غمِ دوراں کی کسی رات سے کب گزرا ہے - سہیل ثاقب

کاشفی

محفلین
غزل
(سہیل ثاقب)

غمِ دوراں کی کسی رات سے کب گزرا ہے
یہ جنوں کرب کے لمحات سے کب گزرا ہے

تُو بھی میری ہی طرح خود سے گریزاں ہوتا
تُو مری جاں مرے خدشات سے کب گزرا ہے

شاعری، نغمہ گری، عشقِ بتاں، حسنِ خیال
دل مرا ایسے کمالات سے کب گزرا ہے

ہر گھڑی خوف لگا رہتا ہے کھو جانے کا
تُو ابھی شہرِ طلسمات سے کب گزرا ہے

آگ تو دُور تپش اس کی جلا سکتی ہے
شہر دل کے تُو مضافات سے کب گزرا ہے

اوجِ برزخ پہ سفر ختم کہاں ہوتا ہے
تُو ابھی ارض و سماوات سے کب گزرا ہے

درد، تنہائی، گھٹن، خوف، جنوں اور ہراس
سکھ بھلا ایسے مقامات سے کب گزرا ہے

زندگانی کے شب و روز بدل جائیں گے
تُو ابھی کوچہِ سادات سے کب گزرا ہے

اُس کو اندازہ نہیں دکھ کا مرے کچھ ثاقب
وہ مری روح کے صدمات سے کب گزرا ہے
 

فاتح

لائبریرین
تُو بھی میری ہی طرح خود سے گریزاں ہوتا
تُو مری جاں مرے خدشات سے کب گزرا ہے
سبحان اللہ! کیا عمدہ انتخاب ہے۔ بہت شکریہ کاشفی صاحب۔

درد، تنہائی، گھٹن، خوف، جنوں اور ہراس
'سِکھ' بھلا ایسے مقامات سے کب گزرا ہے
;););)
 
Top