فردوس عاشق اعوان کی جگہ عاصم سلیم باجوہ معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر

جاسم محمد

محفلین
بجا ہے کہ ان لیڈروں نے فوجی حکومت کے تحت سیاسی شعور حاصل کیا لیکن جمہوری طریقے سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان تصویروں کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
ان کرپٹ سیاسی لیڈران نے فوجی حکومت کے تحت سیاسی شعور حاصل نہیں کیا۔ بلکہ ناجائز طور پر اقتدار پہ قابض فوجی حکومتوں کا کندھا استعمال کرتے ہوئے خود کو سیاسی طور پر مضبوط کیا ہے۔ تاکہ مستقبل میں جب کبھی فوجی حکومت کا تختہ کمزور ہو تو یہ اسے گرا کر خود اقتدار میں آسکیں۔
49517353282_b4d92ac46b.jpg

4603590776_849771ec44_b.jpg
 
ان کرپٹ سیاسی لیڈران نے فوجی حکومت کے تحت سیاسی شعور حاصل نہیں کیا۔ بلکہ ناجائز طور پر اقتدار پہ قابض فوجی حکومتوں کا کندھا استعمال کرتے ہوئے خود کو سیاسی طور پر مضبوط کیا ہے۔ تاکہ مستقبل میں جب کبھی فوجی حکومت کا تختہ کمزور ہو تو یہ اسے گرا کر خود اقتدار میں آسکیں۔
چلئے بحث برائے بحث مان لیتے ہیں لیکن کیا انہوں نے فوج کا تختہ الٹ کر اقتدار حاصل کیا یا عوام کے ووٹ سے اقتدار حاصل کیا۔ جب پاکستان کے عوام نے اپنے ووٹوں سے انہیں منتخب کیا ( کسی نے سیلیکٹ کرکے، لوٹوں کو جمع کرکے وزیرِ اعظم نہیں بنایا) تب اس بات کا کیا جواز رہ جاتا ہے کہ انہوں نے فوجی حکومت کے کمزور ہونے کا انتظار کیا؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
چلئے بحث برائے بحث مان لیتے ہیں لیکن کیا انہوں نے فوج کا تختہ الٹ کر اقتدار حاصل کیا یا عوام کے ووٹ سے اقتدار حاصل کیا۔ جب پاکستان کے عوام نے اپنے ووٹوں سے انہیں منتخب کیا ( کسی نے سیلیکٹ کرکے وزیرِ اعظم نہیں بنایا) تب اس بات کا کیا جواز رہ جاتا ہے کہ انہوں نے فوجی حکومت کے کمزور ہونے کا انتظار کیا؟
ایوب کی کابینہ میں اینٹری سے قبل بھٹو کو کون جانتا تھا؟ ضیا کی کابینہ میں شمولیت سے قبل نواز شریف کوکون جانتا تھا؟ یہ کونسا جمہوری طریقہ ہے کہ جب فوج ناجائز طور پر اقتدار پہ قابض ہو تو اس کی کابینہ میں جا کر بیٹھ جاؤ۔ پبلک میں جا کر اس ناجائز حکومت کا ہر ممکن دفاع پیش کرو۔ اس ناجائز حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کرو۔ اور جب ایک دن وہ فوجی حکومت عوام میں غیرمقبول ہو جائے تو اسی کے خلاف الم بغاوت اُٹھا کر خود کو جمہوریت پسند کہلوانا شروع کر دو؟
یہ تو کھلا تضاد اور بدنیتی پر مبنی سیاسی کھیل ہے جو opportunist یا موقع پرست سیاستدان ہمیشہ سے کھیلتے چلے آئے ہیں۔
ہم انصافین جانتے ہیں کہ حالیہ وزیر اعظم عمران خان کے پاس بھی ماضی کے وزرا اعظم کی طرح وہ اختیارات نہیں جو آئین پاکستان نے ان کو دئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے منصب کو ان اختیارات کے حصول کا اکھاڑا نہیں بنا رہے۔ بلکہ جو محدود اختیارات ہیں ان ہی کا استعمال کرتے ہوئے ملک کو بہتری کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور اس مقصد کیلئے تمام مقتدر قوتوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ ان کے ساتھ دشمنیاں پال کر نہیں۔
آپ کا کیا خیال ضیاءالحق نے 1987 میں عمران خان کو اپنی کابینہ میں وزیر بنانے کی پیشکش نہیں کی تھی؟ یا 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے کی تقریب میں سب کے سامنے نواز شریف نے عمران خان کو اپنی حکومت میں شمولیت کی دعوت نہیں دی تھی؟ یا 1997 الیکشن سے قبل ن لیگ نے اپنی 20 سے زائد سیٹیں تحریک انصاف کو دینے کی آفر نہیں کی تھی؟ یا 2002 میں مشرف نے عمران خان کو ق لیگ کی بہت ساری سیٹیں تحریک انصاف کے حق میں بٹھا دینے کا عندیہ نہیں دیا تھا؟ اگر عمران خان یہ تمام تاریخی مواقع رد کرکے 22 سال اپنی سلیکشن کا انتظار کر سکتا ہے تو یہی کام بھٹو اور نواز شریف بھی کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے موقع پرست سیاست دان ہونے کی وجہ سے شارٹ کٹ راستہ اپنایا۔ اور ابھی تک یہی کچھ ہی کر رہے ہیں۔
 
