فنِ خطاطی: وقت کی دھول میں گُم ہوتا پیشہ!

arifkarim

معطل
فنِ خطاطی: وقت کی دھول میں گُم ہوتا پیشہ

"ایک وقت تھا جب خوبصورت لکھائی کے حامل افراد کو قابلِ تحسین سمجھا جاتا تھا اور خطاطی ایک قابلِ قدر پیشہ تھا مگر اب جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے یہ صورت حال بدل دی ہے۔"

ان خیالات کا اظہار پینسٹھ سالہ رانا محمد اسلم نے کیا جو جھنگ شہر کے رہائشی ہیں اور گزشتہ پچیس سال سے میلاد چوک میں رانا جی پینٹرز کے نام سے اپنی دکان چلا رہے ہیں۔

اسلم کا کہنا تھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ خوشخطی کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ لکھائی کا زیادہ تر کام اب کمپیوٹرز کی مدد سے کیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق جدید آلات کے آنے سے جہاں سینکڑوں ہنر مند بے روزگار ہوئے ہیں وہیں اس کے نتیجے میں نئی نسل بھی ہاتھ سے لکھنے کے فن سے آشنا نہیں رہی۔

"قدیم وقتوں میں تمام عبارتیں چونکہ ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں اس لیے خوشخطی پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی مگر اب لکھائی کے سارے کام کمپیوٹر پر آن لائن کر لیے جاتے ہیں۔"

اسلم کا کہنا تھا کہ سائنسی آلات اور لوگوں کی عدم دلچسپی کے باعث خطاطی کا فن ختم ہوتا جا رہا ہے اور اس سے وابستہ افراد کے لیے گھریلو اخراجات پورے کرنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔

ان کے بقول فن خطاطی جدید دور میں ماضی کی بھولی بسری یادگار بن کر رہ گیا ہے اور خطاط حضرات نے بھی اب دوکانوں پر کمپیوٹر کی مدد سے فلیکس تیار کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔

خطاطی کا کام اب صرف دیواروں اور سنگ تراشی تک محدود ہو چکا ہے جبکہ اس سے وابستہ افراد دیگر پیشے اپنا رہے ہیں

تینتیس سالہ سجاد بھٹی ایک ایسے ہی کاریگر ہیں جو اب خطاطی کی بجائے فلیکس ڈیزائن کرتے ہیں۔

ان کا مؤقف تھا کہ خطاطی کا کام اب صرف دیواروں اور سنگ تراشی تک محدود ہو چکا ہے اس لیے انھوں نے فلیکس ڈیزائننگ کا کام شروع کیا ہے تاکہ ان کے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ ہو۔

"آج سے چند سال پہلے تک بینرز اور کاغذ پر لکھائی کا کام بہت زیادہ تھا اور گاہکوں کو کئی ہفتے بعد کا وقت دینا پڑتا تھا مگر ڈیجیٹل اشتہارات اور فلیکسز کے باعث ہمارا کام ٹھپ ہو گیا۔"

محمد رمضان بھی پیشہ ور خطاط ہیں اور اس فن کے زوال پذیر ہونے پر خاصے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔

ساٹھ سالہ رمضان اب بھی اس سنہرے دور کو یاد کرتے ہیں جب کثیر تعداد میں طلباء ان سے خطاطی سیکھنے آیا کرتے تھے۔

"اس وقت سکولوں میں اچھی خطاطی پر الگ سے نمبر ملتے تھے اور طالبِ علم ایک دوسرے کے ساتھ لکھائی کا مقابلہ کیا کرتے تھے مگر اب خوشخطی کی بجائے گریڈز کو اہمیت حاصل ہے اور نوجوان نسل میں بھی اس کا شوق نہیں رہا۔"

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ان کی آمدن میں پچاس فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے اور انھیں اب مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

پچپن سالہ محمد یاسین خطاطی کو ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہیں اور بچپن ہی سے اس سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔

