حجاب
محفلین
[align=right:ea4b8c3067]17 جون 1974 ء۔
آج عفت مر گئی۔
میں اُسے مذاقاً بڑھیا کہا کرتا تھا لیکن جب کنٹربری کاؤنٹی کونسل کے دفتر میں تدفین کا اجازت نامہ حاصل کرنے گیا تو ایک فارم پُر کرنا تھا اس میں مرحوم کی تاریخِ پیدائش بھی درج کرنا تھی ۔جب میں نے اُس کا پاسپورٹ نکال کر پڑھا تو میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔اُس کی عمر تو صرف 41 برس تھی۔
لیکن میرے لئے وہ ہمیشہ " میری بڑھیا “ کی بڑھیا ہی رہی۔کنٹربری اسپتال میں ہم نے اُسے گرم پانی میں آبِ زمزم ملا کر غسل دیا پھر کفنایا اور جب اُسے قبلہ رو کرکے لکڑی کے بنے ہوئے ہلکے بادامی رنگ کے تابوت میں رکھا تو تنویر احمد خان نے بے ساختہ کہا ،ارے ! یہ تو ایسے لگتی ہے جیسے ابھی فرسٹ ائیر میں داخلہ لینے جا رہی ہو ۔
بات بھی سچ تھی جب میں اُسے بیاہ کر لایا تھا تو وہ لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے فائنل ائیر سے نکلی تھی جب میں نے اُسے دفنایا تو واقعی وہ ایسی لگ رہی تھی جیسے ابھی ابھی فرسٹ ائیر میں داخلہ لینے جا رہی ہو ۔درمیان کے اٹھارہ سال اُس نے میرے ساتھ یوں گزارے جس طرح تھرڈ کلاس کے دو مسافر پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوں ۔سامان بُک ہو چکا ہو ۔ٹرین کا انتظار ہو۔اُس کی گاڑی وقت سے پہلے آگئی۔وہ اُس میں بیٹھ کر روانہ ہو گئی ۔میری ٹرین لیٹ ہے ،جب آئے گی میں بھی اُس میں سوار ہوجاؤں گا لیکن سامان کا کیا ہوگا ؟
جو کبھی آگے جاتا ہے اور کبھی پیچھے اور کوئی اُسے وصول کرنے کے لئے موجود نہیں ہوتا ۔لیکن ہمارے سامان میں آخر رکھا کیا ہے ؟ کچھ کاغذ ،ڈھیر ساری کتابیں ،کچھ کپڑے،بہت سے برتن اور گھریلو آرائش کی چیزیں جنہیں عفت نے بڑی محنت سے سیلز میں گھوم گھوم کر جمع کیا تھا اور ایک ثاقب !
لیکن ثاقب کا شمار نہ سامان میں ہوتا ہے نہ احباب میں ۔یہ بارہ سال کا بچّہ میرے لئے ایک دم بوڑھا ہو گیا۔کنٹربری کے قبرستان میں جب مٹی کے گرتے ہوئے ریلوں نے عفت کے تابوت کا آخری کونہ بھی ہماری نظر سے اوجھل کردیا ،تو ہم دونوں جو بڑی بہادری سے کھڑے ہوئے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ،بیک وقت گھاس پر بیٹھ گئے۔ہمارے گُھٹنے ہمارے اندر کے بوجھ سے دب کر اچانک دہرے ہوگئے ۔چند لمحوں کے لئے ثاقب نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ،اُسے زور سے دبایا پھر خاموشی سے چھوڑ دیا۔ہم دونوں نے اب تک ایک دوسرے کے سامنے کبھی آنسو نہیں بہائے ،نہ آئیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے ،لیکن صد حیف ! کہ اب میرے پاس وہ بچّہ نہیں جسے گلے لگا کر میں دھاڑیں مار مار کر روؤں ۔میرے پاس صرف ایک بارہ سال کا بوڑھا انسان ہے جو باپ کی طرح میری دیکھ بھال پر معمور ہوگیا ہے۔یہ گُر اس نے اپنی امی سے سیکھا ہے ۔ہماری شادی خانہ آبادی کے پانچ برس بعد جب ماں جی فوت ہوگئیں تو عفت نے بھی یہی چالاکی برتی تھی ۔ماں جی کے مرتے ہی فوراً عفت نے اُن کا کردار اپنا لیا تھا عین اسی طرح جیسے عفت کے مرتے ہی ثاقب میرا مائی باپ بن بیٹھا ہے۔
پتہ نہیں یہ ماں اور بیٹا کیسے لوگ ہیں ؟
یہ خود تو صبر وشکر کا بادبان تان کر ہنسی خوشی زندگی اور موت کے سمندر میں کود جاتے ہیں اور مجھے بےیارومددگار اکیلا ساحل پر چھوڑ جاتے ہیں جیسے میں انسان نہیں پتھر کی چٹان ہوں ۔خیر، اللہ انہیں دونوں جہاں میں خوش رکھے میرا کیا ہے ؟
میں نہ اِس جہاں کے قابل نہ اُس جہاں کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی تنہائی سی تنہائی ہے ۔۔۔!
میرا خیال ہے کہ میری اس عجیب تنہائی کا احساس عفت کو بھی ضرور تھا ۔بات تو اُس نے کبھی نہیں کی لیکن عملی طور پر اُس نے اِس بےنام خلاء کو پُر کرنے کی بےحد کوشش کی۔یہ کوشش پورے اٹھارہ سال جاری رہی لیکن میرے لئے اس کا ڈرامائی کلائمیکس اُس کی وفات سے عین پندرہ روز پہلے وقوع پذیر ہوا۔
2 جون کی تاریخ اور اتوار کا دن تھا۔چاروں طرف چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی عفت صبح سے ثاقب کے ساتھ ایک کیاری میں دھنیا ، پودینہ،ٹماٹر اور سلاد کے بیج بوا رہی تھی۔پھر اُس نے گلاب کے چند پودوں کو اپنے ہاتھ سے پانی دیا ۔اس کے بعد ہم تینوں لان میں بیٹھ گئے ۔عفت نے بڑے وثوق سے کہا " یہ کیسا سہانا سماں ہے ! غالباً بہشت بھی کچھ ایسی ہی چیز ہوگی ؟“
" پتہ نہیں ! “ میں نے کہا ۔
عفت کھلکھلا کر ہنس پڑی۔یہ اُس کا آخری بھرپور قہقہہ تھا جو میں نے سُنا ۔وہ بولی !تم مجھے کچھ نہیں بتاتے ،ممتاز مفتی جو لکھتے ہیں ،اُس سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ تمہیں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔آخر مجھے بھی تو کچھ بتاؤ ۔
میں نے کہا ! تم ممتاز مفتی کو جانتی ہو ؟ بہت بڑا افسانہ نگار ہے ،جو جی میں آئے لکھتا رہتا ہے ،اُس نے میرے سر پر سبز عمامہ باندھ کر اور اُس پر مُشک،کافور کا برادہ چھڑک کر مجھے ایک عجیب و غریب پُتلا سا بنا رکھا ہے ۔وہ دیدہ و دانستہ عقیدے سے بھاگتا اور عقیدے کا روگ پالتا ہے۔اُس کی کسی بات پر دھیان نہ دو ۔
وہ مسکرا کر بولی " یہ ممتاز مفتی بھی عجیب آدمی ہیں۔میرے ساتھ بڑی محبت کرتے ہیں۔ثاقب کے ساتھ گھنٹوں بچوں کی طرح کھیلتے ہیں لیکن وہ جب میرے ساتھ تمہاری باتیں کرکے جاتے ہیں تو مجھے یہ احساس ہونے لگتا ہے جیسے میں تمہاری بیوی نہیں بیوہ ہوں ۔“
" یہی تو اُس کی افسانہ نگاری کا کمال ہے ! “ میں نے کہا ۔
وہ تنک کر بولی " مفتی جی کو گولی مارو ۔۔۔۔۔ ! آؤ ! آج ہم دونوں عیش کریں ۔۔۔۔ !
