غزل : سب ماہ جبیں حسنِ سراپا نہیں ہوتے از : محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن
سب ماہ جبیں حسنِ سراپا نہیں ہوتے
محفل میں بھی سب انجمن آرا نہیں ہوتے
ہم سلسلہء قیس میں بیعت ہیں جبھی تو
مر جاتے ہیں پر عشق میں رسوا نہیں ہوتے
کہتا ہے یہ پیاسوں سے سرابوں کا تسلسل
آنکھوں کے یہ دھوکے کبھی دریا نہیں ہوتے
انسان کی تکلیف پہ دل جن کا نہ تڑپے
وہ یوں تو سبھی کچھ ہوں مسیحا نہیں ہوتے
جو دور سے مجذوب نظر آتے ہیں ہم کو
نزدیک سے دیکھیں تو وہ کیا کیا نہیں ہوتے
ہر پیار کے افسانے کو شہرت نہیں ملتی
سچ یہ ہے کہ سب وامق و عذرا نہیں ہوتے
آنکھوں میں سمٹ آتی ہے آفاق کی وسعت
ہم خود ہی مگر محوِ تماشا نہیں ہوتے
سینے سے لگاتے ہیں جو یادوں کے خزینے
وہ لوگ اکیلے میں بھی تنہا نہیں ہوتے
 

سید زبیر

محفلین
بہت عمدہ کلام
سینے سے لگاتے ہیں جو یادوں کے خزینے
وہ لوگ اکیلے میں بھی تنہا نہیں ہوتے
بہت خوب
 

حمید

محفلین
کہتا ہے یہ پیاسوں سے سرابوں کا تسلسل
آنکھوں کے یہ دھوکے کبھی دریا نہیں ہوتے

بہت خوب-س اور ک کی تکرار نے رواں کر دیا ہے شعر کو
 

اسد قریشی

محفلین
انسان کی تکلیف پہ دل جن کا نہ تڑپے
وہ یوں تو سبھی کچھ ہوں مسیحا نہیں ہوتے
واہ! بہت خوب غزل ہے، بہت سی داد!
 

جنید اقبال

محفلین
جو دور سے مجذوب نظر آتے ہیں ہم کو
نزدیک سے دیکھیں تو وہ کیا کیا نہیں ہوتے

ہر پیار کے افسانے کو شہرت نہیں ملتی
سچ یہ ہے کہ سب وامق و عذرا نہیں ہوتے

بہت خوب بھائی
 
انسان کی تکلیف پہ دل جن کا نہ تڑپے
وہ یوں تو سبھی کچھ ہوں مسیحا نہیں ہوتے

بہت اچھی غزل ہے مزا آ گیا جی ، خدا کرے کہ ہمیں کلام شاعر بزبان شاعر سننے کا موقع ملے ۔
 
Top