حسرت موہانی غزل: نہ ہوئے آپ آشنائے خلوص

نہ ہوئے آپ آشنائے خلوص
نہ سنی میری التجائے خلوص

ہم ہیں بیمارِ کبر و عجب و ریا
کیوں نہ درکار ہو دوائے خلوص

طے کر اے دل بہ زورِ علم و عمل
راہِ بیم و رجا بپائے خلوص

زہد، حیرانِ کارِ عشق ہوا
ہم میں پا کر نہ کچھ سوائے خلوص

بڑھ چلی ان کی بے رخی گویا
تھی سزائے ہوس، جزائے خلوص

تم دعا کو بھی التجا سمجھے
تھی وہ حالانکہ اک صدائے خلوص

ق
زہد و تقویٰ، ریاضت و عزت
بن گئے جبکہ دست و پائے خلوص

نفس، شیطان و خلقت و دنیا
سب پہ غالب ہوئی دعائے خلوص

دل کا تقویٰ ہے خیر خواہیِ خلق
ہو بشرطیکہ بربنائے خلوص

ق
فکرِ رزق و مصائبِ تقدیر
عارضِ حال تھے بجائے خلوص

سو بہ صبر و توکل و تفویض
بن گئے شیوۂ رضائے خلوص

توبہ و علم و حمد و شکر ہیں باب
شہر ہے شہرِ پُر فضائے خلوص

ذکر و فکر و ریاض و صوم و صلوٰۃ
سارے جھگڑے ہیں اک برائے خلوص

اور حقیقت میں ان کے سب کے سوا
عشق ہے اصل مدعائے خلوص

ان کو اب ضد یہ ہے کہ حسرتؔ بھی
شوق ظاہر کرے بجائے خلوص

٭٭٭
حسرت موہانی
 
Top