غزل حاضر برائے اصلاح و رائے

ایم اے راجا

محفلین
پروین شاکر مرحومہ کے خیال سے متاثر ایک غزل عرض ہے۔

کسی دن ترے غم بھلا ہی تو دیں گے
مگر داغ، انکی گواہی تو دیں گے

نکلتے ہیں شعلے جو باتوں سے تیری
کسی دن مجھے وہ جلا ہی تو دیں گے

سرِ شام بہتے ہیں آنکھوں سے آنسو
یہ اِک روز تجھ کو مٹا ہی تو دیں گے

کسی کی دعاؤں کے بادل گھنیرے
سرِ دشت لُو سے بچا ہی تو دیں گے

مکر ہی تو جائیں گے میرے گواہ سب
مگر چہرے اُن کے گواہی تو دیں گے

غریبِ وطن پر ترے شہر والے
نئی پھر سے تہمت لگا ہی تو دیں گے

سرِ بام میں نے دِیا جو دھرا ہے
یہ طوفاں کسی دن بجھا ہی تو دیں گے

پہاڑوں سے اونچے مرے دکھ ہیں راجا
خدا سے یہ مجھ کو ملا ہی تو دیں گے
 

گرو جی

محفلین
کسی دن انکے ، غم بھلا ہی دیں گے
مگر زخم اپنے، انکی گواہی دیں گے
نکلتے ہیں شعلے جو گفتگو سے تیری
کسی دن مجھے، وہ جلا ہی دیں گے
سرِ شام بہتے ہیں جو آنکھوں سے آنسو
یہ اِک روزھستی کو مٹا ہی دیں گے
مکر ہی تو جائیں گےسبھی گواہ میرے
مگر چہرے اُن کے گواہی دیں گے
 

الف عین

لائبریرین
راجا۔ خوشی ہوئی کہ تم میں واقعی پختگی آ رہی ہے۔ اس غزل میں وہ الفاظ کی بے ترتیبی نہیں ہے۔
اب ایک ایک شعر لے کر
کسی دن ترے غم بھلا ہی تو دیں گے
مگر داغ، انکی گواہی تو دیں گے
اچھا شعر ہے
نکلتے ہیں شعلے جو باتوں سے تیری
کسی دن مجھے وہ جلا ہی تو دیں گے
ٹھیک ہے
سرِ شام بہتے ہیں آنکھوں سے آنسو
یہ اِک روز تجھ کو مٹا ہی تو دیں گے
یہ بھی مکمل صحیح ہے
کسی کی دعاؤں کے بادل گھنیرے
سرِ دشت لُو سے بچا ہی تو دیں گے
بہت خوب۔اچھا خیال ہے۔ اپنی والدہ کو میرا بھی سلام کہنا

مکر ہی تو جائیں گے میرے گواہ سب
مگر چہرے اُن کے گواہی تو دیں گے
یہاں گڑبڑ ہو گیئ ہے۔ ’گواہ‘ مکمل ہی درست ہے، نگاہ اور گناہ کی طرح جو گنہ، اور نگہ کا روپ لے سکتے ہیں، ’گواہ‘ ’گوہ‘ نہیں ہو سکتا۔ اور یہاں محض گوہ بحر میں آ رہا ہے۔ ’گَوہ سب‘۔ فعولن۔
اگر یوں کہیں تو:
گواہ آج میرے مکر بھی گئے تو
کبھی ان کے چہرے گواہی تو دیں گے
یوں بھی ’چہرے ان کے‘ سے زیادہ صاف ہے ’ان کے چہرے‘۔ یہاں الفاظ کی ترتیب تمہاری پھر گڑبڑ ہو گئی ہے۔ اور ’گواہ آج‘ بھی فعولن ہی ہے، ذرا تقطیع کر کے دیکھو کہ کیا محذوف ہے؟

غریبِ وطن پر ترے شہر والے
نئی پھر سے تہمت لگا ہی تو دیں گے
پہلا مصرع واضح نہیں ہوا، کیا کہنا چاہ رہے ہو؟؟؟؟

سرِ بام میں نے دِیا جو دھرا ہے
یہ طوفاں کسی دن بجھا ہی تو دیں گے
یہاں ’دھرا‘ کی جگہ محض ’رکھا‘ کہنے میں کیا حرج ہے راجا؟

پہاڑوں سے اونچے مرے دکھ ہیں راجا
خدا سے یہ مجھ کو ملا ہی تو دیں گے
آخری مصرعے کو بھی سیدھا سادا بنا دو۔
مجھے یہ خدا سے ملا ہی تو دیں گے
وارث، فاتح، فرخ، اب ذرا ان سطور پر غور کر کے اپنا مشورہ بھی دو۔۔۔ ہاں بھائ مغل اور احمد بھی۔ اور زہرا، جیا راؤ، زرقا۔۔۔ زرقا تو بہت دن سے نہیں آ رہیں!
 