یاسین پیشے کے اعتبار سے اُستاد ہیں اور گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ میں اُردو کا مضمون پڑھاتے ہیں۔

تاہم وہ اس حقیقت پر قدرے افسردہ ہیں کہ موجودہ زمانے میں خطاطی کی افادیت کھو گئی ہے اور طالب علموں کو خوشخطی کی بجائے امتحان میں زیادہ نمبر لینے میں دلچسپی ہوتی ہے۔

"آج کل کے طالب علم خوبصورت تحریر کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں دیتے، انہیں صرف امتحان میں زیادہ نمبروں سے کامیابی کی فکر رہتی ہے۔"

ان کا مؤقف تھا کہ حکومت کو سرکاری طور پر سکولوں میں خطاطی کا ایک پیریڈ شروع کرنا چاہیے تاکہ اس فن کو زندہ رکھا جا سکے۔
ماخذ

متلاشی شاکرالقادری عبدالحفیظ عبدالمجید دوست سید ذیشان فاتح نبیل ابن سعید عمار ابن ضیا سیدہ شگفتہ الف عین
 

فاتح

لائبریرین
نئی ایجادات سے سہولت پیدا ہوتی ہے اور پرانے ہنر کی ضرورت باقی نہیں رہتی، ایک خطاطی پر ہی کیا موقوف یہ صورت حال ہر ہنر کے ساتھ ہے۔ جتنی چاہیں مثالیں بنا لیں۔ جیسے زیک نے ایک مثال دی
 

arifkarim

معطل
جب سے پتھروں پر لکھائی کا فن دنیا سے ختم ہوا ہے ایک نفسانفسی کا عالم ہے۔
خطاطی صرف لکھائی کا فن ہی نہیں ہے۔ یہ ہمارا لوک ورثہ بھی ہے۔ میری رائے میں ان ماہر خطاطوں کو ڈیجیٹل خطاطی ٹیبلٹ کے استعمال کے ذریعہ اپنے اس فن کو زندہ رکھنا چاہئے۔ گو کہ یہ کاغذ اور دوات کا متبادل ثابت نہیں ہوگے البتہ آئندہ آنے والی نسلوں میں خطاطی کے فروغ کا باعث ضرور بنیں گے۔
 
اگر ڈیجیٹل پین کی طرح خطاطی والا قلم بھی ڈیجیٹل آ جائے تو خطاط حضرات کے لیے بہت اچھا ہو جائے گا۔ اور وہ اپنی تخلیقات کو بلا واسطہ ڈیجیٹلائز کر سکیں گے۔
 

arifkarim

معطل
ڈیجیٹل خطاطی کے ساتھ ساتھ دوات اورقلم والی خطاطی بھی باقی رہنی چاہئے۔
پھر تو زیک کی بات یعنی نفسا نفسی کا عالم درست ثابت ہو جاتی ہے۔ ہمیں ماضی کے فن کو حال و مستقبل میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ واپس پتھروں کے زمانہ کی باقیات کو آج کے دور میں زندہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔
 

arifkarim

معطل
اگر ڈیجیٹل پین کی طرح خطاطی والا قلم بھی ڈیجیٹل آ جائے تو خطاط حضرات کے لیے بہت اچھا ہو جائے گا۔ اور وہ اپنی تخلیقات کو بلا واسطہ ڈیجیٹلائز کر سکیں گے۔
خطاط حضرات تو اسکام کیلئے بہت سے کسٹم پین استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ کام ڈیجیٹل طور پر کرنا ممکن نہیں؟ یا پین کو فزیکلی ویسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ خطاط حضرات کو درکار ہوتا ہے؟
 
