فضل تابش - ایک نظم : جنگ کے بعد

عندلیب

محفلین
جنگ کے بعد
- فضل تابش

میز اک پاؤں گنوا چکی ہے
تکیہ کرسی سے الگ رکھا ہے
وار چوکا تھا صراحی کا گلا کہتا ہے
کاپیوں اور کتابوں پہ پڑے نیلے داغ
کہہ رہے ہیں کہ دوات الٹی تھی
منی ٹوٹی ہوئی چوڑی کے لئے روتی ہے
منا روتا ہے کہ گھوڑے کی کمر ٹوٹ گئی
مرغیاں چنتی ہیں بکھرے گیہوں
کچھ نہ سمجھی ہیں تو خوش خوش سی نظر آتی ہیں
وہ جو گھورا تھا گلی کے منہ پر
جیسے کمرے میں چلا آیا ہو
میں بھی کچھ ٹوٹا ہوا بیٹھا ہوں
تم بھی کچھ کم سے نظر آتے ہو
کمرا اتنا ہی بڑا تھا کل بھی
 
Top