فراق فِراق گورکھپُوری ::::: لُطف نہیں کرَم نہیں ::::: Firaq Gorakhpuri

طارق شاہ

محفلین
غزلِ

فِراق گورکھپُوری

لُطف نہیں کرَم نہیں
جور نہیں سِتم نہیں

اب نہیں رُوئے مہ چَکاں
گیسُوئے خم بہ خم نہیں

برسرِ عالمِ وجُود
کون سی شے عدم نہیں

یُوں ہی نِکل گئی اِک آہ
رنج نہیں، الَم نہیں

قائلِ حُسنِ دِلفریب
آپ نہیں کہ ہم نہیں

میں تِرا موردِ عتاب
اِس سے بڑا کرَم نہیں

عالمِ حُسنِ محضِ یار
عالمِ کیف و کم نہیں

جس کے لیے غزل کہُوں
ایسا کوئی صنم نہیں

کب کوئی آہُوئے جَمِیل
مائلِ عزمِ رَم نہیں

مظہرِ دو جہاں ہُوں میں
عِشق ہُوں جامِ جم نہیں

رقصِ شرر سے دیرپا
زندگیِ اُمم نہیں

ہاں کوئی اور ہی قسم
کھائی ہُوئی قسم نہیں

آج بہت اُداس ہُوں
یُوں کوئی خاص غم نہیں

ہائے یہ بیخودیِ غم
آئے جو وہ، تو ہم نہیں

غالب و مِیر و مصحفی
ہم بھی فِراق کم نہیں

فراق گورکھپوری
 
Top