فیض آباد دھرنا کیس: ’پاکستان کسی فوجی نے نہیں بنایا‘ - جسٹس عیسی

تحریک پاکستان کیا ایک اسلامی موومنٹ تھی یا نیشنل موومنٹ؟ اگر اسلامی موومنٹ تھی تو تحریک پاکستان میں قائد اعظم کیساتھ ہندو، قادیانی، مسیحی وغیرہ کیا کر رہے تھے؟
بھائی صاحب۔۔۔ پاکستان ’دو قومی نظریہ‘ پر بنا تھا، اور اس کی بنیاد مذہب تھا۔ جس میں ایک قوم ہندو تھی اور دوسری مسلمان۔ مغربی فلسفہ نیشنل ازم میں مذہب نامی کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہے۔
لگتا ہے آپ پر بھی آج کل خان صاحب کا اثر ہو گیا ہے، وہ بھی کل پرسوں تاریخ کا ہتھیاچار فرما رہے تھے۔
 

فرقان احمد

محفلین
غالبا آپ کو اس لفظ "جوڈیشل مرڈر" کی شدت کا اندازہ نہیں، اس سے زیادہ عدالت کی بے توقیری ہو ہی نہیں سکتی کہ اسے جوڈیشل مرڈر کرنے والا کہ دیا جائے۔
یعنی، اسے جواز بنا لینا چاہیے عدلیہ کی مزید بے توقیری کا۔ :) زبردست! ہمارے خیال میں یہ سلسلہ اب رُک جانا چاہیے۔ نواز شریف صاحب تمام تر تحفظات کے باوجود عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں جو کہ اچھی بات ہے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ مشرف صاحب اور خادم صاحب کو بھی عدالتوں سے راہ فرار اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
 
یعنی، اسے جواز بنا لینا چاہیے عدلیہ کی مزید بے توقیری کا۔ :) زبردست! ہمارے خیال میں یہ سلسلہ اب رُک جانا چاہیے۔ نواز شریف صاحب تمام تر تحفظات کے باوجود عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔
جس قسم کے تاثرات عدالتیں آج کل ظاہر کر رہی ہیں اس سے یوں لگتا ہے کہ عدالتوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا ہے، عدالتیں اب تو فیصلوں میں نہیں بلکہ گنڈاسہ لے کر جگہ جگہ بول رہی ہیں۔ عدالتوں کو چاہئے کہ اپنا رویہ ٹھیک کریں ان کی توقیر خود بخود بن جائے گی۔ پھر آپ جیسے جمہوریت کے ماننے والے انہیں جوڈیشل مرڈرر نہیں کہیں گے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
چلیں شکر ہے آپ نے تسلیم کر لیا کہ پاکستان اسلامی نہیں بلکہ مسلم قومی موومنٹ کا نام تھا جو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا۔ صہیونیت کا فلسفہ بھی یہی تھا کہ یہود مذہب کی وجہ سے عربوں سے الگ قوم ہیں اور اس بنیاد پر اسرائیل حاصل کیا گیا لیکن اسکو تسلیم کرتے وقت ہم میں سے اکثر کی جان جاتی ہے۔
اگر پاکستان کسی فوجی نے نہیں بنایا تو کسی مولوی نے بھی نہیں بنایا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا یہ تحریک پاکستان کی مولویانہ تشریح ہے۔ پاکستان ہندوستانی مسلمانوں کی قومی موومنٹ کا نام ہے جس میں مسلمانوں کیساتھ ساتھ دیگر غیر مسلموں نے بھی شانہ بشانہ حصہ ڈالا۔ پاکستان بن جانے کے بعد انکو تاریخ سے حذف کرکے کاٹ کر الگ کر دیا گیا۔
بھائی صاحب۔۔۔ پاکستان ’دو قومی نظریہ‘ پر بنا تھا، اور اس کی بنیاد مذہب تھا۔ جس میں ایک قوم ہندو تھی اور دوسری مسلمان۔ مغربی فلسفہ نیشنل ازم میں مذہب نامی کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہے۔
لگتا ہے آپ پر بھی آج کل خان صاحب کا اثر ہو گیا ہے، وہ بھی کل پرسوں تاریخ کا ہتھیاچار فرما رہے تھے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
قادیانی بھی تھے، ہندو بھی تھے، مسیحی بھی۔ تاریخ پاکستان میں انکا حصہ مسخ کیا گیا تاکہ مولویانہ تشریحات پر پاکستان کو چلایا جا سکے۔ اسکا نتیجہ ایک ایسا پاکستان بن کر سامنے آیا جو آج مولویوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے
http://myvoiceunheard.com/non-muslims-leaders-pakistan-movement/
یعنی قادیانی وغیرہ جیسے غیر مسلم؟
 

