افتخار عارف غزل ۔ یہ مشقِ تیر سنان و سنگ بہانہ کر ۔ افتخار عارف

محمداحمد

لائبریرین
غزل

یہ مشقِ تیر سنان و سنگ بہانہ کر
گہرِ کلاہِ امیرِ شہر نشانہ کر

یہی طنطنہ یہی دبدبہ یہی طمطراق
اس طمطراق کو ٹھوکروں میں روانہ کر

تجھے موت آئے جوازِ راہِ مفر نہ ڈھونڈ
ترے سر پہ خاک ، دل اس قدر بھی برا نہ کر

وہ بات جس سے نزار ہے تری جانِ زار
وہی بات کہہ کے ادائے قرضِ زمانہ کر

وہی خوف جس سے لرز رہا ہے ترا وجود
اُسی خوف کو ہدفِ دعائے شبانہ کر

ترا رزق ہی سببِ مرض ہے تو اب کے بار
ذرا جم کے ردّ ِ وبال درہم و دانہ کر

افتخار عارف

 

کاشفی

محفلین
وہ بات جس سے نزار ہے تری جانِ زار
وہی بات کہہ کے ادائے قرضِ زمانہ کر

بہت ہی عمدہ !
 
Top