فردوس عاشق اعوان کی جگہ عاصم سلیم باجوہ معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر

جاسم محمد

محفلین
وہ پی پی پی کے دور کی فوٹو ہے جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے اور فردوس عاشق اعوان نے رو رو کر استعفیٰ دیا تھا کہ لوگ انہیں کام نہیں کرنے دیتے۔
شکریہ۔ ویڈیو مل گئی ہے۔ اُس وقت بھی فردوس آپا نےانفارمیشن منسٹری سے ہی استعفیٰ دیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
EWnpuQEXkAARwBS.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
جس ایک پیج پر سب ہوا کرتے تھے، اب اُس پر صرف اُن کا قبضہ ہوتا جارہا ہے مختاریا!!! حکومت دس دی نئیں پئی۔
ماضی میں لگنے والے مارشل لاؤں کے بعد فوجی حکمران ان سیاست دانوں کی تلاش کرتے تھے جن کو آلہ کار بنا کر حکومت چلائی جا سکے۔ اس بار ی گیم الٹ گئی ہے۔ اب سلیکٹڈ سول حکومت کے ذریعہ جرنیل کابینہ اور دیگر اہم عہدوں پر فٹ کئے جارہے ہیں تاکہ حکومت کا پہیہ چل سکے۔ :)
 
ماضی میں لگنے والے مارشل لاؤں کے بعد فوجی حکمران ان سیاست دانوں کی تلاش کرتے تھے جن کو آلہ کار بنا کر حکومت چلائی جا سکے۔ اس بار ی گیم الٹ گئی ہے۔ اب سلیکٹڈ سول حکومت کے ذریعہ جرنیل کابینہ اور دیگر اہم عہدوں پر فٹ کئے جارہے ہیں تاکہ حکومت کا پہیہ چل سکے۔ :)
اس باری ہی تو گیم، سیٹ اینڈ میچ درست انداز میں فکس ہوا ہے بادشاہو!!!
 

