غزل ۔ کچھ نہ پانے کی ملامت، کچھ نہ کھونے کا تماشا ۔ عزم بہزاد

محمداحمد

لائبریرین
غزل

کچھ نہ پانے کی ملامت، کچھ نہ کھونے کا تماشا
جانے کتنے دن رہے گا میرے ہونے کا تماشا

اِس ادھوری گفتگو سے خود کو میں بہلاؤں کب تک
مجھ کو یہ محفل نظر آتی ہے رونے کا تماشا

یہ کوئی بارش نہیں ہے جس میں سب کچھ بھیگ جائے
یہ ہے خواہش کی زمیں پر رونے دھونے کا تماشا

فصلِ غم اِس بار شادابی میں پہلے سے سِوا ہے
دیکھتا ہوں چاروں جانب رنج بونے کا تماشا

یہ جو ہم مل بیٹھتے ہیں، در حقیقت دیکھتے ہیں
اپنی اپنی آرزو کا بوجھ ڈھونے کا تماشا

سُننے والوں اس بیاں کو صرف غصّہ مت سمجھنا
یہ ہے لفظوں میں ارادوں کو پرونے کا تماشا

ریگ زارِ جُستجو ! تو کتنے آنسو پی سکے گا
میں دکھا دوں گا تجھے خود کو بھگونے کا تماشا

ایک مدّت میں کُھلا ہے مجھ پہ بیداری کا منظر
سب نے دیکھا تھا ابھی تک میرے سونے کا تماشا

اِس غزل پر ختم ہو جائے گی کانٹوں کی روایت
عزم ؔ یہ ہے پھو ل کو دل چبھونے کا تماشا

عزم بہزاد
 
فصلِ غم اِس بار شادابی میں پہلے سے سِوا ہے
دیکھتا ہوں چاروں جانب رنج بونے کا تماشا
واہ واہ واہ !!!!
ایک مدّت میں کُھلا ہے مجھ پہ بیداری کا منظر
سب نے دیکھا تھا ابھی تک میرے سونے کا تماشا
کیا ہی خوب غزل ہے ۔
شکریہ احمد میاں ۔۔جیتے رہیں بھئی :)
 

محمداحمد

لائبریرین
فصلِ غم اِس بار شادابی میں پہلے سے سِوا ہے
دیکھتا ہوں چاروں جانب رنج بونے کا تماشا
واہ واہ واہ !!!!
ایک مدّت میں کُھلا ہے مجھ پہ بیداری کا منظر
سب نے دیکھا تھا ابھی تک میرے سونے کا تماشا
کیا ہی خوب غزل ہے ۔
شکریہ احمد میاں ۔۔جیتے رہیں بھئی :)

شکریہ کہ انتخاب آپ کو پسند آیا۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
واہ

یہ کوئی بارش نہیں ہے جس میں سب کچھ بھیگ جائے
یہ ہے خواہش کی زمیں پر رونے دھونے کا تماشا

یہ جو ہم مل بیٹھتے ہیں، در حقیقت دیکھتے ہیں
اپنی اپنی آرزو کا بوجھ ڈھونے کا تماشا
 
Top