فلسفے عشق میں پیش آئے سوالوں کی طرح

ظفری

لائبریرین
فلسفے عشق میں پیش آئے سوالوں کی طرح
ہم پریشاں ہی رہے اپنے خیالوں کی طرح

شیشہ گر بیٹھے رہے ذکرِ مسیحا لے کر
اور ہم ٹوٹ گئے کانچ کے پیالوں کی طرح

جب بھی انجامِ محبت نے پکارا خود کو
وقت نے پیش کیا ہم کو مثالوں کی طرح

ذکر جب ہوگا محبت میں تباہی کا کہیں
یاد ہم آئیں گے دنیا کو حوالوں کی طرح

شاعر : نامعلوم ( حسبِ معمول )
 

خوشی

محفلین
واہ ظفری جی مگر شاعر نامعلوم کیوں ہے اور پھر ہمیشہ کی طرح کہہ کے آپ نے اور مشکوک کر دیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
فلسفے عشق میں پیش آئے سوالوں کی طرح
گلوکار: محمد رفیع
موسیقی: تاج احمد خان
شاعر: سدرشن فاخر

 

ظفری

لائبریرین
یہ غزل میری یادوں کی دریچوں سے ایک بازگشت سی تھی ۔ مجھے علم نہیں‌ تھا کہ یہ غزل رفیع صاحب نے بھی گائی ہے ۔ شکریہ فرخ بھائی کا کہ انہوں‌ نے یہ کلپ یہاں شئیر کیا ۔ مگر مجھے حیرت ہے کہ میں‌ نے دو دہائیوں کے بعد بھی صرف حافظے کی بنیاد پر یہ غزل صحیح پیرائے میں یہاں پوسٹ کردی ۔ شکریہ سب پسند کرنے والوں کا ۔
 
Top