اس ملک میں ایسی دھوپ روز روز تھوڑی نکلتی ہے ۔“
یہ کہہ کر وہ اُٹھی جلدی جلدی مٹر قیمہ پکایا ۔کچھ چاول اُبالے اور سلاد بنائی ۔ہمیں کھانا کِھلا کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی ۔جامنی رنگ کی شلوار قمیض پہنی ،ڈھیر سارا میک اپ کیا اور جب خوب بن ٹھن کر نکلی تو ثاقب نے بے ساختہ کہا ، " واہ واہ امی ! آج تو بڑے ٹھاٹھ ہیں ،اب تو ابو کی خیر نہیں ۔“
" زیادہ بک بک نہ کیا کرو ! “ اُس نے ثاقب کو ڈانٹا۔
تم اپنی سائیکل نکالو اور خالد کے گھر چلے جاؤ ۔شام کو طارق کی سالگرہ ہے ۔ہم بھی پانچ بجے تک پہنچ جائیں گے۔
ثاقب نے گھڑی دیکھ کر شرارت سے کہا ،امی ! ابھی تو صرف دو بجے ہیں ! پانچ بجے تک آپ اکیلی کیا کریں گی ؟
ہم مزے کریں گے ! عفت نے کہا ، اب تم جاؤ !
ثاقب اپنی بائیسکل پر بیٹھ کر خالد کے ہاں چلا گیا ،میں نے عفت سے کہا ، آج تو تم زبردست موڈ میں ہو، بولو کیا ارادہ ہے ؟
اُس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں کہنے لگی ، اب میں تمہارے کسی کام کی نہیں رہی ،چلو پارک چلیں ۔
ہم دونوں ٹیکسی کرکے اُس کے ایک پسندیدہ پارک میں چلے گئے ۔چاروں طرف جوان اور بوڑھے جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے سبز گھاس پر لیٹے ہوئے تھے بہت سے فوارے چل رہے تھے ،گلاب کے پھول کِھلے ہوئے تھے ۔چیری کے درخت گلابی اور سرخ پھولوں سے لدے ہوئے تھے ۔آس پاس ٹھنڈے دودھ اور رنگارنگ مشروبات کی بوتلیں بِک رہی تھیں ،ہم دونوں لکڑی کے ایک بنچ پر ایک دوسرے سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گئے۔
اُس نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور بولی !
" بہشت کا نظارہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہوگا ؟“
پتہ نہیں ! میں نے کہا ۔
تم مجھے کچھ نہیں بتاتے ۔۔۔۔۔۔۔ “ اُس نے شکایت کی ۔
ممتاز مفتی تمہیں مجھ سے زیادہ جانتا ہے ۔
مفتی جی افسانہ نگار ہیں ، میں نے کہا ! ان کو گولی مارو ،اپنی بات کرو ۔“
میری بات صرف اتنی ہے کہ میں تیرے کسی کام نہ آسکی ۔ ،وہ بولی !
یہ فضول بکواس چھوڑو ،میں نے کہا ! کوئی کام کی بات کرو ۔
واقعی کروں ؟ اُس نے ایسے انداز میں کہا جیسے کوئی بچہ ٹافی خریدنے کے لئے خوشامد کرکے پیسے مانگنے والا ہو ، برا تو نہیں مناؤ گے ؟
بات کاٹو گے تو نہیں ؟ ٹالو گے تو نہیں ؟
بالکل نہیں ۔۔۔۔۔میں نے اُسے یقین دلایا۔
وہ لکڑی کے بنچ پر مجھے تکیہ بنا کر لیٹ گئی اور بولی ۔
سنو ! جب میں مر جاؤں تو مجھے کنٹربری کے قبرستان میں دفنا دینا “
اُس کے منہ سے موت کا یہ پیغام سُن کر مجھے بڑا شدید دھچکا لگا لیکن میں نے اُس کی بات نہ کاٹنے کا وعدہ کر رکھا تھا ۔اس لئے بلکل خاموش رہا۔
وہ بولتی گئی ۔۔" یہ شہر مجھے پسند ہے ۔یہاں کے اسپتال نے مجھے بڑا آرام دیا ہے ۔یوں بھی اس شہر پر مجھے حضرت مریم کا سایہ محسوس ہوتا ہے ،یہاں پر تمہیں بھی کچھ محسوس ہوتا ہے یا نہیں !!!!!!! ؟
اُس نے منہ اُٹھا کر میری طرف دیکھا ۔میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ رہا تھا ۔اُس نے اپنے جامنی رنگ کے ڈوپٹے کے پلّو سے میرے آنسو پونچھے اور بے حد غیر جذباتی انداز میں اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا ،اس ملک میں ہر شخص اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے ،اس لئے میرے جنازے پر کسی کو نہ بُلانا ۔یہاں پر تم ہو ،ثاقب ہے،خالد ہے ،زہرہ ہے ،آپا عابدہ ہیں ،خالد کے گھر چند مسلمان ڈاکٹر دوست ہیں ۔۔۔۔۔بس اتنا کافی ہے ! “
اب میں سنبھل کر بیٹھ گیا ، بزنس آخر بزنس ہے !!!!!
میں نے کہا ،جرمنی سے تنویر احمد خاں اور پیرس سے نسیم انور بیگ شائد آجائیں۔ان کے متعلق کیا حکم ہے ؟؟؟؟؟؟
وہ آجائیں تو ضرور آجائیں ، اُس نے اجازت دے دی ۔وہ بھی تو اپنے ہی لوگ ہیں،لیکن پاکستان سے کوئی نہ آئے !!!!!!
