساء ۴: ۱۱)
’’لیکن ترکے کا چھٹا حصہ، (اس سے پہلے) میت کے والدین میں سے ہر ایک کو ملنا چاہیے، اگر اُس کی اولاد ہو۔‘‘


مترجمین نے عام طور پر اس ’’واو‘‘ کوعطفِ جمع کی واو سمجھا اور اس کا ترجمہ بھی اس لحاظ سے ’’اور‘‘ کے لفظ کے ساتھ کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وراثت کی بعض صورتوں میں وہ الجھنیں پیدا ہوئیں جو خدا کے مقرر کردہ حصوں میں کمی بیشی کیے بغیر کسی طرح سلجھ نہیں سکیں۔ ’’البیان‘‘ میں کیے گئے ’’لیکن‘‘ کے ترجمہ سے کوئی الجھن سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتی کہ اِس’’ لیکن‘‘ کا یہ ناگزیر تقاضا ہے کہ ترکے میں سے والدین کے حصے بچوں کو مال دینے سے پہلے ہی نکال لیے جائیں۔
بعض مقامات پر یہ ’’واو‘‘ استدراک کے ساتھ ساتھ حال کے مضمون پر بھی محیط ہو جاتی ہے۔ اس طرح کے مواقع پر ’’لیکن‘‘ کے ساتھ کچھ مقدر مفہوم کا اضافہ کر کے اسے بیان کیا گیا ہے، جیسا که مثال کے طور پر اس آیت میں:

فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ رَّبُّکُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ وَلَا یُرَدُّ بَاْسُہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ.(الانعام ۶: ۱۴۷)

’’اس کے بعد بھی اگر وہ تمھیں جھٹلائیں تو کہہ دو که تمھارے پروردگار کی رحمت میں بڑی وسعت ہے، لیکن (اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اُس کی دی ہوئی مہلت ختم ہو گئی تو) مجرموں سے اُس کا عذاب ٹالا نہ جا سکے گا۔‘‘


۶۔ جب کہ

قَالَ رَبِّ اَ نّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّا.(مریم ۱۹: ۸)
’’اُس نے عرض کیا: پروردگار، میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا، جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں۔‘‘


’وَّکَانَتِ امْرَاَتِی عَاقِرًا‘۔ یہ ’’واو‘‘ حال کے لیے آئی ہے اور اس کے لیے ’’اور‘‘ کا لفظ اب کچھ زیادہ فصیح نہیں رہا۔ ’’البیان‘‘ میں اس کے لیے موقع و محل کی مناسبت سے ایک سے زیادہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ زکریا علیہ السلام کو جب لڑکے کی بشارت دی گئی تو اسے مان لینے میں اُنھیں کچھ تردد لاحق ہوا کہ اُن کے ظاہری حالات اِس بشارت کے بالکل بھی موافق نہیں تھے۔ اُن کے اِس تردد اور بظاہر ناممکن حالات کے بیان کو ان دونوں کے درمیان میں ’’جب کہ‘‘ کے الفاظ لا کر ہی بہتر طور پر ادا کیا جا سکتا تھا۔

۷۔ دراں حالیکہ

وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ.(النساء ۴: ۴۶)
’’دراں حالیکہ اگر وہ ’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘، ’اسْمَعْ‘ اور ’انْظُرْنَا‘ کہتے تو اُن کے لیے بہتر ہوتا اور موقع و محل کے مطابق بھی۔‘‘


یہود میں سے کچھ لوگ دین میں طعن کرنے کے لیے رسول اللہ کی مجلس میں بعض لفظوں کو توڑ موڑ کر بولتے تھے۔ اُن کے بارے میں فرمایا ہے: ’وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا‘ ۔یہ ’’واو‘‘ بھی حال کے لیے ہے اور اس کا ترجمہ ’’دراں حالیکہ‘‘ کے لفظ سے کرنے میں یہ خوبی ہے کہ یہود کے اس گروہ کے لیے ایک مناسب اور بہتر رویے پر تشویق واضح کی جائے اور ان پر اس حسرت کا اظہار بھی کیا جائے کہ وہ تو کتاب کے حاملین ہونے کی وجہ سے اس بات کے سزاوار تھے کہ دین میں طعن کرنے کے بجاے آگے بڑھ کر اسے قبول کرنے والے ہوتے ۔
 

امن وسیم

محفلین
’واو‘‘ کے مختلف ترجمے - ۳

۸۔ حقیقت یہ ہے کہ

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ.(الانفال ۸: ۲۹)
’’ایمان والو، اگر تم خدا سے ڈرتے رہے تو وہ تمھارے لیے فرقان نمایاں کرے گا اور تمھارے گناہ تم سے جھاڑ دے گا اور تمھاری مغفرت فرمائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘

اس آیت میں مومنین سے تقویٰ کی شرط پر بعض انعامات کے وعدے فرمائے ہیں اور پھر تقویٰ کی طرف راغب کرنے اور ان وعدوں کو مزید مؤکد کرنے اور یہ بتانے کے لیے کہ اُس کی رحمتوں کو صرف ان وعدوں تک محدود نہ سمجھ لیا جائے، فرمایا ہے: ’وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ‘۔ ’’البیان‘‘ میں حال کی اس ’’واو‘‘ کا ترجمہ ’’حقیقت یہ ہے کہ‘‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے جس سے یہ سارے مقاصد بڑی حد تک ادا ہو جاتے ہیں۔
بعض مقامات پر ’’حقیقت یہ ہے کہ‘‘ کے ساتھ کسی اور لفظ کا اضافہ بھی کیا گیا ہے اور بعض مواقع پر اس کے ساتھ کسی مقدر مفہوم کو بھی کھول دیا گیا ہے، جیسا که ذیل کی یہ آیتیں:

اُنْظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَکَفٰی بِہٖٓ اِثْمًا مُّبِیْنًا.(النساء ۴: ۵۰)
’’انھیں دیکھو، (اپنے دعووں سے) یہ اللہ پر کیسا افترا باندھ رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ صریح گناہ ہونے کے لیے تو یہی کافی ہے۔‘‘

یہاں ’’اور‘‘ کا لانا اس لیے بھی ضروری تھا که اُن کے جرم کی شناعت اور خدا کی طرف سے اُس کے اظہارمیں پائی جانے والی مبادرت کو بھی ظاہر کیا جائے۔

وَعَلَی اللّٰہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْھَا جَآءِرٌ وَلَوْ شَآءَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ.(النحل ۱۶: ۹)
’’اللہ تک سیدھی راہ پہنچاتی ہے، جب کہ راہیں ٹیڑھی بھی ہیں۔ (اب تمھیں اختیار ہے کہ جو راہ چاہے، اختیار کرو)، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو (اُسی ایک راہ کی) ہدایت دے دیتا۔‘‘

