نظر لکھنوی غزل: گر دل میں چھپاؤں تو ہے کچھ شعلہ فشاں اور ٭ نظرؔ لکھنوی

گر دل میں چھپاؤں تو ہے کچھ شعلہ فشاں اور
ظاہر جو کروں غم کو تو دنیا کو گماں اور

کچھ لوگ لیے پھرتے ہیں اک عشقِ نہاں اور
سوز اور، تپش اور، خلش اور، فغاں اور

تیرِ غمِ دنیا کا ہدف بن ہی گیا دل
سینے میں چھپا رکھا تھا لے جاتے کہاں اور

بربادیِ دل کا مرے منکر تو نہیں وہ
پر میرا بیاں اور ہے کچھ اس کا بیاں اور

یہ عمرِ دو روزہ تو کوئی چیز نہیں ہے
ہم تجھ پہ فدا کر دیں جو ہوں زندگیاں اور

اک تیری محبت کہ سما جائے جو دل میں
دنیا کی محبت کی جگہ دل میں کہاں اور

سب پند کی محفل سے ابھی اٹھتے ہیں دیکھو
واعظ کو ذرا ہونے دو کچھ خشک بیاں اور

وہ چہرۂ زیبا نظرؔ آیا نہیں اب تک
کیا آئنۂ دل میں ہیں تصویرِ بتاں اور

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top