غزل ۔ سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی ۔ عرفان ستّار

محمداحمد

لائبریرین
غزل

سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی
کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی

جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم
جو کج کلاہ تھے اُن سے تو بات بھی نہیں کی

کیھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتاً
منافقت کی حمایت، نہیں، کبھی نہیں کی

دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود
سو ہم نے ذات کی تفہیم ِ آخری نہیں کی

اُسے بتایا نہیں ہے کہ میں بدن میں نہیں
جو بات سب سے ضروری ہے وہ ابھی نہیں کی

بنام ِ خوش نفسی ہم تو آہ بھرتے رہے
کہ صرف رنج کیا ہم نے، زندگی نہیں کی

ہمیشہ دل کو میّسر رہی ہے دولت ِ ہجر
جنوں کے رزق میں اُس نے کبھی کمی نہیں کی

بصد خلوص اٹھاتا رہا سبھی کے یہ ناز
ہمارے دل نے ہماری ہی دلبری نہیں کی

جسے وطیرہ بنائے رہی وہ چشم ِ غزال
وہ بے رخی کی سہولت ہمیں بھی تھی، نہیں کی

ہے ایک عمر سے معمول روز کا عرفان
دعائے ردّ ِ انا ہم نے آج ہی نہیں کی

عرفان ستّار
 
Top