وہ کیوں ؟؟؟؟ میں نے پوچھا ۔
وہ بولی ، ایک دو عزیز جو استطاعت رکھتے ہیں ضرور آجائیں گے لیکن دوسرے بہت سے عزیز جن میں آنے کی تڑپ تو ہے لیکن آنہیں سکتے ،خواہ مخواہ ندامت سی محسوس کریں گے ۔ ٹھیک ہے ناں ؟؟؟؟ “
میڈم ! آپ کا اشارہ سر آنکھوں پر ! میں نے جھوٹی ہنسی سے کہا ۔
اور کوئی ہدایت ؟؟؟؟؟؟
میری قبر کے کتبے پر لاالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ ضرور لکھوانا ۔“
ضرور ۔۔۔۔۔ ! “ میں نے کہا ۔
اور کوئی حکم۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟
ہاں ! ایک عرض اور ہے ! ۔۔۔۔۔۔ اُس نے کہا ۔۔۔۔۔۔
اپنے ہاتھوں کے ناخن بھی خود کاٹنا سیکھ لو ۔دیکھو اس چھوٹی سی عمر میں ثاقب کیسی خوبی سے اپنے ناخن کاٹ لیتا ہے ! تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر وہ اُٹھی اپنا پرس کھولا ،ایک چھوٹی سی قینچی نکالی اور بولی لاؤ ، آج میں پھر تمہارے ناخن تراش دوں ۔“
اُس نے میرے ناخن کاٹے ۔اُس آخری خدمت گزاری کے بعد وہ میرے گلے میں بانہیں ڈال کر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگی ۔مجھے اچھا تو بڑا لگا ،کیونکہ اس سے پہلے ہم برسرِعام اس طرح کبھی نہ بیٹھے تھے لیکن اُس کی باتوں میں الوداعیت کا جو پیغام چھلک رہا تھا اُس نے مجھے بے تاب کردیا۔
میں نے کہا ! میڈم اُٹھو !!!!! ہمارے ارد گرد جو بے شمار بچے کھیل کود رہے ہیں ،وہ کیا سمجھیں گے کہ یہ بڈھا بڈھی کس طرح کی عاشقی میں مبتلا ہورہے ہیں ؟؟؟؟ !!!!!!
وہ چمک کر اُٹھ بیٹھی اور حسبِ دستور مسکرا کر بولی ،یہ لوگ یہی سمجھیں گے ناکہ کوئی بوالہواس بوڑھا کسی چوکھری کو پھانس لایا ہے ۔کبھی تم نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی ہے ؟؟؟؟
ہاں ! روز ہی دیکھتا ہوں ، میں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے میرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے آخری بار کنگھی کی اور بولی " تمہارے بال کتنے سفید ہورہے ہیں ۔میں نے اتنی بار کہا ہے کہ مہینے میں کم از کم ایک بار کلر شیمپو کیا کرو لیکن تم میری کوئی بات نہیں مانتے ۔“
میں خاموش رہا۔۔۔۔۔۔
اُس نے مجھے گدگدا کر ہنسایا اور کہنے لگی ۔۔۔۔۔تمہیں ایک مزے کی بات سناؤں ؟؟؟
ضرور سناؤ۔۔۔۔۔میں نے کہا۔
وہ بڑے فخریہ انداز میں کہنے لگی ، کوئی دو برس پہلے میں نسیم انور بیگ کی بیگم اختر کے ساتھ آکسفورڈ اسٹریٹ شاپنگ کے لئے گئی تھی ۔وہاں اُس کی ایک سہیلی مل گئی ،اُس نے میرا تعارف یوں کرایا کہ یہ عفت شہاب ہے ۔یہ سُن کر اختر کی سہیلی نے بے ساختہ کہا ، ارے ! ہم نے تو سنا تھا شہاب کا صرف ایک بیٹا ہے۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ اُن کی اتنی بڑی بیٹی بھی ہے، دیکھا پھر !!!!!!!“
ہاں ہاں بیگم صاحبہ ! دیکھ لیا۔۔۔۔۔میں نے جھینپ کر کہا،پانچ بجنے کو ہیں ۔۔۔۔۔چلو ! طارق کی سالگرہ پر بھی تو جانا ہے۔
یہ ہمارا آخری انٹرویو تھا ۔اٹھارہ سال کی ازدواجی زندگی میں ہم نے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ بیک وقت اتنی ڈھیر ساری باتیں نہ کی تھیں ،دوستوں ،یاروں اور عزیزوں کے ساتھ بیٹھ کر ہم کئی کئی گھنٹے ہی ہی،ہا ہا کر لیتے تھے لیکن اکیلے میں ہم نے اتنی دل جمعی کے ساتھ اتنے موضوعات پر کبھی اتنی طویل گفتگو نہ کی تھی ۔یہاں تک کے جب میں نے سی ۔ایس۔پی سے استفعی دیا ۔تو یوں ہی ایک فرض کے طور پر مناسب سمجھا کے اپنی بیوی سے بھی مشورہ کرلوں ۔جب میں نے اُسے بتایا کہ میں ملازمت سے مستفعٰی ہونا چاہتا ہوں تو وہ ثاقب کے اسکول جانے سے پہلے اُس کے لئے آملیٹ بنا رہی تھی ۔آملیٹ بنانے کا چمچہ ہاتھ سے چھوڑے بغیر اور میری طرف آنکھ اُٹھائے بغیر وہ بولی۔۔
اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے ، تو بسم اللہ ! ضرور استفعٰی دے دو ۔
اُس کی اس شانِ استغنا سے جل کر میں نے شکایتی لہجے میں کہا ،بیگم صاحبہ ! آپ کی رضامندی کے بغیر میں ایسا قدم کیسے اُٹھا سکتا ہوں ؟ اور ایک آپ ہیں کہ کوئی توجہ ہی نہیں دیتیں۔
اُس نے چمچہ ہاتھ سے رکھ دیا اور میری طرف یوں پیار سے دیکھا جیسے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا پھر بولی ۔۔۔۔۔
ارے یار ! میں تجھے کیسے سمجھاؤں کہ جو تیری مرضی وہ میری مرضی ۔
مجھے یہ زعم تھا کہ میں خود فنا کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ عفت پہلے ہی اس مقام سے گزر چکی ہے ۔جب وہ تابوت میں لیٹی ہوئی تھی ،تو میں نے چپکے سے اُس کے سر پر آخری بار ہاتھ پھیر کر پیار کیا۔میرے اندر کے توہمات نے میرے سینے میں عجیب و غریب اُمیدوں کی موم بتّیاں سجا رکھی تھیں لیکن اُن میں سے کسی معجزے کی ایک بھی موم بتّی روشن نہ ہوئی۔وہ مر گئی تھی ! ہم نے اُسے قبرستان میں لے جا کر دفنا دیا۔باقی اللہ اللہ خیر سلّلا ۔
یوں تو آپس کی روٹھ راٹھ ،چھوٹی موٹی ناراضگیاں اور باہمی شکر رنجیاں ہمارے درمیان درجنوں بار ویسے ہی ہوئیں جیسے ہر میاں بیوی کے درمیان ہونا چاہییں لیکن ہماری اصلی بڑی لڑائی صرف ایک بار ہوئی۔اسلام آباد میں اپنے ڈرائنگ روم کے لئے قالین خریدنا تھا ۔میں نے بڑے شوق سے ایک قالین پسند کیا جس کی زمین سفید اور درمیان میں رنگین پھول تھے۔عفت نے اُسے فوراً یوں مسترد کر دیا جس طرح وہ کسی چالاک سبزی فروش کو اُلٹے ہاتھوں باسی پالک،مولی،گاجر اور گوبھی کے پھول لوٹا رہی ہو ۔مجھے بڑا رنج ہوا،گھر آکر میں نے سارا دن اُس سے کوئی بات نہ کی۔رات کو وہ میرے پہلو میں آکر لیٹ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ میرے گالوں پر رکھ کر کہنے لگی ،دیکھ تیرا منہ پہلے ہی بڑا گول ہے ۔جب تو ناراض ہوتا ہے تو یہ اور بھی گول مٹول ہوجاتا ہے !
آج بھلا تو اتنا ناراض کیوں ہے ؟!!!!!
میں نے قالین کی بات اُٹھائی ۔
قالین تو نہایت عمدہ ہے ،اُس نے کہا۔لیکن ہمارے کام کا نہیں !