جاسم محمد

محفلین
اس باری ہی تو گیم، سیٹ اینڈ میچ درست انداز میں فکس ہوا ہے بادشاہو!!!
پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھٹو کے پاس پارلیمان میں دو تہائی اکثریت تھی۔ فوج کا مورال ڈاؤن تھا۔ چاہتا تو فوج کا اثر رسوخ بالکل ختم کر سکتا تھا۔ لیکن نہیں۔ اپنے جیسے کسی چاپلوس ضیاء الحق کو نیچے سے اٹھا کر اوپر لایا اور پھر آرمی چیف لگا دیا۔ اگلے الیکشن میں جیت کے واضح امکانات کے باوجود 40 سیٹوں پر دھاندلی کروائی۔ اور جب اپوزیشن سڑکوں پر نکلی تو ا ن کے ساتھ مذاکرات کی بجائے بیرون ملک سیر کیلئے نکل گیا ۔ واپس آیا تو جنرل ضیا تختہ الٹنے کی پلاننگ مکمل کر چکا تھا۔ اس ساری ناقص حکمت عملی کا ذمہ دار بھٹو خود تھا۔
جرنل ضیا مارشل لگانے کے بعد 11 سال غیر آئینی و قانونی طور پر حکمران بنے رہے۔ یہاں تک کہ مخالف جرنیلوں کو آم کی پیٹیوں میں بم رکھ کر ضیا کو دنیا سے فارغ کرنا پڑا۔ کروڑ ہا نفوس پر مشتمل عوام ایک ذہنی بیمار اور مذہبی شدت پسند شخص کو 11 سال اپنا حکمران بنا دیکھتی رہی۔ اگر مخالف جرنیل ضیا کا جہاز نہ پھاڑتے تو معلوم نہیں کتنے سال وہ اقتدار پر براجمان رہتا۔
1988 میں جمہوریت واپس آئی تو بینظیر نے واضح اکثریت کے باوجود جرنیلوں سے معاہدہ کرکے اقتدار کی منتقلی پر دستخط کئے۔ جو جلد ہی ان کی لیڈرشپ سے نالاں ہو کر نواز شریف کو اقتدار میں لے آئے۔ نواز شریف چاہتے تو جرنیلوں سے بنا کر ان کو رام کر سکتے تھے لیکن وہ بھی اختیارات کے حصول کیلئے صدر مملکت سے الجھ پڑے۔ نتیجہ وہ اور صدر دونوں فوج کی مشاورت سے فارغ ہو گئے۔ اگلا الیکشن ہوا بینظیر دوبارہ اقتدار میں آئیں تو ملک سے انتقام لیتے ہوئے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیا۔ حالیہ بجلی سکینڈل میں ملوث کئی ہزار ارب روپے کھانے والی آئی پی پیز اسی دور کی پیداوار ہیں۔ کرپشن الزامات پر ان کی حکومت برطرف ہوئی تو نواز شریف کو دو تہائی اکثریت حکومت بنانے کا موقع ملا۔ وہ پھر ملک سدھارنے کی بجائے اپنی روایتی اختیارات کی جنگ کو لے کر بیٹھ۔ جو جرنیل پسند نہ آتا اسے موقع پر فارغ کر دیتے۔ آئینی ترامیم کے ذریعہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ کی عمارت پر اپنی پارٹی کے غنڈوں کے ذریعہ حملہ بھی کروایا۔ اور بعد میں کارگل تنازعہ پر مشرف نے ان کو گھر بھیج دیا۔
یقین کریں دو تہائی اکثریت سے قائم حکومت جب دو سال بعد فوج نے گھر بھیجی تو عوام نے مٹھائیاں بانٹی اور ملک میں کوئی گملا بھی نہیں ٹوٹا۔ مشرف بھی ضیا کے نقش قدم پر چل کے 8 سال بڑے سکون سے حکومت کرتے رہے۔ جبکہ ان کے آلہ کار سیاست دان ایک غیر آئینی اور قانونی فوجی حکمران کا دفاع اور تحفظ فراہم کرتے رہے۔
2006 میں ملک کی تمام بڑی جماعتوں کے مابین میثاق جمہوریت کے بعد 2008 میں جمہوریت واپس آئی۔ اب کی بار سب کو یقین تھا کہ ماضی کی تاریخ نہیں دہرائی جائی گی۔ لیکن ہوا پھر وہی جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ پی پی پی کے دور اقتدار میں نواز شریف فوج کے آلہ کار بنے رہے۔ اور پھر اگلے پانچ سال یعنی نواز شریف کے دور میں عمران خان نے یہ رول ادا کیا۔
اب 2018 الیکشن کے بعد مقتدر حلقوں نے ایسا پکا بندوبست کیا ہے کہ اپوزیشن، میڈیا، عوام سب کو نانی یاد آگئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ وطن تمہارا ہے
تم ہو پاسباں اس کے
1. وزیر داخلہ۔۔۔ بریگیڈیئر اعجاز شاہ
2. سیکریٹری داخلہ۔۔۔ میجر سلیمان اعظم
3. اٹارنی جنرل۔۔۔ کیپٹن انور منصور
4. آئی جی پنجاب۔۔۔ شعیب دستگیر۔۔
5. چیئرمین سی پیک اتھارٹی ۔۔۔ جنرل عاصم باجوہ
6. چیئرمین پی آئی اے۔۔۔ایئرمارشل ارشد محمود
7. چیئرمین واپڈا ۔۔۔ لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین
8. مینیجنگ ڈائیریکٹر پی ٹی وی۔۔۔ میجر جنرل آصف غفور
9. ڈائیریکٹر سول ایوی ایشن اتھارٹی۔۔سکوڈرن لیڈر شاہ رخ نصرت۔
10. ڈائیریکٹر جنرل۔۔ اینٹی نارکوٹکس فورس۔۔ میجر جنرل عارف ملک۔
11. ڈائیریکٹر ۔۔ ایرپورٹ سیکیورٹی فورس۔ میجر جنرل ظفر الحق۔
12. ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن ۔۔ میجر جنرل عظیم
13. نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی۔ لیفٹینٹ جنرل عمر محمود
14. وزیر اعظم ھاؤسنگ اتھارٹی۔۔ لیفٹیننٹ جنرل سید انوار علی حیدر ۔۔
‏15. ڈائیریکٹر سپارکو : میجر جنرل قیصر انیس
16. ڈائیریکٹر ایرا اتھارٹی۔۔۔ لیفٹیننٹ جنرل عمر محمود حیات
17. ڈائریکٹرجنرل نیب لاھور۔۔۔ میجر شہزاد سلیم

سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے
 
پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھٹو کے پاس پارلیمان میں دو تہائی اکثریت تھی۔ فوج کا مورال ڈاؤن تھا۔ چاہتا تو فوج کا اثر رسوخ بالکل ختم کر سکتا تھا۔ لیکن نہیں۔ اپنے جیسے کسی چاپلوس ضیاء الحق کو نیچے سے اٹھا کر اوپر لایا اور پھر آرمی چیف لگا دیا۔ اگلے الیکشن میں جیت کے واضح امکانات کے باوجود 40 سیٹوں پر دھاندلی کروائی۔ اور جب اپوزیشن سڑکوں پر نکلی تو ا ن کے ساتھ مذاکرات کی بجائے بیرون ملک سیر کیلئے نکل گیا ۔ واپس آیا تو جنرل ضیا تختہ الٹنے کی پلاننگ مکمل کر چکا تھا۔ اس ساری ناقص حکمت عملی کا ذمہ دار بھٹو خود تھا۔
جرنل ضیا مارشل لگانے کے بعد 11 سال غیر آئینی و قانونی طور پر حکمران بنے رہے۔ یہاں تک کہ مخالف جرنیلوں کو آم کی پیٹیوں میں بم رکھ کر ضیا کو دنیا سے فارغ کرنا پڑا۔ کروڑ ہا نفوس پر مشتمل عوام ایک ذہنی بیمار اور مذہبی شدت پسند شخص کو 11 سال اپنا حکمران بنا دیکھتی رہی۔ اگر مخالف جرنیل ضیا کا جہاز نہ پھاڑتے تو معلوم نہیں کتنے سال وہ اقتدار پر براجمان رہتا۔
1988 میں جمہوریت واپس آئی تو بینظیر نے واضح اکثریت کے باوجود جرنیلوں سے معاہدہ کرکے اقتدار کی منتقلی پر دستخط کئے۔ جو جلد ہی ان کی لیڈرشپ سے نالاں ہو کر نواز شریف کو اقتدار میں لے آئے۔ نواز شریف چاہتے تو جرنیلوں سے بنا کر ان کو رام کر سکتے تھے لیکن وہ بھی اختیارات کے حصول کیلئے صدر مملکت سے الجھ پڑے۔ نتیجہ وہ اور صدر دونوں فوج کی مشاورت سے فارغ ہو گئے۔ اگلا الیکشن ہوا بینظیر دوبارہ اقتدار میں آئیں تو ملک سے انتقام لیتے ہوئے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیا۔ حالیہ بجلی سکینڈل میں ملوث کئی ہزار ارب روپے کھانے والی آئی پی پیز اسی دور کی پیداوار ہیں۔ کرپشن الزامات پر ان کی حکومت برطرف ہوئی تو نواز شریف کو دو تہائی اکثریت حکومت بنانے کا موقع ملا۔ وہ پھر ملک سدھارنے کی بجائے اپنی روایتی اختیارات کی جنگ کو لے کر بیٹھ۔ جو جرنیل پسند نہ آتا اسے موقع پر فارغ کر دیتے۔ آئینی ترامیم کے ذریعہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ کی عمارت پر اپنی پارٹی کے غنڈوں کے ذریعہ حملہ بھی کروایا۔ اور بعد میں کارگل تنازعہ پر مشرف نے ان کو گھر بھیج دیا۔
یقین کریں دو تہائی اکثریت سے قائم حکومت جب دو سال بعد فوج نے گھر بھیجی تو عوام نے مٹھائیاں بانٹی اور ملک میں کوئی گملا بھی نہیں ٹوٹا۔ مشرف بھی ضیا کے نقش قدم پر چل کے 8 سال بڑے سکون سے حکومت کرتے رہے۔ جبکہ ان کے آلہ کار سیاست دان ایک غیر آئینی اور قانونی فوجی حکمران کا دفاع اور تحفظ فراہم کرتے رہے۔
2006 میں ملک کی تمام بڑی جماعتوں کے مابین میثاق جمہوریت کے بعد 2008 میں جمہوریت واپس آئی۔ اب کی بار سب کو یقین تھا کہ ماضی کی تاریخ نہیں دہرائی جائی گی۔ لیکن ہوا پھر وہی جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ پی پی پی کے دور اقتدار میں نواز شریف فوج کے آلہ کار بنے رہے۔ اور پھر اگلے پانچ سال یعنی نواز شریف کے دور میں عمران خان نے یہ رول ادا کیا۔
اب 2018 الیکشن کے بعد مقتدر حلقوں نے ایسا پکا بندوبست کیا ہے کہ اپوزیشن، میڈیا، عوام سب کو نانی یاد آگئی ہے۔
کچھ شاید آپ بھول گئے۔ پچھلے بہتر برس کی غلطیوں کا ذمہ دار صرف بھٹو ہی تھا!!!