فرقان احمد

محفلین
موضوع کے دائرے میں رہ کر عرض ہے کہ جج صاحب نے یہ کہہ کر کچھ غلط نہیں کہا ہے کہ پاکستان کسی فوجی نے نہیں بنایا۔ جناح کی کاوشیں سب کے سامنے ہیں جو کہ نامور وکیل بھی رہے۔ اب اس ملک کو ان خطوط پر چلانا چاہیے جس کے لیے یہ وجود میں آیا۔ غالباً جناح یہی چاہتے تھے کہ پاکستان کو اسلام کی سنہری تعلیمات کی روشنی میں چلایا جائے۔ تاہم، یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ تھیوکریسی یا ملائیت کے حق میں ہرگز نہ تھے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
متفق۔ جناح نہ ملائیت کے حق میں تھے نہ فوج کے حق میں۔ جناح اس عوام کے حق میں تھے جس کی انتھک کوششوں اور قربانیوں سے پاکستان وجود میں آیا۔ ۱۹۵۳ تک مولویوں اور افواج کو سیاست میں اینٹری کا موقع نہیں ملا تھا اور ملک کو اسکے عوامی نمائندے ہی چلا رہے تھے۔ مگر پھر ۱۹۵۳ کے اینٹی قادیانی فسادات ہوئے۔ ملک میں پہلی بار مارشل لا لگا۔ فوج کی سیاست میں پہلی بار اینٹری ہوئی۔ فسادات کرنے والے مولوی جیل میں گئے۔ ان پر قانون کے تحت سزائیں ہوئیں مگر پھر کیا ہوا؟ عوامی دباؤ پر سارے فسادی مولوی پھر جیل سے باہر آگئے۔ یوں پاکستان میں ایک غلط روش نے جنم لیا کہ ہر مذہبی دنگا فساد کے بعد سویلین حکومت بے بس فوج کی غلام جبکہ عدلیہ عوامی دباؤ کی غلام بن جاتی ہے۔ یہی چکر آج بھی جوں کا توں قائم ہے۔ اسی لئے فوج اور مولوی پاکستان کی مقدس گائیں بن چکی ہیں۔
تاہم، یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ تھیوکریسی یا ملائیت کے حق میں ہرگز نہ تھے۔
 