تمام آفرز رد کرکے 22 سال اپنی سلیکشن کا انتظار کر سکتا تھا تو
22 سال جمہوری انداز میں جدوجہد کی اور آخر میں فوج کا آلہ کار بننا قبول کیا۔ پہلے الیکشن میں دھاندلی کروائی گئی۔ اس طریقے سے بھی موصوف کے نمبر نہ بنے تو لوٹوں کو جمع کیا گیا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ ایک بل اسمبلی سے پاس نہیں کواسکتے۔ صدارتی آرڈیننس پر ملک چلایا جارہا ہے۔ آپ کے دئیے گئے ڈیٹا کے مطابق سارا نظم و نسق فوجی سنبھالتے ہیں آپ بیٹھے اپنے اسپانسرز کے ذریعے کرپشن کرتے ہیں، اور بالواسطہ پیسہ کھاتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
22 سال جمہوری انداز میں جدوجہد کی اور آخر میں فوج کا آلہ کار بننا قبول کیا۔
اگر ان 22 سالوں اور خاص کر پچھلے 10 سالوں میں جمہوری قوتیں ملک کو ٹریک پر لے آتی تو مقتدر قوتوں کو عمران خان سلیکٹ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ یہ کیسےممکن ہے کہ جمہوری قوتوں کے ہاتھ میں ملک دئے جانے کے بعد یہ 100 ارب ڈالر کا مقروض۔ یہاں تک کہ پچھلے قرضوں کی قسطیں واپس کرنے کیلئے بھی مزید قرضوں کا محتاج ہو۔ لیکن جمہوری قوتوں کے اپنے اثاثے اسی دوران 5 بر اعظموں میں دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہے ہوں۔
پس ملک کی اس غلط سمت کو درست کرنے اور ملک کو اس حال تک پہنچانے والوں کا احتساب کرنے کیلئے عمران خان کو سلیکٹ کیا گیا ہے۔ جس دن یہ کام ہو گیا، عمران خان کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ اور آپ پھر سے جمہوری قوتوں کو ووٹ ڈال کر اقتدار میں لا سکیں گے۔
 
پبلک میں جا کر اس ناجائز حکومت کا ہر ممکن دفاع پیش کرو۔ اس ناجائز حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کرو۔ اور جب ایک دن وہ فوجی حکومت عوام میں غیرمقبول ہو جائے تو اسی کے خلاف الم بغاوت اُٹھا کر خود کو جمہوریت پسند کہلوانا شروع کر دو؟
یہ تو کھلا تضاد اور بدنیتی پر مبنی سیاسی کھیل ہے جو opportunist یا موقع پرست سیاستدان ہمیشہ سے کھیلتے چلے آئے ہیں۔
ہم انصافین جانتے ہیں کہ حالیہ وزیر اعظم عمران خان کے پاس بھی ماضی کے وزرا اعظم کی طرح وہ اختیارات نہیں جو آئین پاکستان نے ان کو دئے ہیں۔
عوام چاہیں تو کالے چور کو منتخب کرلیں، یہ ان کا حق ہے۔ عوامی نمائیندے کو اقتدار ملنا چاہیے۔

موصوف نے جہاں 22 سال جدوجہد کی کچھ سال اور کرلیتے اور عوام کی طاقت سے برسرِ اقتدار آتے تو ہماری نظروں میں بہت وقعت ہوتی۔ اب جس غیر اخلاقی طریقے سے حکومت حاصل کی ہے عوام کی نظروں میں انہیں کبھی عزت نہیں ملے گی، کہلائیں گے سیلیکٹڈ ہی۔
 