وہ کیوں ؟؟؟؟؟ میں نے پوچھا۔
دراصل بات یہ ہے ۔۔۔۔۔جن لوگوں کے لئے یہ قالین بنا ہے اُن میں سے کوئی بھی ہمارے ہاں نہیں آتا۔
کیا مطلب ،؟؟؟؟ میں نے تلخی سے دریافت کیا۔
وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکول کی اُستانی کی طرح بڑی وضاحت سے گِن گِن کر سمجھانے لگی کہ ہمارے ہاں ابنِ انشاء آتا ہے ،وہ پھسکڑا مار کر فرش پر بیٹھ جاتا ہے ،ایک طرف مالٹے دوسری طرف مونگ پھلی،سامنے گنڈیریوں کا ڈھیر ! جمیل الدین عالی آتا ہے ،آتے ہی فرش پر لیٹ جاتا ہے اور سگریٹ پر سگریٹ پی کر اُن کی راکھ ٹرے میں نہیں بلکہ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیرتا ہے ۔ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کھلے پان اور دوسرے ہاتھ میں زردے کی پُڑیا لئے آتا ہے ! اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر ۔۔۔۔اُس پر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے ! ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا ۔ڈھاکہ سے جسیم الدین ،جلیبی اور رس گُلّوں کی ٹپکتی ہوئی ٹوکری لائے گا ۔وہ سب یہ تحفے لاکر بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں ۔سال میں کئی بار سید ممتاز حسین شاہ بی۔اے ،ساٹھ سال کی عمر میں ایم ۔اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور قالین پر فاؤنٹین پین چھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے ۔صرف ایک راجہ شفیع ہے ،جب کبھی وہ مکئی کی روٹی ،سرسوں کا ساگ اور تازہ مکھن اپنے گاؤں سے لے کر آتا ہے تو آتے ہی اُنہیں قالین پر نہیں اُنڈیلتا بلکہ بڑے قرینے سے باورچی کھانے میں جا کر رکھ دیتا ہے ۔کیونکہ نہ وہ شاعر ہے نہ ادیب فقط ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔
بات بلکل سچ تھی چناچہ ہم نے ایک نہایت میل خوردہ قالین خرید کر آپس میں صلح کرلی۔
عفت کو میرے دوستوں کے ساتھ بڑا اُنس تھا۔وہ ادیب پرست تھی اور ادب شناس بھی ۔
" شاہنامہ اسلام “ کے سینکڑوں اشعار اُسے زبانی یاد تھے۔حفیظ جالندھری کا وہ اپنے باپ کی طرح ادب کرتی تھی ۔جوش صاحب کی " یادوں کی بارات “ کی بھی مدّاح تھی ۔ایک روز میں نے کہا۔میں جوش صاحب کی طرف جا رہا تھا چلو تم بھی اُن سے مل لو ۔
تم جاؤ ، اُس نے کہا۔میرے لئے جوش صاحب کے دور کے ڈھول ہی سہانے ہیں۔
یحییٰ خان کے زمانے میں جب ہم انگلستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں خاموشی سے اپنے دن گزار رہے تھے تو فیض احمد فیض لندن آئے ۔وہاں سے اُنہوں نے مجھے فون کیا کہ میں کل تمہارے پاس آ رہا ہوں ،دوپہر کا کھانا تمہارے ہاں کھاؤں گا۔
عفت نے بڑا اچھا کھانا پکایا ،سردیوں کا زمانہ تھا۔شائد برف باری ہورہی تھی لندن سے ہمارے ہاں آنے کے لئے ایک گھنٹہ ریل کا سفر تھا ۔اُس کے بعد آدھ گھنٹہ بس کا سفر ،اور پھر کوئی پندرہ منٹ پیدل !
ڈھائی تین بجے جب فیض صاحب گُھٹنے گُھٹنے برف میں دھنستے دھنساتے افتاں و خیراں ہمارے ہاں پہنچے تو عفت کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔کھانا گرم کرتے ہوئے اُس نے میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور بڑی عقیدت سے کہنے لگی۔
ہم کتنے خوش نصیب ہیں !
وہ کیسے ۔۔۔۔۔ ؟ میں نے پوچھا۔
ہمارے دور کا اتنا بڑا شاعر ایسے خراب موسم میں اتنی دور تم سے ملنے آیا ہے۔
یہ فیض صاحب کی مروت ہے، میں نے کہا۔
مروت نہیں،، اُس نے مجھے ٹوکا۔یہ اُن کی عظمت اور سخاوت ہے۔
ہمارے اچھے سے اچھے دنوں میں اُس کا ایک مرغوب مصرعہ یہ تھا۔
ع۔۔۔۔ رہیئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو۔
اُس پر اُس نے غالباً اپنی طرف سے دوسرا مصرعہ یہ گانٹھ رکھا تھا۔
نہ زمیں ہو نہ زماں ہو ،آسماں کوئی نہ ہو
بیماری کے دنوں میں وہ بار بار پڑھا کرتی۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
اپنے تین سال کے بے وطنی کے زمانے میں ہمیں اکثر اوقات مالی تنگیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ایک دفعہ جب ہم تیسری چوتھی بار نقلِ مکانی پر مجبور ہوگئے تو اُس نے بڑی محنت سے سامان باندھا۔اُس کی تھکن اُس کے بند بند سے یوں ٹپک رہی تھی جیسے شدید بارش کے بعد ٹوٹی ہوئی چھت ٹپکنے لگتی ہے ۔
میں نے اُس کے پاؤں دبا کر کہا ، عفت میری وجہ سے تمہیں کس قدر تکلیف ہورہی ہے ۔
ماں جی کی طرح وہ کبھی کبھی بہت لاڈ میں آکر مجھے " کوکا “ کہا کرتی تھی،بولی ! ارے کوکے ! میں تو تیرے ساتھ بہت خوش ہوں لیکن بےچارے ثاقب پر ترس آتا ہے ۔اس ننھی سی عمر میں یہ اُس کا آٹھواں اسکول ہوگا۔
ثاقب کی بات چھوڑو، میں نے کہا۔۔۔۔۔۔آخر ہمارا بیٹا ہے !