یہاں ’’ورنہ‘‘ اور اس سے پہلے مقدر جملہ اس لیے نکالا گیا ہے تاکہ پچھلی بات پر ’وَلَوْ شَآءَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ‘ کاعطف موزوں ہو سکے۔

۹۔ اور اس طرح

الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ.(البقرہ ۲: ۲۷)
’’جو اللہ کے عہد کو اُس کے باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور الله نے جس چیز کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ، اُسے کاٹتے ہیں ، اور اس طرح زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔‘‘

اس آیت میں اللہ کے عہد کو توڑنے اور رحمی رشتوں کو کاٹ دینے کا یہ نتیجہ بیان ہوا ہے کہ زمین میں فساد برپا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’وَیُفْسِدُوْنَ‘ کے ’’واو‘‘ کا ترجمہ ’’اور اس طرح‘‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے ۔ اس کے بجاے اگر ’’اور‘‘ سے ترجمہ کیا جاتا تو فساد فی الارض پہلی دو باتوں کا نتیجہ ہونے کے بجاے تین کا تیسرا ہو کر رہ جاتا۔
یہی ’’واو‘‘ ذیل کی آیت میں بھی آئی ہے:

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.(البقرہ ۲: ۱۲۹)
’’پروردگار، اور اُنھی میں سے تو اُن کے اندر ایک رسول اٹھا جو تیری آیتیں اُنھیں سنائے اور اُنھیں قانون اور حکمت سکھائے اور اس طرح اُنھیں پاکیزہ بنائے۔‘‘

تزکیہ اصل میں کتاب و حکمت کی تعلیم کا لازمی نتیجہ ہے، نہ کہ اس سے الگ دین کا ایک مقصد۔ ’وَیُزَکِّیْھِمْ‘ کی ’’واو‘‘ کا ترجمہ بھی’’اور اس طرح سے‘‘ کے الفاظ میں کریں تو دین اُس آمیزش سے بالکل پاک ہو جاتا ہے جو تزکیے کے نام پر غیر اسلامی نظریات کو اس میں داخل کر کے کی گئی ہے۔
’’اور اس طرح ‘‘ کے الفاظ بعض مقامات پر نتیجے کی ’’واو‘‘ کے بجاے تفصیل کی ’’واو‘‘ کے لیے بھی لائے گئے ہیں، جیسا که اس آیت میں:

نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ. (الزخرف ۴۳: ۳۲)
’’دنیا کی زندگی میں ان کی معیشت کا سامان تو ان کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور اس طرح تقسیم کیا ہے کہ ایک کے درجے دوسرے پر بلند رکھے ہیں‘‘

۱۰۔ اور اس کے لیے

اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْکًا.(العنکبوت ۲۹: ۱۷)
’’تم اللہ کو چھوڑ کر محض بتوں کو پوج رہے ہو اور اس کے لیے جھوٹ گھڑتے ہو۔‘‘

سیدنا ابراہیم اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ تم اللہ جیسی ہستی کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کر رہے ہو جن کے بارے میں واضح ہے کہ وہ تمھارے رزق پر کوئی اختیار نہیں رکھتے ، چنانچہ اپنے اس شرک کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے تم اُن کے بارے میں اپنی طرف سے باتیں گھڑ لیتے ہو۔ ایک مقصد کو پانے اور اس کے لیے کوئی تدبیر کرنے کے لیے ’’واو‘‘ کا یہی استعمال ہے جسے ’’البیان‘‘ میں ’’اور اس کے لیے‘‘ کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔
ذیل کی آیت میں بھی اس ’’واو‘‘ کا صحیح ادراک اور اسی لحاظ سے اس کا صحیح ترجمہ ایک اور طریقے سے اُس بدعت پر خط تردید پھیر دیتا ہے جو تزکیے کے نام پر، افسوس یہ کہ دین میں راہ پا گئی ہے:

ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ.(الجمعہ ۶۲: ۲)
’’اُسی نے امیوں کے اندر ایک رسول اُنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُس کی آیتیں اُنھیں سناتا اور اُن کا تزکیہ کرتا ہے، اور اس کے لیے اُنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
"واو" کے مختلف ترجمے - ۴


۱۱۔ یعنی

وَاِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ.(البقرہ ۲: ۵۳)
’’اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب، یعنی (حق و باطل کے لیے) فرقان عطا فرمائی، اس لیے کہ (اس کے ذریعے سے) تم ہدایت حاصل کرو۔‘‘

قرآن میں انبیاے کرام پر اترنے والی کتابوں کے متعلق یہ صراحت فرمائی گئی ہے کہ وہ اختلافات کو ختم کرنے کے لیے آتی ہیں۔ تورات کی بھی یہی حیثیت تھی جسے یہاں ’الْفُرْقَان‘ کے لفظ اور تفسیرکے ’’واو‘‘ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا ترجمہ ’’یعنی‘‘ کے لفظوں میں کرنا، نہایت برمحل اور اصل مدعا کو بہت زیادہ واضح کر دینے والا ہے۔
ذیل کی یہ آیت بھی اس واو کو ’’یعنی‘‘ کے لفظ سے ادا کرنے کی ایک اچھی مثال ہے:

وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ.(آل عمران ۳: ۴۸)
’’اور اللہ اُسے قانون اور حکمت سکھائے گا، یعنی تورات و انجیل کی تعلیم دے گا۔‘‘

چونکہ تورات میں زیادہ تر قانون بیان ہوا ہے اور انجیل میں حکمت کی باتیں، اس لیے انھیں بالترتیب قانون اور حکمت سے تعبیر کر لیا گیا ہے۔
تفسیر کے اس ’’واو‘‘ کو اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے تو قرآن کے قاری پر اس کے فہم کی ایک نئی دنیا کھل جاتی ہے، جیسا کہ اس آیت میں:۳؂

وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ.(الحجر ۱۵: ۸۷)
’’ہم نے تم کو سات مثانی، یعنی قرآن عظیم عطا کر دیا ہے۔‘‘

بعض مقامات پر اس ’’واو‘‘ کو ’’یعنی‘‘ کے لفظ میں ادا کرنے سے وہ بے سود بحثیں بالکلیہ ختم ہو جاتی ہیں جو گروہی تعصبات کی وجہ سے قرآن میں پیدا کر لی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ آیت:

قَدْْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ.(المائدہ ۵: ۱۵)
’’تمھارے پاس یہ اللہ کی طرف سے ایک روشنی آ گئی ہے، یعنی ایک ایسی کتاب جو (دین و شریعت سے متعلق ہر چیز کو) واضح کر دینے والی ہے۔‘‘