فرقان احمد

محفلین
متفق۔ جناح نہ ملائیت کے حق میں تھے نہ فوج کے حق میں۔ جناح اس عوام کے حق میں تھے جس کی انتھک کوششوں اور قربانیوں سے پاکستان وجود میں آیا۔ ۱۹۵۳ تک مولویوں اور افواج کو سیاست میں اینٹری کا موقع نہیں ملا تھا اور ملک کو اسکے عوامی نمائندے ہی چلا رہے تھے۔ مگر پھر ۱۹۵۳ کے اینٹی قادیانی فسادات ہوئے۔ ملک میں پہلی بار مارشل لا لگا۔ فوج کی سیاست میں پہلی بار اینٹری ہوئی۔ فسادات کرنے والے مولوی جیل میں گئے۔ ان پر قانون کے تحت سزائیں ہوئیں مگر پھر کیا ہوا؟ عوامی دباؤ پر سارے فسادی مولوی پھر جیل سے باہر آگئے۔ یوں پاکستان میں ایک غلط روش نے جنم لیا کہ ہر مذہبی دنگا فساد کے بعد سویلین حکومت بے بس فوج کی غلام جبکہ عدلیہ عوامی دباؤ کی غلام بن جاتی ہے۔ یہی چکر آج بھی جوں کا توں قائم ہے۔ اسی لئے فوج اور مولوی پاکستان کی مقدس گائیں بن چکی ہیں۔
1953ء کا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ نہیں تھا۔ ریاستوں میں ایسے معاملات چلتے رہتے ہیں۔ اگر کسی معاملے پر عوام طیش میں آتے ہیں تو اس کا حل نکالنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر کے تمام جمہوری ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جہاں تک اس واقعے میں فوجی مداخلت کی بات ہے تو یہ مداخلت اس سے پہلے سے جاری تھی۔ جناح بھی اس سے کافی حد تک آگاہ تھے۔ اگر حکومت نے فوج کو طلب کیا تھا تو یہ غیرآئینی نہ تھا۔ ہم آپ سے اس حد تک متفق ہیں کہ جتھے بندیوں کے زور پر اپنی بات منوانا غلط ہے تاہم پرامن احتجاج اور دھرنا ہر گروہ کا بنیادی حق ہے تاہم ہر کسی کو بہرصورت آئین اور قانون کی پاسداری کرنی چاہیے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
۱۹۵۳ میں ملک میں پہلی بار سویلین قیادت بے بس نظر آئی اور مارشل لا لگوانا پڑا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مارشل لا کے بعد فساد الارض پھیلانے والے مولویوں کی پکڑ ہوئی۔ ان کو جیلوں میں بھرا گیا۔ قانون کے تحت سخت سزائیں سنائی گئیں۔ سویلین حکومت ہوتی تو ان پر عمل درآمد بھی کرواتی۔ مگر مارشل لا چل رہا تھا۔ عوامی مزاج کو دیکھتے ہوئے وہ سب مولوی فوج سے ڈیل کرکے جیلوں سے باہر آگئے۔ اگر اسوقت خوش اسلوبی سے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جاتا تو ۱۹۷۴ اور اسکے بعد ہونے والے مذہبی فسادات قومی روش کا حصہ نہ بنتے۔
فیض آباد دھرنے کے ساتھ بھی وہی ۱۹۸۳ والی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ جب تک فوجی اور مولوی قانون سے بالا تر رہے گا یہ واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔
1953ء کا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ نہیں تھا۔ ریاستوں میں ایسے معاملات چلتے رہتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
۱۹۵۳ میں ملک میں پہلی بار سویلین قیادت بے بس نظر آئی اور مارشل لا لگوانا پڑا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مارشل لا کے بعد فساد الارض پھیلانے والے مولویوں کی پکڑ ہوئی۔ ان کو جیلوں میں بھرا گیا۔ قانون کے تحت سخت سزائیں سنائی گئیں۔ سویلین حکومت ہوتی تو ان پر عمل درآمد بھی کرواتی۔ مگر مارشل لا چل رہا تھا۔ عوامی مزاج کو دیکھتے ہوئے وہ سب مولوی فوج سے ڈیل کرکے جیلوں سے باہر آگئے۔ اگر اسوقت خوش اسلوبی سے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جاتا تو ۱۹۷۴ اور اسکے بعد ہونے والے مذہبی فسادات قومی روش کا حصہ نہ بنتے۔
فیض آباد دھرنے کے ساتھ بھی وہی ۱۹۸۳ والی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ جب تک فوجی اور مولوی قانون سے بالا تر رہے گا یہ واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔
اول تو یہ مارشل لاء پورے ملک پر محیط نہ تھا۔ سول حکومت نے اس کی منظوری دی تھی۔ یہ غیر آئینی نہ تھا۔ کیا ہر ملک میں کیے جانے والے احتجاج فساد کی ذیل میں رکھے جا سکتے ہیں؟ آپ سے اس حد تک اتفاق ہے کہ احتجاج اور دھرنا پُرامن ہونا چاہیے۔ کسی کو ریاست کی رِٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔
 

فرقان احمد

محفلین
آپ ملائیت کسے کہتے ہیں؟ اور آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے کہ قائداعظم اس کے حق میں نہ تھے؟

