غزل - نین کُھلتے نہ تھے، نیند آتی نہ تھی، رات آہستہ آہستہ ڈھلتی رہی - احمد مشتاق

محمداحمد

لائبریرین
غزل

نین کُھلتے نہ تھے، نیند آتی نہ تھی، رات آہستہ آہستہ ڈھلتی رہی
سارے اوراقِ غم منتشر ہوگئے، دیر تک دل میں آندھی سی چلتی رہی

گھاس تھی جگنوؤں کو چُھپائے ہوئے، پیڑ تھے تیرگی میں نہائے ہوئے
ایک کونے میں سر کو جھکائے ہوئے درد کی شمع افسردہ جلتی رہی

پہلا دن تھا محبت کی برسات کا، وقت ٹھہرا تھا تجھ سے ملاقات کا
قطرہ قطرہ گزرتی رہیں ساعتیں، سائے لیٹے رہے، دھوپ چلتی رہی

رنج پچھلی مسّرت کے سہتے تھے ہم، ایک ہی قریہء جاں میں رہتے تھے ہم
دن ڈھلے یا کسی صبح کے موڑ پر، اپنے ملنے کی صورت نکلتی رہی

ایک راتوں سے بچھڑی ہوئی رات میں، ہم اکیلے تھے خوابِ ملاقات میں
دونوں ایک دوسرے کی طرف چل پڑے، خواب گھٹتا رہا، رات ڈھلتی رہی

احمد مشتاق

 
Top