۱۲۔ ’’واو‘‘ کے دیگر ترجمے

۱۔ وَاَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ.(القصص ۲۸: ۲۳)
’’اور (اس کام کے لیے ہمیں ہی آنا پڑتا ہے، اس لیے کہ) ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں۔‘‘

’’البیان‘‘ میں بعض مواقع پر یہ التزام کیا گیا ہے کہ ’’واو‘‘ کا ترجمہ ’’اور‘‘ کے لفظ میں کرتے ہوئے اُس کے ساتھ مقدر بات کو بھی ظاہر کر دیا جائے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے کنویں پر کھڑی ہوئی عورتوں سے کہا: ’مَا خَطْبُکُمَا‘۔ اُنھوں نے دو باتوں سے متعلق استفسار کیا: ایک یہ کہ تم عورتیں ہو کر یہاں کیوں آئی ہو؟ اور دوسرے یہ کہ اگر تم آ گئی ہو تو اب اپنے گلے کو روک کر کیوں کھڑی ہو؟ انھوں نے جواب میں کہا که ہم چرواہوں کی اِس بھیڑ میں اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں، اس لیے انھیں روک کر کھڑی ہیں۔ اور ہم خود یہاں اس لیے آئی ہیں کہ: ’وَاَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ‘۔ ’’البیان‘‘ کے ترجمے میں ’’اور‘‘ کا لفظ بتا رہا ہے کہ یہ سوال کے دو پہلوؤں میں سے ایک کا جواب ہے اور مقدر جملہ اُس مطابقت کو بیان کر رہا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے سوال اور عورتوں کی طرف سے دیے گئے جواب کے درمیان میں پائی جاتی ہے۔

۲۔ وَاَقْبَلَ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآءَ لُوْنَ.(الصافات ۳۷: ۲۷)
’’اُس وقت ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے کہ باہم سوال و جواب کریں۔‘‘

پچھلی آیتوں میں آخرت کا منظر بیان ہوا ہے جب مجرموں اور اُن کے ساتھیوں اور اُن کے باطل معبودوں کو دوزخ کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔ ’وَاَقْبَلَ بَعْضُھُمْ‘ کی ’’واو‘‘ اِن آیتوں سے مفہوم ہونے والے ظرف کو بیان کر رہی ہے، چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اس کا ترجمہ ’’اُس وقت‘‘ کے لفظوں میں کیا گیا ہے۔

۳۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا کَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَکُوْنَ. وَاِذَا مَرُّوْا بِہِمْ ےَتَغَامَزُوْنَ. وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلآی اَھْلِھِمُ انْقَلَبُوْا فَکِھِیْنَ.(المطففین۸۳: ۲۹۔۳۱)
’’(وہ بھی دن تھے کہ) یہ مجرم ایمان والوں پر ہنستے تھے، جب اُن کے پاس سے گزرتے تو آنکھوں سے اشارے کرتے تھے، جب اپنے لوگوں میں پلٹتے تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے تھے۔‘‘

’’البیان‘‘ میں کئی مقامات پر ’’واو‘‘ کا ترجمہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہاں کلام اسے خود ہی ادا کر رہا ہوتا ہے۔ یہاں اسی لیے ’وَاِذَا مَرُّوْا بِہِمْ‘ اور ’وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا‘ کے ’’واو‘‘ کا ترجمہ نہیں کیا گیا اور اگر ایسا کیا جاتا تو کلام کی روانی میں حد درجہ خلل آتا اور اس میں بننے والی تصویر ایک سے زائد تصویروں میں تبدیل ہو جاتی۔

۴۔ وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ.(العنکبوت۲۹: ۵۳)
’’یہ تم سے عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں۔‘‘

بعض اوقات یہ ’’واو‘‘ محض عطفِ جملہ کی ہوتی ہے ، اس لیے یہ ضروری نہیں ہوتا که اس کا لفظوں میں ترجمہ کیا جائے۔

________

۳؂ اس آیت کی تفصیل کے لیے ’’البیان‘‘ میں لکھی ہوئی تفسیر کی مراجعت کی جا سکتی ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
’’تنوین‘‘

تنوین بھی ایک حرف ہے کہ اسے نحوی حضرات ’’ن‘‘ کا قائم مقام قرار دیتے ہیں۔ یہ اصل میں تنکیر کے لیے آتی ہے، مگر کلام عرب میں اس سے بعض دوسرے معانی کو بھی ادا کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک معنی تفخیم شان کا بھی ہے اور اس کا ترجمہ عام طور پر اس کے صرف ایک پہلو کے لحاظ سے کیا جاتا ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ’’البیان‘‘ میں تفخیم کی اس تنوین کا ترجمہ ہر جگہ ایک سا نہیں کیا گیا که مختلف مقامات پر اس کے مختلف پہلو مراد ہوا کرتے ہیں، مثلاً:

’’تنوین‘‘ کے مختلف مفہوم - ۱

۱۔ عظمت

سُوْرَۃٌ اَنْزَلْنٰھَا وَفَرَضْنٰھَا وَاَنْزَلْنَا فِیْھَآ اٰیٰتٍ م بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ.(النور ۲۴: ۱)
’’یہ ایک عظیم سورہ ہے جس کو ہم نے اتارا ہے اور اس کے احکام (تم پر) فرض ٹھیرائے ہیں اور اس میں نہایت واضح تنبیہات بھی اتاری ہیں تاکہ تم یاد رکھو۔‘‘

یہاں ’سُوْرَۃٌ‘ کی تنوین اصل میں اس کی عظمت اور اہمیت کے اظہار کے لیے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے اور اس حذف سے مقصودیہ ہے کہ ساری توجہ خبر پر مرکز ہو کر رہ جائے۔ مزید یہ کہ اگلے جملے، جیسا که اسے ہم نے اتارا ہے، اس کے احکام فرض ٹھیرادیے ہیں ، اس میں نہایت واضح تنبیہات اتار دی ہیں؛ ان سب سے بھی ’سُوْرَۃٌ‘ کے اس لفظ میں عظمت و اہمیت کا پہلو پیدا ہو گیا ہے۔ چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اس کا ترجمہ ’’ایک عظیم سورہ‘‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔

۲۔ برتری

بَلْ قَالُوْٓا اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَآءَ نَا عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلآی اٰثٰرِھِمْ مُّھْتَدُوْنَ.(الزخرف ۴۳: ۲۲)
’’ہرگز نہیں، بلکہ یہ تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک برتر طریقے پر پایا ہے اور ہم اُنھی کے قدم بہ قدم ٹھیک راستے پر چل رہے ہیں۔‘‘