خطاط حضرات تو اسکام کیلئے بہت سے کسٹم پین استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ کام ڈیجیٹل طور پر کرنا ممکن نہیں؟ یا پین کو فزیکلی ویسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ خطاط حضرات کو درکار ہوتا ہے؟
بالکل ممکن ہے، ڈیجیٹل پین ٹیکنالوجی ہی استعمال ہو گی، صرف آگے نب کا سٹائل مختلف ہو گا۔
 

arifkarim

معطل
بالکل ممکن ہے، ڈیجیٹل پین ٹیکنالوجی ہی استعمال ہو گی، صرف آگے نب کا سٹائل مختلف ہو گا۔

متلاشی نے ایک بار بتایا تھا کہ پاکستان میں بعض بڑی اشتہاری کمپنیاں اسی طرح ٹیبلٹ پر ڈیجیٹل خطاطی کر واتی ہیں۔ شاید اسے زیادہ معلوم ہو اسبارہ میں۔
 

متلاشی

محفلین
متلاشی نے ایک بار بتایا تھا کہ پاکستان میں بعض بڑی اشتہاری کمپنیاں اسی طرح ٹیبلٹ پر ڈیجیٹل خطاطی کر واتی ہیں۔ شاید اسے زیادہ معلوم ہو اسبارہ میں۔
اگرچہ ڈیجیٹل ٹیبلٹ اور پین کے ساتھ لکھائی ممکن ہے مگر اس میں وہ ہاتھ کی خطاطی جیسا چارم موجود نہیں ۔۔۔ اور ہاتھ سے خطاطی ایک باقاعدہ فن ہے اور اسے ہر صورت زندہ رہنا چاہیے ۔۔۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کام میں سہولت کے لیے تو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔۔ مگر جدید ٹیکنالوجی کو اس فن کا مبدل ہرگز ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔۔۔ ٹیکنالوجی جتنی بھی ایڈوانسڈ ہو جائے وہ ہاتھ سے خطاطی کے معیار تک نہیں پہنچ سکتی ۔۔۔
 

arifkarim

معطل
اگرچہ ڈیجیٹل ٹیبلٹ اور پین کے ساتھ لکھائی ممکن ہے مگر اس میں وہ ہاتھ کی خطاطی جیسا چارم موجود نہیں ۔۔۔ اور ہاتھ سے خطاطی ایک باقاعدہ فن ہے اور اسے ہر صورت زندہ رہنا چاہیے ۔۔۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کام میں سہولت کے لیے تو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔۔ مگر جدید ٹیکنالوجی کو اس فن کا مبدل ہرگز ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔۔۔ ٹیکنالوجی جتنی بھی ایڈوانسڈ ہو جائے وہ ہاتھ سے خطاطی کے معیار تک نہیں پہنچ سکتی ۔۔۔
اس چارم کے چکر میں ہم اپنا بہت سا قیمتی لوک ورثہ کھو چکے ہیں۔ آپ ہاتھ سے خطاطی کاغذ پر کریں یا ٹیبلیٹ پر، چیز تو وہی نکلنی ہے۔ بالفرض کاغذ پر کر کے اسے ڈیجٹلائز بھی کر لیا جائے تو جو کوالٹی سیدھا ڈیجیٹل لکھنے میں ہوگی وہ نہیں مل سکے گی۔
 

متلاشی

محفلین
اس چارم کے چکر میں ہم اپنا بہت سا قیمتی لوک ورثہ کھو چکے ہیں۔ آپ ہاتھ سے خطاطی کاغذ پر کریں یا ٹیبلیٹ پر، چیز تو وہی نکلنی ہے۔ بالفرض کاغذ پر کر کے اسے ڈیجٹلائز بھی کر لیا جائے تو جو کوالٹی سیدھا ڈیجیٹل لکھنے میں ہوگی وہ نہیں مل سکے گی۔
آپ سمجھے نہیں کاغذ پر خطاطی کرنے اور ٹیبلٹ پر خطاطی کرنے میں بہت فرق ہے
 
