نظر لکھنوی غزل: تھی جہد کی منزل سر کرنی مقسوم ہمارا کیا کرتے ٭ نظرؔ لکھنوی

تھی جہد کی منزل سر کرنی مقسوم ہمارا کیا کرتے
طوفان سے کھیلے اے ہمدم طوفاں سے کنارا کیا کرتے

پُر کر دے ہمارا جامِ تہی ساقی کو اشارا کیا کرتے
ہم اپنی ذرا سے خواہش پر یہ بات گوارا کیا کرتے

ہر سو تھے مقابل فتنۂ غم دل ایک ہمارا کیا کرتے
کرنا ہی پڑا ان سب سے ہمیں ہنس ہنس کے گزارا کیا کرتے

بے پردگی حسنِ کامل پردہ ہی رہی موسیٰ کے لیے
جب آنکھ تھی بند اور ہوش نہ تھا ایسے میں نظارہ کیا کرتے

یہ اپنی شکستہ حالی میں کیا کام ہمارے آ سکتا
ٹوٹے ہوئے دل کا اپنے ہم پھر لے کے سہارا کیا کرتے

جانا تھا جو بزمِ جاناں میں اس دل کی معیت میں ہم کو
روٹھے کو منایا کیا کرتے بگڑے کو سنوارا کیا کرتے

للچائی ہوئی نظروں کا ہدف بننے کے سوا کیا ہونا تھا
ملتا بھی ہمیں تو ہم لے کر تاجِ سرِ دارا کیا کرتے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top