ہر نئے اسکول میں جاکر آسانی سے فِٹ ہوجاتا ہے لیکن تجھے اتنا تھکا ماندہ دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے ۔تم ٹھیک تو ہونا ۔؟؟؟؟؟
ہاں ! ٹھیک ہی ہوں ۔۔۔۔۔۔
اُس نے اپنا سر میرے شانوں پر ٹیک کر کہا ۔مجھے اُس کے بند بند سے غالب کا شعر آہ و زاری کرتا ہوا سنائی دے رہا تھا۔
کہیں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
میرا خیال ہے کہ اُسی زمانے میں دربدری کی محنت و مشقّت نے اُسے وہ روگ لگا دیا جس نے انجام کا راستہ کنٹربری کے گورستان میں جا بسایا۔یہ خیال اب ہر وقت احساسِ جُرم کا تازیانہ بن کر میرے ضمیر پر بڑے بے رحم کوڑے مارتا ہے۔اب میں کیا کروں؟؟؟؟
ایک فقیر حقیر،بندہ پُر تفسیر،اسیرِ نفس شریر کو بھی کیا کہہ سکتا ہے ؟؟؟؟؟؟
جی چاہتا ہے خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیئے ؟؟؟؟؟؟[/align:ea4b8c3067]
آج عفت مر گئی۔
میں اُسے مذاقاً بڑھیا کہا کرتا تھا لیکن جب کنٹربری کاؤنٹی کونسل کے دفتر میں تدفین کا اجازت نامہ حاصل کرنے گیا تو ایک فارم پُر کرنا تھا اس میں مرحوم کی تاریخِ پیدائش بھی درج کرنا تھی ۔جب میں نے اُس کا پاسپورٹ نکال کر پڑھا تو میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔اُس کی عمر تو صرف 41 برس تھی۔
لیکن میرے لئے وہ ہمیشہ " میری بڑھیا “ کی بڑھیا ہی رہی۔کنٹربری اسپتال میں ہم نے اُسے گرم پانی میں آبِ زمزم ملا کر غسل دیا پھر کفنایا اور جب اُسے قبلہ رو کرکے لکڑی کے بنے ہوئے ہلکے بادامی رنگ کے تابوت میں رکھا تو تنویر احمد خان نے بے ساختہ کہا ،ارے ! یہ تو ایسے لگتی ہے جیسے ابھی فرسٹ ائیر میں داخلہ لینے جا رہی ہو ۔
بات بھی سچ تھی جب میں اُسے بیاہ کر لایا تھا تو وہ لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے فائنل ائیر سے نکلی تھی جب میں نے اُسے دفنایا تو واقعی وہ ایسی لگ رہی تھی جیسے ابھی ابھی فرسٹ ائیر میں داخلہ لینے جا رہی ہو ۔درمیان کے اٹھارہ سال اُس نے میرے ساتھ یوں گزارے جس طرح تھرڈ کلاس کے دو مسافر پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوں ۔سامان بُک ہو چکا ہو ۔ٹرین کا انتظار ہو۔اُس کی گاڑی وقت سے پہلے آگئی۔وہ اُس میں بیٹھ کر روانہ ہو گئی ۔میری ٹرین لیٹ ہے ،جب آئے گی میں بھی اُس میں سوار ہوجاؤں گا لیکن سامان کا کیا ہوگا ؟
جو کبھی آگے جاتا ہے اور کبھی پیچھے اور کوئی اُسے وصول کرنے کے لئے موجود نہیں ہوتا ۔لیکن ہمارے سامان میں آخر رکھا کیا ہے ؟ کچھ کاغذ ،ڈھیر ساری کتابیں ،کچھ کپڑے،بہت سے برتن اور گھریلو آرائش کی چیزیں جنہیں عفت نے بڑی محنت سے سیلز میں گھوم گھوم کر جمع کیا تھا اور ایک ثاقب !
لیکن ثاقب کا شمار نہ سامان میں ہوتا ہے نہ احباب میں ۔یہ بارہ سال کا بچّہ میرے لئے ایک دم بوڑھا ہو گیا۔کنٹربری کے قبرستان میں جب مٹی کے گرتے ہوئے ریلوں نے عفت کے تابوت کا آخری کونہ بھی ہماری نظر سے اوجھل کردیا ،تو ہم دونوں جو بڑی بہادری سے کھڑے ہوئے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ،بیک وقت گھاس پر بیٹھ گئے۔ہمارے گُھٹنے ہمارے اندر کے بوجھ سے دب کر اچانک دہرے ہوگئے ۔چند لمحوں کے لئے ثاقب نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ،اُسے زور سے دبایا پھر خاموشی سے چھوڑ دیا۔ہم دونوں نے اب تک ایک دوسرے کے سامنے کبھی آنسو نہیں بہائے ،نہ آئیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے ،لیکن صد حیف ! کہ اب میرے پاس وہ بچّہ نہیں جسے گلے لگا کر میں دھاڑیں مار مار کر روؤں ۔میرے پاس صرف ایک بارہ سال کا بوڑھا انسان ہے جو باپ کی طرح میری دیکھ بھال پر معمور ہوگیا ہے۔یہ گُر اس نے اپنی امی سے سیکھا ہے ۔ہماری شادی خانہ آبادی کے پانچ برس بعد جب ماں جی فوت ہوگئیں تو عفت نے بھی یہی چالاکی برتی تھی ۔ماں جی کے مرتے ہی فوراً عفت نے اُن کا کردار اپنا لیا تھا عین اسی طرح جیسے عفت کے مرتے ہی ثاقب میرا مائی باپ بن بیٹھا ہے۔
پتہ نہیں یہ ماں اور بیٹا کیسے لوگ ہیں ؟
یہ خود تو صبر وشکر کا بادبان تان کر ہنسی خوشی زندگی اور موت کے سمندر میں کود جاتے ہیں اور مجھے بےیارومددگار اکیلا ساحل پر چھوڑ جاتے ہیں جیسے میں انسان نہیں پتھر کی چٹان ہوں ۔خیر، اللہ انہیں دونوں جہاں میں خوش رکھے میرا کیا ہے ؟
میں نہ اِس جہاں کے قابل نہ اُس جہاں کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی تنہائی سی تنہائی ہے ۔۔۔!
میرا خیال ہے کہ میری اس عجیب تنہائی کا احساس عفت کو بھی ضرور تھا ۔بات تو اُس نے کبھی نہیں کی لیکن عملی طور پر اُس نے اِس بےنام خلاء کو پُر کرنے کی بےحد کوشش کی۔یہ کوشش پورے اٹھارہ سال جاری رہی لیکن میرے لئے اس کا ڈرامائی کلائمیکس اُس کی وفات سے عین پندرہ روز پہلے وقوع پذیر ہوا۔
2 جون کی تاریخ اور اتوار کا دن تھا۔چاروں طرف چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی عفت صبح سے ثاقب کے ساتھ ایک کیاری میں دھنیا ، پودینہ،ٹماٹر اور سلاد کے بیج بوا رہی تھی۔پھر اُس نے گلاب کے چند پودوں کو اپنے ہاتھ سے پانی دیا ۔اس کے بعد ہم تینوں لان میں بیٹھ گئے ۔عفت نے بڑے وثوق سے کہا " یہ کیسا سہانا سماں ہے ! غالباً بہشت بھی کچھ ایسی ہی چیز ہوگی ؟“
" پتہ نہیں ! “ میں نے کہا ۔
عفت کھلکھلا کر ہنس پڑی۔یہ اُس کا آخری بھرپور قہقہہ تھا جو میں نے سُنا ۔وہ بولی !تم مجھے کچھ نہیں بتاتے ،ممتاز مفتی جو لکھتے ہیں ،اُس سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ تمہیں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔آخر مجھے بھی تو کچھ بتاؤ ۔
میں نے کہا ! تم ممتاز مفتی کو جانتی ہو ؟ بہت بڑا افسانہ نگار ہے ،جو جی میں آئے لکھتا رہتا ہے ،اُس نے میرے سر پر سبز عمامہ باندھ کر اور اُس پر مُشک،کافور کا برادہ چھڑک کر مجھے ایک عجیب و غریب پُتلا سا بنا رکھا ہے ۔وہ دیدہ و دانستہ عقیدے سے بھاگتا اور عقیدے کا روگ پالتا ہے۔اُس کی کسی بات پر دھیان نہ دو ۔
وہ مسکرا کر بولی " یہ ممتاز مفتی بھی عجیب آدمی ہیں۔میرے ساتھ بڑی محبت کرتے ہیں۔ثاقب کے ساتھ گھنٹوں بچوں کی طرح کھیلتے ہیں لیکن وہ جب میرے ساتھ تمہاری باتیں کرکے جاتے ہیں تو مجھے یہ احساس ہونے لگتا ہے جیسے میں تمہاری بیوی نہیں بیوہ ہوں ۔“
" یہی تو اُس کی افسانہ نگاری کا کمال ہے ! “ میں نے کہا ۔
وہ تنک کر بولی " مفتی جی کو گولی مارو ۔۔۔۔۔ ! آؤ ! آج ہم دونوں عیش کریں ۔۔۔۔ !