مگر میرا خیال ہے کہ پیپر جیسی سطح آج نہیں تو کل حاصل کر کے سپیشلائزڈ ٹیبلٹس بنائی جا سکیں گی۔
جیسا کہ ای بک کی سطح وقتاً فوقتاً بہتر ہوتی گئی ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پاکستان میں شاید بہت بے توجہی ہے ورنہ دوسرے ممالک میں خطاطی کو ابھی بھی اہمیت حاصل ہے۔ میں اگر غلطی پر نہیں ہوں تو ایران میں تو شاید سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے خطاطی کے فن کو زندہ رکھنے میں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فنِ خطاطی: وقت کی دھول میں گُم ہوتا پیشہ

"ایک وقت تھا جب خوبصورت لکھائی کے حامل افراد کو قابلِ تحسین سمجھا جاتا تھا اور خطاطی ایک قابلِ قدر پیشہ تھا مگر اب جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے یہ صورت حال بدل دی ہے۔"

ان خیالات کا اظہار پینسٹھ سالہ رانا محمد اسلم نے کیا جو جھنگ شہر کے رہائشی ہیں اور گزشتہ پچیس سال سے میلاد چوک میں رانا جی پینٹرز کے نام سے اپنی دکان چلا رہے ہیں۔

اسلم کا کہنا تھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ خوشخطی کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ لکھائی کا زیادہ تر کام اب کمپیوٹرز کی مدد سے کیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق جدید آلات کے آنے سے جہاں سینکڑوں ہنر مند بے روزگار ہوئے ہیں وہیں اس کے نتیجے میں نئی نسل بھی ہاتھ سے لکھنے کے فن سے آشنا نہیں رہی۔

"قدیم وقتوں میں تمام عبارتیں چونکہ ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں اس لیے خوشخطی پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی مگر اب لکھائی کے سارے کام کمپیوٹر پر آن لائن کر لیے جاتے ہیں۔"

اسلم کا کہنا تھا کہ سائنسی آلات اور لوگوں کی عدم دلچسپی کے باعث خطاطی کا فن ختم ہوتا جا رہا ہے اور اس سے وابستہ افراد کے لیے گھریلو اخراجات پورے کرنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔

ان کے بقول فن خطاطی جدید دور میں ماضی کی بھولی بسری یادگار بن کر رہ گیا ہے اور خطاط حضرات نے بھی اب دوکانوں پر کمپیوٹر کی مدد سے فلیکس تیار کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔

خطاطی کا کام اب صرف دیواروں اور سنگ تراشی تک محدود ہو چکا ہے جبکہ اس سے وابستہ افراد دیگر پیشے اپنا رہے ہیں

تینتیس سالہ سجاد بھٹی ایک ایسے ہی کاریگر ہیں جو اب خطاطی کی بجائے فلیکس ڈیزائن کرتے ہیں۔

ان کا مؤقف تھا کہ خطاطی کا کام اب صرف دیواروں اور سنگ تراشی تک محدود ہو چکا ہے اس لیے انھوں نے فلیکس ڈیزائننگ کا کام شروع کیا ہے تاکہ ان کے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ ہو۔

"آج سے چند سال پہلے تک بینرز اور کاغذ پر لکھائی کا کام بہت زیادہ تھا اور گاہکوں کو کئی ہفتے بعد کا وقت دینا پڑتا تھا مگر ڈیجیٹل اشتہارات اور فلیکسز کے باعث ہمارا کام ٹھپ ہو گیا۔"

محمد رمضان بھی پیشہ ور خطاط ہیں اور اس فن کے زوال پذیر ہونے پر خاصے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔

ساٹھ سالہ رمضان اب بھی اس سنہرے دور کو یاد کرتے ہیں جب کثیر تعداد میں طلباء ان سے خطاطی سیکھنے آیا کرتے تھے۔

"اس وقت سکولوں میں اچھی خطاطی پر الگ سے نمبر ملتے تھے اور طالبِ علم ایک دوسرے کے ساتھ لکھائی کا مقابلہ کیا کرتے تھے مگر اب خوشخطی کی بجائے گریڈز کو اہمیت حاصل ہے اور نوجوان نسل میں بھی اس کا شوق نہیں رہا۔"