عرب کے لوگ صرف اس لیے شرک کو اپنا دین قرار نہیں دیتے تھے کہ یہ اُن کے باپ دادا کا طریقہ تھا، بلکہ وہ اُسے حق بھی سمجھتے تھے۔آیت میں ’وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِھِمْ مُّھْتَدُوْنَ‘ کے الفاظ بھی یہی بات بتا رہے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہاں ’اُمَّۃٍ‘ کی تنوین محض تنکیر کے لیے نہیں آئی ، جیسا که عام طور پر مترجمین نے سمجھا ہے ، بلکہ یہ اُن کے اُس زعم کو بیان کرنے کے لیے آئی ہے جس کے مطابق شرک ہی بہتر اور سب سے بڑھ کر دین تھا۔ یہی وجوہ ہیں کہ ’’البیان‘‘ میں اسے ’’برتر‘‘ کے لفظ میں ادا کیا گیا ہے۔

۳۔ خوبی

وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِسَیْنَآءَ تَنْبُتُ م بِالدُّھْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰکِلِیْنَ.(المومنون ۲۳: ۲۰)
’’اسی طرح وہ درخت بھی اگایا ہے جو طور سینا سے نکلتا ہے ۔ وہ روغن لیے ہوئے اگتا ہے اور (روغن کی صورت میں) کھانے والوں کے لیے ایک اچھا سالن بھی۔‘‘



یہاں خدا کی طرف سے کیے گئے ربوبیت کے بے مثل انتظام کو بیان کیا جا رہا ہے۔ امتنان کے اس پہلو کا لحاظ رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت محض روغن زیتون کے سالن ہونے کا بیان نہیں ، بلکہ اِس سالن کے ایک بڑی اچھی نعمت ہونے کا بیان ہے۔ ان آیات کے مخاطبین کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں کہ اُن کے ہاں یہ روغن سالن کے طور پر استعمال ہوتا اور بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا اور اسے ایک مقوی غذا بھی قرار دیا جاتا تھا۔ ’صِبْغٍ‘ کی تنوین اصل میں اِس کی انھی خوبیوں کا بیان ہے ، اور اسی وجہ سے ’’البیان‘‘ میں اس کا ترجمہ ’’ایک اچھا سالن‘‘ کیا گیا ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
’’تنوین‘‘ کے مختلف مفہوم - ۲

۴۔ ہولناکی

وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا.(النساء ۴: ۳۰)
’’اور یاد رکھو کہ جو لوگ ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کریں گے، اُن کو ہم ضرور ایک سخت بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیں گے۔‘‘


قرآن میں عمل اور جزا کے درمیان میں مشابہت کی بہت سی مثالیں مذکور ہوئی ہیں۔ اس آیت میں اسی اصول پر فرمایا ہے کہ جو ظلم و زیادتی کرتے ہوئے نافرمانی کا ارتکاب کرے گا، اُسے ہم سزا بھی بڑی سخت اور ہولناک دیں گے۔ اس پہلو کا لحاظ کیا جائے تو ’نَارًا‘ کی تنوین سزا کے ہولناک ہونے کا بیان ہے اور اس لفظ کا ترجمہ’’ایک سخت بھڑکتی ہوئی آگ‘‘ کرنا، بہت زیادہ موزوں ہے۔

۵۔ حسن و شان

فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَھُمْ فِیْ رَوْضَۃٍ یُّحْبَرُوْنَ.(الروم ۳۰: ۱۵)
’’پھر جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہوں گے، وہ ایک شان دار باغ میں شاداں فرحاں رکھے جائیں گے۔‘‘


جن لوگوں نے کفر اور تکذیب کی زندگی گزاری ، اُن کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ آخرت کے روز عذاب میں پکڑے ہوئے ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ، مذکورہ آیت میں اُن کے حسن انجام کا بیان فرمایا ہے۔ یہ حسن انجام محض ایک باغ کے بجاے کسی ایسے باغ کا دیا جانا ہی ہو سکتا ہے جو اپنی خوب صورتی اور شان میں بہت زیادہ بڑھا ہوا ہو۔ ’یُحْبَرُوْنَ‘ کے لفظ کی رعایت رہے تو بھی اِس باغ میں یہ وصف آپ سے آپ پیدا ہو جاتا ہے۔ ’رَوْضَۃٍ‘ کی تنوین باغ کے اِسی وصف کا بیان ہے اور ’’البیان‘‘ میں اس کا ترجمہ اسی لیے ’’شان دار باغ‘‘ کے الفاظ میں ہوا ہے۔

۶۔ تکبیر

خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.(العنکبوت ۲۹: ۴۴)
’’زمین اور آسمانوں کو خدا نے برحق پیدا کیا ہے۔ اس میں یقیناً بہت بڑی نشانی ہے ایمان والوں کے لیے۔‘‘


مقصد حق کی تذکیر اور اُس کی طرف رہنمائی کے لیے قرآن میں عام طور پر تین بڑے دلائل کا ذکر کیا جاتا ہے: انفسی، تاریخی اور آفاقی۔ یہاں ان میں سے آخری کا ذکر فرمایا ہے۔ زمین و آسمان کی یہ تخلیق جس طرح قرآن میں ایک بڑی دلیل کے طور پر بیان ہوتی ہے، اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ یہ واقعہ میں بھی بہت بڑی دلیل ہے۔ اس نظر سے دیکھاجائے تو ’لَاٰیَۃً‘ کی تنوین اس دلیل کے بڑے ہونے ہی کا بیان ہے۔
یہ تنوین بعض اوقات تفخیم کے بجاے تحقیر کی ہوتی ہے، مگر ’’البیان‘‘ میں اس کا ترجمہ بھی ہرجگہ ایک سا نہیں کیا گیا:

۷۔ تصغیر

وَلَئِنْ مَّسَّتْھُمْ نَفْحَۃٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَآ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ.(الانبیاء ۲۱: ۴۶)
’’تمھارے پروردگار کے عذاب کا کوئی جھونکا بھی انھیں چھو جائے تو پکار اُٹھیں گے کہ ہاے ہماری بدبختی! بے شک، ہم ہی ظالم تھے۔‘‘