اس ملک میں ایسی دھوپ روز روز تھوڑی نکلتی ہے ۔“
یہ کہہ کر وہ اُٹھی جلدی جلدی مٹر قیمہ پکایا ۔کچھ چاول اُبالے اور سلاد بنائی ۔ہمیں کھانا کِھلا کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی ۔جامنی رنگ کی شلوار قمیض پہنی ،ڈھیر سارا میک اپ کیا اور جب خوب بن ٹھن کر نکلی تو ثاقب نے بے ساختہ کہا ، " واہ واہ امی ! آج تو بڑے ٹھاٹھ ہیں ،اب تو ابو کی خیر نہیں ۔“
" زیادہ بک بک نہ کیا کرو ! “ اُس نے ثاقب کو ڈانٹا۔
تم اپنی سائیکل نکالو اور خالد کے گھر چلے جاؤ ۔شام کو طارق کی سالگرہ ہے ۔ہم بھی پانچ بجے تک پہنچ جائیں گے۔
ثاقب نے گھڑی دیکھ کر شرارت سے کہا ،امی ! ابھی تو صرف دو بجے ہیں ! پانچ بجے تک آپ اکیلی کیا کریں گی ؟
ہم مزے کریں گے ! عفت نے کہا ، اب تم جاؤ !
ثاقب اپنی بائیسکل پر بیٹھ کر خالد کے ہاں چلا گیا ،میں نے عفت سے کہا ، آج تو تم زبردست موڈ میں ہو، بولو کیا ارادہ ہے ؟
اُس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں کہنے لگی ، اب میں تمہارے کسی کام کی نہیں رہی ،چلو پارک چلیں ۔
ہم دونوں ٹیکسی کرکے اُس کے ایک پسندیدہ پارک میں چلے گئے ۔چاروں طرف جوان اور بوڑھے جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے سبز گھاس پر لیٹے ہوئے تھے بہت سے فوارے چل رہے تھے ،گلاب کے پھول کِھلے ہوئے تھے ۔چیری کے درخت گلابی اور سرخ پھولوں سے لدے ہوئے تھے ۔آس پاس ٹھنڈے دودھ اور رنگارنگ مشروبات کی بوتلیں بِک رہی تھیں ،ہم دونوں لکڑی کے ایک بنچ پر ایک دوسرے سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گئے۔
اُس نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور بولی !
" بہشت کا نظارہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہوگا ؟“
پتہ نہیں ! میں نے کہا ۔
تم مجھے کچھ نہیں بتاتے ۔۔۔۔۔۔۔ “ اُس نے شکایت کی ۔
ممتاز مفتی تمہیں مجھ سے زیادہ جانتا ہے ۔
مفتی جی افسانہ نگار ہیں ، میں نے کہا ! ان کو گولی مارو ،اپنی بات کرو ۔“
میری بات صرف اتنی ہے کہ میں تیرے کسی کام نہ آسکی ۔ ،وہ بولی !
یہ فضول بکواس چھوڑو ،میں نے کہا ! کوئی کام کی بات کرو ۔
واقعی کروں ؟ اُس نے ایسے انداز میں کہا جیسے کوئی بچہ ٹافی خریدنے کے لئے خوشامد کرکے پیسے مانگنے والا ہو ، برا تو نہیں مناؤ گے ؟
بات کاٹو گے تو نہیں ؟ ٹالو گے تو نہیں ؟
بالکل نہیں ۔۔۔۔۔میں نے اُسے یقین دلایا۔
وہ لکڑی کے بنچ پر مجھے تکیہ بنا کر لیٹ گئی اور بولی ۔
سنو ! جب میں مر جاؤں تو مجھے کنٹربری کے قبرستان میں دفنا دینا “
اُس کے منہ سے موت کا یہ پیغام سُن کر مجھے بڑا شدید دھچکا لگا لیکن میں نے اُس کی بات نہ کاٹنے کا وعدہ کر رکھا تھا ۔اس لئے بلکل خاموش رہا۔
وہ بولتی گئی ۔۔" یہ شہر مجھے پسند ہے ۔یہاں کے اسپتال نے مجھے بڑا آرام دیا ہے ۔یوں بھی اس شہر پر مجھے حضرت مریم کا سایہ محسوس ہوتا ہے ،یہاں پر تمہیں بھی کچھ محسوس ہوتا ہے یا نہیں !!!!!!! ؟
اُس نے منہ اُٹھا کر میری طرف دیکھا ۔میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ رہا تھا ۔اُس نے اپنے جامنی رنگ کے ڈوپٹے کے پلّو سے میرے آنسو پونچھے اور بے حد غیر جذباتی انداز میں اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا ،اس ملک میں ہر شخص اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے ،اس لئے میرے جنازے پر کسی کو نہ بُلانا ۔یہاں پر تم ہو ،ثاقب ہے،خالد ہے ،زہرہ ہے ،آپا عابدہ ہیں ،خالد کے گھر چند مسلمان ڈاکٹر دوست ہیں ۔۔۔۔۔بس اتنا کافی ہے ! “
اب میں سنبھل کر بیٹھ گیا ، بزنس آخر بزنس ہے !!!!!
میں نے کہا ،جرمنی سے تنویر احمد خاں اور پیرس سے نسیم انور بیگ شائد آجائیں۔ان کے متعلق کیا حکم ہے ؟؟؟؟؟؟
وہ آجائیں تو ضرور آجائیں ، اُس نے اجازت دے دی ۔وہ بھی تو اپنے ہی لوگ ہیں،لیکن پاکستان سے کوئی نہ آئے !!!!!!
وہ کیوں ؟؟؟؟ میں نے پوچھا ۔
وہ بولی ، ایک دو عزیز جو استطاعت رکھتے ہیں ضرور آجائیں گے لیکن دوسرے بہت سے عزیز جن میں آنے کی تڑپ تو ہے لیکن آنہیں سکتے ،خواہ مخواہ ندامت سی محسوس کریں گے ۔ ٹھیک ہے ناں ؟؟؟؟ “
میڈم ! آپ کا اشارہ سر آنکھوں پر ! میں نے جھوٹی ہنسی سے کہا ۔
اور کوئی ہدایت ؟؟؟؟؟؟
میری قبر کے کتبے پر لاالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ ضرور لکھوانا ۔“
ضرور ۔۔۔۔۔ ! “ میں نے کہا ۔
اور کوئی حکم۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟
ہاں ! ایک عرض اور ہے ! ۔۔۔۔۔۔ اُس نے کہا ۔۔۔۔۔۔
اپنے ہاتھوں کے ناخن بھی خود کاٹنا سیکھ لو ۔دیکھو اس چھوٹی سی عمر میں ثاقب کیسی خوبی سے اپنے ناخن کاٹ لیتا ہے ! تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر وہ اُٹھی اپنا پرس کھولا ،ایک چھوٹی سی قینچی نکالی اور بولی لاؤ ، آج میں پھر تمہارے ناخن تراش دوں ۔“
اُس نے میرے ناخن کاٹے ۔اُس آخری خدمت گزاری کے بعد وہ میرے گلے میں بانہیں ڈال کر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگی ۔مجھے اچھا تو بڑا لگا ،کیونکہ اس سے پہلے ہم برسرِعام اس طرح کبھی نہ بیٹھے تھے لیکن اُس کی باتوں میں الوداعیت کا جو پیغام چھلک رہا تھا اُس نے مجھے بے تاب کردیا۔
میں نے کہا ! میڈم اُٹھو !!!!! ہمارے ارد گرد جو بے شمار بچے کھیل کود رہے ہیں ،وہ کیا سمجھیں گے کہ یہ بڈھا بڈھی کس طرح کی عاشقی میں مبتلا ہورہے ہیں ؟؟؟؟ !!!!!!