قائداعظم، ملائیت اور قیامِ پاکستان

مصلحت اور حکمت کے ہم ایسے غلام ہو چکے ہیں کہ بعض حقائق سے آنکھیں چُرانے لگے ہیں۔ قائداعظم ’’مِسٹر‘‘ محمد علی جناح تھے۔ ’’مولانا‘‘ محمد علی جناح نہیں تھے۔ اسلام کسی ایک طبقہ خاص کا نہیں بلکہ سارے مسلمانوں کا ہے۔ پاکستان دُنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر تخلیق ہوا ہے۔ محمد علی جناح کی قیادت میں آپ تاریخ کو کیسے اور کیونکر تبدیل کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت ایک ’’مسٹر‘‘ کو بخشی، جس نے مدرسے میں نہیں لندن میں تعلیم حاصل کی تھی جو مولوی نہیں بیرسٹر تھا۔ یہ ہے اصل حقیقت۔ ہم سب مسلمان ایک ہیں مگر ہمیں تقسیم در تقسیم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی فرقہ بندی ہے۔ کوئٹہ میں قائداعظم سے سوال ہوا۔ آپ شیعہ ہیں یا سُنی؟ قائداعظم نے جواب میں پوچھا۔ آپؐ کیا تھے؟ لیکن اب تو اہلِ حدیث، دیوبندی، ندوی، بریلوی، مزار، درگاہیں، سیالوی اور جانے کیا کیا تقسیم کے ذرائع پیدا ہوگئے ہیں۔ قائداعظم نے کبھی فرقہ بندی کی بات نہیں کی۔ ان کی آواز میں سچ تھا، دیانتداری تھی، جذبے کی صداقت تھی ہمارے عام مسلمان انکی لیڈرشپ پر متحد ہوگئے۔ ان میں علامہ اقبال تھے۔ جن کا اسلام اور قرآن کا گہرا مطالعہ تھا۔ وہ بھی مولانا اقبال نہیں تھے۔ مغرب کے تعلیم یافتہ اقبال تھے۔ جمعیت علمائے ہند مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی اور خاکسار تحریک کے عطاء اللہ شاہ بخاری، قائداعظم محمد علی جناح کے مخالف تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد مسلم لیگ اور قائداعظم کی نظریہ پاکستان کی اور قیام پاکستان کی اصل مخالف جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بھی بنے اور اُنہوں نے تقسیم ہند کی زبردست مخالفت کی۔ وہ قائداعظم کے شدید مخالف تھے۔