جاسم محمد

محفلین
عوام چاہیں تو کالے چور کو منتخب کرلیں، یہ ان کا حق ہے۔ عوامی نمائیندے کو اقتدار ملنا چاہیے۔
عوام کی طاقت سے برسرِ اقتدار آتے تو ہماری نظروں میں بہت وقعت ہوتی۔ اب جس غیر اخلاقی طریقے سے حکومت حاصل کی ہے عوام کی نظروں میں انہیں کبھی عزت نہیں ملے گی، کہلائیں گے سیلیکٹڈ ہی
عوام کی طاقت سے اگر کوئی چور ڈاکو لٹیرا بھی منتخب ہو جائے تو اسے عزت نہیں مل سکتی۔ ٹرمپ اور مودی کا عبرت ناک حال سب کے سامنے ہے۔
باقی عمران خان کا نظریہ ہے کہ ذلت عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ عمران خان کو بدنام کرنے سے وہ واقعی بدنام ہو جائیں گے یا رہتی دنیا تک ان کو مثبت الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔
 
آخری تدوین:

آورکزئی

محفلین
ان کرپٹ سیاسی لیڈران نے فوجی حکومت کے تحت سیاسی شعور حاصل نہیں کیا۔ بلکہ ناجائز طور پر اقتدار پہ قابض فوجی حکومتوں کا کندھا استعمال کرتے ہوئے خود کو سیاسی طور پر مضبوط کیا ہے۔ تاکہ مستقبل میں جب کبھی فوجی حکومت کا تختہ کمزور ہو تو یہ اسے گرا کر خود اقتدار میں آسکیں۔
49517353282_b4d92ac46b.jpg

4603590776_849771ec44_b.jpg


فرق بتائیں جاسم بھائی۔۔۔۔۔۔ نیازی میں اور ان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
فرق بتائیں جاسم بھائی۔۔۔۔۔۔ نیازی میں اور ان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے مولانا فضل الرحمان جیسے سیاست دان ڈیزل کے پرمٹ، بنگلہ نمبر ۲۰، ۴۱ لاکھ کی سرکاری لسی پینے کیلئے اہل اقتدار کے نیچے لگتے ہیں۔ جبکہ نیازی ملک کی سمت درست کرنے کے لئے۔
 
وزیر اعظم عمران خان کی وزیر اطلاعات شبلی فراز اور معاون خصوصی برائے اطلاعات عاصم سلیم باجوہ سے ملاقات۔ کس نے کس کو سلیکٹ کیا ہے صاف نظر آ رہا ہے

چلیے وزیرِ اعظم ہاتھ میں کچھ طاقت نہ ہونے کے باوجود اکڑ کر بیٹھنے ہی میں خوش ہیں تو انہیں یونہی خوش ہولینے دیں۔
 

آورکزئی

محفلین
آپ کے مولانا فضل الرحمان جیسے سیاست دان ڈیزل کے پرمٹ، بنگلہ نمبر ۲۰، ۴۱ لاکھ کی سرکاری لسی پینے کیلئے اہل اقتدار کے نیچے لگتے ہیں۔ جبکہ نیازی ملک کی سمت درست کرنے کے لئے۔
ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ ہنسانے کا جاسم صاحب۔۔۔ اپ یوتھیز لطیفے بڑے اچھے اچھے سناتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہا
 

جاسم محمد

محفلین
چلیے وزیرِ اعظم ہاتھ میں کچھ طاقت نہ ہونے کے باوجود اکڑ کر بیٹھنے ہی میں خوش ہیں تو انہیں یونہی خوش ہولینے دیں۔
اور جن جمہوری حکمرانوں نے اکڑ کر اپنی طاقت کا استعمال کیا، اپنی ہی فوج کے خلاف میمو گیٹ، ڈان لیکس سکینڈل بریک کئے۔ اپنے ہی اداروں کو دھمکیاں دی کہ ان کی کیا اوقات ہے، ان کی کیا مجال ہے جو ہمیں پکڑے۔ وہ آج کس حال میں ہے؟ ایک جعلی بیمار بن کر سندھ کے کسی ہسپتال میں نظر بند ہے۔ دوسرا جعلی بیماری کے نام پر ملک سے مفرور لندن میں اپنے ہی گھر میں قید ہے۔ ایک دو بار جب ہوا خوری کیلئے باہر نکلے تو وہاں مقیم پاکستانیوں نے ان کی جعلی بیماری ایکسپوز کر دی اور پاکستان میں ان کی جمہوری جماعت کو کسی عزت کے قابل نہیں چھوڑا۔
عمران خان درویش آدمی ہے۔ اسے بطور وزیر اعظم جتنے اختیار مل گئے ہیں وہ اسی میں خوش ہے۔ نہ ہی اسے مستقبل میں کرپشن کیسز سے بچنے کیلئے مزید اقتدار کی حاجت ہے
 
Top