غزل: سوچتا ہوں وصال سے آگے

غزل

قیدِ حسن و جمال سے آگے
سوچتا ہوں وصال سے آگے

یہ تو پہلا سبق ہے پینے کا
مئے ہے آبِ زلال سے آگے

تیرے اندر اترنا چاہوں گا
گوشت سے آگے کھال سے آگے

دیکھتا ہوں میں اک گلابی خوشی
یعنی رنج و ملال سے آگے

آپ منٹوں میں وقت دیکھتے ہیں
اور میں ہوں ماہ و سال سے آگے

دیکھیے گا حزیمتیں ہوں گی
اور بھی اس ملال سے آگے

اور کتنے سیہ توہم ہیں؟
اس سنہرے خیال سے آگے

سوچیے گا کبھی جناب شیخ
کچھ حرام و حلال سے آگے

ایک ماضی گزر چکا ہے اور
ایک ماضی ہے حال سے آگے

لے گیا ہے مجھے یقینِ عدم
ہست کے احتمال سے آگے

مہدی نقوی حجاز
 

غ۔ن۔غ

محفلین
ایک ماضی گزر چکا ہے اور
ایک ماضی ہے حال سے آگے

لے گیا ہے مجھے یقینِ عدم
ہست کے احتمال سے آگے

بہت خوب مہدی نقوی حجاز بھائی :great:
آپ کے نام بہت ساری داد اور دعائیں
 
Top