منکرین اللہ کے رسول کا مذاق اڑاتے، اُنھیں عذاب سے خبردار کیا جاتا تو جلدی مچاتے ہوئے خود اس عذاب کی طلب کرتے، یہاں تک کہ اس کے وقوع پر بے تکے سوال اُٹھا دیتے۔ اُن کے اس رویے پر فرمایا ہے کہ خدا کا عذاب تو بہت بڑی چیز ہے ، اُنھیں اگر اس کا ذرا سا جھونکا بھی چھو جائے تو اُن کی یہ ساری مشیخت اور اکڑفوں ختم ہو کر رہ جائے۔ اس روشنی میں دیکھیں تو ’نَفْحَۃٌ‘ کی تنوین یہاں اس جھونکے کا اپنی جسامت میں حقیر ہونا بیان کر رہی ہے۔ ’’البیان‘‘ میں اس کے لیے ’’کوئی جھونکا بھی‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں اور دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ یہ تینوں الفاظ مل کر کس خوب صورتی سے یہ سارا معنی ادا کر رہے ہیں۔
 

امن وسیم

محفلین
’’تنوین‘‘ کے مختلف مفہوم - ۳

۸۔ حقارت

وَّاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَھَقًا.(الجن ۷۲: ۶)
’’اور یہ بھی کہ (انسان کچھ پہلے ہی سرکش تھے، پھر) انسانوں میں سے کچھ احمق ہمارے اِن جنوں میں سے کچھ شریروں کی دہائی دیتے رہے تو اِنھوں نے اُن کی سرکشی بڑھا دی۔‘‘

اس آیت میں انسانوں کی یہ حماقت بیان ہوئی ہے کہ وہ جنوں کی دہائی دیتے رہے اور اس حماقت کا یہ نتیجہ بیان ہوا ہے کہ جن چونکہ خود شریر تھے، اس لیے انھوں نے انسانوں کی سرکشی میں اور اضافہ کر دیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آیت میں ’رِجَالٌ‘ کی تنوین دونوں جگہ تحقیر کے خاص پہلو، یعنی حقارت کے لیے آئی ہے۔ البتہ ، یہ حقارت ’رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ‘ میں انسانوں کی حماقت اور ’رِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ‘ میں جنوں کی شرارت پر پیدا ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس کے لیے’’ احمق‘‘ اور ’’شریر‘‘ کے دو مختلف الفاظ لائے گئے ہیں۔
ذیل کی آیت میں تحقیر کے دونوں پہلو اکٹھے ہو گئے ہیں، یعنی کسی شے کا اپنی جسامت اور اپنی حیثیت ، دونوں میں معمولی درجے کا ہونا اور ’’البیان‘‘ میں انھی دو پہلوؤں کو ’’ذرا سی‘‘ کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے:

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ.(النحل ۱۶: ۴)
’’اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا تو دیکھتے ہو که یکایک وہ ایک کھلا ہوا حریف بن کر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔‘‘

بعض اوقات یہ تنوین تقلیل اور تکثیر کے مضمون کو بھی بیان کرتی ہے:

۹۔ قلت

فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ.(التوبہ ۹: ۱۲۲)
’’مگر ایسا کیوں نہ ہوا که اُن کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت پیدا کرتے ۔‘‘

دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں تھا که وہ تعلیم و تربیت کی غرض سے سب کے سب مدینہ کے لیے نکل کھڑے ہوتے اور نہ دین اسلام کا یہ مزاج ہی ہے کہ وہ ان سب کے نکل آنے پر اصرار کرتا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی ہر جماعت میں سے کچھ لوگ ہی نکلتے۔ آسانی سے سمجھ لیا جا سکتا ہے کہ ’طَآءِفَۃٌ‘ کی تنوین یہاں تقلیل کے لیے آئی ہے جسے ’’کچھ لوگ‘‘ کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔

۱۰۔ کثرت

فَاٰمَنَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ م بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ وَکَفَرَتْ طَّآئِفَۃٌ.(الصف ۶۱: ۱۴)
’’چنانچہ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک بڑا گروہ اپنے کفر پر جما رہا۔‘‘



مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے مددگار بنیں گے تو وہ بھی لازماً اُن کی مدد کرے گا، جیسا که ایک زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری اللہ کے مددگار بنے اور اس کے باوجود که بنی اسرائیل میں سے بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے تھے، اللہ نے اُنھیں ان کے دشمنوں پر غالب کیا۔ اس سیاق میں اور اس کے ساتھ اگر سورہ کے مرکزی مضمون کو بھی سامنے رکھا جائے تو آیت میں اول الذکر ’طَآئِفَۃٌ‘ کی تنوین تو تقلیل کے لیے ہے ، مگر ثانی الذکر ’طَآئِفَۃٌ‘ کی تنوین تکثیر کے لیے آئی ہے ، چنانچہ اس کا ترجمہ ایک ’’بڑا گروہ‘‘ کیا گیا ہے۔
تنوین سے کسی شے کی تعمیم بھی مراد لی جاتی ہے:
 

امن وسیم

محفلین
’’تنوین‘‘ کے مختلف مفہوم - ۴

۱۱۔ تعمیم

وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ. وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ. وَشَاھِدٍ وَّ مَشْھُوْدٍ.(البروج ۸۵: ۱- ۳)
’’برجوں والا آسمان گواہی دیتا ہے اور وہ دن بھی جس کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے، اور (دنیامیں) ہر دیکھنے والا، (اگر وہ عبرت کی نگاہ سے دیکھے) اور جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے۔‘‘

یہاں قیامت پر استدلال کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے آسمان میں کیے گئے نگرانی کے انتظام اور خود قیامت کے دن کو پیش کیا ہے۔ اسی طرح آفاق میں موجود بے شمار نشانیوں اور اُن سے عبرت حاصل کرنے والے بہت سے لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہ سب گواہی دیتے ہیں کہ قیامت واقع ہو کر رہ ے گی۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو ’شَاھِدٍ‘ اور ’مَشْھُوْدٍ‘ کی تنوین اصل میں تعمیم کی ہیں اور اسی وجہ سے ان کا ترجمہ ’’ہر دیکھنے والا‘‘ اور ’’جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے‘‘ کے الفاظ میں ہوا ہے۔
تنوین کراہت کے لیے بھی آتی ہے اور اس کراہت اور ناپسندیدگی کے بھی ایک سے زائد پہلو مراد ہوا کرتے ہیں:

۱۲۔ اِعراض

قَدْ سَاَلَھَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِھَا کٰفِرِیْنَ.(المائدہ ۵: ۱۰۲)
’’تم سے پہلے ایک قوم نے اِسی طرح کی باتیں پوچھیں، پھر اُنھی کے منکر ہو کر رہ گئے تھے۔‘‘