وہ چمک کر اُٹھ بیٹھی اور حسبِ دستور مسکرا کر بولی ،یہ لوگ یہی سمجھیں گے ناکہ کوئی بوالہواس بوڑھا کسی چوکھری کو پھانس لایا ہے ۔کبھی تم نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی ہے ؟؟؟؟
ہاں ! روز ہی دیکھتا ہوں ، میں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے میرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے آخری بار کنگھی کی اور بولی " تمہارے بال کتنے سفید ہورہے ہیں ۔میں نے اتنی بار کہا ہے کہ مہینے میں کم از کم ایک بار کلر شیمپو کیا کرو لیکن تم میری کوئی بات نہیں مانتے ۔“
میں خاموش رہا۔۔۔۔۔۔
اُس نے مجھے گدگدا کر ہنسایا اور کہنے لگی ۔۔۔۔۔تمہیں ایک مزے کی بات سناؤں ؟؟؟
ضرور سناؤ۔۔۔۔۔میں نے کہا۔
وہ بڑے فخریہ انداز میں کہنے لگی ، کوئی دو برس پہلے میں نسیم انور بیگ کی بیگم اختر کے ساتھ آکسفورڈ اسٹریٹ شاپنگ کے لئے گئی تھی ۔وہاں اُس کی ایک سہیلی مل گئی ،اُس نے میرا تعارف یوں کرایا کہ یہ عفت شہاب ہے ۔یہ سُن کر اختر کی سہیلی نے بے ساختہ کہا ، ارے ! ہم نے تو سنا تھا شہاب کا صرف ایک بیٹا ہے۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ اُن کی اتنی بڑی بیٹی بھی ہے، دیکھا پھر !!!!!!!“
ہاں ہاں بیگم صاحبہ ! دیکھ لیا۔۔۔۔۔میں نے جھینپ کر کہا،پانچ بجنے کو ہیں ۔۔۔۔۔چلو ! طارق کی سالگرہ پر بھی تو جانا ہے۔
یہ ہمارا آخری انٹرویو تھا ۔اٹھارہ سال کی ازدواجی زندگی میں ہم نے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ بیک وقت اتنی ڈھیر ساری باتیں نہ کی تھیں ،دوستوں ،یاروں اور عزیزوں کے ساتھ بیٹھ کر ہم کئی کئی گھنٹے ہی ہی،ہا ہا کر لیتے تھے لیکن اکیلے میں ہم نے اتنی دل جمعی کے ساتھ اتنے موضوعات پر کبھی اتنی طویل گفتگو نہ کی تھی ۔یہاں تک کے جب میں نے سی ۔ایس۔پی سے استفعی دیا ۔تو یوں ہی ایک فرض کے طور پر مناسب سمجھا کے اپنی بیوی سے بھی مشورہ کرلوں ۔جب میں نے اُسے بتایا کہ میں ملازمت سے مستفعٰی ہونا چاہتا ہوں تو وہ ثاقب کے اسکول جانے سے پہلے اُس کے لئے آملیٹ بنا رہی تھی ۔آملیٹ بنانے کا چمچہ ہاتھ سے چھوڑے بغیر اور میری طرف آنکھ اُٹھائے بغیر وہ بولی۔۔
اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے ، تو بسم اللہ ! ضرور استفعٰی دے دو ۔
اُس کی اس شانِ استغنا سے جل کر میں نے شکایتی لہجے میں کہا ،بیگم صاحبہ ! آپ کی رضامندی کے بغیر میں ایسا قدم کیسے اُٹھا سکتا ہوں ؟ اور ایک آپ ہیں کہ کوئی توجہ ہی نہیں دیتیں۔
اُس نے چمچہ ہاتھ سے رکھ دیا اور میری طرف یوں پیار سے دیکھا جیسے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا پھر بولی ۔۔۔۔۔
ارے یار ! میں تجھے کیسے سمجھاؤں کہ جو تیری مرضی وہ میری مرضی ۔
مجھے یہ زعم تھا کہ میں خود فنا کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ عفت پہلے ہی اس مقام سے گزر چکی ہے ۔جب وہ تابوت میں لیٹی ہوئی تھی ،تو میں نے چپکے سے اُس کے سر پر آخری بار ہاتھ پھیر کر پیار کیا۔میرے اندر کے توہمات نے میرے سینے میں عجیب و غریب اُمیدوں کی موم بتّیاں سجا رکھی تھیں لیکن اُن میں سے کسی معجزے کی ایک بھی موم بتّی روشن نہ ہوئی۔وہ مر گئی تھی ! ہم نے اُسے قبرستان میں لے جا کر دفنا دیا۔باقی اللہ اللہ خیر سلّلا ۔
یوں تو آپس کی روٹھ راٹھ ،چھوٹی موٹی ناراضگیاں اور باہمی شکر رنجیاں ہمارے درمیان درجنوں بار ویسے ہی ہوئیں جیسے ہر میاں بیوی کے درمیان ہونا چاہییں لیکن ہماری اصلی بڑی لڑائی صرف ایک بار ہوئی۔اسلام آباد میں اپنے ڈرائنگ روم کے لئے قالین خریدنا تھا ۔میں نے بڑے شوق سے ایک قالین پسند کیا جس کی زمین سفید اور درمیان میں رنگین پھول تھے۔عفت نے اُسے فوراً یوں مسترد کر دیا جس طرح وہ کسی چالاک سبزی فروش کو اُلٹے ہاتھوں باسی پالک،مولی،گاجر اور گوبھی کے پھول لوٹا رہی ہو ۔مجھے بڑا رنج ہوا،گھر آکر میں نے سارا دن اُس سے کوئی بات نہ کی۔رات کو وہ میرے پہلو میں آکر لیٹ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ میرے گالوں پر رکھ کر کہنے لگی ،دیکھ تیرا منہ پہلے ہی بڑا گول ہے ۔جب تو ناراض ہوتا ہے تو یہ اور بھی گول مٹول ہوجاتا ہے !
آج بھلا تو اتنا ناراض کیوں ہے ؟!!!!!
میں نے قالین کی بات اُٹھائی ۔
قالین تو نہایت عمدہ ہے ،اُس نے کہا۔لیکن ہمارے کام کا نہیں !