جناب عالی! بھٹو نے آئین توڑنے کی سزا موت رکھی تھی، شاید آپ بھول رہے ہیں، تبھی امیرالمئومنین نے آئین کو معطل کیا تھا۔ اسی طرح مشرف صاحب نے کٹھ پتلی غیر جماعتی اسمبلی بنائی اور کٹھ پتلی عدالتوں سے نظریہ ضرورت ایجاد کروایا۔ اب کیا جمہوری قوتوں کی جان لیں گے۔ انہوں نے فوج کا راستہ روکنے کی ہر دور میں ہر ممکن کوشش کی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فوج ہی واحد منظم ادارہ ہے ملک میں۔
 

زیک

مسافر
کچھ شاید آپ بھول گئے۔ پچھلے بہتر برس کی غلطیوں کا ذمہ دار صرف بھٹو ہی تھا!!!
اس ٹرول سے کیا بحث کرنی۔ اس نے تو 1971 کے بعد بھٹو کو دو تہائی اکثریت اور 1988 میں بےنظیر کو اکثریت دلا دی۔ معلوم نہیں کہاں سے یہ تاریخ کاپی پیسٹ کی ہے
 

جاسم محمد

محفلین
انہوں نے فوج کا راستہ روکنے کی ہر دور میں ہر ممکن کوشش کی ہے۔
کیا خاک کوشش کی ہے۔ 2006 میں میثاق جمہوریت کر کے 2012 میں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالت چلے گئے تھے۔
نواز شریف میمو گیٹ اسکینڈل میں کالا کوٹ پہن کر کیوں گئے: پیپلزپارٹی
’جب میمو گیٹ زرداری پر بنا تو ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا‘
 

جاسم محمد

محفلین
آخری تدوین:
جمہوری قوتوں نے فوج کا راستہ روکنے کی ہر دور میں ہر ممکن کوشش کی ہے یا فوج کو کو اقتدار کا ہر دور میں ہر ممکن راستہ فراہم کیا ہے؟
EWnygOeXsAALGam.jpg

D_DJ-wZWwAII59w.png

کیا یہ لوگ عوامی طاقت حاصل کرنے کے بعد فوج سے جاملے یا فوجی حکمرانوں کے تحت بننے والی حکومتوں میں انہیں اپنی سیاسی طاقت کا اندازہ ہوا؟

جب یہ فوجی حکومت سے علیحدہ ہوکر عوام میں گئے اور پاپولر ووٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کیا تو فوج کو لفٹ نہیں کرائی۔ اب یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جمہوری طاقت بننے کے بعد انہوں نے فوج کو اقتدار کا راستہ فراہم کیا۔ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ جمہوری قوت بننے کے بعد انہوں نے فوج کو راستہ دینے سے انکار کیا جس پر انہیں عبرت کا نشان بنادیا گیا۔
  • کیا بھٹو نے آئین میں فوج کا راستہ نہیں روکا تھا؟
  • کیا ضیا الحق کے اقتدار سنبھالنے سے ایک رات پہلے اپوزیشن اور حکومت میں بات چیت فائینل نہیں ہوگئی تھی؟
  • کیا اس وقت کے اپوزیشن لیڈروں نے اپنی کتابوں میں اس بارے میں نہیں لکھا ہے؟
  • کیا نواز شریف اور فوج کی آپس میں بگڑتے ہوئے تعلقات میں وزیرِ اعظم کے پاس کوئی آئینی اختیار نہیں تھا؟
  • کیا اس کے پاس فوجی سربراہ کو بدلنے کا آئینی اختیار نہیں تھا؟

بجا ہے کہ ان لیڈروں نے فوجی حکومت کے تحت سیاسی شعور حاصل کیا لیکن جمہوری طریقے عوامی ووٹ کے ذریعے سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان تصویروں کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
 
آخری تدوین:
Top