یہود کے بارے میں فرمایا ہے کہ ایسا بھی ہوا که اُنھوں نے خدا کا حکم سن کر لیت و لعل سے کام لیا اور اُس پر بے جا سوالات پوچھنا شروع کر دیے اور جب خدا کی طرف سے جواب دیا گیا تو پھر بھی مان لینے کے بجاے اُن کا انکار کر دیا۔ یہاں یہود کی قوم کے لیے محض ’قَوْمٌ‘ کا لفظ لایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ متکلم اُن سے اِعراض اور اپنی بے زاری کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ ’’ایک قوم‘‘ کے الفاظ اصل میں اُسی اعراض کا بیان ہیں۔

۱۳۔ نفرت

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْھًا فَنَرُدَّھَا عَلآی اَدْبَارِھَآ.(النساء ۴: ۴۷)
’’اے وہ لوگو، جنھیں کتاب دی گئی، اُس چیز کو مان لو جو ہم نے اُن چیزوں کی تصدیق میں اتاری ہے جو خود تمھارے پاس موجود ہیں۔ مان لو، اس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور اُن کو پیچھے کی طرف الٹ کر برابر کر دیں۔‘‘

اہل کتاب کو وعید سنائی جا رہی ہے کہ انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرنے کا ارادہ کر رکھا هے ، اس لیے اُن کے چہروں پر اب آنکھ اور کان وغیرہ کی گویا ضرورت نہیں رہی اور بہتر یہی ہے کہ ان چہروں کو بالکل سپاٹ بنا دیا جائے۔ یہاں اُن کے چہروں کے لیے ’وجوہہم‘ نہیں، بلکہ ’وُجُوْھًا‘ کہا ہے اور اس تنوین سے مقصود یہ ہے کہ متکلم کو اُن سے صرف بے زاری نہیں، بلکہ اس قدر نفرت ہے کہ اُن کا ذکر کرنا بھی اُسے روا نہیں۔ ’’البیان‘‘ میں اسی نفرت کو ادا کرنے کے لیے چہرے کے ساتھ کسی اور لفظ کو استعمال کرنے کے بجاے محض ’’چہرے‘‘ کا لفظ لایا گیا ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
باب : دوم

الفاظ

لفظ معنی کے اِبلاغ کا ایک موثر ذریعہ ہوتے ہیں۔مخاطَب کی طرف سے دیکھا جائے تو یہ ابلاغ بہت کچھ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ اُن کا مرادی معنی کیا صحیح طور پر متعین کر لیا گیا ہے یا نہیں؟ معمول میں یہ کام انتہائی درجے کی سادگی سے انجام پا جاتا ہے اور اس کے لیے کوئی مشقت اٹھانے کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی۔ البتہ، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس میں کچھ نزاکتیں در آتی ہیں،۴؂ جن کا اگر لحاظ نہ رکھا جائے تو اس بات کا احتمال بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ ابلاغ کے عمل میں کوئی نقص یا اصل مدعا ہی سے قطعی انحراف واقع ہو جائے۔ قرآن بھی الفاظ سے تخلیق پانے والا ایک کلام ہے ، چنانچہ ضروری ہے کہ اس کا ترجمہ کرتے ہوئے بھی اس طرح کی تمام باریکیوں کا خیال رکھا جائے اور اس کے الفاظ کا مرادی معنی معلوم کرنے میں بہت زیادہ اہتمام سے کام لیا جائے۔ ہم اس نظر سے جب ’’البیان‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کچھ باتیں معنی کی تعیین کے اس کام میں اصل اصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور کچھ باتیں وہ ہیں جو اطلاق کی حیثیت رکھتی ہیں، مگر وہ اِس کام کے طریق کو بالکل واضح کر دینے والی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم انھیں اصل اصول اور منہج و طریق کے دو الگ ناموں کے تحت بیان کر سکتے ہیں۔

اصل اصول

اصولی حیثیت کی یہ باتیں قرآن کے ہر ہر لفظ کے ترجمہ میں ملحوظ رکھی گئی ہیں اور یہ تعداد میں چند ایک ہیں، جیسا کہ معروف معنی، صحیح معنی اور قراء تِ عامہ۔

معروف معنی

قرآن واقعہ میں اور خود اپنی شہادت کے مطابق بھی عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔۵؂ یہ حقیقت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اُس کے الفاظ کا ترجمہ اُن کے معروف معنی کے لحاظ سے کیا جائے اور اس عمل میں کسی شاذ مفہوم کو ہرگز راہ نہ دی جائے کہ ایسا کرنا اصل میں اس کلام کی فصاحت اور بلاغت کا انکار کر دینا ہے۔ چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ ہر لفظ سے وہی معنی مراد لیا جائے جو اہل زبان کے ہاں معروف اور عام طور پر جانا پہچانا ہو۔ اس اصول کی مثال میں اس آیت کو دیکھ لیا جا سکتا ہے:

اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ. وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ.(الرحمن ۵۵: ۵۔ ۶)
’’سورج اور چاند ایک حساب سے گردش میں ہیں، اور تارے اور درخت، سب سجدہ ریز ہیں۔‘‘


’النَّجْم‘ سے مراد ستارے ہیں۔ یہاں اس سے بعض مترجمین نے بے تنے کے پودے اور جھاڑ وغیرہ مراد لیے ہیں۔ خاص اس آیت میں معمول سے ہٹ کر معنی لینے کی وجہ یہ ہوئی کہ اُن کے نزدیک ایک تو سورج اور چاند جیسی آسمانی نشانیوں کے بعد اب زمین کی نشانیوں کا ذکر ہے ، اس لیے یہاں ’النَّجْم‘ سے مراد زمین ہی کی کوئی چیز ہونی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ اس کا ’الشَّجَر‘ کے ساتھ مذکور ہونا بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس سے مراد زمین پر پائے جانے والے پودے ہی مراد لیے جائیں اور مزید یہ کہ ’النَّجْم‘ کا ایک مطلب لغت کی کتابوں میں بے تنے کے پودے پایا بھی جاتا ہے۔ اس کے مقابل میں جن حضرات نے اس کا ترجمہ ’’ستارے‘‘ کرنے پر اصرار کیا ہے، اُن کے نزدیک اس کی دلیل صرف یہ ہے کہ قرآن میں الگ سے ستاروں کے سجدہ ریز ہو نے کا ذکر موجود ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ بعض علماے تفسیر کی بھی اس مقام پر یہی راے ہے۔ ’’البیان‘‘ میں بھی اس کا ترجمہ ’’تارے‘‘ کیا گیا ہے، مگر اس کی وجہ کچھ اور نہیں، بلکہ وہی اصول ہے جس کے مطابق ہر لفظ کا صرف معروف معنی مراد لیا جائے گا اور ہم جانتے ہیں کہ عربی زبان میں یہ معروف معنی ستاروں ہی کا ہے۔ باقی جہاں تک درختوں کے ساتھ ان کی مناسبت کا معاملہ ہے تو واضح رہے کہ اس طرح کی باتیں لفظ کی حقیقی مراد کو پا لینے کے بعد ہی زیر بحث آنی چاہییں اور ’’البیان‘‘ میں یہ اسی ترتیب سے زیر بحث آتی بھی ہیں۔
ذیل کی آیات بھی معروف معنی میں ترجمہ کرنے کی اچھی مثال ہیں اور ’’البیان‘‘ میں ان کا ترجمہ کرتے ہوئے ’اِبِل‘ سے اونٹ، ’بَیْض‘ سے انڈے اور ’انْحَرْ‘ سے مراد قربانی لی گئی ہے، نہ کہ بادل، انڈوں کی چھپی ہوئی جھلی اور سینے پر ہاتھ باندھنا جیسے شاذ مفاہیم:

اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ.(الغاشیہ ۸۸: ۱۷)
’’(یہ نہیں مانتے ) تو کیا اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے ہیں؟‘‘
کَاَنَّھُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ.(الصافات ۳۷: ۴۹)
’’گویا کہ (شترمرغ کے) چھپے ہوئے انڈے ہیں۔‘‘
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ.(الکوثر ۱۰۸: ۲)
’’اس لیے تم (اس بیت عتیق میں اب) اپنے پروردگار کی نماز پڑھنا اور اُسی کے لیے قربانی کرنا۔‘‘


یہاں اس بات پر بھی توجہ رہے کہ کسی لفظ کا اہل زبان کے ہاں غیر معروف ہونا، ایک چیز ہے اور اس کا ہماری تفسیر کی کتابوں میں غیر معروف ہو کر رہ جانا، یہ بالکل دوسری چیز ہے۔مثال کے طور پر:

وَالَّذِیْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰی. فَجَعَلَہٗ غُثَآءً اَحْوٰی.(الاعلیٰ ۸۷: ۴۔ ۵)
’’جس نے سبزہ نکالا، پھر اُسے گھنا سر سبز و شاداب بنا دیا۔‘‘


’غُثَآءً اَحْوٰی‘ کا ترجمہ عام طور پر مترجمین ’’سیاہ کوڑا‘‘ کے الفاظ میں کرتے ہیں اور اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ مفسرین کے ہاں ایک تسلسل سے ان الفاظ کایہی معنی بیان کیا گیا، حتیٰ کہ خیال ہونے لگا که یہ اِن الفاظ کا معروف معنی ہے حالاں کہ ’غُثَآء‘ کی حد تک تو صحیح ہے کہ یہ گھنی گھاس کے لیے بھی آ جاتا ہے اور کوڑا کرکٹ اور خس و خاشاک کے لیے بھی، مگر ’اَحْوٰی‘ کا لفظ ہرگز اُس سیاہی کے لیے نہیں آتا جو کسی شے کی بوسیدگی اور پامالی کی وجہ سے اس پر آ جاتی ہے، بلکہ یہ اُس سیاہی مائل سرخی اور سبزی کے لیے معروف ہے جو کسی شے پر اُس کی شادابی اور تازگی کے سبب سے نمایاں ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ ’اَحْوٰی‘ کے معروف معنی کا خیال رہے اور موصوف اور صفت کی باہمی مناسبت کا بھی دھیان رہے تو ’غُثَآءً اَحْوٰی‘ کا ترجمہ اب سیاہ کوڑا کرکٹ کرنے کے بجاے گھنا اور سر سبز و شاداب ہی کرنا چاہیے ، جیسا که ’’البیان‘‘ میں کیا گیا ہے: ’’پھر اُسے گھنا اور سر سبز و شاداب بنا دیا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴؂ جیسا که مثال کے طور پر لفظ کا اصل معنی زیادہ معروف نہ رہے اور ہم اس سے کوئی اور معنی مراد لے بیٹھیں۔ لفظ میں کوئی نیا معنی پیدا ہو جائے اور ہم اُسے ہی متکلم کا منشا قرار دے لیں۔ لفظ ایک سے زائد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہو اور ہم یہ نہ جان سکیں کہ متکلم نے ان میں سے کون سے معنی کا ابلاغ کرنا چاہا ہے۔ یا لفظ ایک جامع مفہوم کا حامل ہو اور ہمیں معلوم نہ ہو سکے کہ سیاق و سباق میں آ کر اس میں کیا تخصیص پیدا ہو گئی ہے ۔

۵؂ الشعراء ۲۶: ۱۹۵۔
 

امن وسیم

محفلین
صحیح معنی - ۱

دوسری چیز جو ’’البیان‘‘ میں اصول کے طور پر ہر آیت کے ترجمے میں کار فرما نظر آتی ہے، وہ غلط معنی سے اجتناب اور صحیح معنی پر مترجم کا اصرار کرنا ہے۔۶؂ معنی کو صحیح قرار دینے کی ایک سے زائد بنیادیں ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں اتارا گیا ہے ۷؂ اور ہم جانتے ہیں کہ آپ کی زبان وہی تھی جو اہل مکہ کے ہاں بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ سو قرآن کے الفاظ کا صحیح مفہوم اب وہی ہو سکتا ہے جس سے اہل مکہ اور بالخصوص قریش کے لوگ واقف ہوں، نہ کہ وہ مفہوم جس کے لیے ہمیں کسی دوسرے مقام اور قبیلے کی زبان سے استدلال لانا پڑے ۔ اور مزید یہ کہ وہ آپ کے زمانے میں سمجھا جانے والا مفہوم ہو، نہ کہ وہ بعد میں اس لفظ کے اندر کسی زمانے میں تولد ہوا ہو۔ اسی طرح مثال کے طور پر، ہمارے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ ہم قرآن کی اتباع کریں، چنانچہ اس لحاظ سے بھی اب صحیح مفہوم وہی ہو سکتا ہے جو قرآن کو موضوعی کے بجاے معروضی انداز میں دیکھنے کے نتیجے میں ہمارے سامنے آئے اور اس پر یہ بھی لازم ہو گا کہ اس عمل میں ہر طرح کی تحقیق اور گہرے غور و خوض کو بھی بروے کار لایا جائے کہ اس کے بغیر ممکن ہے کہ ہم کسی غلط معنی کو لفظ کی اصل مراد قرار دے بیٹھیں۔ چند آیتیوں کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے جن سے یہ اصول بالکل واضح ہو کر ہمارے سامنے آ جائے گا:

