غزل : میرے ڈر میں سانپ ہیں : از : نویدظفرکیانی ؔ

غزل
میرے ڈر میں سانپ ہیں
یا نگر میں سانپ ہیں
بستیاں ہیں سانپ گھر
ہر نظر میں سانپ ہیں
سب اُٹھا لیں بانسری
سب کے گھر میں سانپ ہیں
جنگلوں کا ڈر بجا
بام و در میں سانپ ہیں
کس کے سائے میں اماں
ہر شجر میں سانپ ہیں
منزلیں ہیں جس طرف
اُس ڈگر میں سانپ ہیں
دوستی بہروپ ہے
ہر بشر میں سانپ ہیں
ہم سپیروں کے لئے
شہر بھر میں سانپ ہیں
نویدظفرکیانی ؔ
 

محمداحمد

لائبریرین
سب اُٹھا لیں بانسری
سب کے گھر میں سانپ ہیں

کس کے سائے میں اماں
ہر شجر میں سانپ ہیں


بہت خوب۔
 

مغزل

محفلین
منزلیں ہیں جس طرف
اُس ڈگر میں سانپ ہیں
کیا کہنے نویدظفرکیانی ؔ صاحب واہ چہ خوب چہ خوب ۔۔
ایک ایک شعراپنی جگہ نگینہ ہے ۔۔
پر داخلی واردات نے اس شعر کو منتخب کیا ہے ۔۔
غزل پر دل کی عمیق و بسیط پہنائیوں سے ہدیۂ تبریک،
گر قبول افتد زہے عز و شرف
(نفسِ مضمون کے مطابق مراسلے کو اصل لڑی میں منتقل کیا گیا ہے)
 

محمداحمد

لائبریرین
نوید ظفر صاحب،

یہ تو میں نے اب غور کیا کہ یہ آپ کا اپنا کلام ہے۔ اور یہ بات مغل بھائی کا جواب پڑھ کر ہوا ورنہ میں اسے انتخاب ہی سمجھا تھا۔

اب تو ایک بار پھر داد ہونی چاہیے بلکہ بھرپور داد ہونی چاہیے۔ بہت اچھا کلام ہے اور دل کو لگنے والا ہے۔ خوش رہیے۔
 
Top