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ان کی آمدن میں پچاس فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے اور انھیں اب مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

پچپن سالہ محمد یاسین خطاطی کو ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہیں اور بچپن ہی سے اس سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔

یاسین پیشے کے اعتبار سے اُستاد ہیں اور گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ میں اُردو کا مضمون پڑھاتے ہیں۔

تاہم وہ اس حقیقت پر قدرے افسردہ ہیں کہ موجودہ زمانے میں خطاطی کی افادیت کھو گئی ہے اور طالب علموں کو خوشخطی کی بجائے امتحان میں زیادہ نمبر لینے میں دلچسپی ہوتی ہے۔

"آج کل کے طالب علم خوبصورت تحریر کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں دیتے، انہیں صرف امتحان میں زیادہ نمبروں سے کامیابی کی فکر رہتی ہے۔"

ان کا مؤقف تھا کہ حکومت کو سرکاری طور پر سکولوں میں خطاطی کا ایک پیریڈ شروع کرنا چاہیے تاکہ اس فن کو زندہ رکھا جا سکے۔
ماخذ

متلاشی شاکرالقادری عبدالحفیظ عبدالمجید دوست سید ذیشان فاتح نبیل ابن سعید عمار ابن ضیا سیدہ شگفتہ الف عین

شکریہ،آپ نے ٹیگ کیا ہوا ہے، لیکن ٹیگ نہیں ملا۔

پاکستان میں اگر اسکولوں میں خطاطی کی تعلیم دی جائے تو بہت اچھا ہو جانا ہے۔ دوسرے شہروں میں نہیں معلوم کیا صورت ہے، تاہم کراچی میں تو لازمی کر دیا جائے، یہاں تو لکھائی کی جانب مجرمانہ حد تک بے توجہی و غفلت ہے۔ کروڑوں کی آبادی میں انتہائی قلیل تعداد ملے گی اچھی لکھائی کی۔ اور حروف کی ساخت (فارمیشن) کی اغلاط دیکھ کر تو بندے کا بی پی اگر نیچے ہو تو یقینا بلندی کی جانب پرواز کر جائے گا :)

کم از کم پاکستان بھر میں تختی کا لکھنا ہی لازم قرار ہو بچوں کے لیے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کچھ تفصیل سے سمجھائیں۔
ٹیبلیٹ کی سطح اور اس پر اس کے خاص قلم کے درمیان فرکشن کو ایفشینٹ یکسا ں ہو گا جبکہ کاغذ قلم کے یا تختی قلم کے درمیان سیاہی کی نمی اور سطح کی نوعیت کے مطابق ہاتھ کی روانی اور رواشنائی کے مطابق ان کا ہلکا گہرا ہونا وغیرہ کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن سے دونوں میں بہت فرق ہو جاتا ہے اسے ایک خطاط کا ہاتھ ہی محسوس کر سکتا ہے۔البتہ ٹیکنالوجی کے ہر پہلو سے اسے سنوارا جانا بھی چاہیئے۔
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اگرچہ ڈیجیٹل ٹیبلٹ اور پین کے ساتھ لکھائی ممکن ہے مگر اس میں وہ ہاتھ کی خطاطی جیسا چارم موجود نہیں ۔۔۔ اور ہاتھ سے خطاطی ایک باقاعدہ فن ہے اور اسے ہر صورت زندہ رہنا چاہیے ۔۔۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کام میں سہولت کے لیے تو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔۔ مگر جدید ٹیکنالوجی کو اس فن کا مبدل ہرگز ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔۔۔ ٹیکنالوجی جتنی بھی ایڈوانسڈ ہو جائے وہ ہاتھ سے خطاطی کے معیار تک نہیں پہنچ سکتی ۔۔۔

درست
 
Top