۱۔ اہل مکہ کی زبان ہی اس معاملے میں صحیح اور غلط کا معیار ہے، اس کے لیے ذیل کی آیت کا ترجمہ دیکھ لیا جا سکتا ہے:

قَالَ اَحَدُھُمَآ اِنِّیْٓ اَرٰنِیْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا.(یوسف ۱۲: ۳۶)
’’اُن میں سے ایک نے (ایک دن) اُس سے کہا: میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ شراب نچوڑ رہا ہوں ۔‘‘

سیدنا یوسف کے ساتھ قید دو آدمیوں نے آپ سے اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھی۔ ایک نے کہا: میں خواب میں دیکھتا ہوں: ’اَعْصِرُ خَمْرًا‘ (میں خمر نچوڑ رہا ہوں)۔ یہ لفظ اہل مکہ کے ہاں شراب کے لیے عام استعمال ہوتا ہے اور قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی یہ اسی معنی میں آیا ہے، مگر بعض لوگوں کے ہاں جب یہ اُلجھن پیدا ہوئی کہ حقیقت میں تو شراب کے بجاے انگور نچوڑے جاتے ہیں تو اُنھوں نے اِس کا حل یہ نکالا که ’خَمْر‘ کا ترجمہ یہ کہتے ہوئے انگور کر دیا که اسے عُمان میں رہنے والے لوگ اسی معنی میں بولا کرتے ہیں۔ اس کے بر خلاف، ’’البیان‘‘ میں اس اصول کی رعایت سے کہ ترجمہ ہمیشہ اہل مکہ کی زبان کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے گا، اسے انھی لفظوں میں ادا کیا گیا ہے کہ ’’شراب نچوڑ رہا ہوں‘‘ باقی جہاں تک ’شراب‘ کے لفظ میں کسی الجھن کے پیدا ہونے کی بات ہے تو جان لینا چاہیے کہ اس معاملے میں زبان کے ایک معروف قاعدے سے صرف نظر ہو گیا ہے جسے ’تسمیۃ الشيء بما یؤول إلیہ‘ کہا جاتا ہے ، یعنی غایت اور نتیجے کے اعتبار سے کسی لفظ کا استعمال کرنا۔ انگور نچوڑنے کی غایت اگر شراب بنانا ہے تو اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں۔ یہ اسلوب ہماری زبان میں بھی موجود ہے ، جیسا کہ مثال کے طور پر ہم کہیں: ’’مزدور کنواں کھود رہے ہیں۔‘‘ حالاں کہ وہ زمین کھود رہے ہوتے ہیں کہ جس کا مقصد کنواں بنانا ہوتا ہے۔ ’’درزی دلہا کا سوٹ سی رہا ہے۔‘‘ حالاں کہ وہ کپڑے کے پارچے سی رہا ہوتا ہے کہ جس کا مقصد سوٹ تیار کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں: ’’چکی آٹا پیس رہی ہے ۔ ‘‘ حالاں کہ وہ گندم پیس رہی ہوتی ہے کہ جس سے مقصود آٹا حاصل کرنا ہوتا ہے ۔

۲۔ اس معاملے میں قریش کی زبان ہی اصل قرار پائے گی، اس کے لیے ’’البیان‘‘ میں کیا گیا اس آیت کا ترجمہ دیکھ لیا جا سکتا ہے:

وَنَادٰی نُوْحُ نِ ابْنَہٗ.(ہود ۱۱: ۴۲)
’’اور نوح نے اپنے بیٹے کو آواز دی۔‘‘

بعض حضرات نے ایک خود ساختہ اعتراض سے بچنے کی غرض سے یہاں ’ابْنَہٗ‘ کا ترجمہ ’ابن امرأتہ‘ کیا ہے، یعنی نوح نے اپنی بیوی کے بیٹے کو آواز دی اور اس کی دلیل میں کہا ہے کہ قبیلہ طیء کے لوگ ’ابْنَہٗ‘ سے یہی معنی مراد لیتے ہیں، حالاں کہ ہم جانتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ قبیلہ طیء سے تعلق رکھتے تھے اور نہ قرآن ہی اُس قبیلے کی زبان میں اتارا گیا تھا۔

۳۔ لفظ کے اُسی مفہوم کو ترجمہ میں لکھا جائے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس سے سمجھا جاتا رہا ہو نہ کہ اُسے جو بعد میں کہیں جا کر اس کے اندر متولد ہوا ہو، اس کے لیے ذیل کی آیت کا ترجمہ غور طلب ہے:

وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ.(آل عمران ۳: ۷)
’’دراں حالیکہ ان کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘


فرمایا ہے کہ قرآن میں محکمات اور متشابہات، دونوں طرح کی آیات ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ متشابہات کے درپے ہوتے ہیں اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ فتنہ پیدا کریں اور اس کی حقیقت کو جان لیں ، دراں حالیکہ اُن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ قرآن کے زمانۂ نزول میں لفظ ’تَاْوِیْل‘ کا اصل معنی کسی چیز کی حقیقت کو جان لینا تھا اور اس پر قرآن کے دیگر کئی مقامات بھی شاہد ہیں، چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اس کا ترجمہ یہی لکھا گیا ہے اور اُن آرا سے ہرگز کوئی اعتنا نہیں برتا گیا جو اس کا معنی ’’مطلب‘‘ ، ’’مراد‘‘ اور ’’تفسیر‘‘ کرتے ہیں کہ یہ اس لفظ کے سراسر متولد مفاہیم ہیں۔۸؂

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۶؂ یہاں یہ فرق واضح رہے کہ معروف کے مقابلے میں شاذ معنی اپنی حقیقت میں غلط نہیں ہوتا، بلکہ وہ عام طور پر استعمال میں نہیں لایا جاتا، لیکن اس دوسرے اصول کے مطابق جو معنی صحیح کے مقابلے میں آتا ہے ، وہ اصل میں سرے سے غلط ہوتا ہے۔
۷؂ الدخان ۴۴: ۸۵۔
۸؂ بعض اوقات مترجمین لفظ کا معنی تو صحیح لکھ دیتے ہیں، مگر اس سے مراد متولد مفاہیم ہی لیتے ہیں۔ جیسا که مثال کے طور پر ان آیتوں میں عالم، فقہ ، امام اور روح کے الفاظ سے ایک مذہبی عالم، فقہ کاعلم، امامت کا عقیدہ اور یونانی علم کا تصورِ روح مراد لے لینا: ’اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا‘ (فاطر ۳۵: ۲۸)۔ ’فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ‘ (التوبہ ۹: ۱۲۲)۔ ’یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ م بِاِمَامِھِمْ‘ (بنی اسرئیل ۱۷: ۷۱)۔ ’قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۵)۔
 
Top