غزل - دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے - پرتو روہیلہ

محمد وارث

لائبریرین
دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے
میرے دشمن مرے مکان میں تھے

ناخدا سے گِلہ نہ موسم سے
میرے طوفاں تو بادبان میں تھے

سب شکاری بھی مل کے کیا کرتے
شیر بیٹھے ہوئے مچان میں تھے

یہ قصیدے جو تیری شان میں ہیں
یہ قصیدے ہی اس کی شان میں تھے

یہ جو تیری وفا کے گاہک ہیں
یہ ابھی دوسری دکان میں تھے

تیشۂ وقت ہی بتائے گا
کتنے چہرے ابھی چٹان میں تھے

میں ہی اپنا رقیب تھا پرتو
میرے جذبے ہی درمیان میں تھے

(پرتو روہیلہ)
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ وارث صاحب! پہلی مرتبہ پرتو روہیلہ کا کلام پڑھنے کو ملا ہے اور میں تو ان کا نام عنوان میں پڑھ کر ششدر تھا کہ یہ شاعر بھی ہیں۔
ویسے مطلع اور مقطع دونوں انتہائی خوبصورت ہیں۔:)
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ وارث صاحب! پہلی مرتبہ پرتو روہیلہ کا کلام پڑھنے کو ملا ہے اور میں تو ان کا نام عنوان میں پڑھ کر ششدر تھا کہ یہ شاعر بھی ہیں۔
ویسے مطلع اور مقطع دونوں انتہائی خوبصورت ہیں۔:)

آپ کہتے ہیں تو مان لیتا ہوں وگرنہ مجھے یقین نہیں ہے کہ آپ کے علم میں نہ ہو۔

آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے قریب چھ ماہ پہلے پرتو روہیلہ کے ترجمہ شدہ فارسی خطوطِ غالب والی "کتاب" ہم پر "فراخ جبیں" نامہ بر کے ہاتھوں نازل کر کے ہمیں "صاحبِ کتاب" کرنے کی (ابھی تک) ناکام کوشش کی تھی ;)

تو کیا اس کتاب کے تعارف یا پشت پر پرتو روہیلہ کی شاعری کا تعارف یا حوالہ نہیں ہے۔ (دیکھ لیجیئے روسیاہی کہ "مالکِ کتاب" سے پوچھنا پڑ رہا ہے اگر وہ کتاب میرے پاس ہوتی تو خود ہی دیکھ لیتا) :)
 

فاتح

لائبریرین
قبلہ! آپ کی امانت میں خیانت کا صرف اس حد تک مرتکب ہوا تھا کہ اس کتاب پر محض سرسری سی نظر ہی دوڑائی تھی۔
 
Top