غزل

سر اصلاح کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں
نہ طبیب کی ہے خبر مجھے نہ کوئی دوا کا ہے سلسلہ۔
وہی زخم رستے ہیں جابجا وہی لادوا کا ہے سلسلہ۔
نہ وہ شور ہے نہ وہ راستے نہ کوئی سفر ہے نہ آرزو۔
جو ملا تھا داغ مفارقت وہ مری قضا کا ہے سلسلہ۔
نہیں چین اب مجھے ایک پل نہ قرار دل کو ملا کہیں ۔
وہی تلخیاں وہی نفرتیں یہ مری سزا کا ہے سلسلہ۔
مری دھڑکنوں کی صدا تجھے مری خامشی نہ سنا سکی۔
یہ سخنوری نے جو کہہ دیا یہ اسی نوا کا ہے سلسلہ۔
سرِ بزم تھیں تری شوخیاں وہ دبی دبی مری سسکیاں۔
کسے کیا خبر تھی کہ عشق کی یہ بڑی عطا کا ہےسلسلہ
 

الف عین

لائبریرین
نہ طبیب کی ہے خبر مجھے نہ کوئی دوا کا ہے سلسلہ۔
وہی زخم رستے ہیں جابجا وہی لادوا کا ہے سلسلہ۔
... دونوں مصرعوں میں ایک ہی قافیہ؟ دوسرے میں کوئی دوسرا قافیہ استعمال کریں

نہ وہ شور ہے نہ وہ راستے نہ کوئی سفر ہے نہ آرزو۔
جو ملا تھا داغ مفارقت وہ مری قضا کا ہے سلسلہ۔
... قضا کا داغ مفارقت سے تعلق، اور ان سب کا شور، راستے وغیرہ سے تعلق بھی سمجھنے سے قاصر ہوں

نہیں چین اب مجھے ایک پل نہ قرار دل کو ملا کہیں ۔
وہی تلخیاں وہی نفرتیں یہ مری سزا کا ہے سلسلہ۔
... ٹھیک ہے شعر

مری دھڑکنوں کی صدا تجھے مری خامشی نہ سنا سکی۔
یہ سخنوری نے جو کہہ دیا یہ اسی نوا کا ہے سلسلہ۔
... میری سمجھ سے باہر ہے

سرِ بزم تھیں تری شوخیاں وہ دبی دبی مری سسکیاں۔
کسے کیا خبر تھی کہ عشق کی یہ بڑی عطا کا ہےسلسلہ
.. درست
 
نہ طبیب کی ہے خبر مجھے نہ کوئی دوا کا ہے سلسلہ۔
وہی زخم رستے ہیں جابجا اُسی کج ادا کا ہے سلسلہ۔
نہ وہ شور ہے نہ وہ راستے نہ وہ ہم سفر نہ وہ مشغلے۔
جو ملا ہےداغ مفارقت یہ مری انا کا ہے سلسلہ۔
نہیں چین اب مجھے ایک پل نہ قرار دل کو ملا کہیں ۔
وہی تلخیاں وہی نفرتیں یہ مری سزا کا ہے سلسلہ۔
مری دھڑکنوں کی صدائیں بھی تجھے پاس جو نہ بُلا سکیں۔
یہ ترے کرم کے ہیں فیصلے کہ مری خطا کا ہے سلسلہ۔
سرِ بزم تھیں تری شوخیاں وہ دبی دبی مری سسکیاں۔
کسے کیا خبر تھی کہ عشق کی یہ بڑی عطا کا ہےسلسلہ۔
سر ایک دفعہ پھر اپنی عطا سے نوازئیے گا
 
نہ طبیب کی ہے خبر مجھے نہ کوئی دوا کا ہے سلسلہ۔
وہی زخم رستے ہیں جابجا وہی لادوا کا ہے سلسلہ۔
... دونوں مصرعوں میں ایک ہی قافیہ؟ دوسرے میں کوئی دوسرا قافیہ استعمال کریں

نہ وہ شور ہے نہ وہ راستے نہ کوئی سفر ہے نہ آرزو۔
جو ملا تھا داغ مفارقت وہ مری قضا کا ہے سلسلہ۔
... قضا کا داغ مفارقت سے تعلق، اور ان سب کا شور، راستے وغیرہ سے تعلق بھی سمجھنے سے قاصر ہوں

نہیں چین اب مجھے ایک پل نہ قرار دل کو ملا کہیں ۔
وہی تلخیاں وہی نفرتیں یہ مری سزا کا ہے سلسلہ۔
... ٹھیک ہے شعر

مری دھڑکنوں کی صدا تجھے مری خامشی نہ سنا سکی۔
یہ سخنوری نے جو کہہ دیا یہ اسی نوا کا ہے سلسلہ۔
... میری سمجھ سے باہر ہے

سرِ بزم تھیں تری شوخیاں وہ دبی دبی مری سسکیاں۔
کسے کیا خبر تھی کہ عشق کی یہ بڑی عطا کا ہےسلسلہ
.. درست
سر ایک دفعہ پھر اپنی عطا سے نوازئیے گا@سر الف عین
نہ طبیب کی ہے خبر مجھے نہ کوئی دوا کا ہے سلسلہ۔
وہی زخم رستے ہیں جابجا اُسی کج ادا کا ہے سلسلہ۔
نہ وہ شور ہے نہ وہ راستے نہ وہ ہم سفر نہ وہ مشغلے۔
جو ملا ہےداغ مفارقت یہ مری انا کا ہے سلسلہ۔
نہیں چین اب مجھے ایک پل نہ قرار دل کو ملا کہیں ۔
وہی تلخیاں وہی نفرتیں یہ مری سزا کا ہے سلسلہ۔
مری دھڑکنوں کی صدائیں بھی تجھے پاس جو نہ بُلا سکیں۔
یہ ترے کرم کے ہیں فیصلے کہ مری خطا کا ہے سلسلہ۔
سرِ بزم تھیں تری شوخیاں وہ دبی دبی مری سسکیاں۔
کسے کیا خبر تھی کہ عشق کی یہ بڑی عطا کا ہےسلسلہ۔
 
Top