وہ کیوں ؟؟؟؟؟ میں نے پوچھا۔
دراصل بات یہ ہے ۔۔۔۔۔جن لوگوں کے لئے یہ قالین بنا ہے اُن میں سے کوئی بھی ہمارے ہاں نہیں آتا۔
کیا مطلب ،؟؟؟؟ میں نے تلخی سے دریافت کیا۔
وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکول کی اُستانی کی طرح بڑی وضاحت سے گِن گِن کر سمجھانے لگی کہ ہمارے ہاں ابنِ انشاء آتا ہے ،وہ پھسکڑا مار کر فرش پر بیٹھ جاتا ہے ،ایک طرف مالٹے دوسری طرف مونگ پھلی،سامنے گنڈیریوں کا ڈھیر ! جمیل الدین عالی آتا ہے ،آتے ہی فرش پر لیٹ جاتا ہے اور سگریٹ پر سگریٹ پی کر اُن کی راکھ ٹرے میں نہیں بلکہ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیرتا ہے ۔ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کھلے پان اور دوسرے ہاتھ میں زردے کی پُڑیا لئے آتا ہے ! اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر ۔۔۔۔اُس پر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے ! ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا ۔ڈھاکہ سے جسیم الدین ،جلیبی اور رس گُلّوں کی ٹپکتی ہوئی ٹوکری لائے گا ۔وہ سب یہ تحفے لاکر بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں ۔سال میں کئی بار سید ممتاز حسین شاہ بی۔اے ،ساٹھ سال کی عمر میں ایم ۔اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور قالین پر فاؤنٹین پین چھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے ۔صرف ایک راجہ شفیع ہے ،جب کبھی وہ مکئی کی روٹی ،سرسوں کا ساگ اور تازہ مکھن اپنے گاؤں سے لے کر آتا ہے تو آتے ہی اُنہیں قالین پر نہیں اُنڈیلتا بلکہ بڑے قرینے سے باورچی کھانے میں جا کر رکھ دیتا ہے ۔کیونکہ نہ وہ شاعر ہے نہ ادیب فقط ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔
بات بلکل سچ تھی چناچہ ہم نے ایک نہایت میل خوردہ قالین خرید کر آپس میں صلح کرلی۔
عفت کو میرے دوستوں کے ساتھ بڑا اُنس تھا۔وہ ادیب پرست تھی اور ادب شناس بھی ۔
" شاہنامہ اسلام “ کے سینکڑوں اشعار اُسے زبانی یاد تھے۔حفیظ جالندھری کا وہ اپنے باپ کی طرح ادب کرتی تھی ۔جوش صاحب کی " یادوں کی بارات “ کی بھی مدّاح تھی ۔ایک روز میں نے کہا۔میں جوش صاحب کی طرف جا رہا تھا چلو تم بھی اُن سے مل لو ۔
تم جاؤ ، اُس نے کہا۔میرے لئے جوش صاحب کے دور کے ڈھول ہی سہانے ہیں۔
یحییٰ خان کے زمانے میں جب ہم انگلستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں خاموشی سے اپنے دن گزار رہے تھے تو فیض احمد فیض لندن آئے ۔وہاں سے اُنہوں نے مجھے فون کیا کہ میں کل تمہارے پاس آ رہا ہوں ،دوپہر کا کھانا تمہارے ہاں کھاؤں گا۔
عفت نے بڑا اچھا کھانا پکایا ،سردیوں کا زمانہ تھا۔شائد برف باری ہورہی تھی لندن سے ہمارے ہاں آنے کے لئے ایک گھنٹہ ریل کا سفر تھا ۔اُس کے بعد آدھ گھنٹہ بس کا سفر ،اور پھر کوئی پندرہ منٹ پیدل !
ڈھائی تین بجے جب فیض صاحب گُھٹنے گُھٹنے برف میں دھنستے دھنساتے افتاں و خیراں ہمارے ہاں پہنچے تو عفت کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔کھانا گرم کرتے ہوئے اُس نے میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور بڑی عقیدت سے کہنے لگی۔
ہم کتنے خوش نصیب ہیں !
وہ کیسے ۔۔۔۔۔ ؟ میں نے پوچھا۔
ہمارے دور کا اتنا بڑا شاعر ایسے خراب موسم میں اتنی دور تم سے ملنے آیا ہے۔
یہ فیض صاحب کی مروت ہے، میں نے کہا۔
مروت نہیں،، اُس نے مجھے ٹوکا۔یہ اُن کی عظمت اور سخاوت ہے۔
ہمارے اچھے سے اچھے دنوں میں اُس کا ایک مرغوب مصرعہ یہ تھا۔
ع۔۔۔۔ رہیئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو۔
اُس پر اُس نے غالباً اپنی طرف سے دوسرا مصرعہ یہ گانٹھ رکھا تھا۔
نہ زمیں ہو نہ زماں ہو ،آسماں کوئی نہ ہو
بیماری کے دنوں میں وہ بار بار پڑھا کرتی۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
اپنے تین سال کے بے وطنی کے زمانے میں ہمیں اکثر اوقات مالی تنگیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ایک دفعہ جب ہم تیسری چوتھی بار نقلِ مکانی پر مجبور ہوگئے تو اُس نے بڑی محنت سے سامان باندھا۔اُس کی تھکن اُس کے بند بند سے یوں ٹپک رہی تھی جیسے شدید بارش کے بعد ٹوٹی ہوئی چھت ٹپکنے لگتی ہے ۔
میں نے اُس کے پاؤں دبا کر کہا ، عفت میری وجہ سے تمہیں کس قدر تکلیف ہورہی ہے ۔
ماں جی کی طرح وہ کبھی کبھی بہت لاڈ میں آکر مجھے " کوکا “ کہا کرتی تھی،بولی ! ارے کوکے ! میں تو تیرے ساتھ بہت خوش ہوں لیکن بےچارے ثاقب پر ترس آتا ہے ۔اس ننھی سی عمر میں یہ اُس کا آٹھواں اسکول ہوگا۔
ثاقب کی بات چھوڑو، میں نے کہا۔۔۔۔۔۔آخر ہمارا بیٹا ہے !
ہر نئے اسکول میں جاکر آسانی سے فِٹ ہوجاتا ہے لیکن تجھے اتنا تھکا ماندہ دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے ۔تم ٹھیک تو ہونا ۔؟؟؟؟؟
ہاں ! ٹھیک ہی ہوں ۔۔۔۔۔۔
اُس نے اپنا سر میرے شانوں پر ٹیک کر کہا ۔مجھے اُس کے بند بند سے غالب کا شعر آہ و زاری کرتا ہوا سنائی دے رہا تھا۔
کہیں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
میرا خیال ہے کہ اُسی زمانے میں دربدری کی محنت و مشقّت نے اُسے وہ روگ لگا دیا جس نے انجام کا راستہ کنٹربری کے گورستان میں جا بسایا۔یہ خیال اب ہر وقت احساسِ جُرم کا تازیانہ بن کر میرے ضمیر پر بڑے بے رحم کوڑے مارتا ہے۔اب میں کیا کروں؟؟؟؟
ایک فقیر حقیر،بندہ پُر تفسیر،اسیرِ نفس شریر کو بھی کیا کہہ سکتا ہے ؟؟؟؟؟؟
جی چاہتا ہے خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیئے ؟؟؟؟؟؟[/align:ea4b8c3067]