غزل: منصفی جب بے حسی بن جائے گی

ایم اے راجا

محفلین
منصفی جب بے حسی بن جائے گی
زندگی پھر موت ہی بن جائے گی

اک دیا مجھمیں کہیں جل جائیگا
تیرگی خود روشنی بن جائے گی

نرگسی آنکھوں میں ڈوبےگا خیال
سوچ، اک تصویر سی بن جائے گی

تازہ دم رکھتی ہے جو اک جستجو
حاصلِ واماندگی بن جائے گی

پھر کسی کا خون بہےگا،اور خبر
دفتری خانہ پری بن جائے گی

بے غرض جس دوستی پر ناز ہے
یہ بھی اِکدن مطلبی بن جائے گی

یاد کی رت گد گدائے گی عبید
وحشتِ دل سرخوشی بن جائےگی


عبید الرحمٰن عبید کی کتاب " جب زرد ہو موسم اندر کا" سے انتخاب۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ سخنور، اب تو آپ کو شکایت نہیں ہونی چاہیئے کہ میں دوسروں کی شاعری نہیں پڑھتا۔

جی راجا صاحب - آپ نے اچھی شکایت دور کی لیکن خرم سے اب بھی شکایت ہے - خرّم تو کسی غزل کو یہ بھی نہیں‌ کہتے کہ اچھی ہے - :)
 

محمداحمد

لائبریرین
پھر کسی کا خون بہےگا،اور خبر
دفتری خانہ پری بن جائے گی


واہ! راجا بھیا عبید صاحب کی بہت اچھی غزل کا انتخاب کیا ہے آپ نے۔

خوش رہیے!
 
Top