ہمیں کیا اختیار ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو ہی تبدیل کر دیں۔ اقبال ’’ملائیت‘‘ کے خلاف تھے …
؎ پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلاّ کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
یہ الگ بات ہے کہ اب مختلف گروہ مذہبی جنون کو عوام میں بیدار کرکے اپنے سیاسی عزائم پورے کرنا چاہتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے دوگروہ ہیں۔ ایک نے عمران خان کی معاونت کا اعلان کر دیا ہے۔ بریلوی مکتبِ فکر کے افراد اپنی بڑی موجودگی کا ثبوت دینے لگے ہیں مگر وہ خود بھی علیحدہ علیحدہ ہیں اُن میں بھی دو درجن گروپس ہیں۔جس طرح اسلام سب مسلمانوں کا ہے کسی گروہ کی ملکیت نہیں ہے۔ اسی طرح آقا اور سرکار محمد مصطفٰےؐ کی محبت بھی کسی طبقے کی میراث نہیں ہے بلکہ ساری دُُنیا کے مسلمانوں کا اثاثہ ہے۔ مسلمانوں کی اس محبت پر کوئی ایک گروہ کیسے قبضہ کر سکتا ہے۔
جمعیت علمائے ہند چند برسوں پہلے تک اندراگاندھی کو اپنے اجلاسوں میں بلاتی رہی ہے۔ مودی کے وزیراعظم بن جانے کے بعد بھارت کے مسلمان ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔ علامہ اقبال اور محمد علی جناح دور اندیش تھے، تحریک پاکستان میں مسلمان تقسیم نہ ہوتے تو قائداعظم کی شخصیت میں مزید مضبوطی اور قوت آ جاتی حالانکہ یہ بھی کہا گیا۔ ’’یہ قائداعظم ہے کہ ہے کافراعظم‘‘۔ محمد علی جناح نہ صرف عاشق رسولؐ تھے بلکہ آپ سرکارِ دوعالم کے عاشقوں کے عاشق تھے۔ ہمیں غازی علم دین شہید یاد ہے۔ علم دین شہید کی وکالت کے لئے قائداعظم خود لاہور تشریف لائے۔ مگر مشکل یہ تھی کہ قائداعظم کے سمجھانے کے باوجود غازی علم دین مرتبہ شہادت سے کسی صورت محروم ہونے کو تیار نہیں تھے۔ پھر قائد کیا کرتے۔ مجسٹریٹ نے کہا ’’اعتراف کے بعد میں کیا کروں‘‘!
قائداعظم صرف ایک تھے اور مخالفین بے شمار، منحنی، بیمار، نحیف قائداعظم کا حوصلہ بلند تھا اور جذبہ طاقتور وہ بلا کے ذہین تھے۔ راستے کی تمام رُکاوٹوں کو دور کرکے قائد نے ہمیں پاکستان لے کر دیا۔ مسلمانوں کا اپنا چمن آباد ہو گیا۔
بعض بے خبر لوگ قائد اور انکے نائب لیاقت علی خان کی مخالفت کی باتیں بناتے ہیں۔ قائد نے بحیثیت دارالخلافہ کراچی کا انتخاب اور بحیثیت وزیراعظم لیاقت علی خان کا سلیکشن بہت سوچ کر کیا۔ قائد صحت کی صورتحال کی بناء پر زیارت میں مقیم تھے۔ لیاقت علی خان کو طلب کیا حاضر ہوگئے اب صحت کے تقاضے کی بناء پر قائد نے کہا کہ کراچی آمد پر اُن کا استقبال نہ کیا جائے۔ عوام کو پتہ ہوتا کہ قائد زیارت سے تشریف لارہے ہیں تو کراچی میں ہجوم کو قابو رکھنا مشکل ہو جاتا۔ اس بناء پر قائد خاموشی سے تشریف لائے اور جہان فانی سے رُخصت ہوگئے۔ سب سے زیادہ نقصان لیاقت علی خان کو ہوا وہ ’’رہنمائی‘‘ سے محروم ہوگئے۔ لیاقت علی خان اکتوبر 1951ء میں شہید کردئیے گئے۔ 1958ء میں مارشل لاء نافذ ہوگیا۔ ہم نے قائد کی تعلیمات سے انحراف کیا۔ دارالخلافہ شِفٹ کردیا۔ 1971ء میں قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوگیا۔ ہم پاکستانی قائد کی امانت کی حفاظت نہ کرسکے۔ یہ وہ پاکستان نہیں ہے، جو قائد نے تخلیق کیا تھا قائد نے دُنیا کو حیران کر دیا تھا۔
؎ یوں دی ہمیں آزادی کہ دُنیا ہوئی حیران
اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان
اور ہم ایسے احسان فراموش کہ محض 25 برس میں قائد کے پاکستان کے ٹکرے کر دئیے۔ اندراگاندھی نے کہا کہ میں نے نظریہ پاکستان کو بحیرہ عرب میں پھینک دیا ہے۔ بنگلہ دیش خود بھارتی بنگال سے الگ تھلگ نظریہ پاکستان کی علامت بن کر موجود ہے۔ مگر ہم بقیہ پاکستان کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ادارے ہیں مگر اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ کوئی مشرق جا رہا ہے کوئی مغرب کوئی شمال تو کوئی جنوب سب ایک Page پر نہیں ہیں۔ کیا ہم خاطرِ پاکستان ایک نہیں ہو سکتے۔ اپنے ملک کی خاطر جس کی بنیادوں میں ہزاروں مسلمانوں کا خون شامل ہے۔ جو اسلام کے نام پر بنایا گیا۔ ایک خطۂ زمین جو مسلمانوں کے نام پر حاصل کیا گیا۔ آزادی کی قدر فلسطینیوں سے پوچھو روہنگیا مسلمانوں سے پوچھو۔ قائد کی پکار سنو۔
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کر

ربط ÷ مضمون از مخدوم محمد ذکی ایڈوکیٹ
÷÷÷

عام طور پر ہم طویل اقتباسات پیش کرنے سے کتراتے ہیں۔ تاہم، یہ مضمون آپ کی نذر!
 
گویا قائد ملائیت کے حق میں تھے۔ یہ ایک انکشاف ہے۔ :) بہرصورت، اس موضوع پر آپ کے ساتھ مزید بات ہو گی، فی الحال چند مصروفیات آڑے آ رہی ہیں۔ :)
پہلے آپ آپکے نزدیک ملائیت کیا ہے اسے ڈیفائن کریں پھر اس پر اپنا مؤقف ثابت کریں۔
 
Top