غزل--تجھے کیا بتائیں ہمدم اسے پوچھ مت دوبارہ--سجاد ظہیر

علی فاروقی

محفلین
تجھے کیا بتائیں ہمدم اسے پوچھ مت دوبارہ
کسی اور کا نہیں تھا وہ قصور تھا ہمارا

وہ قتیلِ رقص و رم تھی، وہ شہیدِ زیرو بم تھی
مری موجِ مضطرب کو نہ ملا مگر کنارا

ہے ہزار بار بہتر ترے زُہدِ بے نمک سے
وہ گناہِ روح پرور بنے دل کا جو سہارا

جنہیں زندگی سے نفرت، جنہیں حسن سے عداوت
وہ خزاں میں خاک ہائیں گے بہار کا اشارہ

یہ ندائے لال و گوہر ہے بطونِ بحر و بر سے
ہمیں تاجِ خسروی کی نہیں بندشیں گوارا

جو رہا تو مردِ محنت کا عروجِ فن و حکمت
نہ فسونِ قیصری ہے نہ شکوہِ قصرِ دارا

دلِ دردمند انساں کی امید کا نشاں ہے
وہ فضا کے نیلگوں میں جو ہے سرخ اک ستارہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
شریکِ محفل کرنے کا بہت شکریہ فاروقی صاحب۔ کیا یہ سجاد ظہیر وہی ہیں جو فیض احمد فیض کے دوست اور کمیونسٹ رہنما تھے؟
 

علی فاروقی

محفلین
شریکِ محفل کرنے کا بہت شکریہ فاروقی صاحب۔ کیا یہ سجاد ظہیر وہی ہیں جو فیض احمد فیض کے دوست اور کمیونسٹ رہنما تھے؟

جی ہاں یہ وہی سجاد ظہیر ہیں۔ میرے پاس ان کی شاعری کا مجموعہ “پگھلا نیلم“ کے نام سے موجود ہے۔ جس میں زیادہ تر تو ان کی وہ شاعری ہے جسے“شعری نثر“ یا نثری شعر“ کہا جاتا ہے۔ لیکن شعریت بہرحال موجود ہے۔ بقیہ دو نظمیں جو میں نے پوسٹ کی ہیں، وہ اسی شاعری کی مثالیں ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
جی ہاں یہ وہی سجاد ظہیر ہیں۔ میرے پاس ان کی شاعری کا مجموعہ “پگھلا نیلم“ کے نام سے موجود ہے۔ جس میں زیادہ تر تو ان کی وہ شاعری ہے جسے“شعری نثر“ یا نثری شعر“ کہا جاتا ہے۔ لیکن شعریت بہرحال موجود ہے۔ بقیہ دو نظمیں جو میں نے پوسٹ کی ہیں، وہ اسی شاعری کی مثالیں ہیں۔

شکریہ فاروقی صاحب۔ اس کتاب سے مزید پابندِ بحور شاعری عنایت کیجیے گا۔
 
Top