ایم اے راجا

محفلین
کسی دن انکے ، غم بھلا ہی دیں گے
مگر زخم اپنے، انکی گواہی دیں گے
نکلتے ہیں شعلے جو گفتگو سے تیری
کسی دن مجھے، وہ جلا ہی دیں گے
سرِ شام بہتے ہیں جو آنکھوں سے آنسو
یہ اِک روزھستی کو مٹا ہی دیں گے
مکر ہی تو جائیں گےسبھی گواہ میرے
مگر چہرے اُن کے گواہی دیں گے
محترم بہت شکریہ، مگر یہ آپ نے متقارب غزل کو کس بحر میں تبدیل کردیا ہے؟
 

ایم اے راجا

محفلین
استادِ محترم، میں نے غزل میں کچھ اپنی طرف سے اور باقی آپکے حکم موجب تبدیلیاں کی ہیں ملاحظہ فرمائیں، تبدیلیوں کو سرخ کر دیا ہے۔ شکریہ۔

کسی دن ترے غم بھلا ہی تو دیں گے
مگر داغ، انکی گواہی تو دیں گے

نکلتے ہیں شعلے جو باتوں سے تیری
وہ ہستی کو میری جلا ہی تو دیں گے

سرِ شام بہتے ہیں آنکھوں سے آنسو
یہ اِک روز تجھ کو بہا ہی تو دیں گے

کسی کی دعاؤں کے بادل گھنیرے
سرِ دشت لُو سے بچا ہی تو دیں گے

گواہ آج میرے مکر بھی گئے تو
کبھی ان کےچہرےگواہی
تو دیں گے

غریبِ وطن ہوں ، ترے شہر والے
نشانہ ستم کا بنا ہی تو دیں گے

سرِ بام میں نے دِیا جو رکھا ہے
یہ طوفاں کسی دن بجھا ہی تو دیں گے

پہاڑوں سے اونچے مرے دکھ ہیں راجا
مجھے یہ خدا سے ملا ہی تو دیں گے
 

الف عین

لائبریرین
اب بات بن گئی ہے راجا۔۔ اب اس کو تم اشاعت کے لئے دو یا کسی نشست میں پڑھو۔۔ کسی جھجھک کے بغیر کر سکتے ہو۔۔ مبارک ہو۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب راجا صاحب مجھے خوشی اس بات کی ہے کے سب سے پہلے اس غزل کے کچھ شعر میں نے ہی سنے تھے بہت پیاری غزل ہے اور اعجاز صاحب کی رائے پڑھ کر تو اور بھی خوشی ہوئی ہے سب کی رائے آپ کے لیے بہت اچھی ہے اللہ تعالیٰ اپ کو کامیابی فرمائیں آمین لکھتے رہے اور ہمیں پڑھاتے رہے بہت شکریہ جاری رکھے جناب
 

ایم اے راجا

محفلین
اب بات بن گئی ہے راجا۔۔ اب اس کو تم اشاعت کے لئے دو یا کسی نشست میں پڑھو۔۔ کسی جھجھک کے بغیر کر سکتے ہو۔۔ مبارک ہو۔
بہت بہت بہت شکریہ۔
میں ایک بار پھر وہی پرانی بات دہراؤں گا کہ یہ آپ اور وارث بھائی کی محنتوں کا نتیجہ ہیکہ بندہ اس قابل ہوا ہے، اور پھر اس محفل کا کہ جس کی بدولت مجھے اتنے عزیز اساتذہ میسر آئے۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب راجا صاحب مجھے خوشی اس بات کی ہے کے سب سے پہلے اس غزل کے کچھ شعر میں نے ہی سنے تھے بہت پیاری غزل ہے اور اعجاز صاحب کی رائے پڑھ کر تو اور بھی خوشی ہوئی ہے سب کی رائے آپ کے لیے بہت اچھی ہے اللہ تعالیٰ اپ کو کامیابی فرمائیں آمین لکھتے رہے اور ہمیں پڑھاتے رہے بہت شکریہ جاری رکھے جناب
خرم بھائی شکریہ، اور ہاں آپکا تازہ کلام کس کونے میں چلا گیا ہے :)
 
کسی دن ترے غم بھلا ہی تو دیں گے
مگر داغ، انکی گواہی تو دیں گے

کسی کی دعاؤں کے بادل گھنیرے
سرِ دشت لُو سے بچا ہی تو دیں گے

گواہ آج میرے مکر بھی گئے تو
کبھی ان کےچہرےگواہی تو دیں گے


واہ واہ بہت خوبصورت بہت پیاری۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غریبِ وطن ہوں ، ترے شہر والے
نشانہ ستم کا بنا ہی تو دیں گے


محترم راجا صاحب آپکا یہ شعر آج بھی آفس کی دیوار پر چسپاں ہے اور آپکی یاد دلاتا ہے، براہِ کرم رابطہ تو کریں، آپ نے تو شاید نمبر بھی تبدیل کردیا ہے، سو اس محفل کی راہ سے آپکو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شکریہ۔
 
Top